جامعہ کے 100 سال کا سفرنامہ

جدو جہد آزادی سے لیکر ایک عظیم دانش گاہ بننے تک

احمد عظیم

 

جامعہ ملیہ اسلامیہ کو قائم ہوئے ایک صدی مکمل ہو چکی ہے۔ اس ادارہ کا قیام برطانوی حکومت کے تعلیمی نظام کے خلاف ایک بغاوت کے طور پر عمل میں لایا گیا تھا جو اپنے نو آبادیاتی اقتدار کو چلانے کے لیے صرف بابوؤں کو بنانے تک مرکوز تھی۔ اپنے اس کردار کو بخوبی انجام دینے کے بعد آزادی کے بعد سے آج یہ یونیورسٹی زینہ بزینہ چڑھتے ہوئے ملک کے ملک کی ٹاپ تین یونیورسٹیوں میں شامل ہے۔ حال ہی میں مرکزی وزارت تعلیم نے اسے ملک کی 40 یونیورسٹیوں میں بہترین یونیورسٹی کا درجہ دیا ہے۔
اگست 1920 میں مہاتما گاندھی نے ہندوستانیوں سے برطانوی تعلیمی نظام اور ان کے اداروں کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عدم تعاون کی تحریک کا اعلان کیا۔ محمد علی جوہر کے بلاوے پر اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ اور طلبہ نے 29 اکتوبر 1920 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ اس کو بنانے میں عظیم مجاہد آزادی مہاتما گاندھی، حکیم اجمل خان، ذاکر حسین، مختار احمد انصاری، عبدالمجید خواجہ اور محمود حسن دیوبندی وغیرہم نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ بعد میں یہ ادارہ علی گڑھ سے دہلی شفٹ ہو گیا۔ جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ نے تعلیم کے ساتھ آزادی کی ہر تحریک میں حصہ لیا تھا اسی وجہ سے انہیں اکثر جیل جانا پڑتا تھا۔
برطانوی تعلیم اور اس کے نظام کی مخالفت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس رقم اور وسائل کی کمی تھی۔ انگریزی حکمرانی کے خوف سے راجے رجواڑے اور عوام اس کی مالی مدد کرنے سے خوفزدہ تھے۔ اس کی وجہ سے 1925 میں یہ ادارہ ایک بہت بڑا مالی بحران کا شکار رہا۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ بند ہو جائے گا۔ لیکن گاندھی جی نے کہا کہ چاہے کتنا ہی مشکل کام ہو دیسی تعلیم کے حامی جامعہ کو کسی قیمت پر بند نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا’’ اگر مجھے جامعہ کے لیے بھیک مانگنی پڑی تو میں وہ بھی کروں گا‘‘۔
گاندھی جی نے جمنا لال بجاج، گھنشیام داس برلا اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے بانی پنڈت مدن موہن مالویہ سمیت بہت سے لوگوں سے جامعہ کی مالی مدد کرنے کو کہا چنانچہ ان لوگوں کی مدد سے جامعہ اس بحران سے بچ گیا۔ اسی وجہ سے جامعہ کے وائس چانسلر آفس کمپاؤنڈ میں واقع فائنانس آفس کی عمارت کا نام ’جمنا لال بجاج بلڈنگ‘رکھا گیا ہے۔
بابائے قوم مہاتما گاندھی کے بیٹے دیو داس نے جامعہ میں بطور استاد کام کیا۔ گاندھی کے پوتے رسیک لال نے بھی جامعہ میں تعلیم حاصل کی۔
جامعہ کے ساتھ عظیم ادیب منشی پریم چند کا بھی خاص رشتہ تھا۔ وہ اکثر یہاں آکر ٹھہرا کرتے تھے۔ ان کے گہرے دوست ڈاکٹر ذاکر حسین نے ان سے گزارش کی کہ وہ جامعہ میں رہتے ہوئے ایک کہانی لکھیں۔ منشی پریم چند نے پوری رات جاگ کر اپنی کلاسیکی کہانی ’کفن‘یہاں لکھی جو جامعہ میگزین میں سب سے پہلے شائع ہوئی۔
2004 میں جامعہ میں ’منشی پریم چند آرکائیوز اینڈ لٹریچر سینٹر‘قائم کیا گیا۔ اس میں اخبارات اور رسائل میں پریم چند پر شائع مضامین کا ذخیرہ ہے جس میں پریم چند کی شائع شدہ، غیر مطبوعہ اور نامکمل کہانیاں شامل ہیں۔ پریم چند کے علاوہ دیگر ہندوستانی ادب کی نادر تخلیقات بھی یہاں دستیاب ہیں۔تحریک آزادی تحریک کا ایک حصہ رہنے کے بعد جامعہ نے آزادی کے بعد جدید تعلیم پر خصوصی توجہ دینا شروع کی۔
جامعہ ملک کی واحد یونیورسٹی ہے جو ہندوستان کی برّی، بحری اور فضائی تینوں افواج کے اہلکاروں اور افسروں کے لیے مزید تعلیم کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ آرمی کے جوان دیگر خدمات کے مقابلے میں کم عمری میں ہی داخل ہوتے ہیں اور کم عمر میں ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں فوج میں رہتے ہوئے مزید تعلیم حاصل کرتے ہوئے انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد اچھی ملازمت کے مواقع ملتے ہیں۔
سال 2010 میں قائم جامعہ کی رہائشی کوچنگ اکیڈمی (آر سی اے) نے یو پی ایس سی سول سروسز میں تمام برادریوں کی خواتین، اقلیتوں، ایس سیز اور ایس ٹیز امیدواروں کی تعلیم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں پر مفت کوچنگ حاصل کرنے والے طلبا میں 230 سے زیادہ یو پی ایس سی میں کامیاب ہوئے۔ اس کے علاوہ 250 سے زیادہ مرکزی اور صوبائی شہری خدمات کے لیے منتخب کیے گئے۔
آج جامعہ میں جو تعلیم دی جا رہی ہے اسے ہندوستان اور بیرون ملک ہر جگہ تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اس سال نیشنل انسٹیٹیوٹ رینکنگ فریم ورک (این آئی آر ایف) میں جامعہ کو مرکزی یونیورسٹیوں کی فہرست میں دسویں اور ملک کے تمام اداروں میں 16 واں مقام ملا ہے۔ لندن میں ٹائمز ہائیر ایجوکیشن نے جامعہ کو ہندوستان میں 12 ویں اور دنیا کی 1527 یونیورسٹیوں میں 601-800 مقام دیا۔ جامعہ کو راؤنڈ یونیورسٹی ورلڈ رینکنگ میں ملک کی 25 مرکزی یونیورسٹیوں میں تیسرا مقام حاصل ہے۔ حال ہی میں مرکزی وزارت تعلیم نے جامعہ کو ملک کی 40 یونیورسٹیوں کی کارکردگی کی تشخیص میں اعلیٰ مقام دیا ہے۔مرکزی وزارت تعلیم کی جانب سے ‘بہترین یونیورسٹی’ کا درجہ پانے والا جامعہ سبھی جدید ترین مضامین پر اعلیٰ معیار کی تعلیم اور تحقیقی سہولیات مہیا کراتا ہے۔اس وقت جامعہ میں 9 فیکلٹی 43 شعبہ جات اور ہائر اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کے 27 مراکز ہیں جن میں 270 سے زیادہ کورسز پڑھائے جاتے ہیں۔ ان میں ڈینٹل سرجری، فزیوتھیراپی، بائیوٹیکنالوجی، بائیو سائنسز، ایروناٹکس، الیکٹرانکس اینڈ کمیونیکیشن انجینئرنگ، سول، مکینیکل اور الیکٹریکل انجینئرنگ شامل ہیں۔ انجینئرنگ، نینو سائنس اور نینو ٹکنالوجی، فن تعمیر، قانون، فنون لطیفہ، سنسکرت، فارسی، ہندی، اردو، ترکی، فرانسیسی، اور کورین زبانوں اور جدید یورپی زبانوں کے کورسز شامل ہیں۔
حال ہی میں شعبوں کی فہرست میں 4 نئے شعبوں کو شامل کیا گیا ہے جن میں ڈیزائن اینڈ انوویشن، اسپتال مینجمنٹ اینڈ اسپیس اسٹڈیز، ماحولیاتی علوم اور شعبہ غیر ملکی زبان شامل ہیں۔جامعہ ملازمت پر مبنی تعلیم کے لیے بہت سارے کورسیز چلاتا ہے یہاں تک کہ ان بچوں کے لیے بھی جو اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ ان میں آٹھویں سے دسویں اور بارہویں جماعت پاس طلباء کے لیے الیکٹریشن، کڑھائی، سلائی، پیکیجنگ، بوتلنگ وغیرہ شامل ہیں۔جامعہ کھیلوں میں بھی سرخیل رہا ہے۔ وریندر سہواگ جیسے مشہور کرکٹرز اور ہاکی کے کھلاڑی جیسے بھارت چیخارا، گگن اجیت سنگھ، دانش مجتبیٰ، پربجوت سنگھ، دیویش چوہان اور پریرنا بھارتی جیسے ٹینس کھلاڑی جامعہ نے دیے ہیں۔
فلمی شخصیات میں کرن راو، کبیر خان، شاہ رخ خان، لولین ٹنڈن، مومنی رائے اور ندھی بشٹ وغیرہ شامل ہیں۔ جامعہ کے سابق طلباء میں برکھا دت جیسی صحافی بھی شامل ہیں۔
(مضمون نگار جامعہ کے پی ار او میڈیا کوآرڈینیٹر ہیں)
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020