مسعود ابدالی
کرونا وائرس زندگی کے ساتھ اسبابِ زندگی کو بھی تیزی سے چاٹ رہا ہے۔ صدر ٹرمپ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بندش ولاک ڈاون کے افق سے امڈتا بیروزگاری وکساد بازاری کا طوفان اس جرثومے سے زیادہ مہلک ہوگا۔ ساری دنیا میں مشینیں خاموش اور پہیے جام ہیں۔ فضائی وبحری شاہراہیں سنسان، دوکانیں بند اور دفاتر مقفل ہیں جس کی وجہ سے خام تیل کی کھپت نہ ہونے کے برابر ہے۔ قیمتیں پہلے ہی دباو کا شکار تھیں کرونا وائرس نے تیل کی رہی سہی تجارت کا بھی دیوالیہ نکال دیا۔ اس عذاب سے پہلے دنیا میں تیل کی طلب کا تخمینہ 10 کروڑ بیرل یومیہ تھا جو اب کم ہو کر 8 کروڑ بیرل روزانہ رہ گئی ہے۔
قیمتوں کی گراوٹ کے باوجود اوپیک ممالک، روس اور امریکہ نے پیداوار کا حجم برقرار رکھا ہے۔ چین میں اس مرض کا آغاز تو خاصہ پہلے ہوچکا تھا لیکن جنوری میں وبا کی شکل اختیار ہو جانے پر کارخانے ایک کے ایک بعد بند ہونا شروع ہو گئے۔ پروازوں اور آمد ورفت پر پابندیوں سے بین الاقوامی تجارت صفر کے قریب پہنچ گئی۔ چین سعودی تیل کا سب سے بڑا گاہک ہے۔ چین کے صنعتی تعطل سےجاپان، جنوبی کوریا اور ہندوستان کی منڈیاں بھی سست ہونا شروع ہوگئیں۔ گویا سعودیوں کے تین دوسرے کرم فرماوں نے بھی تیل کی درآمد بہت کم کر دی۔
چین، روسی تیل کا بھی بڑا خریدار ہے۔ روس نے اپنی بکری بڑھانے کے لیے چین کو اضافی رعایت کی پیشکش کی۔ صرف یہی نہیں بلکہ سودے کو مزید پرکشش بنانے کے لیے ماسکو اپنے تیل کی قیمت ڈالر کے بجائے چینی کرنسی میں قبول کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ ریاض کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جب 7 مارچ کو سعودی وزیر تیل شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے اپنے بھائی ولی عہد محمد بن سلمان المعروف MBS کو یہ بات بتائی تو انہیں یہ سن کر اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ بد ترین کساد بازاری کے دوران چین کو کھو دینے کا تصور ہی سعودیوں کے لیے ناقابل قبول تھا۔ چنانچہ MBS نے روسی صدر پوٹن کو فون کیا۔ سعودی ولی عہد کی تجویز تھی کہ اضافی رعایت کے بجائے تیل کی پیدوار میں کمی کردی جائے تاکہ قیمتوں میں استحکام پیدا ہو۔ لیکن MBS روسی صدر کو قائل کرانے میں ناکام رہے۔
پیداوار میں کٹوتی سے انکار اور چین سے پتہ کاٹنے کی کوششوں پر مشتعل ہو کر MBS نے روسیوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ سعودی ارامکو نے اپنی پیداوار 85 لاکھ بیرل یومیہ سے بڑھا کر ایک کروڑ 20 لاکھ بیرل روزانہ کردی۔ایسے وقت جب اٹلی، فرانس اور جرمنی میں مکمل لاک ڈاون تھا اور یورپ و امریکہ کے بازار ہائے حصص شدید مندی کا شکار تھے، سعودی عرب کا یہ اعلان بجلی بن کر گرا اور تیل 20 ڈالر فی بیرل فروخت ہونے لگا۔ امریکہ میں خام تیل کی پیداواری لاگت 38 ڈالر فی بیرل ہے چنانچہ زمین سے لگی قیمتوں نے تیل کی صنعت کا جنازہ نکال دیا۔ قدرت کی فیاضیوں کی بنا پر سعودی تیل کی پیداواری لاگت صرف 3 ڈالر فی بیرل ہے۔ دام کی اس درجہ گراوٹ پر امریکی تیل کمپنیوں کے لیے اپنے کنووں کے منہ بند کردینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا اورصرف دو دن میں صنعت سے وابستہ ایک لاکھ کارکن بیروزگار ہوگئے۔
دوسری طرف امریکہ میں یہ ’سرگوشی‘ عام ہوئی کہ سعودی عرب اور روس کی حالیہ لڑائی دوستانہ مقابلے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ پیداوار پر اختلاف محض بہانہ اور امریکہ کی سلیٹی چٹانیں (Shale) ان دونوں کا اصل نشانہ ہیں۔ یعنی روس اور سعودی عرب تیل کی عالمی قیمت گرا کر امریکہ کے سلیٹی میدانوں کو بند کروا دینا چاہتے ہیں۔ یہاں سلیٹی چٹانوں سے تیل کشید کرنے کی ترکیب پر ایک مختصر گفتگو سے شاید اس معاملے کا پس منظر سمجھنے میں آسانی ہوگی:
تیل کی تلاش کے لیے عام طور سے ایسی چٹانوں میں قسمت آزمائی کی جاتی ہے جو مسامدار ہوں اور جہاں تیل ایک جگہ جمع رہنے کا امکان ہو۔ تیل وگیس کے سطح زمین کی طرف سفر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مسامات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں۔ اسی لیے ریت اور چونے کے پتھر (Limestone) کو تیل وگیس کے لیے روایتی ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔ امریکی ماہرین ارضیات نے یہ سوچا کہ کیوں نہ Shale یا سلیٹی چٹانوں سے تیل کشید کیا جائے کہ علم ارضیات کی رو سے سلیٹی چٹانوں کا نامیاتی مواد ہی خاص درجہ حرارت اور زیر زمین دباو سے تیل میں تبدیل ہوتا ہے اور رس رس کر اوپر موجود مسامدار چٹانوں میں ذخیرہ ہوتا رہتا ہے۔ یعنی ذخیرے کے بجائے منبع ہی کو ہدف بنالیا جائے۔ تاہم سلیٹی چٹانوں کی ایک قباحت یہ ہے کہ اس کے مسام ملے ہوئے نہیں ہوتے اس لیے تیل کو سطح زمین کی طرف بہاو پر آمادہ کرنا مشکل ہے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ زبردست دباو ڈال کر مساموں میں جدائی ڈالنے والی دیواروں کو منہدم کر دیا جائے اور پھر ان مساموں میں ریت یا ایسا مواد بھر دیا جائے جن کے اندر سے تیل وگیس کا بہنا آسان ہو۔ یہ ذرا مٓختلف ترکیب ہے جس کی وجہ سے اسے Unconventional کہا جاتا ہے۔ دنیا کے روایتی میدانوں میں صدیوں سے کھدائی کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے یہاں موجود تیل کی بڑی مقدار کشید کرلی گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں سلیٹی چٹانوں میں امریکہ کے علاوہ دوسری جگہوں پر بہت زیادہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ سلیٹی چٹانوں میں کھدائی کے دوران ان اضافی تکلفات کی بنا پر پیدواری لاگت خاصی بڑھ جاتی ہے جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں۔ لیکن امریکی ماہرین اس کی لاگت کم کرنے کے نت نئے جتن کر رہے ہیں اور یہ کاوشیں کامیاب بھی ہورہی ہیں۔ چند برس پہلے تک سلیٹی چٹانوں سے تیل نکالنے کی لاگت 65 ڈالر فی بیرل تھی جسے کم کرکے اب 38 کرلیا گیا ہے۔
سعودی عرب، روس اور روایتی ذخائر رکھنے والے دوسرے ممالک کو ڈر ہے کہ اگر امریکہ کے سلیٹی چٹانوں کی پیداواری لاگت روایتی میدانوں کے برابر آگئی تو ان کا دھندہ مندا ہو جائے گا کہ امریکہ میں لاکھوں مربع میل پر سلیٹی چٹانیں موجود ہیں جن سے ڈٰیڑھ سے دو کروڑ بیرل تیل یومیہ نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن پیدواری لاگت کی وجہ سے یہ نفع بخش سودا نہیں ہے۔خیال رہے کہ صدر ٹرمپ اس ’چالاکی‘ کو سمجھ گئے چنانچہ انہوں نے اپریل کے آغاز میں MBS سے براہ راست بات کی، جس کے بعد اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ میری اپنے دوست MBS سے ابھی بات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ صدر پوٹن نے تیل کی پیداوار کم کرنے کے لیے ان سے بات کی ہے’ اپنے ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ روس اور سعودی عرب کی جانب سے تیل کی یومیہ پیدوار میں ایک کروڑ بیرل بلکہ اس سے بھی زیادہ کٹوتی متوقع ہے۔ صدر کے اس ٹویٹ سے تیل کی قیمتوں میں ایک دم 8 ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوگیا۔
صدر ٹرمپ کے دباو پر سعودی عرب پیداوار میں کمی کے لیے تیار تو ہوگیا لیکن اس کا اصرار تھا کہ تیل برآمد کرنے والے ممالک یعنی اوپیک، روس اور تیل برآمد کرنے والے دیگر غیر اوپیک ممالک کے ساتھ امریکی تیل کمپنیاں بھی کٹوتی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اس فارمولے پر بات چیت کے لیے 6 اپریل کو ویڈیو کانفرنس طلب کی گئی لیکن امریکی کمپنیوں نے اپنے اس خدشے کا اظہار کیا کہ قیمتیں طئے کرنے کا یہ قدم امریکہ کے Anti-Monopoly قانون کے تحت قابل دست اندازی Securities & Exchange Commission SECہو سکتا ہے۔ امریکی اداروں کی اسی ہچکچاہٹ کی بنا پر یہ نشست ملتوی کردی گئی۔
صدر ٹرمپ کی کوششوں سے یہ بیٹھک 9 اپریل کو منعقد ہوئی جسے ویڈٖیو اوپیک یا VOPEC کا نام دیا گیا۔ کانفرنس میں اوپیک کے 13 ارکان کے علاوہ روس، کینیڈا، میکسیکو، ناروے اور G-20 کے نمائندوں سمیت 23 ممالک نے شرکت کی۔ تین دن جاری رہنے والے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد جو معاہدہ طئے پایا وہ کچھ اسطرح ہے:
* یکم مئی سے تیل کی عالمی یومیہ پیداوار 97 لاکھ بیرل کم کی جائے گی
* جولائی سے کٹوتی کا حجم کم کر کے 77 لاکھ بیرل یومیہ کر دیا جائے گا
* اگلے برس کے آغاز پر پیداوار میں مزید اضافہ کر کے کمی کی مقدار 58 لاکھ بیرل روزانہ ہو جائے گی۔
* بینک BANC یعنی برازیل، امریکہ، ناروے اور کینڈا اپنی مجموعی پیداوار میں 37 لاکھ بیرل یومیہ کی کمی کریں گے۔
اس معاہدے کے چند پہلو مشکوک ومبہم ہیں۔ یعنی:
روس کے خلاف قیمتوں کی جنگ چھیڑتے ہوئے سعودی عرب نے اپنی پیداوار 80 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ 20 لاکھ یومیہ کردی تھی۔
چ آرامکو کٹوتی کی چھری کس نشان پر رکھے گی؟
چ بینک نے کمی کا جو وعدہ کیا ہے اس پرعمل درآمد کیسے ہوگا؟
چ امریکہ میں چھوٹی بڑی 9000 تیل کمپنیاں ہیں، ان کے درمیان کوٹہ کیسے تقسیم ہوگا؟
چ قیمیتوں کے تعین کے لیے مسابقت کاروں کا اتفاق رائے امریکی و یورپی قانون کی رو سے سنگین جرم ہے۔ کیا صدر ٹرمپ کی آشیرواد پر یہ ادارے SEC سے چھیڑ چھاڑ کی جرات کر سکیں گے؟
پیداوار میں کمی پر عالمی اتفاق کے باوجود تیل کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوسکا۔ جس کی وجہ بڑی واضح ہے کہ اس بھاری کٹوتی کے بعد بھی رسد، طلب سے کم از کم ایک کروڑ بیرل زیادہ رہے گی جب کہ اس وقت کئی کروڑ بیرل ’فالتو‘ تیل بھی بازار میں موجود ہے۔ اس Inventory کی تحلیل سے پہلے قیمتوں میں استحکام کی توقع ہی فضول محسوس ہوتی ہے۔امریکی دار الحکومت کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودیوں کو اندازہ ہو چکا تھا کہ پیداوار میں اضافے کا فیصلہ غلط ہے اور فروخت نہ ہونے والے تیل کو ذخیرہ کرنے پر ارامکو کو بھاری اخراجات اٹھانے پڑ رہے تھے چنانچہ MBS نے پیدوار کم کر کے اس بوجھ سے چھٹکارے کے ساتھ خود پرستی کے گنبد میں بند صدر ٹرمپ کی انا کو تقویت پہنچانے کا انتظام بھی کر دیا ہے۔
***
چین، روسی تیل کا بھی بڑا خریدار ہے۔ روس نے اپنی بکری بڑھانے کے لیے چین کو اضافی رعایت کی پیشکش کی۔ صرف یہی نہیں بلکہ سودے کو مزید پرکشش بنانے کے لیے ماسکو اپنے تیل کی قیمت ڈالر کے بجائے چینی کرنسی میں قبول کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ ریاض کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جب 7 مارچ کو سعودی وزیر تیل شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے اپنے بھائی ولی عہد محمد بن سلمان المعروف MBS کو یہ بات بتائی تو انہیں یہ سن کر اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ بد ترین کساد بازاری کے دوران چین کو کھو دینے کا تصور ہی سعودیوں کے لیے ناقابل قبول تھا