سید آصف ندوی، ناندیڑ
عالی ظرفی اور خوش اخلاقی کی ایک دنیا اسیر تھی
یادش بخیر! یہ ستمبر 2017ء کی بات ہے، شہر ناندیڑ میں مجلس العلماء ناندیڑ کے ذمہ دار اس عاجز کے پاس تشریف لائے اور مجھ سے دلی میں منعقد ہونے والے کل ہند آٹھ روزہ اجتماع برائے علمائے کرام وفارغین مدارس عربیہ میں شرکت کے لیے درخواست کرنے لگے۔ اس درخواست کے دوران انہوں نے آٹھ روزہ اجلاس کا جو لائحہ عمل میرے سامنے پیش کیا اس میں محاضرین کرام ومقررین عظام کی فہرست میں چند ایسے نام نظر آئے جن کی سلیس و شگفتہ تحریروں اور مشہور ومعروف کتابوں کی وجہ سے یک گونہ عشق ہو گیا تھا اور ان کی دید و زیارت کا نہ صرف مشتاق تھا بلکہ ان سے شرف ملاقات حاصل کرنے کی حسرت کو اپنے نہاں خانہ دل میں پال رکھا تھا۔ ان محبوب ہستیوں میں ایک نام گرامی قدر محترم مولانا محمد یوسف صاحب اصلاحی کا تھا۔ ناندیڑ سے دلی کی مسافت کچھ کم تھوڑی ہے، اس قدر طویل ترین سفر پر اچانک تیار ہو جانا میرے بس میں ہرگز نہ تھا، لیکن جیسے ہی پروگرام کے لائحہ عمل میں مولانا مرحوم کا نام نظر آیا، برسوں سے نہاں خانہ دل میں پوشیدہ حسرت دفعتاً بیدار ہو اٹھی اور میں نے سفرکی طوالت، موسم کی خنکی، طبیعت کی تساہلی کے باوجود شرکت کے لیے آمادگی ظاہر کردی۔ اس آٹھ روزہ کانفرنس میں شرکت کرنا یقیناً میرے لیے ایک دلنشیں ویادگار تجربہ تھا تاہم، اس لذیذ حکایت کو دہرانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ کانفرنس میں حاضری کی سعادت سے بہرہ ور ہوا، دوران سفر مولانا کا ایک تصوراتی خاکہ ذہن میں گردش کرنے لگا کہ مسلمانان پاک وہند کو آدابِ زندگی سے روشناس کرنے والا یہ پیکر علم شاید انتہائی لحیم شحیم وصاحب وجاہت ہو گا جس سے مجھ جیسے ناآشنا اور انجان کا شرف ملاقات حاصل کرنا کچھ آسان نہ ہو گا۔ بہرحال آٹھ روزہ کانفرنس کا آغاز ہوا اور مولانا مرحوم ہی کی تذکیر بالقرآن سےہوا، کانفرنس ہال میں جیسے ہی مولانا رونق افروز ہوئے تو آپ کو دیکھتے ہی تصورات کا وہ خاکہ جو آپ کی جلالت علم کی وجہ سے میرے ذہن نے تعمیر کیا تھا پلک جھپکتے ہی کافور ہو گیا۔ نہ وہ تصوراتی جاہ وجلال نہ کوئی بھاری بھرکم جسم بلکہ کیا دیکھتا ہوں کہ دبلے پتلے چھریرے بدن کے ایک انتہائی دلنشیں ودلکش، سفید باریش، عمررسیدہ وجہاں دیدہ نورانی صورت، حسنِ یوسف کا مرقع بنے بزرگ نظروں کے سامنے ہیں۔ چہرے کی نورانیت ودلکشی اور بزرگانہ وجاہت کا یہ عالم کہ دل چاہے کہ آپ کے چہرے سے نظر ہٹنے ہی نہ پائے۔ آپ پوری متانت کے ساتھ خراماں خراماں اسٹیج پر رونق افروز ہوئے اور انتہائی دلنشیں انداز میں تذکیر بالقرآن کا آغاز کیا۔ انداز کیا تھا! دل موہ لینے والا، نہ آپ ایک عام روایتی مقرر یا مدرس کی طرح گلا پھاڑ رہے تھے، نہ ہی اشاروں وکنایوں کے لیے ہاتھوں کا رقصِ بے ہنگم ہو رہا تھا، بلکہ آپ کا درس قرآن بے ساختہ روانی اور تسلسل کے ساتھ کسی آبِ رواں کی طرح جاری رہا، پورا درس حقائق ومعارف، حکایات ولطائف اور علمی استدلالات ونکات سے بھر پور تھا۔ نہ صرف میں بلکہ پورا کانفرنس ہال ہمہ تن گوش ہوکر محظوظ ہورہا تھا۔ درس کے اختتام پر مولانا سے ملاقات ہوئی، نہ تکلفات نہ تحفظات، بلکہ آپ مکمل خندہ پیشانی وحسن اخلاق کے ساتھ تمام ہی لوگوں سے ملتے رہے۔ میں نے اپنی حسرت اور سالوں سے پنپ رہی ملاقات کی خواہش کا تذکرہ کیا تو بہت خوش ہوئے۔ میرا ہاتھ تھامے ہوئے اور بات کرتے کرتے اپنی قیام گاہ تک لے آئے، فرمایا کہ بھائی اب ہمیں تو چائے کی طلب ہو رہی ہے، آپ بھی ہمارے ساتھ ہی چائے پی لیجیے۔ چائے نوشی کے درمیان میری تعلیم، موجودہ مشغولیت اور آئندہ کے عزائم سے متعلق چند سوالات کرتے رہے اور ساتھ ہی اپنی بیش قیمت نصائح سے بھی نوازتے رہے۔ بچپن میں ایک زمانے تک میرا معمول اکابر علماء کرام اور مشہور ومعروف ارباب دانش کے آٹوگرافس حاصل کرنے کا رہا ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ زمانہ طالبعلمی میں جب کبھی کوئی بڑا دینی جلسہ ہوتا یا کوئی مذہبی وسماجی کانفرنس منعقد ہوتی اور میں اس میں گھس پیٹ کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو عام طور پر ایسے موقعوں پر میرے ہاتھ میں اپنی آٹوگراف والی بیاض موجود ہوتی اور میں موقع پاتے ہی کسی نہ کسی بڑی شخصیت کے ہاتھ میں جبراً وہ بیاض تھما دیتا کہ حضرت کچھ نصیحت تحریر فرما دیجیے۔ برا ہو اس سوشل میڈیا کا کہ اس نے موجودہ نسل سے اس ذوق کا جنازہ ہی نکال دیا ہے۔ اگرچہ کہ مولانا سے ملاقات سے بہت طویل عرصہ قبل ہی میرا آٹوگرافس حاصل کرنے کا یہ معمول ختم ہوچکا تھا، لیکن پتہ نہیں مولانا میں ایسی کونسی کشش تھی کہ میں نے چائے نوشی کے بعد بے ساختہ مولانا کی طرف اپنی ڈائری بڑھادی اور عرض کیا کہ مولانا کچھ نصیحت تحریر فرما دیجیے۔ مولانا نے مسکراتے ہوئے ڈائری ہاتھ میں لی اور تحریر فرمایا: برادر عزیز سیدآصف! زندگی آپ کو جو امید دلائے اسے حاصل کرنا آپ کا اپنا کام ہے۔ علم سب سے بڑی دولت ہے اگر تفقہ اس کے ساتھ ہو۔ محمد یوسف۔
آج جب مولانا کی رحلت کی خبر نظروں سے گزری تو بے ساختہ 2017ء کی وہ آٹھ روزہ کانفرنس، مولانا سے ملاقات، آپ کی سادگی، حسن اخلاق، آپ کے ساتھ چائے نوشی کی سعادت سب نظروں کے سامنے گردش کرنے لگے لیکن جیسے ہی اس خیال سے باہر آیا تو اردگرد کی چہل پہل اور ہمہ ہمی کے باوجود ایک گہرا سا سنّاٹا محسوس ہونے لگا۔ آہ! علم وفضل اور وقار وسنجیدگی کا کیسا پیکرِ عظیم ہم سے رخصت ہوگیا۔
اب ہمیشہ کے لیے وہ آہ ہم سے چُھٹ گیا
وائے ناکامی ہمارا قافلہ اب لُٹ گیا
اللہ تعالیٰ ان کی تربت کو ہمیشہ ٹھنڈا رکھے ۔ (آمین)
***
***
دوران سفر مولانا کا ایک تصوراتی خاکہ ذہن میں گردش کرنے لگا کہ مسلمانان پاک وہند کو آدابِ زندگی سے روشناس کرنے والا یہ پیکر علم شاید انتہائی لحیم شحیم وصاحب وجاہت ہو گا جس سے مجھ جیسے ناآشنا اور انجان کا شرف ملاقات حاصل کرنا کچھ آسان نہ ہو گا۔ بہرحال آٹھ روزہ کانفرنس کا آغاز ہوا اور مولانا مرحوم ہی کی تذکیر بالقرآن سےہوا، کانفرنس ہال میں جیسے ہی مولانا رونق افروز ہوئے تو آپ کو دیکھتے ہی تصورات کا وہ خاکہ جو آپ کی جلالت علم کی وجہ سے میرے ذہن نے تعمیر کیا تھا پلک جھپکتے ہی کافور ہو گیا۔ نہ وہ تصوراتی جاہ وجلال نہ کوئی بھاری بھرکم جسم بلکہ کیا دیکھتا ہوں کہ دبلے پتلے چھریرے بدن کے ایک انتہائی دلنشیں ودلکش، سفید باریش، عمررسیدہ وجہاں دیدہ نورانی صورت، حسنِ یوسف کا مرقع بنے بزرگ نظروں کے سامنے ہیں۔ چہرے کی نورانیت ودلکشی اور بزرگانہ وجاہت کا یہ عالم کہ دل چاہے کہ آپ کے چہرے سے نظر ہٹنے ہی نہ پائے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 02 جنوری تا 08 جنوری 2022