جیلوں میں کوویڈ۔19کی در اندازی سنگین مسئلہ

وبا کے ماحول میں دلی پولیس سی اے اے مخالف مظاہرین کے تعاقب میں۔آصف اقبال تازہ نشانہ

دعوت نیوز نیٹ ورک

ملک میں کوویڈ۔19کے بڑھتے ہوئے خطرے کے مد نظر جہاں مختلف جیلوں سے قیدیوں کی رہائی ہو رہی ہے وہیں دلی پولیس شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) مخالف مظاہروں میں سرگرم رہنے والے جامعہ کے طلبا کی مسلسل گرفتاری میں لگی ہوئی ہے۔
گزشتہ دنوں جامعہ کے کئی طلبا کی گرفتاریوں کے بعد اب دلی پولیس کے کرائم برانچ کی ٹیم نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آصف اقبال تنہا کو گرفتار کیا ہے۔ ان کی یہ گرفتاری شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے کے دوران دسمبر میں ہونے والے تشدد کے الزام میں ہوئی ہے۔ آصف کو ساکیت عدالت میں میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کے بعد 31مئی تک عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔
سماجی کارکن ندیم خان کے مطابق 8اپریل کو آصف کو دلی پولیس کے اسپیشل سیل نے پوچھ تاچھ کے لیے بلایا تھا اور وہ اس سلسلے میں پولیس سے مسلسل تعاون بھی کر رہے تھے۔ اس سے قبل بھی کرائم برانچ نے انہیں کم سے کم چار بار پوچھ تاچھ کے لیے طلب کیا تھا۔ ہر بار انہوں نے جو بھی معلومات ان کے پاس تھیں سچائی کے ساتھ واضح طور پر پیش کر دی تھیں۔ آصف اقبال جامعہ میں فارسی سے بی اے کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) کے رکن بھی ہیں۔ ان کی گرفتاری پر طلبا برادری میں خاصا غصہ ہے۔
ندیم خان کہتے ہیں کہ یہ دلی پولیس کا ایک اور گھناونا قدم ہے جس میں اس نے جمہوری آوازوں کو کچل دیا ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف آواز کو کچلنے کے لیے جھوٹے مقدمات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل جامعہ کے طلبا میران حیدر اور صفورا زرگر کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر یو اے پی اے لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جامعہ الومنائی ایسوسی ایشن کے صدر شفیع الرحمن کو بھی پولیس نے گرفتار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں لاک ڈاؤن کے ساتھ مذاق اور طلبا کی صحت کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ دلی پولیس کے اسپیشل سیل کا ایک ملازم کورونا پوزیٹیو پایا گیا ہے۔ صفورا زرگر جو کہ حاملہ ہیں ابھی بھی جیل میں ہیں اور اس وبا کے بیچ اس طرح تہاڑ کی بھیڑ بھری جیل میں ان کا رہنا ان کے اور ان کے بچے کے لیے خطر ناک ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام طلبا اور سی اے اے مخالف تمام کارکنان کو فوری طور پر اور بغیر کسی شرط کے رہا کیا جائے۔
جیل میں خوف کا ماحول
14 سال تک بغیر کسی گناہ کے جیل میں رہ چکے محمد عامر خان کا کہنا ہے کہ جیل کے اندر تو ہمیشہ خوف کا ماحول رہتا ہے اب ایسے ماحول میں تو قیدی مزید خوف کے ماحول میں جی رہے ہوں گے ایک تو وہ اپنے خاندان سے دور ہیں اس پر انہیں یہ خوف ستا رہا ہوگا کہ کہیں جیل کے اندر بھی کوویڈ ۔19وبا نہ پھیل جائے اور اگر پھیل گیا تو زندہ رہ پائیں گے بھی یا نہیں اور اپنے خاندان سے مل پائیں گے بھی یا نہیں؟
عامر کہتے ہیں کہ میری ہمدردی ہمیشہ جیل میں قید لوگوں کے ساتھ رہتی ہے۔ یہ واقعی بے حد فکر کرنے والی بات ہے کہ جیلوں میں جو قیدی ہیں ان میں زیادہ تعداد زیرِ دریافت قیدیوں کی ہے جن پر ابھی تک جرم ثابت نہیں ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مقدمے کے بعد وہ جیل سے باعزت بری ہو جائیں لیکن اگر اس درمیان انہیں کوویڈ ۔19 ہو جاتا ہے اور وہ خدا نخواستہ اپنی زندگی کھو بیٹھتے ہیں تو اس کا ہرجانہ وبھرپائی کون کرے گا؟ ایسے میں ملک کی تمام جیلوں کو سپریم کورٹ کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے لیکن ہماری جیلیں اب بھی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہیں اور وہاں آفت کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔
کوویڈ۔19کی وجہ سے قیدیوں میں اتنا خوف ہے کہ مغربی بنگال کی ڈم ڈم سنٹرل جیل میں قیدیوں نے ہنگامہ برپا کر دیا ہے ان پر قابو پانے کے لیے پولیس کو آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے۔ ملک میں یہ پہلا موقع ہے جب کورونا کی دہشت کی وجہ سے جیل میں قیدیوں نے تشدد اور ہنگامہ برپا کیا ہے۔قیدیوں کی ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عدالتیں بند ہیں جس کی وجہ سے ضمانت کی درخواستوں پر سماعت نہیں ہو رہی ہے۔
قیدیوں کی رہائی کا سپریم کورٹ کا حکم
ملک میں لاک ڈاؤن سے قبل 16مارچ کو سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیا اور تمام ریاستوں اور مرکزی علاقہ جات کو ہدایت دی کہ وہ ۷سال تک قید کی سزا بھگتنے والے قیدیوں کی پیرول یا عبوری ضمانت پر رہائی پر غور کریں تاکہ کوویڈ۔19 کی وبا کو دیکھتے ہوئے جیلوں میں بھیڑ کو کم کیا جا سکے۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کوویڈ۔19کے پیش نظر جیلوں میں بھیڑ کا ہونا تشویش ناک ہے۔ ایک اور دیگر عرضی کی سنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے صاف طور پر کہا کہ حکام کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قیدیوں کو بھی محفوظ اور صحتمند ماحول میں رہنے کا حق حاصل ہے۔غور طلب بات ہے کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2018کے دسمبر مہینے تک انڈیا کی 1,339 جیلوں میں 4,66,084قیدی بند ہیں۔ ملک کی جیلوں میں اوسطاً قیدیوں کی تعداد 117.6فیصد ہے۔ اتر پردیش اور سکم میں یہ شرح بالترتیب 176.5فیصد اور 157.3فیصد ہے۔ وہیں ملک کی تمام جیلوں میں بند 69فیصد قیدی اپنے خلاف عدالت میں مقدمات چلائے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب کہ اس سے قبل سپریم کورٹ یہ کہہ چکی ہے کہ سزا یافتہ قیدیوں کو جن کی سزائیں سات برس یا اس سے کم ہیں اور جن کے مقدمے زیر سماعت ہیں رہا کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود زیادہ تر ریاستیں اس معاملہ میں کچھ کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بھلے ہی ملک کی سب سے بڑی عدالت جیلوں میں بھیڑ کم کرنا چاہتی ہے مگر پولیس لوگوں کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے اور دیگر الزامات میں پکڑ کر برابر جیل میں ڈال رہی ہے۔
دلی میں 3500 قیدی رہا
اب جب کہ جیلوں میں بھی کوویڈ۔19کے معاملے سامنے آنے لگے ہیں تو جیلوں سے قیدیوں کو رہا کرنے کا عمل شروع ہوا ہے۔ دہلی میں جب سے روہنی جیل میں کوویڈ۔19کا معاملہ سامنے آیا ہے حکام کافی محتاط ہیں لیکن دلی پولیس کی گرفتاری مہم جاری ہے جنہوں نے بھی شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) مخالف مظاہروں میں سرگرم رول ادا کیا تھا انہیں مسلسل گرفتار کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ دہلی میں تین جیل ہیں۔ تہاڑ، روہنی اور منڈولی۔ مارچ تک ان تینوں جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 17,500تھی، جبکہ ان میں 10,000قیدیوں کے رہنے کی گنجائش ہے۔ میڈیا میں آئے اعداد وشمار کے مطابق اب تک 3500 قیدی رہا ہو چکے ہیں۔ یعنی اب بھی ان جیلوں میں تقریباً 14,200قیدی موجود ہیں۔ اگر صرف تہاڑ جیل کی بات کریں تو اس جیل میں 5200قیدیوں کے رہنے کی گنجائش ہے جب کہ فی الحال تہاڑ جیل ہی میں 12,100سے زیادہ قیدی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک بیرک میں عام طور پر40سے 50قیدی ہوتے ہیں وہیں ہر وارڈ میں 300تا400قیدی ہوتے ہیں، ایسے میں جسمانی فاصلہ برقرار رکھنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ اس تعلق سے دو وکلا نے دلی ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی داخل کی ہے اور بھیڑ کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ان قیدیوں کو 45سے 60دن کے لیے ضمانت یا پیرول دی جا رہی ہے اور اس مدت میں توسیع کی جا سکتی ہے۔ میڈیا میں آئے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اتر پردیش میں اب تک 16000سے زیادہ قیدی یا تو ضمانت پر یا پیرول پر رہا ہوئے ہیں۔ اس کے بعد بھی اس وقت اتر پردیش کی 71 جیلوں میں 94,000سے زیادہ قیدی ہیں، جب کہ گنجائش 60,000قیدیوں کے رکھے جانے کی ہے یعنی اب بھی یہاں کی جیلوں میں گنجائش سے 1.5 گنا زیادہ قیدی ہیں۔پنجاب حکومت نے اب تک جیلوں سے 9,773قیدیوں کو رہا کیا ہے وہیں مہاراشٹرا کی جیلوں میں بھیڑ کو کم کرنے کے لیے اب تک 7,200سے زیادہ قیدی رہا ہوئے ہیں۔ اور حکومت کا کہنا ہے کہ مزید 10,000قیدیوں کو جلد رہا کرنے کی تیاری چل رہی ہے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے ریاست کی 60جیلوں میں 35,000سے زیادہ قیدی موجود تھے۔ چھتیس گڑھ سے 3,418قیدی رہا ہوئے، جن میں سے بیش تر انڈر ٹرائل قیدی تھے۔
رہائی کے بعد بھی کم نہیں ہو رہی ہیں قیدیوں کی مشکلیں
جیل سے رہائی کے بعد بھی قیدیوں کی مشکلوں میں مزید اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ مہاراشٹرا کی تلوجا جیل سے ایک قیدی کی رہائی تو ہوئی لیکن اس کے بعد اسے جو پریشانیاں پیش آئیں اس سے اسے محسوس ہوا کہ وہ جیل میں ہی ٹھیک تھا۔
32 سالہ یہ قیدی ٹیکسی ڈرائیور ہے۔ اسے ایک موبائل فون چوری کرنے کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے کر دیا گیا۔ وہ چھ ماہ تک مقدمے کی کارروائی کے بغیر ہی مہاراشٹرا کی تلوجا جیل میں قید رہا۔ جس دن رہائی ملی اسے کوئی لینے نہیں آیا اس کا گھر جیل سے 150 کلو میٹر دور مہاڈ کے قصبے میں ہے۔ ایک معذور بھائی جو کسی نجی کارخانے میں مزدوری کرتا ہے وہیں پھنس کر رہ گیا ہے کیوں کہ اس کے پاس کرایہ نہیں تھا۔ وہیں بوڑھی وبیمار ماں چھ ماہ سے اپنی ایک کمرے کی کھولی کا کرایہ نہیں دے سکی اور پڑوسیوں کے رحم و کرم پر زندہ ہے۔
یہ قیدی کافی دور پیدل چلا۔ پھر ٹرک والوں سے منت سماجت کر کے اگلی شام گھر پہنچا مگر وہاں اس کے پڑوسیوں نے یہ کہہ کر علاقے میں داخل ہونے نہیں دیا کہ یہ ممبئی سے آیا ہے۔ آخر کار علاقے کے لوگوں کی مخالفت کے بعد اس نے اپنی ماں سے ایک موبائل فون اور 400روپے ادھار لیے اور پیدل ہی ممبئی کی جانب چل پڑا۔ راستے میں پھر ایک ڈرائیور سے 200روپے میں بات طے کی جس نے اسے واپس ممبئی پہنچا دیا۔ یہاں ایک ساتھی قیدی نے اسے پناہ دینے کا وعدہ کیا لیکن یہاں اس کے پڑوسیوں نے اسے آنے نہیں دیا۔ اب یہ قیدی کئی دنوں تک ممبئی کی سڑکوں پر ہی رہا۔ بعد میں ممبئی کے مضافات میں بے گھر افراد کے لیے قائم ایک شیلٹر میں لے جایا گیا جہاں وہ تین ہفتے سے زیادہ وہاں رہا۔ وہ گھر اپنی ماں کے پاس جانا چاہتا تھا اس لیے پھر 30اپریل کی رات وہ وہاں سے چلا گیا مگر اس بار پھر پڑوسیوں نے اسے گھر میں داخل ہونے نہیں دیا اس کے بعد وہ شہر میں ایک دوست کے گھر چلا گیا جہاں وہ اب قرنطینہ میں ہے۔
جیلوں میں بڑھ رہے ہیں کوویڈ۔19 کے مریض
ہندوستان کی جیلوں میں کوویڈ۔19کے مریض پائے جانے لگے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کی ہدایت پر پہلے ہی عمل کیا جاتا تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ جہاں کچھ ریاستوں میں رہائی کا عمل شروع ہوا ہے وہیں کئی ریاستیں ابھی بھی خاموش نظر آرہی ہیں۔ ممبئی کی آرتھر روڈ جیل کے 158قیدیوں میں کوویڈ۔19کی تصدیق ہو چکی ہے۔ جب کہ جیل کے 26 حکام بھی اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ قیدیوں اور پولیس اہلکاروں کو ملا کر 184افراد کوویڈ۔19سے متاثر ہیں۔ اس جیل میں بعض اہم قیدی بھی ہیں۔ اس جیل میں محض 8,500قیدیوں کو رکھے جانے کی گنجائش ہے لیکن 2,800 قیدی رکھے گئے ہیں۔ ایک اور قیدی مہاراشٹر کے ساتارا کی جیل میں کوویڈ۔19کی بیماری میں مبتلا پایا گیا ہے۔ ممبئی کے ہی بائکلا میں خواتین کی جیل میں ایک خاتون کورونا پازیٹیو پائی گئی ہے۔
تہاڑ جیل کے کمرہ نمبر دو میں کوویڈ۔19کا ایک مریض پائے جانے سے جیل انتظامیہ میں بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔ یہاں کے روہنی جیل میں بھی ایک قیدی کورونا میں مبتلا پایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ مدھیہ پردیش کے اندور سنٹرل جیل میں 19 افراد جن میں 17قیدی اور دو جیل گارڈ شامل ہیں کورونا پازیٹیو پائے گئے ہیں۔ اندور جیل میں بھی زیادہ ہجوم ہے۔ اس وقت اس میں 2030قیدی ہیں جب کہ جیل کی مجموعی صلاحیت 1230 قیدیوں کی ہے۔ جے پور جیل میں 140قیدی کورونا پازیٹیو پائے گئے ہیں۔ پنجاب کے شہر لدھیانہ کی ایک جیل میں 48سالہ خاتون قیدی پازیٹیو پائی گئی ہے۔ ہریانہ میں ضمانت پر رہا ہونے والے دو افراد کو کورونا وائرس سے متاثر پایا گیا ہے۔ اتر پردیش کی آگرہ جیل میں 10قیدی کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے تھے۔ وہیں عمر قید کی سزا کاٹنے والے ایک قیدی کی موت ہو گئی۔ مراد آباد جیل میں 5قیدیوں میں کورونا پازیٹیو پایا گیا ہے۔ گجرات کی سابر متی جیل میں اب تک 4قیدی اس وبا سے متاثر ہوئے ہیں۔

سال 2018کے دسمبر مہینے تک انڈیا کی 1,339 جیلوں میں 4,66,084قیدی بند ہیں۔ ملک کی جیلوں میں اوسطاً قیدیوں کی تعداد 117.6فیصد ہے۔ اتر پردیش اور سکم میں یہ شرح بالترتیب 176.5فیصد اور 157.3فیصد ہے۔
(نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو)