جعلی خبریں پھیلانے میں صرف سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ نیوز ایجنسی بھی شامل

وزیر اعظم نریندر مودی کا یوم پیدائش تبلیغی جماعت والوں نے نہیں بی جے پی کے مسلم کارکنوں نے منایا تھا

ذیشان آزاد، دھنباد، جھارکھنڈ

سوال یہ ہے کہ کیا صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی جعلی خبریں پھیل رہی ہیں یا پھیلائی جارہی ہیں؟ تو تھوڑی سی تحقیق کے بعد جواب اس کا نفی میں ملے گا اور آپ کو معلوم ہو گا کہ چند مین اسٹریم میڈیا اور نیوز ایجنسیاں بھی اس کارِ شر میں وقتاً فوقتاً شامل ہوجاتی ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان غلط خبروں کی تحقیق و تفتیش سامنے آتی ہے۔ چنانچہ ٹھیک یہی ہوا جب 17ستمبر کو وزیراعظم نریندر مودی کی 70ویں یوم پیدائش کے موقع چند مسلمانوں نے دعاؤں کا اہتمام کیا تو خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے اسی دن ایک اسٹوری شائع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس موقع پر مسلمان مرکز نظام الدین، دلی میں جمع ہوئے، دعاؤں کا اہتمام کیا گیا اور برتھ ڈے کیک بھی کاٹا۔ اس رپورٹ میں صہیب قاسمی کا ایک بیان بھی شیئر کیا گیا کہ انہوں نے کہا ہے کہ”پچھلے 6سالوں میں وزیراعظم نے کبھی بھی مذہب، ذات پات کے بارے میں کوئی بات نہیں کی بلکہ ملک کے 130 کروڑ عوام کی بات کی ہے‘‘۔اے این آئی کی اس خبر کو کئی نیوز چینل نے نشر کیا۔ جب کہ ’اَلٹ نیوز‘ نے تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ جس ویڈیو کو صہیب قاسمی نے اپ لوڈ کیا تھا وہ مرکز نظام الدین میں نہیں بلکہ تقریب بی جے پی ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہوئی تھی۔ یہ وہی صہیب قاسمی ہیں جنہیں اے این آئی نے کوڈ کیا ہے، خود صہیب قاسمی اپنے فیس بک بایو (Facebook bio) میں لکھتے ہیں کہ وہ آر ایس ایس سے منسلک ہیں۔ واضح ہو کہ صہیب قاسمی ’’ایودھیا ڈائیلاگ کمیٹی‘‘ کے چیئرمین بھی ہیں۔ یہ کمیٹی سن 2016میں ایودھیا تنازعہ کے حل کے مقصد کے لیے تشکیل دی گئی تھی تاکہ دونوں فریقوں کے نامور لوگ اس مسئلے پر تبادلہ خیال کر سکیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اے این آئی نے مسلم کمیونٹی کے لوگوں کے بارے میں نا مکمل معلومات کے ساتھ خبریں نیوز چینلوں کو دی اور بی جے پی کے ساتھ ان کے تعلقات کو چھپایا ہے۔ اس سے قبل متعدد مواقع پر اس ایجنسی نے بنارس کی مسلم خواتین کو ہندو رسم و رواج ادا کرتے اور وزیر اعظم کی تعریف ہوتے ہوئے دکھایا ہے۔ اس خبر کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر دکھائے جانے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ بستی نظام الدین تبلیغی جماعت کا ہیڈ کوارٹر ہے جسے حال ہی میں کورونا وائرس کے نام پر خوب بد نام کیا گیا تھا اور مرکزی حکومت نے انہیں کورونا وائرس پھیلائے جانے کا ذمہ دار قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ آخر کار ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے حکومت کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ تبلیغی جماعت کو بلی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ لیکن وہ افراد، ادارے اور وہ سیاست داں جو تبلیغی جماعت کے قصور وار بلکہ مجرم ہیں اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ اپنے اس عمل کے لیے جس پر عدالت نے ان کی گرفت کی ہے، بجائے نادم اور شرمندہ ہونے کے الٹا اپنے دعوے پر اب بھی قائم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے 21ستمبر پیر کے روز کہا کہ دلی کے نظام الدین علاقے میں مارچ کے دوران تبلیغی جماعت کے پروگرام میں لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس کا انفیکشن کئی لوگوں تک پھیل گیا ہے۔ مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ جے کشن ریڈی نے راجیہ سبھا میں یہ بھی کہا کہ دلی پولیس نے تبلیغی جماعت کے 233ارکان کو گرفتار کیا اور 29مارچ سے تنظیم کے صدر دفتر سے 2361افراد کو نکالا گیا ہے۔ ایک سوال کے تحریری جواب میں انہوں نے یہ باتیں کہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ جماعت کے سربراہ مولانا محمد سعد کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ کشن ریڈی شاید دانستہ طور پر تبلیغی ورکروں کے’بلڈ پلازمہ‘کا تذکرہ کرنا بھول گئے جس کے سبب کئی کورونا وائرس کے مریضوں کو شفا ملی تھی۔ وہ یہ بھی نہیں کہ پائے کہ اکثر تبلیغی جماعت کے افراد کورونا نیگیٹیو پائے گئے تھے۔ کاش وہ یہ بھی کہ دیتے کہ مرکز سے تبلیغی جماعت والوں کو نکالنے میں دلی پولیس پورے طور پر ناکام رہی تھی۔ بہرحال اب پھر سے بات اے این آئی کی کی جائے جس نے وزیر اعظم نریندر مودی کے یوم پیدائش کے موقع پر دعائیہ اہتمام کو مرکز نظام الدین سے جوڑا تھا جس کا مقصد بالکل واضح ہے کہ اس خبر سے یہ جھوٹ پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی کہ نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ تبلیغی جماعت میں بھی وزیر اعظم نریندر مودی کافی مقبول ہیں یہاں تک کہ ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں بھی مانگی جا رہی ہیں۔ واضح ہو کہ ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) ایک ہندوستانی خبر رساں ادارہ ہے جو بڑے پیمانے پر نیوز چینلوں کو ملٹی میڈیا نیوز فیڈ پیش کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اے این آئی ہندوستان کی سب سے بڑی ٹیلی ویژن نیوز ایجنسی ہے۔ جب اتنے بڑے نیوز ایجنسی کا یہ حال ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورے سسٹم میں کتنا کچھ بگاڑ آچکا ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020