خاص رنگ میں رنگی جا رہی ہے ملک کی نئی تاریخ؟
بابائے قوم کے طور پر ساورکر کو پیش کرنے کی کوشش تو نہیں...! کیا برطانوی حکومت سے معافی گاندھی جی کے کہنے پر مانگی گئی تھی؟
حسن آزاد
سوشل میڈیا پر تاریخی حقائق کے متعلق گرما گرم بحث
ونایک دامودر ساورکر جنہیں ان کے مداح ویر ساورکر کہتے ہیں آجکل سرخیوں میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے نام لیوا ان کی مدح سرائی میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ اگر تقسیم ہند کے اصل ذمہ دار کے طور پر ساورکر کا نام لیا جاتا تو پھر بھی ٹھیک تھا کیوں کہ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے نہ صرف ملک تقسیم ہوا تھا بلکہ گاندھی جی کا قتل بھی ہوا تھا۔ہندو مہاسبھا اور ساورکر کو دو ملکی نظریہ ساز بتایا جاتا ہے۔ لیکن جب سے ملک کے وزیردفاع راجناتھ سنگھ نے ساورکر کے متعلق غلط بیانی شروع کی ہے تب سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کی تاریخ کو ایک خاص رنگ میں رنگنے کی کوششوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پہلے تو برطانوی حکومت کے سامنے ساورکر کے گھٹنے ٹیکنے کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا تھا مگر اب تسلیم کیا جا رہا ہے لیکن اس کا ذمہ دار گاندھی جی کو بتایا جا رہا ہے۔ راجناتھ سنگھ نے چرایو پنڈت اور دیا مہرکار کی لکھی گئی کتاب ’ویر ساورکر۔ دی مین ہوکڈ ہیو پریوینٹیڈ پارٹیشن‘( ‘Savarkar: The Man Who Could Have Prevented Partition‘) کی رسم اجرا کے موقع پر کہا ہے کہ ساورکر عظیم ہیرو تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ساورکر کے متعلق جھوٹ پھیلایا جاتا ہے، یہ بار بار کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جیل سے رہائی کے لیے برطانوی حکومت سے رحم کی درخواست کی تھی جبکہ گاندھی جی نے انہیں یہ مشورہ دیا تھا۔ راجناتھ سنگھ کی تقریر کے بعد سوشل میڈیا پر تاریخی حقائق پر بحثیں شروع ہوگئیں۔ معروف مورخ عرفان حبیب نے ٹویٹر پر سخت الفاظ میں اظہار خیال کیا، انہوں نے لکھا کہ ’’ہاں، اب ایک خاص رنگ میں تاریخ کو لکھنے کا چلن شروع ہو چکا ہے، جس کی قیادت وزیر دفاع کر رہے ہیں۔ کم از کم انہوں نے یہ تو قبول کر لیا ہے کہ ساورکر نے رحم کی درخواست کی تھی ایسے میں اب کسی دستاویزی ثبوت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ نئے ہندوستان کی نئی تاریخ‘‘۔ وہیں انڈیا ٹو ڈے کے صحافی ٹویٹر ہینڈل پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’حقائق کی جانچ:1911ء میں ساورکر نے اپنی پہلی بار رحم کی درخواست کی تھی، اس وقت گاندھی جی نے ساورکر کو کوئی مشورہ نہیں دیا تھا کیونکہ وہ افریقہ میں تھے۔ 1920میں گاندھی جی نے ساورکر کو خط لکھا اور ینگ انڈیا میں ساورکر کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ بس حقائق پر قائم رہنے کی ضرورت ہے‘‘۔ جبکہ دیویندر پرتاپ سنگھ (FearlessDPSingh@) راجناتھ کے بیان کو شیئر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ہر ایک کو سننا چاہیے کہ کس طرح جعلی اور من گھڑت حقائق کو ایک پارٹی اور خاندان نے وقت کے ساتھ ساورکر کے بارے میں پھیلایا جیسا کہ تاریخ میں ہندو حکمرانوں کے بارے میں اتنی عظیم بات نہیں ملتی!!‘‘۔ اسلم شیخ (@AslamShaikh_MLA) لکھتے ہیں کہ تاریخ تو تاریخ ہے اس کا کوئی دوسرا رخ نہیں ہوتا۔ در حقیقت بی جے پی کے ہیرو ساورکر نے ایک یا دو نہیں بلکہ چھ (1911, 1913, 1914, 1915, 1918 and 1920) رحم کی درخواستیں انگریزوں کے حضور میں پیش کیں۔
سوشل میڈیا پر بہت کم ہی ایسا ہوا کہ بھگوا ٹولے کی جانب سے اچھے تبصرے سامنے آئے ہوں، چنانچہ اس بار ساورکر کے متعلق کچھ سلجھے ہوئے تبصرے دیکھنے کو ملے، جس سے اندازہ ہوا کہ سوشل میڈیا پر بھی تاریخی حقائق پر بحث ہو سکتی ہے۔ مثلاً آر ایس ایس نواز مصنف اور مورخ وکرم سَمپتھ (vikramsampath@) لکھتے ہیں کہ ’’میں نے پہلے ہی بتایا ہے کہ 1920 میں گاندھی جی نے ساورکر کے بھائیوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پٹیشن داخل کریں یہاں تک کہ ینگ انڈیا میں ایک مضمون کے ذریعے ان کی رہائی کا مقدمہ 26 مئی 1920ء کو بنایا گیا‘‘۔ وکرم سَمپتھ کے ٹویٹ کو نام نہاد فیکٹ چیکر پورٹل نیوز پیپر ’اوپ انڈیا‘ نے بھی شیئر کیا۔
لیکن سوال پھر بھی باقی ہے کہ جب ساورکر کو سیلولر جیل یعنی کالا پانی میں 4 جولائی 1911ء کو بند کیا گیا تھا اس کے چھ مہینے کے اندر ہی ساورکر نے انگریزی حکومت کے سے رحم کی درخواست کی تھی۔ 14 نومبر 1913ء کو ساورکر نے ایک اور رحم کی عرضی داخل کی جبکہ گاندھی جی جنوبی افریقہ میں تھے۔ وہ9 جنوری 1915کو ہندوستان واپس آئے تھے۔ اس کے بعد ساورکر نے مزید چار رحم کی عرضیاں برطانوی حکومت کے سامنے پیش کیں اور کہا کہ وہ برطانوی حکومت کی ہر طرح سے خدمت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اتنی درخواستوں کے بعد ساورکر کی پچاس سال کی سزائے قید کو گھٹا کر پہلے تیرہ سال کیا گیا اور پھر انہیں رہا کر دیا گیا۔ ساورکر نے دس سال سے بھی کم سیلولر جیل میں گزارے۔ یہ الگ بات ہے کہ ساورکر کی چوتھی عرضی کے خارج ہونے کے بعد انڈین نیشنل کانگریس سمیت گاندھی جی اور بال گنگا دھر تلک نے ساورکر کی ’بلا شرط رہائی‘ کا مطالبہ کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس تعلق سے میمس بھی بننے لگے اور راج ناتھ سنگھ
کو کافی ٹرول کیاجانے لگا۔خاص طور پر نِندا ہسٹری (NindaHistory#) ہیش ٹیگ کا سہارا لے کر وزیر دفاع راجناتھ سنگھ پر طنز کیے جانے لگے۔ وہیں
Savarkar#
SavarkarBookLaunch#
جیسے ٹرینڈز کے ذریعے ملاجلا ردعمل سامنے آنے لگا۔ صارفین دو خانوں میں تقسیم ہو گئے۔ بھگوا ٹولہ اور بی جے پی کی آئی ٹی سیل کے ساتھ ساتھ جانبدار میڈیا نے راجناتھ سنگھ کے بیان کو درست قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ جبکہ سوشل میڈیا پر آر ایس ایس نواز صارفین ساورکر کے قصیدے پڑھنے لگے۔ فیس بک پر سریش چِپلُنکر (SureshChiplunkar) لکھتے ہیں ’’اگر آپ ساورکر کو ’معافی ویر‘ کہنا چاہتے ہیں تو بھگوان کرشنا اور چھترپتی شیواجی کو بھی ’بزدل‘ کہنا پڑے گا۔ چھترپتی شیواجی نے بھی کئی بار پیچھے ہٹ کر دشمن کو ٹھکانے لگایا، غاروں جنگلوں اور قلعوں میں چھپ گئے‘‘۔ وہیں گمراہ کن خبر دیتے ہوئے ابھیشیک مشرا لکھتے ہیں کہ ’’ویر ساورکر کو انگریزوں نے تقریباً پچاس سال تک جیل میں رکھا تھا۔ ان کا مشہور نعرہ ’تمام سیاست کو ہندو بنائیں اور ہندوتوا کو عسکری بنائیں‘ میرے خیال میں ان کا نعرہ آج کے دور میں موزوں ہے۔‘‘
یہ تو سراسر جھوٹ ہے کہ ساورکر 50سال تک جیل میں رہے ہاں مگر وہ دو قومی نظریہ کے حاملین میں سے ایک تھے، اور اب انہیں گاندھی جی پر فوقیت دی جانے لگی ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے کہا ہے کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو وہ گاندھی جی کو ہٹا کر ساورکر کو راشٹر پتا بنا دیں گے، جن پر گاندھی جی کے قتل کا الزام تھا۔ جسٹس جیون لال کپور کی جانچ میں وہ شامل تھے۔
حال ہی میں کستوری رنگن کی قیادت والی بارہ رکنی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تھی جس میں نئی تعلیمی پالیسی کے تحت اسکولی تاریخ کے نصاب میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ کہیں یہ تبدیلی ساورکر بمقابلہ گاندھی تو نہیں؟
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021