اسانغنی مشتاق رفیقیؔ، وانم باڑی
تمل ناڈو میں مسلم سیاسی پارٹی کا وجود اس وقت سے ہی رہا ہے جب اس ریاست کی پہچان مدراس اسٹیٹ کے نام سے تھی۔ آزادی کے بعد ۱۹۵۲ میں جب مدراس اسٹیٹ اسمبلی (جس میں موجودہ کرناٹکا، آندھرا، تلنگانہ اور کیرالا کے بہت سارے حصے شامل تھے) کے لیے پہلے انتخابات ہوئے اس وقت مدراس اسٹیٹ مسلم لیگ پارٹی نے ۱۳ نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے اور ۵ پر جیت درج کرائی تھی۔ اس کے بعد لسانی بنیاد پر اسٹیٹ کو تقسیم کر دیا گیا۔ ۱۹۵۷ میں ہوئے انتخابات میں مکمل کانگریس کا دبدبہ رہا۔ ۱۹۶۲ کے انتخابات میں مدراس اسٹیٹ مسلم لیگ جو انڈین یونین مسلم لیگ میں تبدیل ہو چکی تھی حزب اختلاف کی صدر جماعت دراوڑا منیتراکژگم جس کی قیادت انقلابی لیڈر سی انادورائی کر رہے تھے کے ساتھ اتحاد کر کے ۶ نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے لیکن جیت درج کرنے میں ناکام رہی۔ ۱۹۶۷ کے انتخابات میں آئی یو ایم ایل نے تین سیٹوں پر الیکشن لڑا اور تینوں میں کامیابی درج کرائی۔ یہ الیکشن تمل ناڈو کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا موڑ لے کر آیا، اس الیکشن کے بعد کانگریس مسلسل حاشیے پر چلی گئی اور تمل ناڈو کی سیاست پر دراوڈن پارٹیوں کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ ۱۹۷۱ کے چناؤ میں آئی یو ایم ایل نے دو سیٹوں پر الیکشن لڑا اور دونوں میں جیت درج کرائی۔ ۱۹۷۷ کا چناؤ تمل ناڈو کی سیاست میں ایک اور موڑ لے کر آیا اس مرتبہ یم جی رامچندرن نے انا درواڑا منیترا کژگم کے نام سے اپنی ایک پارٹی لانچ کرکے الیکشن میں شاندار جیت درج کی۔ آئی یو ایم ا یل نے وانم باڑی اسمبلی حلقے سے ایم عبداللطیف کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا کر کے شاندار جیت درج کی۔ ۱۹۸۰ اور ۱۹۸۹ کے الیکشن میں بھی آئی یو ایم ایل کبھی بحیثیت آزاد یا کبھی ڈی ایم کے کے نشان پر انتخابات لڑ کر اپنا نمائندہ اسمبلی میں بھیجتی رہی۔ دسویں اسمبلی انتخابات میں کوئی جیت درج کرنے سے قاصر رہنے کے بعد آئی یو ایم ایل دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ابراہیم سلیمان سیٹھ کی قیادت میں ایم عبداللطیف نے انڈین نیشنل لیگ کے نام سے ایک نئی پارٹی بنا کر ۱۹۹۶ کے انتخابات میں ۵ سیٹوں پر ڈی ایم کے نشان سے الیکشن لڑا اور جیت درج کرائی۔ ۲۰۰۱ کے انتخابات میں دونوں پارٹیوں سے ایک ایک امیدوار کامیاب ہو کر اسمبلی پہنچا۔ ۲۰۰۶ کے چناؤ میں آئی یو ایم ایل، ڈی ایم کے کے نشان پر الیکشن لڑ کر اسمبلی کے لیے اپنا نمائندہ بھیجنے میں کامیاب رہی۔ ۲۰۱۱ اسمبلی انتخابات کے موقع پر تمل ناڈو کی مسلم سیاست میں ایک اور پارٹی کا اضافہ ہوا۔ پروفیسر ایم جواہر اللہ کی قیادت میں منیدانے یامکل کٹچی نامی ایک نئی پارٹی وجود میں آئی۔ آل انڈیا انا ڈی ایم کے کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اس نئی پارٹی نے تین سیٹوں پر الیکشن لڑا اور دو میں کامیاب رہی۔ ۲۰۱۶ کے الیکشن میں ایم ایم کے سے الگ ہوکر تمیم انصاری نے منیدانے یا جنانائگا کٹچی کے نام سے ایک الگ پارٹی بنا کر اے آئی اے ڈی ایم کے کے ساتھ اتحاد کر کے دو سیٹوں پر الیکشن لڑا اور ایک پر کامیاب رہے۔ آئی یو ایم ایل اور ایم ایم کے نے ڈی ایم کے اتحاد میں شامل ہو کر پانچ اور تین سیٹوں پر الیکشن میں حصہ لیا اور آئی یو ایم ایل صرف ایک سیٹ پر جیت درج کرپائی۔
مسلم پارٹیوں کے علاوہ بھی تمل ناڈو کے تمام بڑے علاقائی پارٹیوں میں مسلم چہرے موجود ہیں جو الیکشن میں حصہ لے کر جیت بھی درج کراتے رہتے ہیں اور اسمبلی پہنچ کر بحیثیت وزیر بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ انہیں شاید ہی کبھی مذہبی تعصب کا سامنا ہوا ہو۔ جہاں تک مسلم سیاسی پارٹیوں کی بات ہے، آئی یو ایم ایل اور ایم ایم کے ٹمل ناڈو میں مسلم پارٹی کی حیثیت سے اپنی مضبوط پہچان رکھتی ہیں۔ ان پارٹیوں کی پہچان عوام میں مسلم ہوتے ہوئے بھی سیکولر ہی ہے۔ شدت پسند مسلم سیاست کو کبھی بھی ان پارٹیوں نے آگے نہیں بڑھایا۔ علاقائی مسائل پر یہاں کے دیگر پارٹیوں کے ساتھ جب جب ضرورت پڑی تب تب آواز بلند کر کے یہ عوام میں اپنا اچھا خاصا اثر ورسوخ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ خاص کر ایم ایم کے نے قدرتی آفات کے موقعوں پر عوام سے جڑے رہ کر فوری خدمات مہیا کرا کے ان کا دل جیتنے میں کامیاب رہی۔ ان کے علاوہ جتنے بھی پارٹیاں، مسلم پارٹی ہونے کے دعویدار ہیں ان کی کوئی زمینی پہچان نہیں ہے۔
تمل ناڈو میں مسلمانوں کی تعداد چھ سے سات فیصد تک بتائی جاتی ہے۔ ان میں پانچ فیصد سے زیادہ تعداد تمل بولنے والوں کی ہے جن کی اکثریت جنوبی تمل ناڈو کے اضلاع میں بستی ہے اور دو فیصد کے قریب اردو بولنے والے ہیں جو شمالی تمل ناڈو میں رہتے ہیں۔ یہاں کے مسلمان ووٹ دینے میں علاقائی پارٹیوں کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔ ڈی ایم کے اپنی سیکولر شبیہ کی وجہ سے ان کے بیچ اپنی ایک الگ ہی پہچان رکھتی ہے۔ ویسے اے آئی اے ڈی ایم کے کو بھی اُس کے انقلابی لیڈر ایم جی رامچندرن اور جے للیتا کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پسند کرتی ہے۔
تمل ناڈو کا موجودہ اسمبلی انتخاب اس لے بھی اہم ہے کہ اس بار یہاں کا سیاسی منظر نامہ بہت بدل گیا ہے۔ کروناندھی اور جے للیتا کی موت کے بعد جن کی شناخت بحیثیت عوامی لیڈر بہت مضبوط تھی اُن کی پارٹیوں کو عوام سے رابطہ رکھنے میں بڑی مشکلیں پیش آرہی ہیں۔ ملکی سطح پر بی جے پی کی بڑھتی ہوئی شہرت بھی چناؤ پر اثر ڈال سکتی ہے۔ مذہبی شدت پرستی کی جو لہر شمالی ہندوستان کو گھیر ے میں لے رکھی ہے اس بار یہاں کے الیکشن میں اُس کی آہٹ بھی محسوس کی جا رہی ہے۔ مجموعی طور پر خاص کر مسلمانوں کے لیے یہ الیکشن بدلاؤ کا ایک واضح اشارہ لے کر وارد ہوا ہے۔
ڈی ایم کے اتحاد میں جس کی جیت کی پیشن گوئی بہت سارے گوشوں کی طرف سے ہو رہی ہے مسلم پارٹیوں کے حصے میں پانچ سیٹیں آئی ہیں۔ تین سیٹ آئی یو ایم ایل کو اور دو سیٹ ایم ایم کے کو ملی ہیں۔ انڈین یونین مسلم لیگ وانم باڑی، چدمبرم اور کڈیانللور سے اور منیدانے یا مکل کٹچی، منا پارئی اور پاپاناسم سے اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔
شمالی تمل ناڈو کے ضلع ویلور میں موجودو وانم باڑی اسمبلی حلقہ سے یہاں کے مشہور سماجی کارکن کئی تعلیمی اداروں سے وابستہ جناب ین محمد نعیم بحیثیت آئی یو ایم ایل امیدوار اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ ۲,۷۴,۸۹۴ ووٹروں والی اس اسمبلی حلقے سے جس میں اردو زبان بولنے والے مسلمانوں کی تعداد قابل ذکر ہے، گزشتہ مرتبہ اے آئی اے ڈی ایم کے، کی محترمہ نیلوفر کفیل نے آئی یو ایم ایل کے سید فاروق کو ۱۴,۵۲۶ ووٹوں سے ہرا کر جیت حاصل کی تھی اور وہ موجودہ ریاستی حکومت میں بحیثیت وزیر شامل ہیں۔ اس الیکشن میں اے آئی اے ڈی ایم کے، کی جانب سے سیندل کمار میدان میں ہیں ان کے علاوہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین جو اماں مکل کٹچی کے اتحاد میں شامل ہے، سے جناب ٹی ایس وکیل بھی جیت کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں۔ یہاں گزشتہ الیکشنوں سے آج تک جس انداز سے پولنگ ہوتی آئی ہے اس کو اگر مد نظر رکھیں تو جیت کے لیے کم از کم ۸۰,۰۰۰ کے آس پاس ووٹوں کی ضرورت ہے۔ مسلم عوام کا رجحان ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مسلم لیگ امیدوار کی طرف ہی ہے لیکن وہ اس بات سے گھبرائے ہوئے بھی ہیں کہ جناب اویسی کی پارٹی کی وجہ سے ان کے ووٹ تقسیم ہو سکتے ہیں اور اس طرح ایک ایسی بازی جس میں جیت یقینی ہے، ہار میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
چدمبرم اسمبلی حلقے سے آئی یو ایم ایل کے قدیم کارکن اور مشہور سماجی خدمتگار اے ایس عبدالرحمن ربانی میدان میں ہیں۔ اُن کے مقابل میں کے اے پانڈین اے آئی اے ڈی ایم کے کے موجودہ ایم ایل اے اپنی سیٹ بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ۲,۵۰,۷۳۵ ووٹروں والے اس اسمبلی حلقے سے گزشتہ مرتبہ اے آئی اے ڈی ایم کے اے پانڈین نے قریبی حریف ڈی ایم کے، کے کے آر سیندل کمار سے ۱,۵۰۶ ووٹ زیادہ لے کر جیت حاصل کی تھی۔ اس اسمبلی حلقہ میں مسلمانوں کی تعداد بس قابل ذکر ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ہوئی پولنگ کے حساب سے جیت کے لیے ۷۵,۰۰۰ ووٹروں کی ضرورت ہے۔
کڈیانللور اسمبلی حلقہ سے دوسری مرتبہ کے اے ایم محمد ابوبکر، آئی یو ایم ایل کے امیدوار کی حیثیت سے قسمت آزما رہے ہیں۔ گزشتہ مرتبہ انہوں نے قریبی حریف شیخ داؤد کو جو اے آئی اے ڈی ایم کے، اتحا د کی طرف سے الیکشن لڑ رہے تھے ۱,۱۹۴ ووٹوں سے ہرا کر جیت درج کی تھی۔ انتخابات میں قابل اثر مسلمانوں کی موجودگی اس حلقہ کی ایک بڑی پہچان ہے۔ بقول عوام کے جناب اے ایم محمد ابوبکر نے بلا تفریق مذہب وملت خدمات انجام دے کر اس حلقے میں اپنی گرفت بہت مضبوط کی ہے۔ ۲,۸۸,۹۰۹ ووٹروں والے اس حلقے سے جیت کے لیے گزشتہ انتخابات کو مد نظر رکھ کر اگر دیکھا جائے تو کم از کم ۸۰,۰۰۰ سے زائد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔
پاپاناسم اسمبلی حلقہ سے ایم ایم کے کے صدر پروفیسر جواہراللہ میدان میں ہیں۔ ان کے مقابل میں اے آئی اے ڈی ایم کے، کے گوپی نادھن اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں اے آئی اے ڈی ایم کے، کے آر دورائی کننو نے اپنے قریبی حریف انڈین نیشنل کانگریس کے ٹی آر لوگانادھن کو ۲۴,۳۶۵ ووٹوں سے شکست دی تھی جو ڈی ایم کے اتحاد کے ساتھ الیکشن لڑ رہے تھے۔ اس اسمبلی حلقے میں مسلمانوں کی تعداد قابل اثر ہے۔ ۲,۶۰,۳۳۹ ووٹروں کے اس حلقے سے جیت کے لیے امیدوار کو کم از کم ۸۵,۰۰۰ سے زیادہ ووٹوں کی ضرورت پڑے گی۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر20
پروفیسر جواہراللہ کی پہچان ایک سماجی خدمتگار اور سیاسی لیڈر کی حیثیت سے بہت مستحکم ہے۔ ان کی پارٹی ایم ایم کے تمل ناڈو میں گزشتہ دس پندرہ سال کے عرصے میں اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں بڑی حد تک کامیاب رہی ہے۔
مناپارئی اسمبلی حلقہ جس کی ووٹروں کی تعداد ۲,۸۸,۹۹۰ ہے، تمل ناڈو کے ضلع تروچیراپلی میں آتا ہے۔ اس اسمبلی حلقے سے ایم ایم کے، کے پی عبدالصمد میدان میں ہیں۔ ان کے مقابل میں موجودہ اے آئی اے ڈی ایم کے، کے ایم ایل اے چندر شیکھر آر پھر سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں چندر شیکھر آر نے آئی یو ایم ایل کے محمد نظام ایم اے کو ۱۸,۲۷۷ ووٹوں سے شکست دی تھی۔
اس اسمبلی حلقہ میں مسلمانوں کی تعداد قابل اثر ہے۔ اس حلقہ میں جیت کے لیے کم از کم ۹۲,۰۰۰ ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔
ان پانچ حلقوں کے علاوہ ملکی سطح کی مسلم پارٹیاں اے آئی ایم آئی ایم اور ایس ڈی پی آئی بھی آٹھ اسمبلی حلقوں میں اپنی قسمت آزما رہی ہیں۔ چونکہ اصل مقابلہ اے آئی اے ڈی ایم کے اور ڈی ایم کے اتحاد کے درمیان ہے اس لیے دوسری پارٹیوں کے اتحاد کے جیتنے کے امکانات محدود ہیں۔
ریاست میں مسلمانوں کا عمومی رجحان ڈی ایم کے اتحاد کی جانب ہے کیونکہ مقابل اے آئی اے ڈی ایم کے اتحاد میں بی جے پی شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھی موجودہ حکومت کے پاس مسلمانوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ سی اے اے اور این آر سی مسئلے میں ریاستی حکومت کا موقف مسلمانوں کے خلاف رہا اور ریاست بھر میں چلنے والے شاہین باغ احتجاج کے دوران مقدمات دائر کر کے ریاستی حکومت نے مسلمانوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا ہے۔ حالانکہ وزیر اعلی پلانی سوامی نے کچھ دنوں قبل یہ تمام کیس رد کیے جانے کی بات بھی کہی تھی لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ سے بھی مسلمانوں میں ریاستی حکومت کے خلاف ناراضگی بڑھی ہے۔
اپریل ۶ تاریخ کو ہونے والے اس سولہویں اسمبلی کے انتخابات میں جیت کس کی ہوگی اس کا فیصلہ تو اب عوام کے ہاتھ میں ہے لیکن عوام کے رجحان کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس بار موجودہ ریاستی حکومت شاید ہی اپنی کرسی بچا پائے گی۔
***
سی اے اے اور این آر سی مسئلے میں ریاستی حکومت کا موقف مسلمانوں کے خلاف رہا اور ریاست بھر میں چلنے والے شاہین باغ احتجاج کے دوران مقدمات دائر کر کے ریاستی حکومت نے مسلمانوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا ہے۔ حالانکہ وزیر اعلی پلانی سوامی نے کچھ دنوں قبل یہ تمام کیس رد کیے جانے کی بات بھی کہی تھی لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ سے بھی مسلمانوں میں ریاستی حکومت کے خلاف ناراضگی بڑھی ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا 10 اپریل 2021