جمعیۃ علمائے ہندکی جانب سے میوات میں تین ہندو خاندانوں سمیت20بے گھر خاندانوں کو آشیانہ  

نئی دہلی،16دسمبر :۔

میوات کے فساد زدہ علاقے میں  جمعیۃعلماء ہند نےرفاہ عامہ کے تحت بے گھر اور بے سہارا لوگوں کو بلا تفریق مذہب آشیانہ فراہم کر کے انسانیت کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ایک ریلیز کے مطابق  فیروزپورجھرکہ میوات میں  ان فسادزدہ متاثرین کے لئے جن کے مکانوں کو میوات فسادکے بعد انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے بلڈوزکردیاتھا کہ یہ محکمہ جنگلات کی زمین ہے، ان کو دوبارہ آبادکرنے کے لئے باضابطہ طورپر زمین کے کاغذات اورایک لاکھ روپے کے ابتدائی امدادی چیک سونپے۔15 دسمبر کو فیروز پور جھرکہ میں ایک پروگرام کے دوران مولانا ارشد مدنی نے خود متاثرین کے ہاتھوں میں کاغذات اور رقم کے چیک سونپے۔

حالانکہ یہ لوگ ایک زمانے سے ان پہاڑیوں کے دامن میں مکان بناکر رہ رہے تھے۔ جمعیۃعلماء ہند نے ان فسادمتاثرین میں سے ان 20لوگوں کا انتخاب کیا جن کے پاس نہ کوئی زمین تھی اورنہ رہنے کا مکان، مکان بلڈوزہونے کے بعد بھی یہ لوگ اسی جگہ پر پلاسٹک وغیرہ لگاکر رہ رہے تھے۔ ان کے لئے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے 22سوگززمین خرید کر رجسٹری کرائی اورایک خاندان کو تقریبا 100گزکا مکان اورپانی کی ٹنکی اورایک مسجد بناکر دینے کااپنا وعدہ پوراکیا۔ مسجد میں ایسے امام کاانتظام بھی کیا جائے گاجو ان کے بچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دے سکیں، مولانا مدنی نے آج  میوات میں بے گھر ہوئے 20خاندانوں کوزمین کی رجسٹری کے کاغذات سپردکئے،اورمکانات کی تعمیر کے لئے فی الحال فی کس ایک لاکھ روپے دئیے تاکہ متاثرین اپنی ضرورت کے مطابق مکان تعمیر کرالیں۔ انہوں نے متاثرہ علاقوں میں امدادی اورفلاحی کاموں کا جائزہ لیااورمتاثرین سے ملاقات بھی کی۔

قابل ذکر ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کے عہدیداران اوررضاکارپہلے دن سے متاثرہ علاقوں میں متاثرین کو ہرطرح کی مددفراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

گزشتہ 13 ستمبر کو فسادات کے بعد سے بے کارہوئے ان دوسوسے زائد افرادکو جو ریہیڑی، پٹری لگاکر روزی روٹی کمارہے تھے نقدمالی امداد فراہم کی تھی، کیونکہ فسادمیں ان کاسارااثاثہ تباہ ہوچکاتھا چنانچہ مولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر ان میں فی کس بیس ہزارروپے کی شکل میں چالیس لاکھ روپے تقسیم کئے گئے تھے تاکہ وہ اپنا کاروباردوبارہ شروع کرسکیں، اس وقت مولانا مدنی نے یہ اعلان کیا تھا کہ جلد ہی متاثرہ علاقوں میں بازآبادکاری کا کام بھی شروع کردیا جائے گا اورجن کے گھروں کو غیر قانونی قراردیکرتوڑدیاگیا ہے۔ جمعیۃعلماء ہند انہیں نئے گھر بناکر دے گی۔

مولانا مدنی نے آج اپنے اسی اعلان کی تکمیل میں گھروں کی تعمیر کے لئے جو 22سوگززمین خریدی گئی جس میں ہر ایک خاندان کو100گزپر مشتمل زمین مکان بنانے کے لئے دی گئی،آج اس کی رجسٹری کے کاغذات متاثرین کو سونپے گئے جن میں تین ہندو خاندان بھی شامل ہیں

اس موقع پر مولانا مدنی نے یہاں منعقدہونے والی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  کہاکہ ہم خداکاشکر اداکرتے ہیں کہ انتہائی ضرورت مندلوگوں تک مددپہنچاسکے۔

گفتگوکرتے ہوئے مولانا مدنی نے متھراکی شاہی عیدگاہ پر الہ آبادہائی کورٹ کے تازہ فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ 1991میں عبادتگاہوں کے تحفظ سے متعلق لائے گئے قانون سے متصادم ہے،اور اس قانون کے تحفظ اورمؤثرنفاذ کے لئے جمعیۃعلماء ہند پہلے سے ہی سپریم کورٹ میں قانونی جنگ لڑرہی ہے۔ اس قانون کو 18ستمبر1991میں پارلیمنٹ سے منظورکیا گیا تھا انہوں نے مزیدکہا کہ یہ فیصلہ 1968میں ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان ہوئے اس معاہدہ کے بھی سراسرخلاف ہے جس کے تحت مقامی ہندوؤں اورمسلمانوں نے 13.37ایکڑزمین عیدگاہ اورمندرکے درمیان تقسیم کردی تھی، یہ معاہدہ شری کرشن جنم استھان سیواسنتھان اورشاہی عیدگاہ مسجد ٹرسٹ کے درمیان ہواتھا۔ انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند اس معاملہ کو بھی عدالت میں مضبوطی کے ساتھ لڑے گی۔

آج مولانا مدنی کے ہاتھوں گھر کے کاغذات پاکر متاثرین بے حد جذباتی ہوگئے،ان کی آنکھیں چھلک پڑیں اورانہوں نے جمعیۃ علماء ہندا ورمولانا مدنی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ فساد کے بعد آنے والے تو بہت آئے،دلاسہ دیا،مددکا وعدہ کیا اور چلے گئے۔مگر مولانا مدنی نے ہمیں یاد رکھا،انہوں ہمارے بچوں کو رہنے کے لئے آشیانہ فراہم کیا۔