حکومتکی نیم حکیمی، بیماری ایک اور علاج دوسرا
لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھانے کے منفی اثرات یقینی
شائمہ ایس، نئی دلی
نیت میں کھوٹ! پسماندہ ذاتیں اور اقلیتیں نشانے پر !!
مرکزی کابینہ نے بچپن کی شادی کے امتناعی قانون 2003 (پی سی ایم اے) میں ترمیم کے ذریعے خواتین کی شادی کی قانونی عمر کو مردوں کی شادی کے قابل عمر کے مساوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کے اس اقدام نے سیول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں اور خواتین کے گروپوں کے درمیان ایک کہرام مچا دیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ تجویز خواتین کے حقوق اور صنفی انصاف کے مفاد میں رکھی گئی ہے۔ (اور اس کا تعلق آبادی پر کنٹرول کے دائرہ عمل سے نہیں ہے) جبکہ پدرسری نظام کے امتیازی چلن اور تضادات سے بھرپور یہ اقدام نہ صرف ملک کی کروڑہا خواتین کی زندگیوں کو نقصان پہنچائے گا بلکہ بڑی حد تک خاندانوں اور سماج پر بھی اثر انداز ہو گا۔
حالیہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ سال 2018 میں شادی شدہ خواتین میں سے ایک تہائی کی عمریں 18 سے 20 سال کے درمیان تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی شادی سے پہلے خواتین کو اعلیٰ تعلیم اور آزادی کے حصول میں مدد کرنے کے بارے میں حکومت کے قیاس پر مبنی ارادوں پر یقین کرنا بھی چاہے تو اس منصوبے میں ایک بڑا نقص ہے اور وہ یہ ہے کہ بھارتی خواتین کی زندگیوں کو فی الواقع اگر کوئی چیز سہل اور صحت بخش بنا سکتی ہے تو وہ سماجی تبدیلی ہے نہ کہ اوپر سے نیچے مسلط کیے جانے والے قوانین۔ یہ قانون صرف شادی کے خواہاں نوجوان جوڑوں کو مجرم قرار دے گا جن میں سے بیشتر کو پہلے ہی والدین کی جانب سے ان کی رضامندی کے بغیر شادی کرنے کی کوشش پر حراست، اغوا یا عصمت دری کے مقدمات کی صورت میں مجرم ٹھہرائے جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔
سماجی بگاڑ اور قانونی پیچ
اولاً، ذات پات اور طبقاتی تفریق سے دوچار معاشرے میں جس کی وجہ سے بہت سے خوش گوار اور صحت مند رشتے ہونا ناممکن ہیں، یہ نیا قانون انتشار کو مزید بڑھا دے گا۔ نوجوان جوڑوں کو شادی کے چوکھٹے سے (جو دونوں فریقین کو تحفظ وحقوق کے ساتھ ساتھ سماجی ہم آہنگی کی ضمانت دیتا ہے) باہر رہنے پر مجبور کرنا بجائے خود غلط ہے کیونکہ سماجی مسائل کو محض قانون کی سطح پر حل نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر اس وقت جب قانون وضع کیا جا رہا ہو تو اس کی نیت، منشا، مسودہ کی تیاری اور عملدرآمد کی نیت پر ہی اعتراض ہو۔ خواتین کی تحریک کی تاریخ اور اس کا قانون سے الجھاو، جس کے بارے میں فلاویا ایگنس جیسے کئی ماہرین قانون نے بہت کچھ لکھا ہے، اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ اکثر اور بہت آسانی سے حکومتیں اور تحریکیں دونوں سماج کے اندر بگاڑ دور کرنے کے لیے کام کرنے کی بجائے محض قانون پر انحصار کرتی ہیں۔ درحقیقت، زرخیزی اور بچوں کی شادی کے واقعات دونوں میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ موجودہ قوانین جیسے پی سی ایم اے اور جنسی استحصال سے بچوں کے تحفظ کا قانون (POCSO) اپنے موجودہ فریم ورک میں بہت کافی ہیں اگر انہیں مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حکومت کا یہ اقدام ناقص ہے کیونکہ یہ درست اعداد وشمار پر مبنی نہیں ہے۔ جو دلیل دی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ کم تعلیمی شرح، ماوں کی شرح اموات، بچوں کی شرح اموات کے پیچھے کی اصل وجہ جامع طور پر کم عمری کی شادی ہے، لیکن یہ ایک غلط دلیل ہے۔ ہندوستانی خواتین غربت، بھوک، صحت کی خراب دیکھ بھال، وراثت اور دولت سے محروم کیے جانے اور دیگر عوامل کا شکار ہیں اور ان میں سے کوئی مسئلہ بھی اس اقدام سے حل نہیں ہوگا۔ قومی خاندانی صحت پر کروایا گیا حالیہ سروے (2020-21) NFHS 5 کا ڈیٹا کم عمری کی شادی اور ثانوی تعلیم میں کمی اور غربت میں کمی کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ شادی کی عمر کے قانون سے براہ راست اس کے تعلق کی نشاندہی کرتا ہے؟ سماجی ومعاشی ترقی، تعلیم اور بیداری کے باعث شادی کی عمر میں ازخود مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس، اسکول چھوڑنا (جو کم عمری کی شادی کا باعث بن سکتا ہے) اس کا تعلق جنسی تشدد، اسکولوں کی عدم دستیابی، علیحدہ بیت الخلاء کی کمی، ماہواری کی صفائی کی کمی وغیرہ سے ہے۔ان میں سے کسی بھی مسئلے کو سرے سے نمایاں طور پر حل ہی نہیں کیا گیا ہے۔
قانونی اور سیاسی تضادات
آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن، آل انڈیا پروگریسو ویمنز ایسوسی ایشن، جماعت اسلامی ہند، اے آئی ایم آئی ایم، انڈین یونین مسلم لیگ اور دیگر تنظیموں نے اس اقدام کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اصل دھارے کی پارٹیاں جیسے کانگریس اور ترنمول کانگریس ابھی تک بل کی تفصیلات سے لا تعلق ہیں۔ درحقیقت مخالفت کرنے والی بہت سی تنظیموں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ قانونی طور پر شادی کرنے کے لیے مردوں کی عمر کو 18 سال تک لایا جائے۔ اس اقدام کے خلاف وسیع تر بے چینی پائی جاتی ہے جسے کج فہم غور وخوص اور درج فہرست طبقات (ایس سیز) اور اقلیتی برادریوں کو در پردہ نشانہ بنانے کے ارادے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ بہت سے پہلووں سے ووٹ دینے کا حق، نمائندوں کو منتخب کرنے، معاہدوں پر دستخط، کام، جسمانی اور جنسی تعلقات (بشمول تعلقات قائم رکھتے ہوئے ساتھ رہنے) 18 سال کی عمر کو وسیع طور پر بالغ ہونے کے ایک معیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے نئی عمر کی اس رکاوٹ اور موجودہ معیارت کے درمیان جو 18 سال سے زیادہ عمر کے افراد کو اپنے فیصلے کرنے کے قابل بالغ تصور کرتے ہیں ایک واضح تضاد موجود ہے۔
اگست 2021 میں وزیر اعظم نے یوم آزادی کی تقریر میں اس بارے میں بات کی کہ کس طرح وہ ملک میں خواتین کی صحت کے بارے میں مسلسل فکر مند رہتے ہیں اور غذائی قلت اور ازدواجی عمر کے درمیان ایک تعلق ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غذائیت کی کمی بہت پہلے شروع ہو جاتی ہے اور ضروری نہیں کہ اس کا تعلق کم عمری کی شادی سے ہو۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ مرکزی حکومت نے غذائی قلت میں اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے جبکہ کرناٹک میں ریاست کے7 انتہائی پسماندہ اضلاع میں انڈے متعارف کرانے کے اقدام کو ہندو مذہبی تنظیموں اور اس کے پیروکاروں کی جانب سے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ریاست میں صحت، تعلیم، خواتین کی طاقت، آزادی اور تحفظ کو ایک مربوط تصور کے طور پر دیکھے بغیر، غیر منظم مداخلتیں قانونی طور پر ناقابل برداشت اور سماجی طور پر خلل آمیز ہیں جس کی سے 21 سال سے کم عمر کے بہت سے شادی شدہ جوڑوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، اب جو لوگ اس عمر میں شادی کرنا چاہتے ہیں ان کو مجرم قرار دیا جائے گا۔ ایک اور تشویش جو خواتین کے گروپوں کی جانب سے سامنے آئی ہے وہ شادی شدہ جوڑے، خاص طور پر عورت کے حقوق اور استحقاق سے متعلق ہے۔ اگر 18تا21 سال کی شادی شدہ عورت کسی ازدواجی خلاف ورزی کی شنوائی کے لیے عدالت سے رجوع ہوتی ہے تو اس کا شوہر یہ دلیل دینے کے لیے آزاد ہو سکتا ہے کہ شادی بجائے خود باطل ہے اور یوں عورت کو ایک الجھن آمیز صورتحال میں چھوڑ دیا جائے گا۔
18 سال کی موجودہ عمر 1978 میں متعارف کرائی گئی تھی اور اس وقت کہا گیا تھا کہ عمر کو 16 سے بڑھانے کا مقصد خواتین کو زیادہ مواقع فراہم کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ تاہم، NFHS 5 کے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ آج 40 سال بعد بھی بچوں کی شادی کے 23 فیصد واقعات تشویشناک ہیں۔ آج بھی یہی منطق دہرائی جا رہی ہے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سماجی یا تعلیمی طور پر کوئی اور کام نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا، کیونکہ ماضی کے بہت کم تجزیے کے ساتھ اسی منطق کا حوالہ دیتے ہوئے پرانے قوانین کے اوپر نئے قوانین کو لادا جاتا ہے۔
ملک میں بچے کی پیدائش کے دوران خواتین کی موت کی سب سے اہم وجہ خون کی کمی (انیمیا) ہے۔ اس مسئلہ کے ساتھ ساتھ غذائی قلت اور دیگر عوامل پچھلے کئی دہوں سے بھارت کے نگہداشتِ صحت نظام اور سیاسی انتظامیہ کی بڑی ناکامی کے عکاس ہیں۔ خواتین کو اپنی پسند کی شادیاں کرنے سے ’بچانے‘ کے لیے مزید قوانین بنانے سے پہلے انہیں اس طرح کے مسائل حل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
حاصل بحث
ان تمام تنقیدوں کا ممکنہ جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ہندوستانی خواتین، بہت سے عوامل کی وجہ سے، کمزور ہیں اور اکثر اپنے طور پر فیصلہ کرنے کے موقف میں نہیں ہوتیں۔ بلاشبہ یہ سچ ہے کہ اکثر ثقافتی اور معاشرتی توقعات، دقیانوسی تصورات اور طاقت کی حرکیات (power dynamics) کی وجہ سے خواتین کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ شادی کب کرنی ہے، شادی کس سے کرنی ہے، بچے کب پیدا کرنا ہے، گھر کا مالی بجٹ کیا ہو وغیرہ۔ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے جس کو سیول سوسائٹی کی تنظیموں، خواتین کی تحریکوں اور دیگر متعلقین کے ساتھ مل کر حل کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ تاہم، پچھلے کئی سالوں میں ہونے والے واقعات کی ہولناک نوعیت سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے ملک میں زندگی کی اس حقیقت کا استعمال شاطرانہ طریقے سے خواتین کی فیصلہ سازی اور ان کی طاقت کو ان کے ہاتھ سے چھین کر حکومت کے کارندوں اور اداروں کے ہاتھوں میں دینے کے لیے کیا ہے۔ یہی چیز تبدیلی مذہب مخالف بلوں کو بنیاد فراہم کرتی ہے، یا ’لو جہاد‘ جیسے دلدل، اور اب شادی کی عمر بڑھانے کی اس تجویز کا سبب بنتی ہے ۔
ہندوستانی معاشرے کی سماجی بالادستیوں کو جس میں خواتین زندگی کے تمام پہلوؤں، حتیٰ کہ خود اپنی ذات سے باہر ہوں، چیلنج کرنے کے قابل ایک ماحول بنانے کے بجائے حکومت نے اس حقیقت کا استعمال محض غیر موثر قانون سازی کے بہانے کے طور پر کرنا پسند کیا ہے۔ اس بل پر جو رد عمل سامنے آیا ہے وہ اس بات کا گواہ ہے کہ بھارتی خواتین اب مزید پدرسری نظام کا نشانہ بننا نہیں چاہتیں۔
(بشکریہ ریڈیئنس ویوز ویکلی)
***
***
پچھلے کئی سالوں میں ہونے والے واقعات کی ہولناک نوعیت سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے ملک میں زندگی کی اس حقیقت کا استعمال شاطرانہ طریقے سے خواتین کی فیصلہ سازی اور ان کی طاقت کو ان کے ہاتھ سے چھین کر حکومت کے کارندوں اور اداروں کے ہاتھوں میں دینے کے لیے کیا ہے۔ یہی چیز تبدیلی مذہب مخالف بلوں کو بنیاد فراہم کرتی ہے، یا ’لو جہاد‘ جیسے دلدل، اور اب شادی کی عمر بڑھانے کی اس تجویز کا سبب بنتی ہے ۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 02 جنوری تا 08 جنوری 2022