حضرت امیرؔ مینائی

سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں رکھنے والے شاعر

احتشام الحق آفاقی ،رامپور

 

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
مذکورہ بالا شہرہ آفاق و زبان زدِ خاص و عام شعر کے خالق امیرؔ مینائی کو اردو کے قادر الکلام شعراء کی صفوں میں فوقیت حاصل ہے۔ ان کی شاعرانہ خصوصیات دوسرے شعرا کے بالمقابل بالا و برتر ہے۔ان کا تعلق انیسویں صدی کے دو اہم ترین ادبی مراکز دبستان لکھنؤ اور دبستان رامپور سے گہرا رہاہے۔ امیرمینائی کا اصل نام امیر احمد ہے۔ ان کی پیدائش ۲۱ فروری ۱۸۲۸ء کو دبستان لکھنؤ میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام مولوی کرم احمد تھا۔ان کے دادا مشہور بزرگ مخدوم شاہ مینا کے حقیقی بھائی تھے۔ مخدوم شاہ مینا کا مزار آج بھی چوک لکھنؤ پرمرجع خلائق ہے۔ امیر احمد اسی مناسبت اپنے آپ کو مینائی لکھتے تھے۔ انہوں نے شروع میں اپنے بڑے بھائی حافظ عنایت حسین اور اپنے والد سے تعلیم پائی اور اس کے بعد مفتی سعد اللہ مرادآبادی سے فارسی عربی اور ادب میں مہارت حاصل کی۔انہوں نے علمائے فرنگی محل سے بھی فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کی لیکن ان کا اپنا کہنا ہے کہ علوم متداولہ کی تکمیل ان کی اپنی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ ان کو شاعری کا شوق بچپن سے تھا پندرہ سال کی عمر میں منشی مظفر علی اسیرؔ کے شاگرد ہو گئے اور ان سے اصلاح لیتے رہے۔
امیر مینائی طبعاً شریف النفس، پاکباز، عبادت گزار اور متقی انسان تھے۔درگاہ صابریہ کے سجادہ نشین امیر شاہ صاحب سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل تھا۔مزاج میں توکل،فقیری اور استغناء تھاجس نے تواضع اورانکساری کی صفات کو چمکا دیا تھا۔اس کے ساتھ ہی بیباکی اور خود داری،دوست نوازی، شفقت اور عیب پوشی میں بھی بے مثال تھے۔ معاصر شعراء بالخصوص داغ سے دوستانہ مراسم تھے لیکن کسی قدر چشمک اور رقابت موجود تھی۔خودداری سے لبریز ان کا یہ شعر دیکھیں:
کسی رئیس کی محفل کا ذکر ہی کیا ہے
خدا کے گھر بھی نہ جائیں گے بن بلائے ہوئے
امیر مینائی نے جس دور میں آنکھیں کھولیں وہ ہندوستانی مسلمانوں و سلطنتوں کے زوال کا دور تھا۔ مسلم حکمرانوں کے سلطنت کا زوال زوروں پر تھا۔ ایسے میں جہاں عام مسلمانوں اور ہندوستانیوں کی زندگی متاثر ہوئی تھی وہیں درباروں سے وابستہ شعرا کی زندگی بھی در برہم بلکہ اجیرن بن کر رہ گئی تھی۔ ایک دبستان سے دوسرے دبستان کی خاک چھاننے پر مجبور تھے۔ ایسے دگرگوں حالات سے امیر مینائی کو بھی گزرنا پڑا۔ امیر مینائی سب سے پہلے حکمراں اودھ نواب واجد علی شاہ کے دربار سے وابستہ ہوئے جہاں وہ ان کے بچوں کو پڑھاتے تھے، جس کے صلہ میں ان کو دو سو روپے ماہانہ دربار سے مل جاتے تھے۔ ١٨۵۶ء میں انگریزوں نے جب اودھ کی سلطنت پر قبضہ کرکے مسلمانوں کی ملکیت و مملکت کو نقصان پہنچایا اور ایک سال کے بعد غدر کا واقعہ پیش آیا اس میں امیر مینائی کے گھر سمیت ان کا ایک مجموعہ کلام بھی ضائع ہوگیا۔
سلطنت اودھ کے خاتمہ کے بعد امیر مینائی گوشہ نشین ہوکر رہ گئے۔پھر انہوں نے میر پور کا راستہ اختیار کیا جہاں ان کے خسر شیخ وحید الدین ڈپٹی کلکٹر کی سفارش پر رامپور کے حکمراں نواب یوسف علی ناظم نے مفتی شرع مقرر کیا۔ وہ مسلسل کئی سالوں تک اسی سلطنت سے وابستہ رہے۔ ۱۸۶۵ء میں جب نواب کلب علی خاں مسند نشین ہوئے تو مصاحبت کی ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی جہاں ان کو ۲۱۶ روپے ماہانہ وظیفہ ملتا رہا اور دیگر سہولیات بھی میسر ہوتی رہیں۔ بعد ازاں داغ کی کوششوں سے نظام حیدر آباد سے امیر کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے نظام کو مدحیہ قصیدہ سنایا۔ نظام نے مدحیہ قصیدہ سن کر ان کے تبحر علمی و شاعری کا برملا اعتراف کرتے ہوئے انہیں حیدر آباد آنے کی دعوت دی۔
امیر مینائی نے جہاں اصناف شاعری غزل، رباعی، مرثیہ، قصیدہ، مسدس، مخمس پر بھر پور طبع آزمائی کی وہیں نعتیہ شاعری میں بھی زبردست مقام حاصل کیا۔ انہوں نے نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ محبت رسول خدا کا بھر پور ثبوت فراہم کیا۔ ان کی نعتیہ کلام میں عشق رسول کا جذبہ بلند نظر آتا ہے۔ ان کے نعتیہ اشعار دیکھیں کن جذبات سے مملو ہیں:
جب سے دل دیوانہ محبوب خدا کا ہوگیا
مصطفی اس کے ہوئے وہ مصطفی کا ہوگیا
اول بعثت میں ختم الانبیا پایا لقب
رتبہ حاصل ابتدا میں انتہا کا ہوگیا
امیر مینائی اپنے معاصرین میں یکتاو یگانہ تھے۔ غزل کی نازک خیالی کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے اشعار کہتے ہیں۔ان کی غزلوں میں عشق حقیقی کا جلوہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کے بارے میں حکیم عبد الحئی کہتے ہیں:’’وہ مسلم الثبوت استاد تھے،کلام کا زور مضمون کی نزاکت سے دست و گریباں ہے،بندش کی چستی اور تراکیب کی درستی سے لفظوں کی خوبصورتی کوپہلو بہ پہلو جوڑتے ہیں۔نازک خیالات اور بلند مضامین اس طرح پر باندھتے ہیں باریک نقاشی پر فصاحت آئینہ کا کام دیتی ہے۔‘‘ (گل رعنا)
رام بابو سکسینہ کی رائے کے مطابق : ’’امیر کی غزل میں داغ کی سی برجستگی،شوخی اور صفائی نہیں لیکن پختگی، زبان دانی، موزونی الفاظ اور رنگینیٔ مضامین کے اعتبار سے ان کی غزل اک گلدستہ ہوتی ہے۔ اپنے ہمعصر داغ کے مقابلہ میں ان کی شخصیت زیادہ پیچیدہ اور دائرہ عمل زیادہ وسیع ہے۔ ان کے بہت سے شعر زباں زد خاص و عام ہیں۔‘‘ امیر مینائی کے چند اشعار کا انتخاب ملاحظہ ہوں:
کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے
تم کو آتا ہے پیار پر غصہ
مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے
الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
امیرؔ اب ہچکیاں آنے لگی ہیں
کہیں میں یاد فرمایا گیا ہوں
اللہ رے سادگی انہیں اتنی نہیں خبر
میت پہ آ کے پوچھتے ہیں ان کو کیا ہوا
کون اٹھائے گا تمہاری یہ جفا میرے بعد
یاد آئے گی بہت میری وفا میرے بعد
نظام حیدر آباد کی دعوت پر آپ سنہ ۱۹۰۰ء میں بھوپال کے راستے حیدر آباد تشریف لے گئے جہاں نظام حیدر آباد نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ لیکن اسی سال بیماری میں اس قدر مبتلا ہوئے کہ ۱۳؍ اکتوبر سنہ ۱۹۰۰ء کو جان جانِ آفریں کے سپرد کی اور ریاست حیدر آباد تلنگانہ میں مدفون ہوئے۔
***

امیر مینائی نے جہاں اصناف شاعری غزل، رباعی، مرثیہ، قصیدہ، مسدس، مخمس پر بھر پور طبع آزمائی کی وہیں نعتیہ شاعری میں بھی زبردست مقام حاصل کیا۔ انہوں نے نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ محبت رسول خدا کا بھر پور ثبوت فراہم کیا۔ ان کی نعتیہ کلام میں عشق رسول کا جذبہ بلند نظر آتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020