حضور صلّی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمی جدوجہد

سید مصباح الدین ہاشمی، اودگیر، مہاراشٹر

 

آنحضورﷺ کی سیرت طیبہ پر بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آپؐ کی تعلیمی فکر و جدوجہد پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ آپؐ کی زندگی کا بڑا حصہ تعلیم کی اشاعت و توسیع میں گزرا ہے۔ آپ کے معمولات میں دعوت کے ساتھ ساتھ تعلیم ترجیح اول رہی ہے۔ آپ نے عظیم الشان انقلاب کی بنیاد تعلیم پر رکھی۔ ’اقرا‘ سے آپؐ نے تعلیم کا آغاز فرمایا کیونکہ عہد جدید میں تعلیم وتربیت کو جو اہمیت حاصل ہونے والی تھی اس کے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ اس کا آغاز تعلیم ’اقرا‘ ہی سے کیا جائے ۔ آپؐ کی مسلسل جد وجہد کے نتیجے میں صرف ۲۳ سال کی قلیل مدت میں ریاست مدینہ کی خواندگی کی شرح میں قابلِ لحاظ اضافہ ہوا۔
تاریخِ انسانی میں پہلی مرتبہ تعلیم کی فضیلت و فوقیت اور اسکی عمومیت کی ایسی داغ بیل ڈالی گئی کہ علم اور تحصیلِ علم پر نہ صرف پادریوں اور شہزادوں کی اجارہ داری ختم ہوئی بلکہ وہ ہر چھوٹے و بڑے‘ امیر وغریب‘ عام وخاص‘ آزاد وغلام اور عورت ومرد کی بنیادی ضرورت بن گئی۔حصولِ علم‘ نشرِ علم اور توسیع و اشاعتِ علم کے لیے آپؐ نے ہر وہ تدابیر اپنائیں جو اُس وقت میں ممکن نہ تھیں۔ اس سلسلے میں آپؐ نے ترغیب و ترتیب دونوں سے کام لیا۔ غیر رسمی تعلیم Informal education کے ساتھ ساتھ آپؐ نے رسمی تعلیم Formal Education کا انتظام بھی فرمایا۔ صُفُّہ کی صورت میں باقاعدہ اقامتی درسگاہ قائم کی جس میں بیک وقت 70 سے زائد طلبہ زیر تعلیم رہتے تھے۔ مدینہ سے باہر آپؐ نے مختلف قبائل اور اسلامی حکومت کے دور دراز علاقوں میں معلمین بھیجے اور گورنروں کو ذمہ داری سونپی کہ وہ لوگوں میں تعلیم عام کریں اور سرکاری سطح پر تعلیم کا بہترین انتظام کریں۔ غارِ حرا سے اِقرا کا حکم لے کر آپ نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں ایک علمی تحریک کا آغاز کیا جس کے لیے آپ نے مکہ میں دارِ ارقم کو مرکز تعلیم بنایا جہاں پر آپ صحابہ کرام کو کلامِ الہٰی کی آیات سناتے اور ان کی تربیت و تزکیہ فرماتے۔
آپؐنے حصولِ علم اشاعتِ علم ترسیلِ علم اور استحکامِ تعلیم کے لیے وہ مثالی جد وجہد کی کہ انتہائی کم عرصےمیں ریاست مدینہ کی خواندگی کی شرح میں اس قدراضافہ ہوگیاکہ عرب کے جاہلی معاشرے سے تعلق رکھنے والے علم کے میدان میں ساری دنیا پر چھا گئے۔حصولِ علم کی فرضیت: آپؐنے مرد وزن پر علم کا حصول لازمی قراردیا ۔ آپ نے فرمایا ’’علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔حصولِ علم کے کے لیے آپؐ نے کوئی شرط نہیں رکھی فرمایا ’گود سے گور تک علم حاصل کرو‘ سربراہان خاندان کی ذمہ داری :آپ نے سربراہانِ خاندان کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو علم سکھائیں ورنہ ان سے یومِ حشر باز پرس ہوگی۔ آپ نے فرمایا ’’تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘ ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا اپنے اہل و عیال کو تعلیم دو اور انہیں ادب سکھاؤ۔
پڑوسیوں کی ذمہ داری: آپ نے اپنے پڑوسیوں پر بھی توجہ مبذول کرائی اور پڑھے لکھے لوگوں کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ اپنے ارد گرد اَن پڑھ لوگوں کو تعلیم دیں۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو نہ فقہ کی تعلیم دیتے ہیں نہ علم سیکھاتے ہیں نہ وعظ کرتے ہیں نہ نیکی کا حکم دیتے ہیں نہ برائی سے منع کرتے ہیں‘‘
تحصیلِ علم کی ترغیب: آپ نے تحصیلِ علم کی بہت زیادہ ترغیب دی جسکی بنا پر صحابہ کرام نے زیادہ سے زیادہ توجہ حصولِ علم پر مرکوز فرمائی ۔آپؐنے فرمایا ’’تم میں سب سے زیادہ صاحبِ فضیلت وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے‘‘۔
کتمانِ علم پر وعید :آنحضورؐنے کتمانِ علم یعنی علم کو چھپانے پر سخت وعید سنائی۔ آپؐ نے کتمانِ علم کو سخت خیانت قرار دیا اور اس خیانت کو مال کی خیانت سے بھی زیادہ سخت قرار دیا۔خواتین کے لیے تعلیم کا خصوصی اہتمام: عورت نصف انسانیت ہے۔ نسلِ نو کی تربیت کا انحصار عورت پر بھی ہے۔ عرب کے معاشرے میں عورت کو تعلیم دینے کا دور دور تک کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ایسے عالم میں آپ نے عورتوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ فرمائی۔ قرآن کی عمومی تعلیمات کے علاوہ قرآن کی ان سورتوں کی تعلیم لازمی قرار دی گئی جن میں خواتین کے لیے خصوصی احکامات نازل ہوئے ہیں مثلاََ سورۃ النسا اور سورۃ النور وغیرہ۔ عورتوں کو باضابطہ نماز جمعہ میں شریک کرایا جاتا تھا تاکہ وہ زندگی میں پیش آمدہ مسائل کا حل سیکھیں۔ آپؐ کی ازواج مطہرات عورتوں کو تعلیم دینے کا ذریعہ بن گئیں۔ بالخصوص حضرت عائشہ ؓ کو اسلام کی سب سے پہلی معلمہ ہونے کا شرف عظیم حاصل ہوا۔
نسلِ نو کے لیے تعلیم کا انتظام: آپ نے نسلِ نو جو مستقبل کا بہترین سرمایہ ہوتی ہے اسکی تعلیم کی طرف بھی خصوصی توجہ فرمائی۔ والدین سے کہا گیا کہ وہ اپنی اولاد کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کا خاص اہتما م کریں۔ فرمایا گیا ’’اپنی اولاد کی عزت کرو اور انہیں بہترین ادب سکھاؤ۔‘‘ آپ نے اولاد کو نہ صرف نظری تعلیم دینے کی تاکید کی بلکہ اُن کے لیے کھیل کود‘ تفریح اور ہلکی پھلکی ورزشوں کا اہتمام بھی فرمایا۔
مسجد نبوی میں صُفَّہ کی تعمیر: مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے آپؐنے مسجد نبوی تعمیر فرمائی اور اس کے اندر ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی۔ یہ درسگاہ چبوترے کی صورت میں تھی۔ چبوترے کو عربی زبان میں صُفَّہ کہا جاتا ہے۔ لہٰذا اسی مناسبت سے اس درسگاہ کا نام صُفَّہ پڑگیا۔ مشہور محقق ڈاکٹرحمید اللہ نے اسے اقامتی درسگاہ Residential university کا نام دیا ہے۔ اس درسگاہ صُفَّہ میں عقائد‘ شریعت اور اخلاق کی تعلیم دی جاتی تھی اور طلبہ دنیاوی تعلقات سے آزاد ہو کر زہد و عبادت اور خدمتِ علم میں مصروف رہتے تھے۔
جب صُفَّہ میں طلبہ کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا تو آپ نے لوگوں کو اپنے اپنے محلوں میں مساجد کی تعمیر اور اُن سے مُلحق درسگاہوں کی بھی اجازت دے دی ۔ آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مختلف قبائل نے مساجد اور درسگاہوں کی بڑے پیمانے پر تعمیر شروع کردی۔ ایک روایت کے مطابق ۹ اور ایک روایت کے مطابق ۲۰ مساجد آپ کے زمانے میں موجود تھیں۔ صُفَّہ کے طلبہ کو قرآن اور تجوید قرآن سکھائی جاتی تھی ۔ ایک شعبہ باقاعدہ حفظِ قرآن کا بھی تھا ۔ آپ کے اقوال و ارشادات کی تعلیم ہر وقت درسگاہ میں دی جاتی تھی۔
مخصوص نصابی سرگرمیاں: مخصوص نصابی سرگرمیوں کے تحت مسلمانوں کے لیے قرآن و حدیث کی تعلیم ‘تجوید القرآن‘ علم فقہ‘ علم ہیئت اور علم الانساب سیکھنے لازم تھے۔ اسلامی ریاست کے سفارتی امور نمٹانے کے لیے حضرت زیدؓ و دیگر صحابہ کو آپ نے غیر ملکی زبانیں سیکھنے کا حکم دیا ۔
خوش نویسی اور املانویسی کو مسلمانوں کے نصاب میں شامل کرکے اس فن کو بڑی اہمیت دی گئی۔ حضرت سعیدؓ بن العاص بڑے خوش نویس تھے۔ علم کے مختلف میدانوں میں بعض صحابہ کرام نے کمال حاصل کیا۔ آپ نے نصاب تعلیم کو لچکدار بنایا تھا جس قسم کے حالات جس وقت بھی تقاضوں کے ساتھ آئے تھے ان کے مطابق ان کے حل تلاش کرنے کا طریقہ کار وضع کر لیا جاتا تھا۔
معلم انسانیت محمدﷺ نے شعبہ تعلیم کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے اور تعلیم سب تک پہچانے کے لیے تعلیمی افسران Education officers کا تقرر فرمایا۔ حضرت سعیدؓ بن العاص کو مدینہ کا انسپکٹر جنرل تعلیمات مقرر فرمایا۔ شعبہ تعلیم میں جب بتدریج اضافہ ہوتا گیا تو نبیؐنے مزید افسرانِ تعلیم کا تقرر فرمایا۔ جن میں حضرت عبادہؓ بن صامت قابل ذکر ہیں۔ ساری ریاست کے تعلیمی نظام کی نگرانی آپ بذاتِ خود فرماتے تھے۔ ریاست مدینہ کے علاوہ بیرون ریاستوں میں بھی بالخصوص یمن میں آپ نے صدر ناظر تعلیمات مقرر کیے تھے۔
معاون نصابی سرگرمیاں :آپ نے نظری اور کتابی تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی اور تفریحی تعلیم کا انتظام بھی فرمایا۔ اس طرح آپؐنے جدید تصورِ تعلیم کے مطابق ذہنی و جسمانی تعلیم کا تصور دیا۔ آپؐنے جسمانی تعلیم پر زور دیتے ہوئے فرمایا ’’بے شک تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے‘‘۔ آپ ؐنے بہت سی ہم نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جیسے ہلکا پھلکا مزاح‘ قصے کہانیاں وغیرہ بیان کرنا، اچھی گفتگو کا مَلکہ پیدا کرنا، ذوقِ ادب پیدا کرنے کے لیے مسجد نبوی میں شعری و ادبی مجالس کا انعقاد کیا جانا، جسمانی پھرتی اور مضبوطی کے لیے دوڑ کے مقابلے جس میں آپؐ بھی شریک رہتے۔ المصارعت Wrestling آپؐ کا پسندیدہ کھیل تھا۔ کشتیوں کے مقابلے کرواتے اور آپ خود بھی اس میں حصہ لیتے ۔ آپؐ نے فرمایا ’’اپنی اولاد کو گھڑ سواری اور تیر اندازی سکھاو‘‘
طریقہ ہائے تعلیم : تعلیم و تدریس کے عمل میں طریقِ تعلیم کو خاصی اہمیت ہے۔ آپ کی تعلیمات ہمہ گیر نوعیت کی ہیں۔ تعلیم کو موثر اور سہل بنانے کے لیے آپؐنے جو طریقہ کار آج سے دیڑھ ہزار سال پہلے اپنایا تھا آج کی جدید دنیا بھی تعلیم کے اُسی طریقہ کار کو اپنائے ہوئے ہے۔ آئیے اس پر ایک نظر ڈالیں ۔ (۱) تعلیمی نفسیات (۲)بات چیت کا طریقہ (۳)خطابت یا تقریری طریقہ Lecture Method (۴) سوال و جواب کا طریقہ Question answers method وغیرہ طریقے آج بھی رائج ہیں۔ ماہرین Experts کی تیاری :آپ نے جہاں عمومی تعلیم کی جدوجہد فرمائی وہیں صحابہ میں ماہرین کی ٹیم بھی تیار کردی ۔ تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ شریعت‘ دعوت‘ سفارت‘ سیاست‘ وراثت اور جنگی ماہرین کے ساتھ ساتھ خطابت‘ کتابت اور شعر و ادب کے ماہرین آپؐنے دنیا کو دیے۔
نصابِ تعلیم کی ان چند مخصوص سرگرمیوں سے قطع نظر رسولؐاللہ کی صحبت اور روز مرّہ کا پاکیزہ ماحول ایک درس گاہ کی مانند تھا اور اس کی جامعیت اور وسعت کا کمال یہ تھا کہ اس میں داخلہ کے لیے بلا امتیازِ رنگ و نسل ملک و وطن اور زبان ولہجہ کا سوال نہ تھا بلکہ وہ دنیا کے تمام خانوادوں، تمام قوموں، تمام ملکوں اور تمام زبانوں کے لیے عام تھی۔ درس گاہ محمدی ؐکے جو دُور رس نتائج برآمد ہوئے اُن سے دنیا آگاہ ہے۔ رسول ؐاللہ کے فیضانِ نظر اور آپؐ کے مکتب کی کرامت یہ تھی کہ اس میں زندگی کے ہر شعبہ میں ایسے نابغہ روز گار اشخاص تربیت یافتہ ہوئے جنہوں نے دنیا کی تقدیر کو بدل ڈالا۔ سید سلیمان ندوی کے الفاظ میں ’’عقلائے روز گار اور اسرارِ فطرت کے محرم دنیا کے جہانباں اور ملکوں کے فرمانروا اس درس گاہ سے تعلیم پاکر نکلے ہیں۔ ابوبکر صدیقؓ ہیں عمرؓفاروق ہیں عثمانِؓ غنی ہیں علیؓ المرتضیٰ ہیں اور معاویہؓ بن ابی سفیان ہیں جنہوں نے مشرق و مغرب تک افریقہ سے ہندوستان کی سرحد تک فرمانراوئی کی‘‘ دوسری طرف خالدؓبن ولید سعدؓ بن ابی وقاص ابو عبیدہؓ بن جراح عمروؓ بن العاص جیسے نامور فاتح اور سپہ سالار ہیں جنہوں نے چند سالوں میں مشرق و مغرب کی عظیم عالمی سلطنتوں کے مرقع اُلٹ دیے۔ جہاندیدہ، بہادر اور اہل الرائی مدبرین کی جماعت مین حضرت طلحہؓ حضرت زبیرؓ حضرت مغیرہؓ حضرت مقدادؓ سعدبن معاذؓ سعدؓ بن عبادہ اسیدؓبن حضیر اسدؓ بن زرارہ اور حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف جیسے نابغہ روزگار اشخاص شامل ہیں۔توسیعِ تعلیم و استحکام کے منفرد منصوبے : مدینہ منورہ میں آپؐ جو تعلیمی نظام رائج فرمایا تھا وہ مدینہ کی ضروریات کے لیے کافی تھا لیکن مملکت اسلامیہ کی روز افزاں وسعت کے پیش نظریہ ناگزیر ہو گیا کہ ایسا وسیع نظامِ تعلیم قائم ہو جو دس لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی ریاست کی ضرورتوں کو پورا کرسکے ۔
اس کے لیے آپ نے مندرجہ ذیل دو طریقے اختیار کیے۔
(۱) قلیل المعیاد منصوبہ (۲) طویل المعیاد منصوبہ :قلیل المعیاد منصوبے میں short term courses چلائے جاتے تھے۔ یعنی لوگ چند دن یا چند مہینے مدینہ میں رہ کر عقائد و فقہ کے ضروری مسائل سیکھ لیں اور اپنے اپنے مقام کے لوگوں کو اسکی تعلیم دیں۔ طویل المعیاد منصوبے میں Long term courses ہوا کرتے تھے۔ اس کے لیے طلبہ درسگاہ صُفَّہ میں با ضابطہ داخل ہوتے تھے جہاں وہ حصولِ تعلیم اور اس میں تخصص Specialisation کے لیے برسوں لگاتے تھے۔
آپؐ کی موثر و قابلِ عمل منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے نتائج تھوڑے ہی عرصے میں محسوس ہونے لگے اور پہلی صدی ہجری میں ہی مسلمانوں کو علم کے عالمی امام بننے کا عظیم شرف حاصل ہوگیا ۔ برطانیہ کا ایک مورخ رابرٹ بریفالٹ Robert Brefalt آپؐ کی تعلیمی کارناموں سے متاثر ہوکر لکھتا ہے کہ ’’اس امر کی نہ کوئی مثال پہلے موجود تھی اور نہ اب تک ہے کہ کسی وسیع سلطنت کے طول و عرض میں حکمران طبقے اتنے بڑے پیمانے پر حصول علم کی مجنونانہ خواہش سے سرشار ہوگئے ہوں۔
خلفاء اور امراء اپنے محلوں سے نکل کر کتب خانوں اور درسگاہوں کی طرف چل پڑے ہوں‘ اہلِ علم کے خطبات کو سنتے اور مسائل ریاضی کو سیکھنے میں ہر گز کوتاہی نہ کرتے ہوں۔ مخطوطات اور مسودات سے لدے کارواں بخارا سے دجلہ تک رواں دواں رہتے۔ کتابوں اور معلموں کے حصول کی خاطر قسطنطینہ اور ہندوستان کو خاص سفیر بھیجے جاتے۔ کسی سلطنت سے تاوانِ جنگ حاصل کرنے کے لیے ممتاز ریاضی داں کے تصانیف حاصل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا۔ اہلِ علم کو بِلا امتیاز نسل و مذہب دوسرے لوگوں پر فوقیت دی جاتی تھی‘‘
آپ کی تعلیمی جد وجہد سے مسلمانوں نے بھر پور استفادہ کیا جسکا یہ اثر دنیا نے دیکھا کہ مسلمانوں نے نہ صرف مروجہ علوم کی تحصیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ کئی نئے نئے علوم بھی دریافت کیے جس سے سارا عالم بالخصوص اہلِ یورپ نے بہت فائدہ اُٹھایا اور مسلمانوں کی ان گراں قدر علمی خدمات کا اثر کئی صدیوں تک سایہ رحمت بن کر سارے عالم پر چھایا رہا۔

آپؐ نے حصولِ علم اشاعتِ علم ترسیلِ علم اور استحکامِ تعلیم کے لیے وہ مثالی جد وجہد کی کہ انتہائی کم عرصےمیں ریاست مدینہ کی خواندگی کی شرح میں اس قدراضافہ ہوگیاکہ عرب کے جاہلی معاشرے سے تعلق رکھنے والے علم کے میدان میں ساری دنیا پر چھا گئے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020