جنوبی ہند کے سر سید ۔۔کاکا محمد زبیر مرحوم

ملت کے نونہالوں کی تعلیمی ترقی کی دھن ان پر سوار تھی

اکبر زاہد ، وانم باڑی

ایک افسانوی شخصیت جس نے دلوں میں جگہ بنائی
آج ہم آپ کے سامنے ایک ایسی ہستی کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جنہیں ہم ایک افسانوی شخصیت کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ آج یہ شخصیت ہمارے درمیان موجود نہیں ہے لیکن ان کی یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ تازہ و تابندہ رہیں گی۔ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں اور ایسی ہی ایک شخصیت ’’کاکا محمد زبیر صاحب‘‘ کی تھی جو ابھی کچھ ماہ قبل ہم سب کو داغِ مفارقت دے کر خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔یہ ایک ایسی شخصیت تھی جنہوں نے اپنی پوری زندگی خدمتِ خلق اور نئی نسل کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں گزار دی۔ اس سلسلہ میں ان کے دل میں جو تڑپ تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ اپنی طویل علالت اور چلنے پھرنے سے معذوری کے باوجود اپنے انتقال سے صرف دس دن قبل وہ اسلامیہ کالج کے معائنہ کے لیے اپنے ساتھ واکر لے چلے آئے اور پوری کالج کا دورہ کیا اور اپنے مختلف مشوروں سے نوازا۔ وہ اپنی آخری سانس تک قوم کے نونہالوں کے لیے فکر مند رہے ۔شاد عظیم آبادی کے ایک مصرع کے مصداق ’’ہم میں ہے دلِ بے تاب نہاں، یا آپ دلِ بے تاب ہیں ہم‘‘ یا تو ان کے اندر ایک دلِ بے تاب پوشیدہ تھا یا وہ خود مجسم دلِ بے تاب تھے۔ یہ بے تابی ان کے ساتھ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک رہی۔
کاکا محمد زبیر صاحب کی پیدائش ضلع ویلور کے ایک علمی شہر عمرآباد میں 1931ء میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد بانی عمرآباد اور دارالسلام عمرآباد کاکا محمد عمر صاحبؒ کے لائق فرزند کاکا محمد ابراھیم صاحبؒ تھے۔ جب آپ چھ سال کے تھے تو والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور اس کے صرف تین ماہ بعد آپ کی والدہ بھی خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اس طرح آپ چھ برس کی عمر میں یتیم ہوگئے تھے۔ اس کے بعد ان کی پرورش کی ذمہ داری شہر وانمباڑی میں ان کی ننھیال والوں نے اٹھائی اور اس طرح وہ وانمباڑی میں بس گئے۔ تاہم ان کا رشتہ عمرآباد سے بحال رہا۔ زبیر صاحب بچپن ہی سے بہت ہی ذہین تھے۔ اپنے والد کی کئی خصوصیات انہیں ورثہ میں ملی تھیں۔ ہائی اسکول تک کی تعلیم انہوں نے وانمباڑی کے اسلامیہ ہائی اسکول میں حاصل کی جو وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کا اولین تعلیمی ادارہ ہے اور جناب کاکا محمد زبیر صاحب اس قدیم تعلیمی ادارے کے سب سے قدیم اراکین میں سے تھے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی اس ادارے کی خدمت کے لیے وقف کردی تھی۔ نہ صرف مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی بلکہ وہ شہر و بیرون شہر کے کئی تعلیمی اداروں سے بھی وابستہ تھے۔ ان کی خدمات کا دائرہ بہت ہی وسیع تھا۔ اسکولوں، مکاتب اور کالجوں کے قیام کے علاوہ مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے اور بے سہارا خاندانوں کو سہارا دینے کی فکر بھی ہمیشہ رہتی تھی۔ خواتین کو عصری تعلیم دلانے کے لیے ایک کالج کے قیام میں بھی آپ کا بہت قائدانہ رول رہا ہے۔حالانکہ ویمنس کالج کے پراجیکٹ کے لیے کافی مخالفت ہوئی تھی لیکن انہوں نے دلائل سے ان سب کو قائل کیا کہ مسلم خواتین کے لیے تعلیم کی کتنی زیادہ اہمیت ہے اور اس کا مثبت نتیجہ اسلامیہ ویمنس کالج کے قیام کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
کاکا محمد زبیر صاحب کی بے شمار خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت اہل علم کی قدر دانی بھی ہے۔ اردو زبان و ادب سے بے حد محبت تھی اور شہر وانمباڑی کے کئی مشاعرے ان کی سرپرستی میں ہوا کرتے تھے۔ مسلم سوسائٹی کی جانب سے انہوں نے کئی شعراء کے کلام کو شائع بھی کروایا تھا۔ ان کی تمنا تھی کہ وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کی جانب سے ہر سال عظیم پیمانے پر کل ہند مشاعرہ یا کم ازکم کل جنوبی ہند مشاعرہ کا اہتمام کیا جائے۔ جتنے بھی مشاعرے ہوتے تھے ان میں زبیر صاحب بہ نفس نفیس نہ صرف شرکت کرتے تھے بلکہ مہمان شعراء کے قیام و طعام کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ مشاعرے کی تیاری تین ماہ قبل ہی شروع کر دیتے تھے اور شعراء کی فہرست بھی تیار کرتے اور انہیں مدعو کرنے کے لیے دعوت نامے بھی وہ اپنی ہی نگرانی میں تیار کرتے تھے۔ یہ سب کچھ وہ صرف اردو زبان کے فروغ کے لیے کرتے تھے۔ اردو کا ایسا مجاہد ہم نے اس سے قبل نہیں دیکھا تھا۔ میرے ان سے بہت ہی قریبی تعلقات تھے۔ اکثر وہ مجھ سے ملنے میرے گھر چلے آتے۔ جب وہ بہت زیادہ علیل ہوئے اور چلنے پھرنے سے قاصر ہوئے تو مجھے فون کرکے طلب کر لیتے تھے اور گھنٹوں ہماری گفتگو ہوتی تھی، اور یہ گفتگو یا تو تعلیمی معاملات پر ہوتی تھی یا اردو زبان و ادب کے تعلق سے ہوتی یا پھر کچھ فلاحی کاموں کے سلسلے میں ہوتی تھی۔ کتابوں کا مطالعہ کرنا انہیں بہت پسند تھا۔ اکثر ان کے بستر پر رسالے یا کتابیں ضرور ہوتی تھیں۔ مسلم سوسائٹی کی لائبریری کے لیے انہوں نے کافی کتابیں جمع بھی کی تھیں۔ لیکن عوام میں کتب بینی کے ذوق کی کمی کی وجہ سے یہ لائبریری بند کرنی پڑی تاہم ان کے گھر پر یہ کتابیں موجود تھیں۔
خاکسار نے اپنی کتاب ’’گفت و شیند‘‘ کے لیے ان کا ایک انٹرویو لیا تھا۔ یہ انٹرویو میں نے ان کے گھر پر ہی لیا تھا اور تقریباََ دو گھنٹوں کے اس طویل انٹرویو میں انہوں نے امتِ مسلمہ میں تعلیم کے فقدان اور نوجوانوں میں اعلیٰ تعلیم اور سائنس کی طرف رجحان کی کمی پر افسوس کرتے ہوئے جو باتیں کہیں ان سے امتِ مسلمہ کے تعلق سے جو درد ان کے دل میں موجود تھا اس کا پتہ چلتا تھا۔ جو کچھ بھی انہوں نے کہا وہ ہم یہاں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں جس کے ایک ایک لفظ سے امتِ مسلمہ کے تئیں ان کی فکر مندی جھلکتی ہے۔ انہوں نے مسلم نوجوانوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں کہا :
’’میری نظر میں مسلم نوجوانوں کے لیے اعلیٰ ترین تعلیم کا حصول بے حد ضروری ہے۔ چاہے وہ پشتینی مال دار ہوں یا غریب اور متوسط۔ جو جواب میرا مسلم لڑکوں کے لیے ہے وہی مسلم لڑکیوں کے لیے بھی ہے۔ مسلم لڑکیاں بھی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں تاکہ وہ اپنے بچوں کو بھی اسی انداز سے تربیت کرسکیں۔ لیکن اپنے مذہبی اقدار اور تہذیب کو نہ بھولیں۔ شرعی حدود میں رہ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے ۔لڑکیوں کو ضرور اعلیٰ تعلیم کا موقع ملنا چاہیے۔‘‘
’’مسلم طلبا و طالبات کو سائنسی علوم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس سے ان میں سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کی صلاحیت بڑھے گی۔ قرآن مجید میں کئی مقامات میں اس کائنات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ قرآن کی ان ہدایات پر مسلمان جب تک عمل کرتے رہے انہیں دنیا میں کامیابی کے مواقع ملتے رہے اور اقتدار و عزت نصیب ہوتی رہی لیکن انہوں نے قرآن کو اپنی زندگیوں سے دور کردیا اور عیاشی کی راہ اختیار کرلی تو سب کچھ ختم ہو گیا۔
نئی نسل کو سائنسی علوم کی طرف متونہ کرنے کے لیے چاہیے کہ ہم انہیں قرآن کی طرف متوجہ کریں اور اس پر غور وفکر کی جو بات کہی گئی ہے اسے ہمارے نوجوانوں کے سامنے پیش کریں۔ اس کا آغاز مکتب سے کریں۔ مکتب میں ایسا نصاب رکھیں جن میں بچے کا دھیان بچپن ہی سے تحقیق و جستجو کی طرف لگا رہے۔ قرآنی تعلیمات کو سہل انداز میں پیش کریں۔ ایک طرف تو والدین دھیان دیں اور دوسری طرف اساتذہ بھی دل نشین انداز میں بچوں کی تعلیم و تربیت کریں۔ پڑھنا بچوں کے لیے دلچسپ بنائیں نہ کہ ایک بیزار کن عمل۔‘‘
میرے آخری سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ: ’’میں مسلم نوجوانوں سے صرف اس بات کا خواہش مند ہوں کہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، اچھے عہدوں پر فائز ہوں، خوب ترقی کریں۔ خاص کر سائنسی اور ریسرچ کے میدان کو اپنائیں جس سے ملک و ملت کی خدمت ہوسکے ۔ ان تعلیمی اداروں کی کبھی نہ بھولیں جہاں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ بڑوں کی عزت کریں اور اپنے اخلاق و کردار کو مضبوط رکھیں۔ دنیا کے علم کے ساتھ دین کا علم بھی حاصل کریں تاکہ حلال و حرام کی تمیز کر سکیں۔ عام مسلمانوں سے میری درخواست ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد بنائے رکھیں۔ ملکی قوانین کا احترام کریں بشرطیکہ وہ شریعت سے نہ ٹکراتے ہوں۔ اگر کوئی قانون شریعت سے ٹکراتا ہو تو قانون کے دائرے میں رہ کر اس میں ترمیم کا مطالبہ کریں اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے قانون میں تبدیلی لائیں۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھیں، جہاد کے صحیح مفہوم سے آشنا ہوں کہ دہشت گردی کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انسانیت کا احترام کریں اور اپنے طرزِ عمل سے برادرانِ وطن کو اسلام کی طرف راغب کریں۔ یہی میرا پیغام ہے۔‘‘
بہرحال کاکا محمد زبیر صاحب کی شخصیت ایک دلِ بے تاب کی طرح تھی۔ تعلیم کو عام کرنے کی ان کی تڑپ دیکھ کر ان کو لوگ جنوبی ہند کا سر سید کہتے تھے۔انہیں ہر وقت ملت کے نونہالوں کی فکر رہا کرتی تھی۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ کسی طالب علم کے پاس فیس جمع کرنے کے لیے روپیہ نہیں ہے تو وہ اس کی فیس اپنے طرف سے جمع کرادیتے تھے۔ برادران وطن سے بھی اچھے تعلقات تھے اور وہ ان کی بھی مدد کیا کرتے تھے۔ شہر اور آس پاس کے کئی شہروں میں ان کی شخصیت بے حد مقبول تھی۔ ان کی نماز جنازہ میں ایک اندازے کے مطابق پانچ تا چھ ہزار کا مجمع تھا۔ نماز جنازہ اسلامیہ ہائر سکنڈری اسکول کے احاطے میں ادا کی گئی تھی۔ تدفین مسجد قلعہ، وانمباڑی کے قبرستان میں ہوئی۔ ( مضمون نگارمصنف و صحافی ہیں )
***

 

***

 یہ ایک ایسی شخصیت تھی جنہوں نے اپنی پوری زندگی خدمتِ خلق اور نئی نسل کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں گزار دی۔ اس سلسلہ میں ان کے دل میں جو تڑپ تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ اپنی طویل علالت اور چلنے پھرنے سے معذوری کے باوجود اپنے انتقال سے صرف دس دن قبل وہ اسلامیہ کالج کے معائنہ کے لیے اپنے ساتھ واکر لے چلے آئے اور پوری کالج کا دورہ کیا اور اپنے مختلف مشوروں سے نوازا۔ وہ اپنی آخری سانس تک قوم کے نونہالوں کے لیے فکر مند رہے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  06 فروری تا 12فروری 2022