حقوق انسانی
منصف مرزوقی | ترجمہ: شعبہ حسنین ندوی
یووال ہراری ایک متنازعہ اسرائیلی مصنف ہیں، لیکن ان کی تحریریں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اپنی آخری کتاب Homo Deus (معبود انسان) میں انھوں نے لکھا ہے کہ مذاہب کی تخلیق ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اور مستقبل میں بھی ہوتی رہے گی۔ سترہویں، اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یوروپ سے شروع ہونے والے ایک نئے مذہب نے، جسے یووال نے "انفرادیت پرستی” کا نام دیا ہے، بلا شبہ انسان کو معبود کا درجہ دے دیاہے، اور یہیں سے یووال نے اپنی کتاب کا عنوان بھی اخذ کیا ہے۔ کیا آپ میں سے کسی نے اس مذہب کے بارے میں کبھی سنا ہے؟ کیایہ شیطان کی عبادت کی طرح ایک خفیہ مذہب ہے؟ ہرگز نہیں۔ یووال ہراری کا کہنا ہے کہ یہ ایک علانیہ مذہب ہے اور دنیا میں اسلام اور کیتھولک عیسائیت سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے۔
یووال ہراری نے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل دلائل دیے ہیں:
ہر نئے مذہب کو پرانے مقدسات کو چھوڑ کر نئے مقدسات کو اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام "انفرادیت پرستی” نے بھی کیا۔ اس نے انسان کو خالق کی جگہ پر رکھ دیا۔ بایں طور کہ انسان ہی جائے عبادت ہو، وہی تمام قانون سازی کا سر چشمہ بنے، اور دنیا اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے بھی وہی مرجع مانا جائے۔
ہر نئے مذہب کو ایک یا ایک سے زائد نبیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ "انفرادیت پرستی” نے بھی روسو، والٹیئر، نِٹشے، ایڈم اسمتھ اور کارل مارکس جیسے سیکولر انبیا کو فروغ دے کر اس مقصد کو حاصل کیا۔
انسان اور دنیا کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہر نئے مذہب کے پاس ایک منصوبہ اور پروجیکٹ ہوتا ہے۔ "انفرادیت پرستی” نے یہ کام تین بازووں سے مسلح ہوکر کیا اور ہنوز کررہی ہے:
معاشی بازو لیبرلزم ہے، جس میں پیداوار(production) اور اس کے استعمال (consumption) کی تنظیم سے متعلق تمام امور میں فرد کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
سیاسی بازو جمہوریت ہے، جس میں کار حکومت سے متعلق تمام امور کے لیے فرد پر ارتکاز ہے۔
نظریاتی بازو حقوق انسانی ہے، جس میں انسان کی حیثیت، اور اس کے حقوق وفرائض کے تعین کے لیے بھی فرد کو بنیادی طور پر پہلا مرجع بنایا گیا ہے۔
یووال ہراری کی اس بات نے مجھے بچھو کی طرح ڈنک مارا کہ حقوق انسانی انفرادیت پرستی کا نظریاتی بازو ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنا تعارف اس طور پر کرایا کہ میں عربیت کا علم بردار ہوں لیکن قوم پرست نہیں ہوں، ایک سیکولر ہوں لیکن ملحد نہیں ہوں، ایک مسلمان ہوں لیکن "اسلامسٹ” نہیں ہوں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ میں ایک مسلمان بھی کیسے باقی رہ سکتا ہوں جب کہ غیر شعوری طور پر میں ایک ایسے مذہب سے وابستہ ہوگیا ہوں جس نے مرکز سے خدا کو ہٹاکر انسان کو لا بٹھایا ہے؟
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ میں نے انسانی حقوق کی وکالت میں ایک کتاب لکھی اور اس کا عنوان "محترم انسان” رکھا۔ کیا اس کتاب کو لکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں ایک ایسے نظام فکر سے مکمل طور پر وابستہ ہوچکا ہوں جس نے مجھے اتنا زیادہ استعمال کیا کہ اس کا مجھے اعتراف تک گوارا نہیں ہے؟
میں نے اپنی دونوں کتابوں "محترم انسان” اور "انسانی حقوق: نیا وژن” )یہ دونوں کتابیں میری ویب سائٹ پر موجود ہیں( کو دوبارہ دیکھ کر سکون کی ٹھنڈی سانس لی، کیوں کہ ان کتابوں میں، میں نے انسان کے احترام اور تقدس کا دفاع کیا ہے۔ اس لیے نہیں کہ اس احترام کا ماخذ انسان کی ذات ہے، بلکہ اسے بنیاد بناکر کہ مخلوق خالق کی دلیل ہے اور مخلوق سے خالق کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
میرے ذاتی موقف سے قطع نظر، کیا واقعی حقوق انسانی کے عالم گیر اعلامیہ نے انسان کو ایسا خدا بنادینے کی ترغیب دی ہے جس کے لیے عبادت وتقدیس کے تمام مظاہر خاص کردیے جائیں، یا یووال نے اس سلسلہ میں زیادتی اور مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے؟
آپ سوچیں اگر یہ اعلامیہ، جس پر میں نے کئی کتابیں لکھیں، صدارتی محل اور دیگر جگہوں پر بے شمار لیکچرس دیے اور جس کی وجہ سے میں جیل بھی گیا، اگر اس اعلامیہ کے بارے میں معلوم ہو کہ دیگر عقائد کی طرح اس پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے تو کیا ہو گا؟
اب میں حقوق انسانی کے عالم گیر اعلامیہ کے متن کو فکری پوسٹ مارٹم کی میز پر رکھنے جا رہا ہوں، اسے پہلی بار پڑھے ہوئے چوتھائی صدی بیت گئی ہے، اور اس پورے عرصہ کے میرے تجربات میرے ساتھ ہیں، اور میرے پیش نظر یہ ہے کہ میں اس متن پر پسندیدگی کی وہ نگاہ نہ ڈالوں جو ہر عیب چھپالیتی ہے۔
اعلامیہ کی تیس دفعات میں درج حقوق اور آزادیوں کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بدیہی طور پر انسان کی بنیادی ضرورتوں کی ایک فہرست ہے، ان میں ایک باعزت زندگی گزارنے کے تقاضوں اور شرطوں کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ دراصل انسانیت کے مقاصد اور خوابوں کی فہرست ہے۔ لیکن ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اگر ہم ان کے بین السطور کو پڑھیں تو ہمیں کیا نظر آئے گا۔
اس عالمی قانون کو لکھنے والا پیش لفظ میں لکھتا ہے: "انسانی حقوق کو فراموش کرنے اور لاپروائی برتنے کے نتیجہ میں جب وحشیانہ حرکتوں کا دور آیا تو اس صورت حال نے انسانی ضمیر کو بہت تکلیف پہنچائی”۔ بہت خوب۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسانی حقوق کو کس نے فراموش کیا اور کس نے لاپروائی برتی؟ کس نے انسان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا؟ کیا وہ مریخ سے آئی ہوئی کوئی استعماری مخلوق تھی؟
کون ہے جو’’نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب، سیاسی اور غیر سیاسی رائے، قومی اور معاشرتی پس منظر، دولت اور پیدائش کی بنیاد پر امتیازی سلوک‘‘ کرتا ہے؟ (باب ۲)
کون ہےجوایک انسان کو حاصل زندگی، آزادی اور ذاتی تحفظ کے حق کے آڑے آتا ہے؟ (باب ۳)
کون ہے جو انسانوں کو غلام بناتا ہے اور انسانوں کی تجارت کرتا ہے؟ (باب ۴)
کون ہے جو انسانوں کو اذیتوں کا شکار بناتا ہے، ان کے ساتھ اہانت امیز برتاؤ کرتا ہے، اور انھیں غیر انسانی عقوبتوں سے دوچار کرتا ہے؟ (باب ۵)
کون ہے جو اپنے لیے اس بات کو روا رکھتا ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو ناحق قید کر سکتا ہے، اسے نظربند کرسکتا ہے یا جلا وطن کر سکتا ہے؟ (باب ۹)
کون ہے جو انسان کو اظہار رائے کی آزادی استعمال کرنے، خبروں اور افکار کے حصول کی کوشش کرنے اور انھیں دوسروں تک پہنچانے پر سزائیں دیتا ہے؟ (باب ۱۹)
کون ہے جو ایک انسان کو مساوی کام کے لیے مساوی اجرت کے حق سے محروم کرتا ہے، اور ایک انسان کو ایسے منصفانہ اور اطمینان بخش معاوضے سے محروم رکھتا ہے جو اس کو اور اس کے خاندان کو ایک باعزت زندگی کی ضمانت دیتا ہو ؟ (باب ۲۳)
مندرجہ بالا تمام سوالات کا جواب بلاشبہ "انسان” ہے، خواہ وہ فرد ہو یا آوارہ جماعت ہو یا پھر کسی ملک کا حکمراں ٹولہ ہو۔ درحقیقت حقوق انسانی کو فراموش کرنے کے جرم کو ایک مجہول ونا معلوم کی طرف منسوب کرتے وقت اعلامیہ نگار نے جس بات سے چشم پوشی کی ہے وہ انسان کی حقیقی پیچیدہ طبیعت ہے۔
صحیح رخ پر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اعلامیہ نگار نے جس انسان کو اپنا موضوع گفتگو بنایا ہے وہ درحقیقت ایک کم زور وجود ہے، وہ اپنی پوری زندگی قتل، ذلت، زیادتی، امتیازی سلوک، ناانصافی، ظلم اور استحصال کا شکار بنتا رہتا ہے۔ اس میں ضمنا یہ بات بھی آگئی ہے کہ وہ انسان خفیہ طور پر ایک ایسی مخلوق بھی ہے جو بہت ہیبت ناک ہے اور جو قتل، ظلم، زیادتی، استبداد، استحصال اور تعصب جیسے مذموم کام انجام دیتا رہتا ہے۔
کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ آپ انسان کے اس کردار کا ذکر کرنا بھول گئے جس میں وہ نہ مقتول بننے پر راضی ہوتا ہے اور نہ ہی جلاد بننے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ ایسے ہی انسان نے مذکورہ بالا اعلامیہ تیار کیا ہے "تا کہ ایک ایسا مشترک معیار قائم کیا جا سکے جو تمام اقوام کے پیش نظر رہے، اور اس اعلامیہ کو ہمہ وقت اپنےسامنے رکھتے ہوئے معاشرہ کا ہر فرد اور ادارہ ان حقوق اور آزادیوں کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہے”۔
ہم یہ بھی مان لیتے ہیں، اور انسان کے اس تیسرے چہرے کو ہم "انسانی ضمیر” کا نام دے سکتے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس چہرے کے ہونے سے اس شیطان کے وجود کا انکار ہوجاتا ہے، جو ہمارے اندر رہتا ہے، اور جسے ہر وقت دھتکارا جاتا ہے تاکہ اس کے گناہوں پر روک لگائی جائے۔
اس صورتِ حال میں ہم مطلق انسان سے یا اس کے مزاج وفطرت کے الزام سے پاک کسی حصے سے کیسے ہمدردی رکھ سکتے ہیں، جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس کے اندر، موجودہ دور کی زبان میں، ایسے الگورتھمز (Algorithms)بھی پائے جاتے ہیں جو اسے چشم زدن میں قاتل وظالم بھی بنا سکتے ہیں؟ ہم ایک ایسے انسان کی کیسے تقدیس وتعظیم کرسکتے ہیں جو اپنی سب سے بہترین حالت میں مظلوم ہوتا ہے اور سب سے بری حالت میں ظالم ہوتا ہے، اور اپنے مجموعی وجود میں بیک وقت دونوں ہوتا ہے؟
ہمارے سامنے اب ایک سوال ہے: کیا ہم انسانی حقوق کا انکار کردیں، جب کہ ہمارے سامنے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ شاید ماضی میں ہم احمقانہ اور بے بنیاد تصورات کے غلام رہے تھے جن کے ذریعہ ہم نے اپنے مضطرب دل و دماغ کو مطمئن کر رکھا لیکن ہم ہمیشہ سراب کے پیچھے ہی بھاگتے رہے؟
یقینا ہم حقوق انسانی کے انکاری نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کا عالم گیر اعلامیہ جسے اقوام متحدہ نے ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ میں نافذ کیا تھا، درحقیقت انسانیت کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ کیوں کہ یہ پہلا ایسا متن ہے جس کے مسودے کی تخلیق میں انسانیت کے نمائندوں کی بھاری اکثریت نے حصہ لیا۔ اس اعلامیہ نے ایسے تمام بین الاقوامی معاہدوں کی تخلیق میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے جن کا مقصد ایک ایسے عالمی نظام کا قیام تھا جس کی بنیادیں عدل وانصاف پر رکھی گئی ہوں اور جس میں ظلم وتشدد کو کم سے کم کیا جائے۔
یقینا اس سلسلہ میں ان لاکھوں انسانوں کا بڑا حصہ ہے جو مقامی اور بین الاقوامی حقوق انسانی کی تنظیموں کے توسط سے مظلوموں کی مدد کے لیے کمر بستہ ہوئے۔ ہر طرح کی نسبت سے بالا تر ہوکر، ان لوگوں نے انسان کے مذکورہ بالا تیسرے چہرے کا بہت اچھا پیکر پیش کیا۔
ہمیں ان لوگوں کی ستائش اور تائید کرنی چاہیے جو مشکل ترین حالات میں بھی مصیبت زدہ عالم عرب (نمونے کے طور پر سعودی عرب اور مصر) میں حقوق انسانی کی جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ہمیں استبداد کی نئی لہر اور نئے استبدادی آمروں کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے جو اپنے سابقہ یوروپی و امریکی آقاؤں سے نصف صدی تک امداد حاصل کرتے رہنے کے بعد اب ان سے کی ہوئی بیعت ختم کررہے ہیں، اور ہمیں چینی ماڈل فروخت کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔
حقوق انسانی کے دفاع کی جنگ میں اپنی شمولیت پر میں بالکل بھی شرمندہ نہیں ہوں۔ بلکہ حقوق انسانی کی عرب اور تیونسی تحریک سے میری وابستگی سے بڑھ کر میرے لیے کوئی قابل فخر چیز نہیں ہے۔ حقوق انسانی کی اس تحریک نے اسّی اور نوّے کی دہائی میں سرکاری تعذیب کی لعنت کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ خدا گواہ ہے کہ جب میں نے اقتدار سنبھالا تو میں نے اس گھناؤنے جرم کو سختی سے روکا۔ میں اعلامیہ میں درج کسی بھی حق خصوصا اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کے آڑے نہیں آیا۔
لیکن یہ ساری یقین دہانیاں ہمیں اس ذمہ داری سے بری نہیں کرتیں کہ ہم مقامی سطح پر اور پورے عرب کی سطح پر حقوق انسانی کی تحریکوں کے کام کا ایک سخت جائزہ نہ لیں۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ تحریک بے سمتی اور انتخابیت کا شکار ہو گئی ہے۔ اور دمشق کے خوں خوار کے حق میں ڈنکے پیٹنے کی بات کا کیا ذکر کیا جائے، (ہاں ایسا ہی ہوا خدا کی قسم)۔
۲۰۴۸ء میں دنیائے انسانیت اس اعلامیہ کی۱۰۰ویں سال گرہ منائے گی۔ چونکہ یہ ایک مقدس متن نہیں ہے لہذا اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اس اعلامیہ کا تین سطحوں پر جائزہ لینا چاہیے:
اول: اعلامیہ کے پیش لفظ میں لکھا ہے: "انسانی حقوق کو فراموش کرنے اور لاپروائی برتنے کے نتیجہ میں جب وحشیانہ حرکتوں کا دور آیا تو اس صورت حال نے انسانی ضمیر کو بہت تکلیف پہنچائی”۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ تھوڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جملہ کو دوبارہ اس طرح لکھا جائے: "جب انسان نے انسانی حقوق کو فراموش کیا اور لاپروائی برتی اور اس کے نتیجہ میں وحشیانہ حرکتوں کا دور آیا”۔
متن کے اس صیغے کے ساتھ ہم حقیقت سے گریز کرنے کے بجائے انسان کے اندر موجود نصف شیطانی وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور انسان کو اس کے اعمال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس طرح یووال ہراری یا اس جیسے دوسرے لوگوں کو ہم پر یہ تہمت لگانے کا موقع بھی نہیں ملے گا کہ ہم ایک ایسے وجود کی عبادت کرتے ہیں جسے ہم نے مقدس بنا رکھا ہے، جب کہ وہ تقدس کی صفات سے بہت دور ہے۔
دوم: مظلوم انسان کے انسانی حقوق کی پامالیوں کو شمار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر ہم اس جلاد انسان کے تعلق سے کوئی بات نہ کریں۔ خصوصا اس صورت حال میں جب کہ اس انسان نے خود کو تمام تر حقوق دے رکھے ہوں، یہاں تک کہ اپنے مخالفین پر تشدد کرنے، انھیں ان کی رائے اور عقیدہ کے اظہار کی آزادی سے روک رکھنے، انھیں مویشیوں کی طرح بیچنے اور ان کے پسینے کا استحصال کرنے کا حق بھی دے رکھا ہو۔
شفافیت اورمتن کی جامعیت کا تقاضا ہے کہ ہر باب کو دوبارہ اس طرح سے لکھا جائے کہ وہ انسان کے نصف شیطانی حصہ کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلائے۔ مثلا ۱۸ویں باب میں تحریر ہے: "ہر شخص کو فکر، وجدان اور مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہے”۔ جب تک اس میں مندرجہ ذیل تکمیلی جملہ شامل نہیں کیا جائے گا اس وقت تک اس باب کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا: "اور ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ دوسروں کی فکر، وجدان اور مذہب کی آزادی کا احترام کرے، اور ایسا نہ کرنے والا قانونی سزا کا مستحق ہوگا”۔
اگر پورا اعلامیہ اسی طرح لکھا جائے اور اس میں تمام حقوق کو فرائض کے ساتھ مربوط کر دیا جائے اور تمام فرائض کو قانونی پابندی سے جوڑ دیا جائے تو ہم اس منقح متن کو "عالم گیر اعلامیہ برائے انسانی حقوق وفرائض” کا نام دے سکیں گے۔ اور اس طرح ہم ایک زیادہ پختہ پوزیشن اور زیادہ واضح تصور کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں۔
سوم اور سب سے اہم: ہم نے انسان کے احترام کی بات اس لیے کی ہے کیوں کہ وہ اپنے تمام ترعیوب اور کوتاہیوں کے باوجود اپنے خالق کی جانب سے عزت افزائی کا پروانہ لایا ہے۔ لیکن اس خیال کا بقیہ حصہ یہ ہے کہ: انسان بھی کائنات کی دوسری موجودات کی طرح ہے۔
اگر آپ اس بات پر غور کریں گے کہ انسان بے شمار انواع کے معدوم ہونے کا سبب بنا ہے جو سب کی سب اللہ کی مخلوق اور اس کی انوکھی نشانیاں تھیں، اسی طرح سے جب آپ اس جانب نظر ڈالیں گے کہ انسان نے اس دنیا میں کتنی تباہی مچائی ہے تو آپ کو یہ خوف ناک خیال آئے گا کہ انسانیت پسندانہ نظریات بشمول حقوق انسانی کا عالم گیر اعلامیہ، ایک ایسے وجود کی تعظیم وتقدیس کرتے ہیں جو آج خدا کی بادشاہت کے لیے سب سے زیادہ خطرناک وجود ہے۔
مذہب والوں کی منطق یہ ہے کہ وہ وبائیں جو کثرت سے آتی ہیں اور انسانی وجود کو چیلنج کرتی ہیں، وہ درحقیقت انسانوں کے گھمنڈ، سرکشی اور حماقت پر اللہ کی جانب سے بھیجی ہوئی سزائیں ہوسکتی ہیں۔ جب کہ ملحدوں کا خیال ہے کہ ہوسکتا ہے یہ وبائیں ایسا میکانزم ہوں جس کے ذریعہ فطرت اپنا تحفظ کرتی ہے، جیسے ایک زندہ جسم اینٹی بائیوٹکس کے ذریعہ وائرس اور جراثیم کے حملوں سے خود کا دفاع کرتا ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ آج کل یہ شعور بڑھتا جا رہا ہے کہ دیگر جانداروں کے درمیان انسان کی حیثیت بھی صرف ایک زندہ وجود کی ہے، جو دیگر جانداروں کے ساتھ ہوا، پانی، عزت و تکریم اور زندگی کے سلسلہ میں یکساں اور برابرکا شراکت دار ہے۔ یہ ایک نیا تصور ہے جسے عام کرنے میں ڈاکومنٹری ٹی وی چینلوں کا قابل لحاظ اور لائق شکر کردار ہے۔ یہ تصور جدید ترین سائنسی تحقیق کے اعداد وشمار پر مبنی ہے۔
پودوں اور جانوروں کی دنیا نے ہماری آنکھوں کو حیرت زدہ کرکے رکھ دیا ہے، اور ہمارے سامنے یہ بات منکشف ہوئی ہے کہ اپنی تمام تر ندرت اور غیر معمولی ذہانت کے ساتھ تمام جاندار بھی خالق کے عجائبات ہیں۔ ہم کس قدر بے بنیاد، سطحی اور حماقت پر مبنی نظر کے قیدی رہے ہیں جس نے ذہانت، زبان اور جذبات پر انسان کی اجارہ داری باور کرا رکھی تھی، لیکن شعور کے اس صدمے سے دوچار ہونے کے بعد آپ کب تک اس خرافات پر یقین رکھیں گے کہ انسان ہی ہر چیز کا معیار اور پیمانہ ہے؟
ہم اس بات کو رفتہ رفتہ سمجھتے جارہے ہیں کہ حقوق اور فرائض کا ربط صرف انسانی خاندان تک محدود نہیں ہے، مختلف زندہ انواع مل کر جو خاندان تیار کرتی ہیں ان میں بھی ہے۔ لہذا انسان کی جانب سے کی جانے والی حقوق انسانی کی پامالی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے تشدد سے صرف انسان ہی کو اذیت نہیں پہنچتی، بلکہ دیگر مخلوقات کے حقوق سے غفلت کے نتیجہ میں بھی تخریب کے اعمال رونما ہوئے، مثلا ماحولیات کی تباہی۔ اس سلسلہ میں ہماری مثال اس شخص کی سی ہے جو اسی ٹہنی کو کاٹ رہا ہو جس پر وہ بیٹھا ہوا ہو۔
لہذا مستقبل کے حقوق انسانی کے علمبرداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس اعلامیہ میں اکتیسویں شق کا اضافہ کریں، وہ اس میں کسی بھی صیغے پر اتفاق کرسکتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ الفاظ سے بنیادی فکر سامنے آجائے۔ اور جس طرح انسان کو ایک ایسے صحت مند ماحول کا حق حاصل ہے جو ماضی کی تمام تر زیادتیوں اور خلاف ورزیوں سے پاک وصاف ہوچکا ہو، اسی طرح تمام زندہ مخلوقات بشمول نباتات اور جانوروں کو ایک با عزت زندگی کا حق حاصل ہے۔ اور انسان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ان تمام حقوق کا احترام کرے، اور انھیں عملا پیش کرے۔
انسانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے پیش نظر مجھے نہیں لگتا ہے کہ اس سے زیادہ پر اتفاق ہوسکتا ہے۔ لیکن مجھے اطمینان ہے کہ اگر اعلامیہ میں مذکورہ شق پر عمل نہیں بھی کیا جاتا ہے تو بھی فطرت، جو توازن کی شکست وریخت کو برداشت نہیں کرتی ہے، وہ خود بخود توازن کو بحال کر دے گی، خواہ اسے اس روئے زمین کی انواع کی فہرست سے انسان کو حذف کرنا پڑے۔ اگر آپ مذہبی تعبیر استعمال کرنا چاہتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی اپنی ذمہ داریوں کے تئیں نا اہلی کی وجہ سے اللہ، جس نے انسان کو اس روئے زمین پر خلیفہ بنایا تھا، فطرت کو اس بات پر مامور کرے گا کہ وہ چیزوں کو ٹھیک کرے اور اس کی بادشاہی کی حفاظت کرے۔ کیا اس طرح کے خوف ناک امکان کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہم دیر ہونے سے پہلے اپنے نظریہ اور عمل پر نظر ثانی کر لیں۔ ■