حمدیہ شاعری ،مقدس ترین صنفِ سخن

سید عرفان اللہ، بنگلور

میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے میرے بحرِ خیالات کا پانی
بے شک بعض اشعار حکمت ہیں۔ (حدیث)
شاعری کی مختلف اصناف میں سے پہلی صنف جس کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے ’’حمد‘‘ کہلاتی ہے۔حمد ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی‘‘تعریف‘‘ کے ہیں۔ اردو کے علاوہ حمد باری تعالیٰ، کئی زبانوں میں لکھی جاتی رہی ہے جیسے عربی، فارسی، اردو وغیرہ۔ خداوندِ کریم کی تعریف و توصیف ہر زبان اور ہر مذہب میں پائی جاتی ہے پھر چاہے وہ نظم کی شکل میں ہو یا نثر میں یا کسی بھی انداز میں ہو سکتی ہے۔ خداوندِ کریم قرآن میں سورۃ لقمان کی آیات 27 میں یوں فرماتے ہیں کہ:زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہےاللہ کی تعریف و توصیف ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے ۔ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔عربی کا لفظ ’’حمد‘‘ اللہ تعالیٰ کی تحمید و تمجید کے لیے مختص ہو گیا ہے۔ جس کے لیے حمدیہ شاعری نے ایک مستقل صنف سخن کی صورت اختیار کر لی ہے۔ صرف عربی، فارسی ہی نہیں دیگر زبانوں میں بھی اس کا ذخیرہ موجود ہے ۔حمد چونکہ کوئی مشاہداتی صنف نہیں ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ قرانِ مجید کا مطالعہ کیے ہوئے ہوں اور چونکہ خدا کی ستائش دیگر دوسرے مذاہب میں بھی موجود ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ آپ ان مذہبی کتابوں سے بھی واقف ہوں۔ تاہم اسلام نے صرف ایک خدا کی پرستش کا حکم دیا ہے اور تصور پیش کیا ہے اس لیے اس میں کسی اور کو شریک کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ قرآنی مفہوم میں حمد کا آغاز عربی سے ہوا۔ اور وہاں سے اس کا مضمون فارسی میں آیا۔ اور فارسی سے اہلِ اردو نے اخذ کیا اور یوں ابتداء ہی سے حمد اردو شاعری کا لازمی حصہ بن گئی مثنوی کا آغاز حمدیہ اشعار سے کیا جاتا ہے۔ اور بعض شعراء نے تو واوین غزلیات کی ابتداء ہی حمد سے کی ہے۔ حمد میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے ساتھ اس کے صفات کا بھی ذکر ہوتا ہے۔دنیا کی ہر زبان کے شاعروں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کو پیش نظر رکھا ہے اور اسے یاد کیا ہے۔اردو زبان میں جب سے شاعر ی کا آغاز ہوا تبھی سے حمد لکھی گئی لیکن حمد سے زیادہ توجہ نعت پر دی گئی ہے۔ حمد کی دینی اور ادبی قدر و قیمت کی وجہ سے یہ صرف ہمارے مضطرب جذبات کی تسکین کا سامان، احساس جمال، خوف خدا، بصیرت و بصارت کی توثیق یا شاعری برائے شاعر ی نہیں ہے بلکہ ادب میں اس کی مستقل صنفی حیثیت ہے۔ یہ صحیح ہے کہ عروض و بلاغت اور اصناف سخن کی قواعد کی کتابوں میں حمد و مناجات کی صنفی حیثیت کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل گو، مرثیہ گو، رباعی گو یا مثنوی و قصیدہ نگار شعرا نے حمد پر باضابطہ یا خصوصی توجہ نہیں دی بلکہ عقیدت اور بسم اللہ کے طور پر رسم پوری کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ حمد و مناجات کے لیے والہانہ عشقیہ جذبے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اظہار و افعال و اعمال اس سے وابستہ ہیں۔ مہارت و محاربت، متانت و سنجیدگی اور جوش ربانی کی فراوانی کے بغیر کوئی بھی شاعر حمد میں اظہار عقیدت نہیں کر سکتا۔مختلف ادوار میں حمد کے فکری اور اسلوبیاتی تجربے یقیناً ہوئے ہیں اور اسلوبیاتی تغیر بھی محسوس کیے گئے ہیں۔ مثلاً حمد کے یہ اشعار
ملاحظہ کیجئے :
کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا
باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جلال تیرا
حالی
ہوا خلاف چلی تو چراغ خوب جلا
خدا بھی ہونے کے کیا کیا ثبوت دیتا ہے
ڈاکٹر نواز دیو بندی
حرف آغاز تو حرف آخر بھی تو
دو جہاں تیری قدرت ہیں قادر بھی تو
ابراہیم اشک
سو رہا ہوں تیرے بھروسے پر
خدا فجر میں جگا دینا
وجئے تیواری
حمد سے بے توجہی کی وجہ ماحول بھی رہا ہے، بقول منیر احمد جامی صاحب حمدیہ نشستیں بہت ہی کم یا نا کے برابر ہوتی ہیں، اور میں بھی اس سے اس لیے بھی اتفاق رکھتا ہوں کیوں کہ میں نے بھی کوئی مشاعرہ بالخصوص ’’حمد ‘‘ کے لیے مختص نہیں دیکھا۔ کبھی کسی نے شاید ہی طرحی مشاعرہ کے لیے بھی کوئی نشست رکھی ہو۔ ہاں مگر غزل اور نعت کے مشاعرے اور ادبی نشستیں ہوتی رہتی ہیں۔
میرے علم کے مطابق اردو میں حمدیہ شاعری کا پہلا مجموعہ ہندوستان کی آزادی سے قبل غلام سرور لاہوری کا ہے جو ’’دیوان حمد ایزدی‘‘ کے نام سے 1881ء میں نول کشور، لکھنو سے شائع کیا تھا۔
زباں پر ذکر حمد ایزدی ہر دم رواں رکھنا
فقط یاد الٰہی سے غرض اے مری جاں رکھنا
حمدیہ شاعر ی کا دوسرا مجموعہ افتخار حسین مضطر خیر آبادی کا ’’نذرِ خدا‘‘ 1913ء میں شائع ہوا۔ سرورق پریہ شعر درج ہے :
مبارک اے زباں دنیا میں جو کچھ بھی کہا تو نے
وہ میں نے لکھ لیا اور کر دیا نذر خدا تو نے
ریاستِ کرناٹک میں سب سے پہلے منیر احمد جامی کا حمدیہ مجموعہ ’’حرفِ تمام‘‘ کے نام سے 1987 منظرِ عام پر آیا۔ اس کے پہلے صفحہ پر یہ شعر درج ہے
جو حکم کن ہو ، تو پودا زمیں سے پھوٹے گا
بڑے خلوص سے میں نے تو بیج بویا ہے
حمد باعث تسکین قلب ہے۔ اس سے فرحت اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے۔ آفاقی اور ابدی حقیقتوں کی آگہی سے بھرپور اس صنف کی طرف نعت کے مقابلے میں توجہ کم دی گی ہے اور اس کا مواد بکھرا پڑا ہے۔
اردو شعراء نے اپنی عقیدت و ایمان کے گل ہائے معطر حمدیہ اشعار کی لڑیوں میں پرو کر باری تعالیٰ کے اوصاف اسمائے حسنیٰ کے گیسو ہائے معتبر سجائے ہیں۔ خدائے عزوجل کی تحمید و تمجید کے یہ نقش ہائے دل پذیر اور ثنا و توصیف کے یہ دریائے بے نظیر شعر ی پیکر میں ڈھل کر ادبی سرمائے میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔
میرے لب پہ ورد ہے لا الٰہ
یہی ورد ہے جو عظیم ہے
تو غفور ہے تو رحیم ہے
تیری رحمتوں کی حدیں نہیں
تیری کائنات کے درمیاں
میں تھا ایک نقطہ نا تمام
مرے مہربان! ترا شکریہ
مجھے دے کے وصفِ الٰہیہ
تو نے کیا سے کیا ہے بنا دیا
تو نے بندگی مجھے کی عطا
مری بندگی بڑی بات ہے
یہ تو عکس ہے تری ذات کا
تری ذات سے مری ذات ہے
ترے در پہ سر بہ سجود ہوں
مجھے آگہی سے نواز دے
مجھے رنگ فقرو نیاز دے
حمد گوئی کی روایت کو آگے بڑھانے اور زندہ رکھنے اور اس کی ترقی و ترویج کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ ادبی نشستوں میں طرحی مصرعہ پر طبع آزمائی کروائی جائے، حمدیہ محفلیں منعقد کروائی جائیں، اخبارات و رسائل کے مدیران معتبر قلم کاروں سے حمدیہ مضامین و مقالہ شائع کروائیں۔ میں اس ضمن میں ہماری ریاستِ کرناٹک کے جناب منیر احمد جامی صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کے آج کی یہ نشست آپ کی ہی فکر و کاوش کا نتیجہ ہے اور آپ جیسی سوچ رکھنے والوں کی اس دور میں اشد ضرورت بھی ہے ۔آخر میں اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کسی بھی صنفِ سخن میں کچھ کہتے وقت بہت احتیاط کرنا لازمی اس لیے ہوتا ہے کہ کہیں ہم کسی حد سے آگے نہ بڑھ جائیں اور ہم سے کوئی کفر یا شرک سرزد نہ ہوجائے۔ مگر حمد کہتے وقت یہ فکر نہیں رہتی اس لیے کے خدا کی شان و بڑائی کرتے وقت شاعر عِشق و عرفان کو پہنچنے کی ہی کوشش کرتا ہے۔ جو ضروری بھی ہے اور اس عشق کا صلہ یہ ملتا ہے کہ دنیا و آخرت دونوں سنور جاتے ہیں۔
***