حالات سے ہم نے کیا سیکھا؟

حسن سلوک کے ذریعہ زندگی کا ادھوراپن دور کیجئے

ضحی ملاحت

 

کئی دنوں سے بار بار قلم ہاتھ میں اٹھایا لیکن الفاظ کاغذ پر آنے سے پہلے آپس میں گڈمڈ ہو جاتے۔ ہر مرتبہ کسی قریبی یا تحریکی فرد کی رحلت کی خبر دل کے زخموں کو تازہ کر دیتی‌ اور ہاتھ جیسے لکھنے سے انکار کر دیتے۔ اپنوں کو کھونے کا درد شاید ہر انسان کے لیے مختلف ہو لیکن ہوتا تو درد ہی ہے۔ اس مختصر اور بے وقعت زندگی کی حقیقت واضح ہونے کے باوجود مسلسل ملنے والی اموات کی خبروں نے قلب و ذہن کو بے چین کر دیا ہے۔
ایسے میں نجانے کیوں دل مسلسل ایک سوال کرتا رہا، ایک خیال ذہن میں آتا رہا کہ آخر یہ حالات ہمیں کیا سکھانا چاہتے ہیں اور خدا کی طرف سے آئی اس آزمائش میں ہمارے لیے کونسا سبق پوشیدہ ہے؟
اسی کے بہت سارے جوابات ذہن میں آئے، خدا سے دوری، باطل کی اندھی پیروی، دنیا پرستی، آخرت سے بے خوفی اور نہ جانے کیا کیا۔
یقیناً یہ ساری وجوہات ہیں جن پر غور کرنے سے ایک بات سمجھ آجاتی ہے کہ یہ حالات ہمارے سوئے ہوئے ایمان کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ لیکن ان جوابات پر بھی دل مطمئن نہ ہو تو وہ اپنا سوال تو دوہرائے گا ہی.!!
اور پھر ایک خیال آیا کہ شاید ایک اہم سبق جو ہمیں سیکھنا ہے وہ ہے لوگوں سے حسنِ سلوک!!
حسنِ سلوک کیا ہے؟
اچھا برتاؤ، بہترین رویہ!! ہر اس انسان کے ساتھ جس سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے۔
اس جواب پر دل کا اطمینان بحال ہوا کہ شاید یہی ہے وہ اہم سبق ہے۔
حالات پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی گئی تو واقعی محسوس ہوا کہ یہ صحیح ہے۔ انسان کو انسان کا، رشتوں کا، قربت کا اور اپنائیت کا احساس دلانے اور قدر کرانے کے لیے یہ حالات بنے ہیں۔
خود غرضی اور مادہ پرستی کا شکار انسانوں کو یہ یاد دلانے کے لیے کہ وہ ایسی عظیم امت کا حصہ ہیں جو محض حقوق اللہ کی ادائیگی پر سرخرو نہیں ہوسکتے، جو صرف خدا کی عبادتوں کے سہارے کامیاب نہیں ہو سکتے بلکہ ان پر ایک حق اور بھی ہے، جسے ہم میں سے کوئی بھی شاید ادا نہیں کر پا رہا ہے یا کر بھی رہا ہے تو بس اپنے مفاد کی حد تک۔
وہ ہے خدا کے بندوں کا حق!
اللہ تعالیٰ کو اگر محض ہماری عبادتوں اور ریاضتوں سے سروکار ہوتا تو وہ ہمیں ایک مستحکم خاندانی نظام کا حصہ نہ بناتا، ہم پر معاشرے کے دیگر افراد اور تعلقات کا بوجھ بھی نہیں ڈالتا اور نہ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے رحم، فکر اور درد کا کوئی جذبہ رکھتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں اسی کا حصہ بنایا ہے اور مختلف طریقوں سے ان کے حقوق ہم پر رکھے ہیں اور انہیں ادا کرنے کا بار بار حکم دیا ہے۔ سیرت کا مطالعہ کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام دراصل دلوں کو جوڑنے اور محبت اور درد کے اٹوٹ رشتے قائم کرنے کا نام ہے۔ ایسے مضبوط رشتے جو ایک دوسرے کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کرنا چاہتے ہوں، جو اپنی زندگی کا مقصد ہی کسی اور کی زندگی میں روشنی لانا اور تاریکیوں کو ختم کرنا سمجھتے ہوں، پھر چاہے اس کے لیے انہیں اپنا مال قربان کرنا پڑے یا اپنی جان۔
اور ایسے مضبوط رشتے بنتے ہیں ایمان کی طاقت سے، ایسا کامل ایمان ‌جو حسنِ سلوک کا قیمتی سرمایہ ہمیں دیتا ہے۔
اللہ تعالی سورہ نساء آیت نمبر ۳۶ میں فرماتا ہے "اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو کہ اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے ”
لیکن جب نظر موجودہ حالات پر پڑتی ہے تو لگتا ہے جیسے اس‌ آیت کا صرف ایک حصہ انسان اپنی زندگی میں لے کر بیٹھ گیا ہے اور وہ ہے اللہ کی عبادت اور بندگی اور اس کے بعد کا پیغام نظر انداز کر چکا ہے۔غور کریں تو اس آیت میں موجود پیغام اپنے آپ میں کامل ہے اور اسلام کی مکمل ترجمانی کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں حکم دے رہا ہے کہ اسی کی بندگی اختیار کی جائے بغیر کسی شراکت کے اور پھر اگلا حکم ہے قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں، پڑوسی رشتے داروں، اجنبیوں، یہاں تک کہ پہلو کے ساتھی یعنی ایسے شخص کے ساتھ جس سے محض کچھ وقت کا واسطہ پڑے حسن سلوک اور نیک برتاؤ کا۔ اور پھر فرمایا کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ میں مغرور ہو، فخر اور بڑائی جتاتا ہو اور اس پر مطمئن ہو پھر چاہے اس کی ذات سے کسی کو نقصان پہنچے یا وہ بندوں کے حقوق ادا نہ کر ے۔
ایسا ہی ایک ذکر سورۃ البقرہ آیت ۱۷۷ میں آیا ہے ’’نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰة دے‘‘۔
یہاں اللہ تعالی نے ایمان بالغیب کے بعد فوراً بندوں پر مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور پھر اس کے بعد نماز اور زکوٰۃ کا۔
سبحان اللہ کیسے واضح احکام ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کو دیے ہیں۔ اللہ تعالی یہ صاف بتا رہا ہے کہ ایمان لانے کے بعد تمہارا بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک، ان پر مال خرچ کرنا اور ان کے حقوق ادا کرنا نیکی ہے اور پھر نماز اور زکوٰۃ کا ذکر آیا۔
اس بات کو سمجھنے کے بعد دل پھر افسردہ ہو گیا۔ کیونکہ ہم انسان تو ان حقوق کو ادا کرنے سے جان چھڑاتے ہیں۔ سال میں ایک دفعہ زکوٰۃ دے کر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں، سال میں دو مرتبہ رشتے داروں سے بات کرنے یا مل لینے کو فرض ادا کر دینا سمجھتے ہیں۔
پڑوسی تو ہمارے لیے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے اور بہت ممکن ہے کہ ہم اس بات سے بھی ناواقف ہوں کہ ہمارے ہمسائے ہیں کون!!
مساکین کی پہچان ہمیں ہے ہی نہیں یا ہم ایسے لوگوں کے بارے میں اپنی منفی سوچ کی وجہ سے غلط آراء قائم کر لیتے ہیں۔ وقتی طور پر کسی مسافر یا ساتھی کو تو ہم سلام بھی کرنا ضروری نہیں سمجھتے تو حسنِ سلوک کا خیال بھی کیونکر آئے؟
ہم اپنی زندگیوں میں مصروف اور مطمئن تھے۔ اپنے اہل وعیال کی خدمت کر کے یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم حق ادا کر رہے ہیں۔ ہمارا سارا وقت اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے میں صرف ہو رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مہمان کی آمد ہمارے لیے اپنے روٹین کو ڈسٹرب کرنے جیسا تھا۔ پڑوسی یا رشتہ دار کے گھر سے خوشی یا غم کی خبر پر مبارکبادی یا افسوس کرنے کو ہم کافی سمجھنے لگے تھے۔ نہ جانے کتنے یتیموں کا حق ہمارے سامنے مارا جاتا‌رہا اور ہم صرف یہ کہتے کہ آخر لوگوں کو کیا ہو گیا؟
ایک دوسرے سے ملنا جلنا تھا بھی تو جذبات سے عاری ایک ایسی ملاقات ہوتی جو اپنی بڑائی یا مصروفیات کا مختصر سا بیان ہوتی۔ کسی کے دکھ درد سن بھی لیتے تو فوراً خود کے مسائل سے موازنہ شروع کر دیتے اور نہ جانے کیا کیا!! ان عوامل کو اگر لکھنا شروع کیا جائے تو شاید قلم رکنے کا نام ہی نہ لے۔
اور پھر اچانک حالات نے کروٹ لی۔ لوگ ایک دوسرے سے پہلے دور ہوئے اور پھر دھیرے دھیرے اپنوں کو کھونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے کبھی کسی نے اپنوں کو کھویا نہ ہو لیکن ہمارا دل گواہ ہے کہ اس وقت کے حالات اور اب کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اموات کا سلسلہ شروع ہوا تو اب تک تھم نہ سکا۔ کئی لوگوں نے اپنے والدین کھو دیے، کسی نے ایک کو تو کسی نے دونوں کو، کسی نے اپنی اولاد کو کھو دیا، تو کوئی اپنے شریک حیات سے محروم ہو گیا۔ تقریباً ہر خاندان میں خلا پیدا ہو چکا ہے۔
اور جانا بھی ایسا کہ کئی لوگوں کو اپنوں کا آخری دیدار تک نصیب نہیں ہوا، کئی لوگ اپنوں کی عزت و احترام سے تدفین بھی نہ کر سکے، کئی لوگ اپنوں سے گلے لگ کر غم بھی نہ بانٹ سکے، تو کہیں کوئی غم کو محسوس کرنے سے پہلے ہی خود بستر سے جا لگے اور پھر لوگ ترسنے لگے اپنوں کے لیے، دوستوں کے لیے قربت کے لیے، ان کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے، ان کے ساتھ اپنا دکھ بانٹنے کے لیے، لیکن یہ کب آسان تھا رشتوں میں دوریاں بھی تو خود کی بنائی ہوئی تھیں۔
رشتوں کے شیرازے بکھر گئے۔ ہر کسی کے دل افسوس اور ملال کے جذبات سے بھر گئے، ادھوری خواہشات نے جگہ بنالی، بے انتہا درد اور خالی پن زندگی میں گھر کر گیا اور اب سب اسی کے ساتھ جی رہے ہیں خدا سے دعا کرتے ہوئے کہ وہ حالات کو بدل دے۔
لیکن حیرت یہ دیکھ کر ہوتی ہے کہ اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی انسان کا رویہ نہیں بدلا۔ ممکن ہے کہ ایک قلیل تعداد ہو جس نے حالات سے سبق لیا ہو لیکن اب بھی کثیر تعداد ایسی ہے جہاں رشتوں میں دوریاں ہے، لوگ ایک دوسرے کو مفاد ہی کی نظر سے دیکھتے ہیں، دکھ درد میں ساتھ دینے کے بجائے احتیاط کا نام لے کر اپنوں سے دور ہو رہے ہیں، پڑوسی اور مسکین کا خیال اب بھی کئی لوگوں کو نہیں آرہا ہے، گھر میں موجود لوگ معمولی باتوں پر ایک دوسرے کے احساسات کا قتل کر رہے ہیں، دوست احباب ایک دوسرے کی زندگی میں مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے شکایت اور اعتراضات میں مصروف ہیں اور تعلقات کو مفاد کی بھٹی میں جھونک رہے ہیں، خون کے رشتے اب بھی مال و‌ متاع کی لڑائی میں مصروف ہیں‌۔ غرض یہ کہ تیزی سے زوال کی طرف جاتی اس دنیا کو دیکھنے کے بعد بھی لوگ اسی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اس دنیا کو حاصل کرنے کی دوڑ میں اپنوں کو نظر انداز کر رہے ہیں، ان کے حقوق کو دبا رہے ہیں۔ اس بات کو بھول رہے ہیں کہ انسان کی فطرت اللہ تعالیٰ نے کسی روبوٹ کی طرح نہیں بنائی کہ بغیر کچھ سوچے سمجھے بس عمل کیے جاؤ اور سمجھ لو کہ کام ہو گیا، کچھ فرائض ادا کر لو اور مطمئن ہو جاؤ کہ حق ادا‌ ہو گیا۔نہیں بلکہ خدا نے انسان کو جذبات، احساسات اور حکمت کی وہ طاقت عطا کی ہے جس کے بل پر وہ بڑے بڑے معرکے سر کرسکتا ہے۔ لیکن انسان اس طاقت کو خود روندتا جارہا ہے اس غلط فہمی میں کہ وہ اس طرح کامیابی حاصل کر لے گا۔
بخاری کی ایک حدیث ہے ’’نبی ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص جو بدلے میں رشتہ داری کا لحاظ کرتا ہے وہ مکمل درجے کا صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے۔ کمال درجے کی صلہ رحمی یہ ہے کہ جب دوسرے رشتہ دار اس کے ساتھ تعلق توڑ لیں تو یہ ان کے ساتھ اپنا تعلق جوڑے اور ان کا حق دے۔
اب بھی وقت ہے اگر ہم سوچیں، سمجھیں اور محسوس کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ جنہیں ہم کھو چکے ہیں ان سے ہم ان شاءاللہ جنت ہی میں ملیں گے۔ ان کے حقوق کی ادائیگی میں کمی کا افسوس اور ادھوری خواہشات کو دل میں جگہ دے کر ہمیں یہ سیکھنا ہے کہ جو قرابت دار اور رشتے ہمارے درمیان موجود ہیں ان کے ساتھ ہمارا کیا رویہ ہے؟ کیا ہم ان کے ساتھ حسنِ سلوک کر رہے ہیں؟ کیا ہم عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے قرابت داروں کا حق ادا کر رہے ہیں؟ اور اگر نہیں تو آخر ہمیں کس دن کا انتظار ہے؟ کیا اس‌ دن کا جب ان میں سے کوئی خدا کے بلاوے پر چلا جائے اور ہم پھر کفِ افسوس ملتے رہ جائیں!!
ہمیں سمجھنا ہوگا اور وقت رہتے سنبھلنا ہوگا۔ خدا کے بندوں کے حقوق ادا کرنے ہوں گے ورنہ جب ہماری باری آئے گی تو محض حقوق اللہ کو ساتھ لیے ہم کامیابی کی امید لگائے نہیں بیٹھ سکتے جبکہ ہمارے پاس حقوق العباد ادا کرنے کے مواقع تھے لیکن نہیں کر سکے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام کو حقوق العباد ادا کرنے والا بنائے اور ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی عطا کرے۔ آمین
***

اموات کا سلسلہ شروع ہوا تو اب تک تھم نہ سکا۔ کئی لوگوں نے اپنے والدین کھو دیے، کسی نے ایک کو تو کسی نے دونوں کو، کسی نے اپنی اولاد کو کھو دیا، تو کوئی اپنے شریک حیات سے محروم ہو گیا۔ تقریباً ہر خاندان میں خلا پیدا ہو چکا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021