جی ایس ٹی میں اضافہحکومت کی بے حسی کا ثبوت
عام آدمی کا جینا دوبھر اور کارپوریٹس کو ہر طرح کی سہولتیں
از: زعیم الدین احمد، حیدرآباد
حکومت نے حال ہی میں جی ایس ٹی میں اضافہ کیا ہے اور دیگر وہ اشیاء جو جی ایس ٹی کے دائرے میں شامل نہیں تھیں انہیں بھی اب اس میں شامل کردیا ہے۔ حکومت کے اس اضافے کو کسی صورت مبنی واجبی نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ پہلے سے عوام مہنگائی کی بد ترین مار جھیل رہیے ہیں اور اس پر مزید جی ایس ٹی میں اضافہ نے ان کا جینا دو بھر کردیا ہے۔ جی ایس ٹی میں بے تحاشہ اضافے نے جہاں غریب عوام کا جینا مشکل کردیا ہے وہیں متوسط طبقے پر بھی یہ اضافہ بجلی بن کر گرا ہے۔ اس حکومت کا یہ خاصہ رہا ہے کہ وہ عوام کو وقفہ وقفہ سے بجلی کی طرح جھٹکے دیتی رہتی ہے، کبھی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے تو کبھی خوردونوش کی قیمتوں اضافے کرکے۔ اس کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ عوام کو سکون سے نہ رہنے دیا جائے، انہیں ایسی ہی چیزوں میں الجھا کر رکھا جائے تاکہ وہ کسی دوسری چیز کے بارے میں سوچ ہی نہ سکیں۔
جی ایس ٹی میں اضافہ سے حکومت کے پاس پیسہ ضرور جمع ہو گا لیکن عوام پر اس کا بوجھ بڑھے گا۔ روپیہ کی قدر گھٹنے سے مہنگائی آسمان جو چھو رہی ہے، اس صورت حال میں ٹیکس میں اضافہ کرنا حکومت کی سنگ دلی کو ظاہر کرتا ہے، یہ کوئی نہیں کہتا کہ ٹیکس عائد نہیں کرنا چاہیے، اگر ٹیکس عائد نہیں کریں گے تو حکومت کے پا س پیسہ نہیں آئے گا اور کسی ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکے گا، ٹیکس عائد ہوں لیکن وہ عوام کی بنیادی ضروریات والی اشیاء پر عائد نہ ہوں اور اگر ضروری ہو تو بہت معمولی ٹیکس عائد کیا جائے۔ اس کے برعکس ٹیکس اگر پرتعیش چیزوں جیسے کار، ہوٹل کا کھانا، سیاحت وغیرہ پر ہو تو مضائقہ نہیں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک اشیاء خوردونوش پر ٹیکس عائد نہیں ہوئے اگر ہوئے تو بہت کم لیکن اب جی ایس ٹی کے ذریعہ حکومت نے اشیاء خوردونوش پر بھی ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ کہ اشیاء خوردونوش تو چھوڑیے مرنے کے بعد بعد مردے پر بھی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ اس اضافے کے پیچھے حکومت کا کوئی منصوبہ ہے یا اس نے یونہی ہر چیز پر جی ایس ٹی لگانا طے کر رکھا ہے؟ اگر حکومت نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ جی ایس ٹی سے صرف حکومت کے خزانے بھرنا چاہتی ہے تو بے شک کچھ عرصے کے لیے ایسا کر سکتی ہے لیکن اسے اس کے دور رس نتائج بھی بھگتنا پڑے گا، حکومت اگر عوام کی پریشانیوں کا خیال نہیں رکھ سکتی تو اسے عوام کے غضب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا، اگر وہ یہ سمجھتی ہے کہ ہر وقت مذہبی منافرت پھیلا کر اپنا الو سیدھا کرلے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہوگی، ایک وقت آئے گا کہ جب عوام سڑکوں پر نکلیں گے تو انہیں سر چھپانے کے لیے بھی جگہ نہیں ملے گی، پھر ہمارا ملک بھی سری لنکا جیسا منظر پیش کرے گا۔
حکومت نے جی ایس ٹی میں اضافہ کا کوئی منطقی طریقہ نہیں اپنایا ہے، مثال کے طور اگر کوئی شخص سونا خریدتا ہے تو تین فیصد جی ایس ٹی لگے گا اور اگر وہ ہیرا خریدتا ہے تو اس پر 1.5 فیصد ہی جی ایس ٹی لگے گا، وہیں اگر کوئی شخص بھوک مٹانے کے لیے چاول خریدتا ہے تو اسے 5 فیصد جی ایس ٹی ادا کرنا پڑے گا، یعنی اشیائے ضروریہ پر زیادہ جی ایس ٹی اور اشیائے پرتعیش پر کم جی ایس ٹی؟ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ دودھ اور دہی پر بھی 5 فیصد جی ایس ٹی لگایا گیا ہے اور بعض اشیاء خوردونوش پر تو اس سے بھی زیادہ جی ایس ٹی لگایا گیا ہے۔ سونا چاندی اور ہیرے جواہرات پر کم جی ایس ٹی اور اشیاء ضروریہ پر زیادہ جی ایس ٹی کو کس طرح انصاف پر مبنی کہا جا سکتا ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ حکومت ہر لحاظ سے عوام کے جیبوں پر ڈاکہ ڈالنا چاہتی ہے، وہ عوام کو لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اسی کی مثال بینکوں سے اپنی جمع شدہ رقم چیک کے ذریعے نکالنے پر 18 فیصد جی ایس ٹی کا عائد کرنا ہے۔ اب اپنا پیسہ نکالنے کے لیے ہمیں 18 فیصد جی ایس ٹی دینا ہو گا۔ یہی ہوتے ہیں خانگیانے کے نقصانات، جب سے بینکوں کی نجی کاری ہوئی ہے تب سے نئے نئے ٹیکس عائد ہوتے جا رہے ہیں۔ آخر ہمارے اپنے پیسے بینکوں سے نکالنے کا حکومت سے کیا تعلق؟ ہمارے اپنے پیسے ہیں جب چاہیں رکھیں جب چاہیں نکال لیں، لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ طلباء کی استعمال کی چیزیں قلم، قلم تراش، دوات انک وغیرہ پر بھی 18 فیصد جی ایس ٹی عائد کیا گیا ہے، گھریلو استعمال کی اشیاء چاقو، چھری، چمچے، کانٹے پر بھی 18 فیصد جی ایس ٹی لگایا گیا ہے۔ بھلا بتائیے کہ یہ کس زاویے سے غریب پرور حکومت ہے۔ جی ایس ٹی میں اضافہ کا انداز دیکھ کر ایک کم پڑھا لکھا آدمی بھی بتا سکتا ہے کہ یہ غریب پرور نہیں بلکہ امیر پرور حکومت ہے۔
حکومت ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہونے کی باتیں کرتی ہے، صاف توانائی کلین انرجی کے حصول کی باتیں کرتی ہے لیکن اس کے برعکس شمسی توانائی والے آلات پر 18 فیصد جی ایس ٹی نافذ کرتی ہے۔ قدرتی طور پر اناج کی پیداوار کرنے کی باتیں کرتی ہے اور دوسری طرف قدرتی کھاد پر زائد جی ایس ٹی عائد کیا جاتا ہے، اسی طرح بجلی کی بچت کرنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن ایل ای ڈی بلب پر 18 فیصد جی ایس ٹی لگایا جاتا ہے۔ ہمارا ہدف ماحولیاتی نظام کو درست کرنا ہے لیکن ہمارے اقدامات اس کے برعکس ہیں۔
آخر اتنے بڑے پیمانے پر ٹیکسوں میں اضافے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ حکومت کا کہنا یہ ہے کہ اس اضافے سے حکومت کو آمدنی زیادہ ہوگی، جب کہ ہر ماہ حکومت کو ریکارڈ جی ایس ٹی وصول ہو رہا ہے حالانکہ عوام مہنگائی کی مار جھیل رہے ہیں تو ایسے نازک موقع پر حکومت کا جی ایس ٹی میں بے دریغ اضافہ کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ کیا حکومت کے پاس آمدنی میں اضافے کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے؟ ہیں اور بہت ذرائع ہیں جس سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ہو رہا ہے۔ ممبی اسٹاک ایکسچینج میں شامل کمپنیوں کی سالانہ کل آمدنی 9.3 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سال ان کمپنیوں کی آمدنی میں گزشتہ دس سالوں کی بہ نسبت 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک طرف ان کمپنیوں کی آمدنیوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے نتیجے کھرب پتی افراد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان پر کوئی اضافی ٹیکس عائد نہیں جاتا، اضافہ تو دور کی بات ہے الٹا ان کے قرضوں کو معاف کر دیا جاتا ہے، انہیں اور بھی بہت سی مراعات دی جاتی ہیں۔ 2019 میں حکومت نے کمپنیوں کا دس فیصد ٹیکس معاف کیا تھا، یہ دس فیصد ایک ماہ کی جی ایس ٹی کے برابر تھا۔ اس وقت حکومت کو ایک لاکھ 45 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔
اسی لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ حکومت غریب دشمن ہے اور امیروں کی اور کارپوریٹ کمپنیوں کی پروردہ ہے۔ یہ کارپوریٹس کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرتی ہے، ان کے قرضوں کو معاف کرتی ہے، ان کے ٹیکسوں میں تخفیف کرتی ہے لیکن جب عوام کی بات آتی ہے تو وہ ایک سنگ دل ساہو کار بن جاتی ہے، ان پر نت نئے ٹیکس عائد کرتی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور حکومت کے اس دوغلے پن کا مشاہدہ کریں اور اس غیر منصفانہ تقسیم کو ختم کرنے کے اقدامات کریں۔
***
***
حکومت نے جی ایس ٹی میں اضافہ کا کوئی منطقی طریقہ نہیں اپنایا ہے، مثال کے طور اگر کوئی شخص سونا خریدتا ہے تو تین فیصد جی ایس ٹی لگے گا اور اگر وہ ہیرا خریدتا ہے تو اس پر 1.5 فیصد ہی جی ایس ٹی لگے گا، وہیں اگر کوئی شخص بھوک مٹانے کے لیے چاول خریدتا ہے تو اسے 5 فیصد جی ایس ٹی ادا کرنا پڑے گا، یعنی اشیائے ضروریہ پر زیادہ جی ایس ٹی اور اشیائے پرتعیش پر کم جی ایس ٹی؟ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ دودھ اور دہی پر بھی 5 فیصد جی ایس ٹی لگایا گیا ہے اور بعض اشیاء خوردونوش پر تو اس سے بھی زیادہ جی ایس ٹی لگایا گیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2022