جھار کھنڈ: منہاج انصاری کی موت پر نظامِ انصاف کا قتل!!
ہیمنت سرکار، انصاف کا ہے انتظار!
ملک کے حالات جو پہلے تھے اب بھی وہی ہیں، ظلم و ستم پہلے بھی روا تھا آج بھی روا ہے، عدل و انصاف کا گلا پہلے بھی گھونٹا جاتا تھا اب بھی گھونٹا جا رہا ہے۔ 33 سال پہلے 22 مئی 1987 کو ہاشم پورہ قتل عام ہوتا ہے، پولیس کی حراست میں 43 بے گناہوں کو گولی مار کر گنگ نہر میں پھینک دیا جاتا ہے لیکن بھارت میں انصاف ملتے ملتے اکتیس سال کا طویل عرصہ گزر جاتا ہے۔ نومبر 2018 میں ہاشم پورہ کے معاملے پر دہلی ہائی کورٹ نے پی اے سی کے 19 اہلکاروں کو قصوروار قرار دیا جن میں سے 3 کی پہلے ہی موت ہو چکی تھی، بقیہ 16 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس وقت اس قتل عام میں تقریبا پانچ افراد بچ گئے تھے جن میں ایک کا نام منہاج تھا جس کی پیٹھ پر گولی لگی تھی اور قصورواروں کو سزا دلائے جانے میں اس کی گواہی کافی سود مند ثابت ہوئی تھی۔ لیکن جھار کھنڈ کے منہاج انصاری کی درد بھری کہانی کچھ اور ہے۔ یہ منہاج پولیس کی حراست میں مار دیا جاتا ہے، پولیس کی جانب سے اتنا زد وکوب کیا جاتا ہے کہ وہ زندگی کی جنگ ہار جاتا ہے۔ در اصل دو اکتوبر 2016 کو 22 سالہ منہاج انصاری کو پولیس نے واٹس ایپ پر بیف سے متعلق ایک قابل اعتراض پوسٹ سرکولیٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ منہاج کی 9 اکتوبر کو راجندر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں موت ہوگئی۔ منہاج کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ پولیس حراست میں اس پر کافی تشدد کیا گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی تھی۔ ادھر پولیس کا کہنا تھا کہ منہاج کے دماغ میں سوجن تھی جس کی وجہ سے اس کی موت ہوئی۔ اس وقت اصل ملزم کو معطل کر دیا گیا اور ایک رپورٹ کے مطابق اس کے لواحقین کو 2 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا گیا۔ یہ معاملہ اس وقت سرخیوں میں آتا ہے جب برہیٹ کے تھانہ انچارج اور منہاج کے قتل کے ملزم ہریش پاٹھک کے پروموشن کی تیاری کی جاتی ہے۔ اس طرح مقتول کے اہل خانہ کے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی ہے۔ پھر افراد خانہ میڈیا کے سامنے آتے ہیں اور اپنے درد و کرب کا اظہار کرتے ہیں۔ جھار کھنڈ میں ہیمنت سورین کی حکومت بننے سے پہلے ان کے والد شیبو سورین مقتول منہاج انصاری کے والدین سے ملاقات کر کے انہیں انصاف دلانے کی یقین دہانی کراتے ہیں لیکن آج جب کہ خود کی حکومت بن چکی ہے انصاف کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ یہ ہے ہمارے لیڈروں کے قول اور فعل کی تضاد بیانی۔ اس معاملے میں کانگریس بھی صرف بیان بازی سے کام لے رہی ہے چنانچہ جھار کھنڈ میں کانگریس کے ریاستی کار گزار صدر عرفان انصاری پولیس انتظامیہ پر ضرور بھڑک رہے ہیں لیکن شاید وہ بھول رہے ہیں کہ وہ خود حکومت میں ہیں۔ اور سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ’برہیٹ‘ ہیمنت سورین کا اسمبلی حلقہ ہے۔ اور جب ریاست کا وزیر اعلیٰ خود اپنے اسمبلی حلقے میں مظلوموں کو انصاف نہ دلا سکے تو پھر ’چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے‘ کی مثال ان پر نہیں تو اور کس پر صادق آتی ہے؟
لفظوں کا بیوپار کریں مطلب ہو تو پیار کریں
جھوٹے دعوے یاری کے شُعبدے ہیں مکاری کے
وقت پڑے تو کُھلتے ہیں اُونچے قد کے بونے لوگ
جھار کھنڈ میں ہیمنت سورین کی حکومت بننے سے پہلے ان کے والد شیبو سورین مقتول منہاج انصاری کے والدین سے ملاقات کر کے انہیں انصاف دلانے کی یقین دہانی کراتے ہیں لیکن آج جب کہ خود کی حکومت بن چکی ہے انصاف کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔