جمہوریت کا چوتھا ستون جمہوریت کے لیے خطرہ بن گیا
می لارڈ !کنگارومیڈیا پر تنقید کافی نہیں ، کارروائی کب ہوگی؟۔بااختیار میڈیا کمیشن کا قیام وقت کی اہم ضرورت
نور اللہ جاوید، کولکاتا
میڈیا ٹرائل کے خاتمے کےلیے عدالت کو موثر کردار ادا کرنا ہوگا
چیف جسٹس آف انڈیا ایس وی رمنا نے گزشتہ دس دنوں میں دو مرتبہ ہندوستانی میڈیا کے طریقہ کار،انداز اور رویے پر کھل کر سخت تنقید کی ہے، انہوں نے میڈیا کے کردار پر جو سوالات کھڑے کیے ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔اس پر بہت پہلے سے بات کی جارہی ہے مگر ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس کے یہ بیانات اس لیے اہمیت کے حامل ہیں کہ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیاہے کہ میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویے سے عدالت خود متاثر ہورہی ہے۔عدالت کی ساکھ اور اس کا اعتبار خطرے میں پڑچکے ہیں۔اس سے قبل سپریم کورٹ کے ایک اور سینئر جج جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے جو نومبر میں چیف جسٹس آف انڈیا بننے والے ہیں، میڈیا میں ججوں کی کھلے عام تنقید پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔جولائی کے پہلے ہفتے میں معطل شدہ بی جے پی لیڈر نوپورشرما کے توہین آمیز بیانات اور ٹی وی چینل کے غیرذمہ دارانہ مباحث پر سپریم کورٹ میں سخت تنقید کرنے والے جسٹس پری والے کو نہ صرف سوشل میڈیا پر ٹرول کیا گیا بلکہ الیکٹرانک میڈیامیں بھی مباحثے کے دوران بنچ کی کھلے عام تنقید کی گئی۔ اس بنچ کا حصہ رہ چکے جسٹس پری والا نے میڈیا کی اس رویے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلوں کی تعمیر ی تنقید و جائزہ لینے کے بجائے عدالتی فیصلوں اور کارروائیوں کی من مانی تشریح اور اپنے ایجنڈے کے مطابق فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں کھلے عام تنقید کی جاتی ہے یہ صورت حال انتہائی خطرناک ہے۔17نومبر 2021میں دہلی میں فضائی آلودگی سے متعلق ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ایس وی رمنا نے کہا کہ ٹی وی چینلوں پر جومباحثے ہورہے ہیں وہ فضائی آلودگی سے زیادہ خطرناک ہیں۔فضائی آلودگی سے کہیں زیادہ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس ایس وی رمنا نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستانی جمہوریت کے لیے میڈیا خود خطرہ بنتا جارہا ہے ۔
سپریم کورٹ کے تین معزز ججوں کے یہ تبصرے ،احساسات اوران کی تشویش اس بات کی غماز ہے کہ ہندوستان میڈیا بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کے ریمارکس سے کیا فرق پڑنے والا ہے ۔کیا قومی میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیاخود احتسابی کے ذریعہ اپنی خامیوں و کمزوریوں کو درست کرے گا؟ جب میڈیا کو اقتدار اور دائیں بازو جو اس وقت ملک کے اقتدار اعلیٰ پرقابض ہیں دونوں کی حمایت حاصل ہے، کیا ایسے میں میڈیا سے خوش گوار تبدیلیوں کی امید کی جاسکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ عقل و دانش کا متحمل ہر ایک شخص ان سوالوں کا جواب لمحے بھرمیں نفی میں دے گا کہ چیف جسٹس اور دیگر ججوں کے بیانات، احساسات ہندوستانی میڈیا کو راہ راست پر لانے کے لیے کافی نہیں ہیں بلکہ ان بیانات سے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگنے والی ہے۔ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو ان حقائق کا علم نہیں ہے؟ اگر وہ ان حقائق سے بخوفی واقف ہیں تو کیا صرف بیانات دینے سے جج صاحبان اپنی فرائض سے سبکدوش ہوسکتے ہیں؟ ملک کی سب سے بڑی عدالت اور جمہوریت کا تیسرا و مستحکم ستون ہونے کی حیثیت سے کیا چیف جسٹس ایس وی رمنا کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اپنے احساسات و جذبات کو عدالتی کارروائی کا حصہ بناکر بے لگام میڈیا جسے وہ گنگارو عدالت سے تعبیر کرتے ہیں، کو جواب دہ بنانے کے لیے آئینی و قانونی اقدام کرتے؟ تاہم اس نکتے پر غور کرنا ضروری ہے کہ میڈیا ٹرائل کے متاثرین کا تعلق کن طبقات سے ہے ۔کون سے طبقات ان کے نشانے پر آتے ہیں۔قومی میڈیا بالخصوص نیوز چینلوں کی یومیہ کوریج اور مباحثے کے تجزیے بتاتے ہیں کہ میڈیا ٹرائل کا نشانہ بننے والے ملک کی اقلیت، بالخصوص مسلمان اور پسماندہ طبقات ہیں۔اگر ان حقائق کی روشنی میں مذکورہ سوالات پر غور کیا جائے تو ہمیں ان سوالوں کے جوابات مل جاتے ہیں کہ میڈیا کی تمام غیر ذمہ دارانہ کارروائیوں کے باوجود اگر کاروائی نہیں ہوتی ہے تو اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اقلیتوں ، پسماندہ طبقات اور مسلمانوں سے نہ عدالت کو ہمدردی ہے اور نہ اقتدار اعلیٰ کو ان کی کوئی فکر ہے ۔چنانچہ سفاکانہ،وحشیانہ اور اخلاقیات و مروت سے عاری پرائم ٹائم کرنے والے کے خلاف جب کارروائی کی جاتی ہے تو نصف رات میں ارنب گوسوامی کی درخواست کو سپریم کورٹ قبول کرلیتی ہے اور اگلے دن آرٹیکل 19(A)اور 19(B)اظہار خیال کی آزادی کے تحت ضمانت دیدی جاتی ہے۔راہل گاندھی کے بیان کو توڑمروڑ کر ملک کو گمراہ کرنے والے زی نیوز صحافی روہت رنجن ضمانت کے لیے عدالت میں باضابطہ درخواست بھی نہیں دیتے ہیں مگر صرف وکیل کے زبانی بیان پر عدالت سماعت کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔کیا یہ قول و فعل کا تضاد نہیں ہے؟ عصمت دری کے کیس کی رپورٹنگ کرنے کے لیے اتر پردیش کے کاس گنج جانے والے کیرالا کے صحافی محمد صدیق کپن گزشتہ تین سالوں سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ وہ ضمانت کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، کشمیر میں تو صحافت کے امکانات کو ہی معدوم کردیا گیا ہے۔فیکٹ چیک کرنے والے محمد زبیر کے خلاف پولیس کی کارروائی کے واقعات ابھی بھی تازہ ہیں ۔جب عدالت اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ارنب اور روہت رنجن کو ضمانت دے سکتی ہے تو پھر محمد صدیق کپن، کشمیرکے صحافی اور محمد زبیر اس سلوک کے مستحق کیوں نہیں ہیں۔کیا انہیں اظہار خیال کی آزادی حاصل نہیں ہیںش۔جسٹس چندر چوڑ اس بات پر ناراضگی ظاہر کرتے ہیں کہ عیسائی اقلیت پر ہونے والے حملے سے متعلق درخواست کی سماعت پر تاخیر ہونے پر تنقید کیوں کی جارہی ہے۔ عزت مآب چندر چوڑ سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر اقلیتوں سے متعلق عرضی ہی تاخیر کا شکار کیوں ہوجاتی ہے؟ارنب گوسوامی اور روہت رنجن کو محض ایک دن میں ضمانت مل جاتی ہے تو پھر صدیق کپن اور محمد زبیر کو ضمانت دینے میں وہی سپریم کورٹ ہفتوں ، مہینوں اور سالوں سال کیوں لگاتی ہے۔کیا ان سوالات پر خود عدالت کو غور نہیں کرنا چاہیے۔میڈیا کو کنگارو عدالت کہنے والے جج صاحبان کی عدالت میں ہی مسلم تنظیم جمعیۃ علما ہند کی عرضی زیر سماعت ہے جس میں میڈیا کی منفی پروپیگنڈے پر لگام لگانے اور اس مہم کا حصہ بننے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے مگر اس عرضی پر سماعت تاخیر کا شکار ہے۔ اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کیا عدالت کے پاس میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے اختیارات ہیں؟ اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ کنٹنٹ ریگولیشن کا معیار کا کون طے کرے گا؟کیا میڈیا کے مواد کو باقاعدہ کرنے کے اختیارات حکومت کو دے دیے جائیں؟ یہ وہ اہم سوالات ہیں جو بہت ہی غور فکر کے متقاضی ہیں۔تاہم انہیں فی الحال درکنار کرکے ترجیحاً صرف اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ میڈیا میں اقلیتوں کی کردار کشی، میڈیا ٹرائل اور اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں اور بدنیتی پر آخر روک کون لگائے گا؟کیا عدالت اس معاملے میں ازخود کارروائی نہیں کرسکتی؟ کنگارو عدالت کی طرح کام کرنے والے میڈیا کی وحشیانہ، سفاکانہ بحثوں نے ملک کے اتحاد کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔
میڈیا حکومت کے شکنجے میں
یقیناً ترقی یافتہ دنیا میں میڈیا کے کنٹینٹ کی اور اس کے معیار کو طے کرنے کی ذمہ داری حکومتوں کے پاس نہیں ہوتی ہے۔کنٹینٹ طے کرنے کی ذمہ داری حکومتوں کو دینے سے پریس کی آزادی مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے۔اس لیے جب بھی میڈیا کی بے راہ روی کو ختم کرنے اور انہیں جواب دہ بنانے کی بات ہوتی ہے اس کا مطلب ہرگزیہ نہیں ہوتا کہ میڈیا کے مواد اور معیار کو طے کرنے کی ذمہ داری حکومت اپنے ہاتھ میں لے ۔تاہم ہرایک ادارے کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے اور اس کی کچھ سرحدیں ہوتی ہیں ۔اگر ادارے اپنے کردار اور سرحدو ں کو فراموش کرجائیں تو جواب دہی ضرور ہوتی ہے۔چنانچہ 1952میں وزیر اعظم پنڈت نہرو کے دور میں پہلا پریس کنٹرول کمیشن قائم کیا گیا ۔جس میں میڈیا کی ملکیت اور مالیاتی ڈھانچہ کو طے کیا گیا۔اس وقت پارلیمنٹ میں اس پرزور دار مباحث ہوئے تھے ۔پنڈت نہرو مکمل طور پر میڈیا کی آزادی کے حق میں تھے، وہ میڈیا کے سرمایہ دار صنعت میں تبدیل کرنے کے حق میں نہیں تھے۔تاہم ان کے دور میں میڈیا کی نگرانی کے لیے ’’پریس کونسل‘‘ قائم کیا گیا۔ آج پریس کونسل عضو مطل بن کر رہ گیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی آمد سے قبل تک ملک کے بیشتر اخبارات کارپوریٹ کے شکنجے میں نہیں تھے ۔چند صنعتی گھرانوں کے اخبار تھے مگر شعبہ ادارت مالکان کے دباؤ سے آزاد تھا ۔ایمرجنسی کے بدترین دور میں بھی اخبارات حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنے کی جرأت رکھتے تھے۔الیکٹرانک میڈیا کی آمد کے ساتھ ہی میڈیا چند صنعتی گھرانوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔صنعتی گھرانوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں ۔وہ میڈیا کے ذریعہ اپنے صنعتی مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔شاندار ’’ایچ ڈی‘‘ معیار کے چینلس یا لاکھوں صارفین کے ساتھ اشاعتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے روپے کی ضرورت ہے۔حکومت اس کے اشتہارات کبھی بھی بند کرکے دیوالیہ کرسکتی ہے۔میڈیا کی آمدنی کا مکمل انحصار بازار پر ہے اور آج سب سے بڑا بازارحکومت کے اشتہارات ہیں ۔حکومت نے خود پارلیمنٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں مرکزی حکومت نے تشہیر پر 19ہزار کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ چیف جسٹس ایس وی رمنا نے بھی اشاروں کنایوں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہےکہ آج میڈیا حکومت کے کام کاج کا تجزیہ کرنے کے بجائے حکومت کی ترجمانی کرنے لگا ہے۔
امریکہ میں جہاں سی این این ، نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے لبرل اخبارات اور نیوز چینلس ہیں وہیں فوکس نیوز بھی ہے جو دائیں بازو کے نظریات کا حامل ہے۔اسی طرح برطانیہ میں انڈیپنڈنٹ اور بی بی سی جیسے نیوز چینلس بھی ہیں وہیں ٹیبلائٹ اخبارات بھی ہیں جو میڈیا ٹرائل کے لیے شہرت رکھتے ہیں مگر میڈیا پر گہری نظر رکھنے والے بتاتے ہیں آئیڈیالوجی اور سیاسی نظریات مختلف ہونے کے باوجود کوئی بھی نیوز چینل اور اخبارات اپنے نظریات کو فروغ دینے کے لیے جھوٹ اور ملمع سازی کا سہارا نہیں لیتے۔فوکس نیوز دائیں بازو کے نظریات کا حامل ضرور ہے مگر جب واشنگٹن میں کیپیٹل ہلس میں ٹرمپ کے حامیوں نے تانڈو مچایا تھا تو فوکس نیوز نے اس کا دفاع کرنے کے بجائے اس پر سخت تنقید کی تھی اور ٹرمپ کی حمایت کرنے پر شرمندگی کا اظہار کیا تھا۔بی بی سی، وائس آف امریکہ، الجزیرہ اور ڈی چے ویلے جیسے نیوز چینلس حکومتوں کے اخراجات پر چلتے ہیں مگر یہ چینلس حکومتوں کی ترجمانی نہیں کرتے۔وائس آف امریکہ کے ایک جرنلسٹ نے کھلے عام سابق امریکی صدر ٹرمپ سے کہا کہ ہم یقیناً حکومت کے خرچ پر چلتے ہیں مگر ہم حکومت کے ترجمان نہیں ہیں۔ کیا پرسار بھارتی، ڈی ڈی نیوز سے وابستہ صحافیوں سے اس طرح کی جرأت کی امید کی جا سکتی ہے؟ سرکاری نیوز چینلس کے کنٹینٹ کی آزادی کا ذکر کیا کرنا اب تو پرائیوٹ نیوز چینلس کے کنٹینٹ کو بھی حکومت طے کرتی ہے اور کون ایڈیٹر ہو گا اور کون نہیں وہ بھی وزیر اعظم مودی کے اشارے پر طے ہوتے ہیں ۔نیوز رومز میں ایک غیر اعلانیہ سنسرشپ اور نوکری سے نکالنے کا خوف اس قدر طاری ہے کہ صحافی جس کا کام ہی حکومت کا احتساب کرنا تھا، اب تقریباً حکومت کا ہی عضو بن گیا ہے۔ملک کے ایک بڑے اخبار ہندوستان ٹائمس کے ایڈیٹر بوبی گھوش جنہوں نے اخبار اور ویب سائٹ پر ہندو انتہاپسندی کے خلاف ایک طرح سے جنگ چھیڑی ہوئی تھی، انہیں حکومت کے اشارے پر ڈرامائی انداز میں نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔
ملک کے مشہور صحافی پرسون واجپئی نے جب کسانوں کی صحیح صورت حال پیش کی تو پہلے نیوز چینل کے نشریے میں رخنہ ڈالا گیا اور اس کے بعد نیوز چینل کے مالکان پر دباؤ ڈال کر نکال باہر کر دیا گیا۔ یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ ہندوستانی میڈیا حکومت کے شکنجے میں ہے اور ہو سکتا ہے کہ اسی کے اشارے پر اقلیتوں کے خلاف مہم چلائی جاری ہو۔چنانچہ ایک دو چینلس یا پھر ایک دو نیوز اینکرس کو چھوڑ کر باقی سب اقلیتوں کے خلاف مہم میں مصروف ہیں اور دائیں بازو کے نظریات کی خدمت کر رہے ہیں۔
ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کی رپورٹ میں جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان پریس کی آزادی کے معاملے میں 180 ممالک میں ہندوستان 142ویں پوزیشن پر پہنچ گیا ہے یعنی پاکستان اور بنگلہ دیش جو پریس کی آزادی پر قدغن لگانے کے لیے بدنام رہے ہیں ان سے بھی نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ رینک کے علاوہ اس رپورٹ میں پس پردہ وجوہات کی جو نشان دہی کی گئی ہے وہ قابل مطالعہ ہیں۔ پیرس میں قائم Reporters Sans Frontieres (RSF)، یا رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز، ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو دنیا بھر میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں کو دستاویز کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔
اپنی رپورٹ میںRSF نے ہندوستان میں پریس کی آزادی پر قدغن کے لیے مودی حکومت کی میڈیا پر سخت گرفت اور ہندو قوم پرست ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر دباؤ بنانے کی ذمہ دار ہے۔ ہندوستانی میڈیا ایک ہندو قوم پرست حکومت کے ماتحت ہے جس نے بار بار صحافیوں کو دبانے کی کوشش کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے 2019میں دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا پر ہندو قوم پرست حکومت کے موقف اور اسی کی طے شدہ لائن پر چلنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔ ہر ایک معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جانا بھی اسی کا حصہ ہے۔ رپورٹ میں کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران بستی نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے مرکز میں سیکڑوں افراد کے پھنسے ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کی خبر آنے کے بعد ہی میڈیا ہاؤسزنے عالمی وبا کو فرقہ وارانہ شکل دینا شروع کردیا۔ ان کی نفرت انگیز رپورٹنگ اتنی بھیانک تھی کہ سرعام مسلمانوں کا چلنا پھرنا مشکل ہو گیا۔ سوشل میڈیا صارفین اور مین اسٹریم میڈیا دونوں پر وبائی امراض کے لیے مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے والی جعلی خبروں کا ایک سلسلہ ہفتوں جاری رہا۔ کورونا وائرس کے خوف اور موجودہ مذہبی کشیدگی نے ملک میں اسلامو فوبیا کو مزید ہوا دی۔ اسی طرح اپریل 2020 میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرنے کے وزیر اعظم مودی کے اعلان کے بعد اپنے وطن کو لوٹنے کے لیے بے چین مہاجر مزدوروں کے باندرا اسٹیشن پر جمع ہونے کو مسجد سے جوڑ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کر دی گئی۔ نیوز نیشن، انڈیا ٹی وی، اور اے بی پی جیسے چینلوں نے سوال کھڑا کردیا کہ ہجوم ایک مسجد کے قریب کیوں جمع ہوا؟ جب کہ مسجد کا کوئی کردار نہیں تھا۔ مہاجر، بھوکے اور محتاج، صرف اپنے آبائی علاقوں کو جانا چاہتے تھے اس لیے وہ باندار اسٹیشن کے باہر جمع ہوئے تھے۔ چونکہ اسٹیشن کے قریب مسجد ہے اس لیے بھیڑ مسجد کے باہر جمع نظر آرہی تھی۔ آر ایس ایف کی رپورٹ میں کورونا وائرس وبائی مرض کے جواب میں میڈیا کی آزادی کو دبانے اور انڈیکس میں ملک کی درجہ بندی کے درمیان واضح تعلق کی نشان دہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان، فلپائن، ویت نام اور روس جیسے ممالک میں منظم انداز میں سوشل میڈیا کی فوجیں ہیں جو منظم انداز میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلاتی ہیں۔ ہندوستان میں تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کی آئی ٹی سیلز ہیں جو جعلی خبریں پھیلانے کے لیے باضابطہ تنخواہ دار ملازمین کو رکھا ہوا ہے۔ رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے میڈیا معروضیت اور آبجیکٹیو پر مبنی خبروں کی اشاعت کی کوشش کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کو بنیاد بنا کر خبر سازی کرتا ہے۔ آر ایس ایف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوتوا نظریات کے مخالف یا پھر حکومت کی پالیسیوں کی سخت تنقید کرنے والے صحافیوں کو منفی مہم کا سامنا ہے۔ ایسے صحافیوں کے خلاف غداری جیسے مقدمات درج کرکے پریشان کیا جاتا ہے۔ کشمیر میں صحافت کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں عملی طور پر صحافیوں کے لیے اپنا کام کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔
مشہور سماجی کارکن کویتا کرشنن بتاتی ہیں ایک چیز جو ہندوستانی میڈیا نہیں کر رہا وہ ہے صحافت۔ سچ تو یہ ہے کہ آج بہت کم لوگ صحافت کر رہے ہیں۔ Zee News، Aaj Tak سے Network18 تک چینلس ہر چیز میں لفظ ’’جہاد‘‘ شامل کر کے اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلا رہا ہے۔’’کورونا جہاد‘‘ ،’’زمین جہاد، ’’لو جہاد‘‘، ’’ معاشی جہاد‘‘ اور اب ’’سیلاب جہاد‘‘ کی نئی اصطلاع آئی ہے۔ کرشنن کہتی ہیں کہ آج اگر کوئی مقدس جنگ لڑ رہا ہے تو وہ ہندوستانی میڈیا ہے۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جہاد ہے۔سوال یہ ہے کہ ہندوستانی میڈیا مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں کرتا ہے؟ سدھیر چودھری، ارنب گوسوامی، دیپک چورسیا، امیش دیوگن، انجانا اوم کشیپ جیسے نیوز اینکرزس مسلمانوں کے خلاف شیطانیت پر مبنی نفرت پھیلانے سے کیوں نہیں تھکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب کویتا کرشنن دیتی ہیں کہ اس کے لیے انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے کیوں کہ نفرت انگیز مہم کے ذریعہ پولرائزیشن کی فضا ہموار ہوتی ہے اور اس کا براہ راست فائدہ موجودہ حکومت کو ملتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہندوستان میں میڈیا پر غلبہ کن طبقات کا ہے اور اس کی تاریخ کیا ہے اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ نیوز روم سے لے کر منیجمنٹ تک 90 فیصد عملے کا تعلق چند مخصوص ذات و برادری سے ہے۔ مسلمانوں، پسماندہ طبقات اور دلتوں کی نمائندگی 10 فیصد سے بھی کم ہے۔
آخر اس کا حل کیا ہے؟
حال ہی میں رائٹرس جرنلزم انسٹی ٹیوٹ نے 46 ممالک میں ایک لاکھ افراد پر مشتمل سروے کرتے ہوئے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ عوام میں میڈیا کے معتبریت سے متعلق کیا احساسات ہیں۔ مجموعی طور پر صرف 26 فیصد افراد نے میڈیا کے معتبریت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ہندوستان میں اگرچہ اس کی شرح بہتر ہے تاہم یہاں بھی 35فیصد افراد کو ہی میڈیا پر اعتبار ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس نفرت انگیز مہم کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کیا عدالتوں کے ذریعہ میڈیا ٹرائل پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ یہ سوالات بہت ہی اہم بھی اور پیچیدہ بھی ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں یہ بات کہی گئی ہے کہ کنٹینٹ کے معیاری و غیر معیاری کا پیمانہ طے کرنے کی ذمہ داری حکومت کو نہیں دی جاسکتی کیوں کہ حکومت پہلے سے ہی اشتہارات کے ذریعہ ایڈیٹوریل پر حاوی ہوتی جا رہی ہے۔ تاہم اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ امر میڈیا پر ہی چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ اپنی کوتاہیوں و ناکامیوں کا محاسبہ کرنے کے لیے ’’سیلف ریگولیشن‘‘ طے کرے؟ ظاہر ہے کہ یہ جواب دہ بنانے کی نیم دلانہ کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔چونکہ پریس کونسل کا دائرہ اختیار محدود ہے اس لیے اس سے یہ امید نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا اگر اس معاملے میں کوئی ادارہ کچھ کر سکتا ہے تو وہ سپریم کورٹ ہی ہے۔ سپریم کورٹ میڈیا کے پروپیگنڈے اور سماج کو تقسیم کرنے کی رپورٹنگ پر نوٹس پر لیتے ہوئے ایک کمیشن کے قیام کی راہ ہموار کرے۔ میڈیا کے کام کاج کے تمام پہلوؤں پر نظر رکھنے اور اس کا محاسبہ کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر جج کی نگرانی میں ایک میڈیا کمیشن قائم کیا جائے۔ اس کمیشن میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کے علاوہ میڈیا تنظیموں کے نمائندے شامل کیے جائیں اور اس کمیشن کو میڈیا کے لیے اصول و ضوابط طے کرنے کی ذمہ داری اور نگرانی کرنے کے اختیارات دیے جائیں۔ اس کے لیے سول سوسائٹی کو بھی کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا اور متبادل صحافت کے ساتھ متبادل نقوش راہ تعین کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ہو گا۔ آئین کے آرٹیکل19(2) کی ماضی میں سپریم کورٹ نے متعدد بار تشریح کی ہے جس سے میڈیا کی نگرانی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اگر یہ قدم نہیں اٹھائے گئے تو معزز جج صاحبان کے تبصرے کا کوئی حاصل نہیں ہو گا۔
(نوراللہ جاویدصحافت سے گزشتہ 20سالوں سے وابستہ ہیں) [email protected]
فون:8777308904
***
میڈیا کے کام کاج کے تمام پہلوؤں پر نظر رکھنے اور اس کا محاسبہ کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر جج کی نگرانی میں ایک میڈیا کمیشن قائم کیا جائے۔ اس کمیشن میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کے علاوہ میڈیا تنظیموں کے نمائندے شامل کیے جائیں اور اس کمیشن کو میڈیا کے لیے اصول و ضوابط طے کرنے کی ذمہ داری اور نگرانی کرنے کے اختیارات دیے جائیں۔ اس کے لیے سول سوسائٹی کو بھی کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2022