تمام شہری یک جٹ ہو کر این پی آر کا بائیکاٹ کریں

این پی آر کا مسئلہ ملک کے تمام شہریوں کا مسئلہ ہے

محی الدین غازی

ہمارا عزیز ملک پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے، ملک کے شہری کمر توڑ مہنگائی ، ہر طرف پھیلی بے روزگاری، اور سخت قسم کی معاشی بدحالی سے دوچار ہیں۔ ایسی تکلیف دہ صورت حال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کی حکومت پوری سنجیدگی کے ساتھ ملک کی حالت کو بہتر بنانے اور عوام کی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتی۔
لیکن سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت اصل مسائل کے حل پر دھیان دینے کے بجائے اور عوام کو پریشانیوں سے نکالنے کے بجائے عوام کو ایسی چیزوں میں الجھانے کی کوشش کررہی ہے جن میں الجھ کر عوام اپنے حقیقی مسائل پر سوچنے کے قابل بھی نہ جائیں۔
حالیہ سی اے اے، این پی آر اور این آر سی جیسے اقدامات کا ملک کے عوام کو تو ذرا بھی فائدہ پہونچنے والا نہیں ہے، البتہ اس سے یقینی طور پر ملک بہت خطرناک صورت حال سے دوچار ہوسکتا ہے۔ یہ تینوں اقدامات ملک کی داخلی سالمیت کو شدید خطرہ پہونچانے والے، اور ملک کی عوام کے بچے کھچے سکون کو درہم برہم کردینے والے ہیں۔ حکومت کو ان اقدامات سے روکنا اور نہ رکنے کی صورت میں ان کا مکمل بائیکاٹ کرنا ملک کی حفاظت اور ملک میں سکون وچین کی حفاظت کے لیے بے حد ضروری ہے۔
یہ صحیح ہے کہ حکومت کے ان اقدامات سے مسلمانوں کو شدید قسم کی پریشانی لاحق ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کی ان بے تکی حرکتوں سے ملک کی باقی آبادی کو کوئی فائدہ تو بالکل نہیں پہونچے گا، مگر ڈر یہ ہے کہ نقصان پورے ملک کا ہوگا، اور اتنا نقصان ہوگا جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوچے کہ ملک کے شہریوں کو پریشانیوں سے نکالنے کے بجائے موجودہ حکومت پورے ملک کو اس آگ میں جھونکنے کی ضد کیوں کررہی ہے؟ آج فرقہ بندی، پارٹی بندی اور ہر طرح کی عصبیت سے اوپر اٹھ کر ملک کے مفاد کی خاطر تمام شہریوں کا سامنے آنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔
ملک میں بسنے والے تمام شہریوں کو اس کا اندازہ بھی کرنا چاہیے کہ این پی آر کی اس بے فائدہ اور فضول کارروائی پر کتنا زیادہ صرفہ آئے گا، اس کے لیے ملک کے بجٹ کا کتنا بڑا حصہ مختص کیا گیا ہے اور اس کے بعد جن شہریوں کے فارم پر مشتبہ کا نشان لگادیا جائے گا انھیں کتنی زیادہ دوڑ دھوپ کرنی پڑے گی، اور کتنا زیادہ وقت اور روپیہ خرچ کرنا پڑے گا، اور بلا تفریق مذہب ونسل ملک کے تمام شہریوں کو یہ سب کچھ جھیلنا پڑے گا۔ معاشی بدحالی اور بحران کے اس خراب ترین وقت میں ملک کے خزانے کو اس بے سود کام پر لٹانا، اور ملک کے پہلے سے پریشان عوام کو اور زیادہ بڑی پریشانیوں میں مبتلا کرنا نہایت بھونڈا مذاق ہے۔
سی اے اے، این آر پی اور این آرسی کیا ہے؟
سی اے اے (سیٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ ۲۰۱۹ء)
یہ کوئی مستقل قانون نہیں ہے، بلکہ شہریت ایکٹ ۱۹۵۵ کے سیکشن (۲) کے ذیلی سیکشن (۱) کی کلاز (بی) میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعریف میں ترمیم کی گئی ہے، ترمیم کا بنیادی حصہ درج ذیل ہے:
"مگر وہ شخص جو افغانستان، بنگلہ دیش، پاکستان، کا رہنے والا ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی، اور عیسائی ہو، ۳۱ دسمبر ۲۰۱۴ء کو یا اس سے پہلے بھارت میں داخل ہوا ہو اور جو سینٹرل گورنمنٹ کے ذریعہ یا پاسپورٹ انٹری ایکٹ ۱۹۲۰ء کے سیکشن (۳) کے ذیلی سیکشن (۲) کے کلاز (سی) یا فارنر ایکٹ ۱۹۴۶ء کے اثر سے مستثنی ہو یا اس سے متعلق کسی بھی حکم نامہ یا آرڈر سے مستثنی ہو۔ وہ اس قانون کے مقصد کے لیے "غیر قانونی مہاجر” قرار نہیں دیا جائے گا۔
اس قانون سے جڑے ہوئے جو اندیشے ہیں وہ نہ تو وہمی ہیں اور نہ معمولی اور قابل نظر انداز ہیں بلکہ حقیقی ہیں۔ کچھ اندیشوں کا ذکر نیچے کیا جارہا ہے:
(۱) اس قانون کے ظاہری پہلو پر کھلا ہوا اعتراض یہ ہے کہ اس میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کی گئی ہے اور یہ دستور کے بنیادی ڈھانچے پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ یہ دستور ہند میں ایسا رخنہ کھول دیتا ہے جس کے ہوتے ہوئے نہ صرف مسلمان بلکہ دوسری تمام اقلیتوں اور دوسرے تمام کم زور طبقات کے باعزت وجود کو مسلسل خطرہ لاحق رہے گا۔
یہ ملک مختلف مذاہب اور طبقوں پر مشتمل ہے، ملک میں ہر مذہب کو ماننے والے اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے خود کو دستوری طور پر محفوظ سمجھیں اپنے بنیادی حقوق کے سلسلے میں انھیں پورا اطمینان رہے اور انھیں یہ بھی اطمینان رہے کہ وہ کبھی اپنے کسی حق کے حصول یا تحفظ کے سلسلے میں کسی مشقت سے دوچار نہیں ہوں گے، یہ اس ملک کی سب سے بڑی آئینی ضرورت ہے اور اسے غیر معمولی دستوری تحفظ کی ضرورت ہے۔ تحفظ کی اس دیوار میں ذرا سا چھید بہت زیادہ خدشے اور اندیشے لاتا ہے۔ سی اے اے دراصل دستور کی اس سب سے اہم دیوار کو کم زور کردینے والا اور ملک کی تمام اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو تشویش اور عدم تحفظ کے احساس سے دوچار کردینے والا اقدام ہے۔
(۲) یہ قانون دستوری حقوق کی سطح پر کس طرح کھلی ہوئی تفریق میں مبتلا کرتا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جیسا کہ مذکورہ ترمیم کے الفاظ خود اشارہ کرتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے ایسے بہت سے لوگ ہیں جو خود کو ہندوستانی سمجھتے ہیں اور اپنی شہریت کے لیے مقدمہ لڑ رہے ہیں اس ترمیم کے نفاذ کے بعد ان میں سے صرف مسلمان ہی رہ جائیں گے اپنے مقدمات لڑنے کے لیے، باقی لوگوں کے مقدمات کالعدم ہوجائیں گے، اور انھیں شہریت مل جائے گی۔
(۳) اس کی اور زیادہ تشویش ناک عملی مثال یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کو آسام میں شدید نقصان پہونچنے کا قوی اندیشہ ہے، وہاں تقریبا انیس لاکھ لوگ این آر سی سے باہر قرار دیے گئے ہیں، ان میں کئی لاکھ مسلمان بھی ہیں، سی اے اےکے نفاذ کے بعد باقی لوگوں کو راحت مل جائے گی، اور صرف مسلمان غیر قانونی تارکین وطن قرار دیےجائیں گے۔ اور اس طرح اپنے تمام بنیادی حقوق سے محروم کردیے جائیں گے۔
(۴) ایک تو یہ قانونی ترمیم خود کھلی ہوئی مذہبی تفریق پر مبنی ہے اور دستور میں خطرناک رخنہ ڈالنے کے مترادف ہے، اس پر مزید یہ کہ جو حکمراں پارٹی اسے لے کر آئی ہے، اس کے لیڈروں کے اس کے سلسلے میں جو بیانات آتے رہے ہیں اور وہ پارٹی جن فسطائی نظریات کی حامل ہے یہ سب کچھ سی اے اے کے غلط استعمال کے امکانات کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
(۵) حکومت کی طرف سے یہ کہنا کہ یہ ایکٹ لوگوں کو اندر کرنے کے لیے ہے کسی کو باہر کرنے کے لیے نہیں ہے بہت بڑا مغالطہ ہے کیوں کہ اس ایکٹ سے مسلمانوں کو باہر رکھنا اس کے فورا بعد این پی آر کرانے کی جلدی کرنا اور این پی آر کو این آر سی کا زینہ بتانا یہ صاف کردیتا ہے کہ دراصل یہ ایک پیکیج ہے جو مذہبی تفریق کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو اندر کرنے اور کچھ لوگوں کو باہر کرنے کا پورا پروگرام رکھتا ہے۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم ایسے کسی بھی فرد کو شہریت دینے کے خلاف نہیں ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک میں ہونے والے ظلم سے فرار اختیار کر کے ہمارے ملک میں پناہ لینا چاہتا ہو۔
ہمیں اعتراض اس پر ہے کہ اس حوالے سے خود اس ملک کی اقلیتوں کو عدم تحفظ اور ظلم وزیادتی سے دوچار نہ کیا جائے۔
این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر)
شہریت ایکٹ ۱۹۵۵ ءکے تحت ۲۰۰۳ء میں شہریت رولز وضع کیے گئے جس میں این پی آر کا پہلی بار ذکر آیا۔ یہ دراصل ملک کے تمام شہریوں کی تمام تفصیلات جمع کرنے کا طریقہ ہے۔ حکومت کے اعلان کے مطابق یہ عمل اپریل ۲۰۲۰ء اور ستمبر ۲۰۲۰ء کے درمیان انجام پانا ہے۔
واضح رہے کہ این پی آر مردم شماری سے مختلف عمل ہے۔ مردم شماری میں افراد کی شناخت اہم نہیں ہوتی ہے، تفصیلات جمع کی جاتی ہیں، جب کہ این پی آر کا مقصد ہی افراد کی شناخت کے ساتھ ان کی تفصیلات جمع کرنا ہیں۔ این پی آر میں ابتدائی طور پر تو کسی قسم کی دستاویز دکھانےے کو نہیں کہا جائے گا، صرف تفصیلات اور مختلف دستاویزات کے نمبر مانگے جائیں گے، لیکن مشکوک کا ریمارک لگ جانے کے بعد پھر دستاویزات پیش کرکے ہی ریمارک دور کیا جا سکے گا۔ اور مشکوک ہونے کا یہ ریماک متعلقہ سرکاری افسران کسی پر بھی لگا سکتے ہیں۔
این پی آر کے فارم میں جو تفصیلات مانگی گئی ہیں، وہ اس اندیشے کو تقویت پہونچاتی ہیں کہ یہ این آر سی کا پیش خیمہ ہے۔
اچھی طرح واضح رہے کہ یہ اور اس جیسے اندیشوں کو دور کرنے کے لیے زبانی وعدے اور یقین دہانیاں قطعاً کافی نہیں ہیں، بلکہ ایسے پورے عمل کی قانونی ساخت ایسی ہونی چاہیے جو اس کے غلط اور مضر استعمال نہ ہوپانے کا پورا یقین پیدا کرے۔
این آر آئی سی یا این آر سی (نیشنل رجسٹڑیشن فار انڈین سیٹیزنز)
این آر سی ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ یہ طے کیا جائے گا کہ کون ہندوستان کا شہری ہے اور کون ہندوستان کا شہری نہیں ہے۔ یہ عمل این پی آر سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر کیا جائے گا، اس کی واضح صورت ابھی سامنے نہیں آئی ہے مگر قوی اندیشہ ہے کہ این پی آر میں جن لوگوں کو مشکوک قرار دیا جائے گا، وہ این آر سی کی زد میں سب سے زیادہ آئیں گے۔
زحمتوں میں ڈالنے والےاقدامات
سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی سے ملک کے تمام شہریوں کو شدید مشکلات اور زحمتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیوں کہ ہندوستان کی اتنی بڑی آبادی وہ ہندو ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب والے وہ دراصل پاکستان بنگلہ دیش افغانستان یا کسی اور ملک سے آکر یہاں نہیں بسے ہیں بلکہ وہ یہاں کے اصلی شہری ہیں چاہے ان کے پاس خود کو اصلی شہری ثابت کرنے کے وہ کاغذات نہ ہوں جو آج حکومت کو مطلوب ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے موقع پر ان کو ہندوستان کی شہریت ملی تھی کیوں وہ ان کا فطری حق تھا مگر ان کو اس وقت شہریت کے سرٹیفکیٹ نہیں بانٹے گئے تھے جن کا آج مطالبہ کیا جا رہا ہے اور پورے ملک کی عوام کو پریشانی میں ڈالا جا رہا ہے۔
سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے بڑے نقصانات
پہلا: سی اے اے ہندوستان کے دستور کی روح کے خلاف ہے اور مذہبی بنیادوں پر تفریق کا دروازہ کھولتا ہے جو ملک کی تمام اقلیتوں سے تحفظ کا احساس چھین لیتا ہے اور ملک کے دستور اور انجام کار اس کے سماج کو ایک بڑی خوبی سے محروم کر دیتا ہے۔
دوسرا: اس کام میں ملک کے بہت زیادہ وسائل استعمال ہوں گے، اور ملک کے خزانے کا بڑا حصہ صرف ہوگا، موجودہ معاشی بدحالی کے دور میں ملک کے خزانے کا یہ استعمال پورے ملک کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔
تیسرا: اس کام میں عوام کا بہت زیادہ وقت اور روپیہ صرف ہوگا، اور عوام بڑے پیمانے پر زحمت پریشانی اور ذہنی تناو سے دوچار ہوں گے۔
چوتھا: یہ اقدامات ملک کو فرقہ وارانہ تفریق اور آپسی منافرت کے راستے پر ڈالنے والے ہیں اسی طرح کے اقدامات سے آسام خون میں نہاچکا ہے اور اس کے اثر سے ابھی دلی میں آگ لگ چکی ہے اور پورے ملک میں آگ بھڑکنے کا قوی اندیشہ ہے۔
غرض یہ تینوں فیصلے مل کر ملک کو تباہی کے راستے پر لے جانے والے ہیں۔ جبکہ ان تینوں فیصلوں سے ملک کو اور ملک کی عوام کو کچھ بھی فائدہ پہونچنے والا نہیں ہے۔
مسلم آبادی کے لیے شدید خطرہ
ملک کی مسلم آبادی کے لیے حکومت کے یہ اقدامات حد سے زیادہ تشویش میں مبتلا کرنے والے ہیں اور یہ تشویش بے جا نہیں ہے۔ سی اے اے کے دائرے میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنا، حکومت کے اعلی ذمہ داروں کا کھلے لفظوں میں سی اے اے سے این آرسی کو جوڑ کر بتانا اور این پی آر سے متعلق حکومتی دستاویزات میں واضح طور پر این پی آر کو این آر سی کا پیش خیمہ بتانا، یہ صاف کرتا ہے کہ ان اقدامات سے مسلمانوں کی شہریت کو شدید قسم کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ کسی ملک کے شہری کے لیے سب سے بنیادی حق شہریت کا حق ہوتا ہے، اسی سے دوسرے بنیادی حقوق کے لیے جگہ نکلتی ہے، شہریت کا خطرے سے دوچار ہونا، جیتے جی مرجانے کی طرح ہے۔ اس حق کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی ہے اور اس حق کی حفاظت کے لیے ہر کوشش کم ہے۔
موجودہ حکومت کی بدنیتی اس معاملے میں بالکل صاف ہے اور اس سلسلے میں اس کی طرف سے کسی بھی طرح کی وضاحت لائق اعتماد نہیں ہے۔
یہ بات طے ہے کہ اگر این پی آر ہوتا ہے اور اس کے بعد اگر این آرسی ہوتا ہے چاہے وہ کبھی بھی ہو، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے اس کے سلسلے میں کسی طرح کا اطمینان اور لاپرواہی ہرگز مناسب نہیں ہے۔
این آر سی ابھی ہو یا نہ ہو لیکن این پی آر کے عمل میں شریک ہونا اپنے آپ کو این آر سی کے حوالے کر دینا ہے۔ کیوں کہ این آر سی کا پہلا زینہ این پی آر ہی ہے۔ این پی آر ہو جانے کا مطلب ہے ملک کے شہریوں نے اپنی شہریت حکومت کے حوالے کردی ہے، اور اب اس کی مرضی ہے کہ وہ جس پر چاہے این آر سی کی قینچی چلائے۔
این آر سی کی اندھی قینچی کسی کو بھی کتر سکتی ہے، جس کے پاس تمام کاغذات مکمل ہیں وہ بھی اس کی زد میں آسکتا ہے اور جس کے پاس کاغذات میں ذرا بھی کمی ہے وہ تو اس کی زد میں رہے گا ہی۔
شہریت کے بنیادی حق کو بچانے کے لیے مسلمانوں کے سامنے اس وقت راستے بہت محدود ہیں، سیاسی ایوانوں کی آنکھوں پر زعفرانی پٹی بندھی ہوئی ہے اور انھوں نے انگلیاں کانوں میں ٹھونسی ہوئی ہیں، عدلیہ اس سلسلے میں فوری اور سنجیدہ اقدام کے موڈ میں نظر نہیں آتی ہے، عوام کو فرقہ واریت کا نشہ پلاکر اس مسئلے سے غافل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
(سلسلہ صفحہ ۱3 پر )

(سلسلہ صفحہ سے آگے )
ایسے میں مسلمان کیا کرسکتے ہیں؟
ایک راستہ یہ ہے کہ ریاستی حکومتیں اپنے یہاں این پی آر نہ ہونے دیں، اس کے لیے کوششیں جاری ہیں، اور انھیں تیز تر کرنے کی ضرورت ہے، ریاستی سطح پر غیر بی جے پی ریاستوں میں ریاستی حکومتوں کو اس کے لیے آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی ریاستوں میں این پی آر نہ ہونے کا فیصلہ کریں، اور بی جے پی ریاستوں میں اپوزیشن پارٹیوں کو آمادہ کیا جائے کہ وہ ریاست میں این پی آر کے خلاف محاذ آرائی کریں۔ بہت ممکن ہے کہ ریاستی حکومتوں کی عدم آمادگی کی صورت میں این پی آر کا عمل وقتی طور پر ملتوی ہوجائے۔ اس کے لیے مقامی اور ریاستی سطح پر بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ این پی آر عمل درآمد ہونے کی صورت میں ملک کے عوام اس کا بائیکاٹ کریں، این پی آر جن ریاستوں میں ہوگا ان میں اسے روکنے کی یہی ایک صورت ہے، جو پر امن بھی ہے اور آئینی بھی ہے، اور جو سب سے زیاد ہ کار آمد ہو سکتی ہے۔
یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ بائیکاٹ والا راستہ نہ سی اے اے کے سلسلے میں میسر ہے اور نہ ہی این آر سی کے سلسلے میں میسر ہوگا، کیوں سی اے اے ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کے لیے درخواست دیں گے، اور خود کو اس کا اہل ثابت کریں گے، جب کہ این آر سی کیسے ہوگا، یہ ابھی واضح نہیں ہے، اس لیے اس کے بائیکاٹ کی گنجائش بھی ہوگی یا نہیں یہ معلوم نہیں ہے۔ البتہ این پی آر ایسا عمل ہے جس کے بارے میں توقع ہے کہ بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کر کے اسے روکا جا سکتا ہے کیوں کہ اس میں ملک کے تمام لوگوں سے پوچھ کر ان کا ڈاٹا جمع کیا جائے گا۔اگر لوگ این پی آر کا بائیکاٹ کریں تو ڈاٹا ہی نہیں جمع ہو سکے گا۔
بائیکاٹ کی کامیابی کے امکانات
اس صورت کے زیادہ کار آمد ہونے کے درج ذیل پہلو ہیں:
پہلا: اس وقت ملک کے بہت سے مقامات پر بائیکاٹ کی فضا بنی ہوئی ہے اور امید ہے کہ کوئی مہم چلائے بغیر بھی بائیکاٹ بڑے پیمانے پر ہوگا۔ تاہم اگر مہم چلائی جائے تو بائیکاٹ کا دائرہ بہت بڑھ سکتا ہے، ظاہر ہے بائیکاٹ کا دائرہ جتنا زیادہ بڑھے گا اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔
دوسرا: ملک میں بڑے پیمانے پر ان فیصلوں کے خلاف احتجاج ہوئے ہیں اور اب بھی پورے ملک میں احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے ان احتجاجوں پر ملک وملت کی بہت زیادہ توانائیاں صرف ہوئی ہیں قیمت بھی بہت زیادہ ادا کی گئی ہے اور قربانیوں کی روشن تاریخ ان سے وابستہ ہو چکی ہے۔ ان احتجاجوں کا واضح تقاضا یہ ہے کہ این پی آر کی عمل آوری کے ساتھ ہی یہ پیوند خاک نہ ہوجائیں کیوں کہ این پی آر میں شرکت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ احتجاجوں کو ضائع کردیا گیا۔ ظاہر ہے ایسی نامعقول پسپائی کے لیے عوام نہ تو تیار ہوں گے اور نہ ہی انھیں اس کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ ان تاریخی احتجاجوں کا حق ہے کہ جتنے بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے ہیں اتنے ہی بڑے پیمانے پر یا اس سے بھی بڑے پیمانے پر بائیکاٹ بھی کیا جائے۔
تیسرا: اس بات کا قوی امکان ہے کہ جب بائیکاٹ کی لہر دوڑے گی تو ملک کے وہ بہت سے عوام بھی جو انصاف پسند ہیں اور جو موجودہ حکومت کی مخالف مفاد عامہ پالیسیوں اور فرقہ وارانہ ایجنڈے کی مخالف ہیں اور حکومت کے دیگر مخالف طبقات بھی اس بائیکاٹ میں ساتھ دیں گے۔
بائیکاٹ کے بارے میں اندیشے:
این پی آر اور اس کے بعد این آر سی اتنے پریشان کن عمل ہیں کہ ان کے نتائج کے بارے میں سوچ کر تو خوف آتا ہی ہے، ساتھ ہی ان کے بائیکاٹ کے بارے میں سوچ کر بھی بہت سے اندیشے پیچھا کرتے ہیں۔ ان اندیشوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ضروری ہے۔ سب سے زیادہ اس پر غور کرنا ہے کہ بائیکاٹ کی صورت میں جو اندیشے ہیں وہ زیادہ خطرناک ہیں یا این پی آر اور این آر سی ہوجانے کے بعد جن خطرات کا اندیشہ ہے وہ زیادہ بھیانک ہیں۔
ذیل میں کچھ اندیشوں کا ذکر کیا جاتا ہے ساتھ ہی ان کے سلسلے میں کچھ وضاحت بھی کی جاتی ہے:
پہلا: اگر بائیکاٹ کے بعد بھی این پی آر مکمل ہوگیا تو جو لوگ اس میں شریک نہیں ہوئے انھیں بالآخر دوبارہ اپنا اندراج کرانے کی زحمت ومشقت اٹھانی پڑے گی اندیشہ ہے کہ الگ سے اندراج کرانے میں زحمت زیادہ بڑھ جائے۔
وضاحت: بہت زیادہ امکان تو یہ ہے کہ بائیکاٹ کی صورت میں این پی آر کا عمل ہی انجام نہ پائے، یا اسے غیر معتبر قرار دے کر کالعدم کردیا جائے اور اگر ایسی کوئی مشقت اٹھانی ہی پڑے تو وہ بہرحال اس بڑی مشقت سے کم ہی ہوگی جو این پی آر اور این آر سی ہونے کی صورت میں پیش آسکتی ہے۔
دوسرا: بائیکاٹ کرنے سےڈر ہے کہ کہیں بائیکاٹ کو بنیاد بناکر شہریت ہی منسوخ نہ کردی جائے۔
وضاحت: اول تو اتنی بڑی تعداد کی شہریت اس بنیاد پر منسوخ نہیں کی جاسکتی ہے، دوم یہ کہ ملک کے قانون کی رو سے اس طرح بائیکاٹ کو بنیاد بناکر شہریت منسوخ نہیں کی جاسکتی ہے۔
تیسرا: این پی آر میں نام نہیں آنے سے بینک اکاؤنٹ منسوخ ہوسکتا ہے۔
وضاحت: یہ اندیشہ بالکل بے بنیاد ہے، بینک کے اکاؤنٹ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، این پی آر کارڈ یا اس کی کوئی دستاویز زیادہ سے زیادہ ایک آئی ڈی پروف ہوسکتی ہے، دیگر بہت سارے پروف کی طرح۔
چوتھا: این پی آر میں حصہ نہیں لینے والے اپنی سرکاری نوکری سے محروم ہوسکتے ہیں، اسی طرح بعض لوگ مختلف سرکاری اسکیموں سے محروم کیے جاسکتے ہیں۔
وضاحت: یہ اندیشہ بھی بے بنیاد ہے، اس کی کوئی گنجائش قانون میں نہیں ہے۔اور اس طرح کی صورت حال کو کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
پانچواں: بائیکاٹ کرنے کی صورت میں ایک ہزار روپے فائن لگ سکتا ہے۔
وضاحت: یہ بات درست ہے، اور اس کے لیے بہرحال سب کو ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا، کہ ایک بڑے خطرے کو ٹالنے کے لیے چھوٹے نقصانات اور پورے ملک وملت کو پہونچنے والی پریشانی کو روکنے کے لیے انفرادی پریشانیوں کو گوارا کرنا پڑسکتا ہے۔ البتہ اس کا قوی امکان ہے کہ بڑے پیمانے پر بائیکاٹ ہونے کی صورت میں فائن کی اس سزا پر بھی عمل درآمد نہ ہوسکے۔
چھٹا: بائیکاٹ کرنے کی صورت میں گرفتاری عمل میں آسکتی ہے۔
وضاحت: پر امن اور خاموش بائیکاٹ کی صورت میں گرفتار کرنے کا حق تو کسی کو حاصل نہیں ہے، البتہ این پی آر کرنے والوں کو زبردستی روکنے سے قابل گرفتاری جرم بن سکتا ہے، تو اس سلسلے میں احتیاط ضروری ہے۔ ہمارے پیش نظر صرف بائیکاٹ ہے، اس سے آگے کوئی خلافِ قانون کام کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔
ساتواں: بائیکاٹ کرنے کی صورت میں فرضی مقدمے میں پھنسا کر گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
وضاحت: فرضی مقدموں کا امکان جس قدر بھی ہو، اس سے خوف زدہ ہونا مناسب نہیں ہے، سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے خلاف مہم میں ہر قدم پر فرضی مقدموں کا اندیشہ رہے گا لیکن اس اندیشے کی بنیاد پر راہ فرار اختیار کرنا بہت بڑی کم زوری ثابت ہوگا جہاں قومی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی نہایت سنگین خطرات درپیش ہوں، اس طرح کے اندیشوں سے آزاد ہونا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔
ہم این پی آر کا بائیکاٹ کیوں کریں؟
پہلی وجہ: این پی آر ہوجانے کے بعد این آر سی کا عمل آناً فاناً شروع کیا جاسکتا ہے اور انفرادی طور پر لاکھوں آدمی اس کی زد میں آکر مشتبہ شہری قرار دیے جاسکتے ہیں، اس لیے این پی آر ہی کو بائیکاٹ کے ذریعہ روکنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
دوسری وجہ: اب تک ہم نے این آر سی روکنے کے لیے سیاسی سطح پر کوشش کی قانونی چارہ جوئی کی عوامی مظاہروں اور دھرنوں اور ریلیوں کی راہ اختیار کی لیکن ان سب کے باوجود اگر حکومت اپنے موقف پر ڈھٹائی کا رویہ اپناتے ہوئے این پی آر کراتی ہی ہے تو اس کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کرنا ہی اگلا قدم رہ جاتا ہے جسے ضرور اٹھانا چاہیے۔
تیسری وجہ: بڑے پیمانے پر بائیکاٹ ہونے سے این پی آر کا پورا عمل نامکمل رہ جائے گا اور اس طرح یہ خطرہ سروں سے ٹل سکتا ہے۔
چوتھی وجہ: حالات کا جائزہ بتاتا ہے کہ بائیکاٹ کی مہم کے کامیاب ہونے کا امکان کافی زیادہ ہے۔ اس امکان سے فائدہ نہ اٹھانا بڑی غلطی قرار پائے گا۔ بڑے خطرات کا رخ پھیرنے کے لیے ہر امکان سے فائدہ اٹھانا ہی سمجھ داری کا تقاضا ہے۔
پانچویں وجہ: انصاف پسند عوام کی طرف سے حکومت کو یہ پیغا م پوری طاقت سے جانا چاہیے کہ طویل وقت گزاری کے ذریعہ مخالفت کو کچل دینے کا طریقہ چلنے والا نہیں ہے۔ یہ مخالفت ہر ہر صورت میں سامنے آتی رہے گی۔
این پی آر کی پرانی صورت کو اختیار کرنے کے بارے میں موقف
یہ صحیح ہے کہ ۲۰۱۱ کے این پی آر کے مقابلے میں ۲۰۲۰ کے این پی آر میں کچھ سوالوں کا اضافہ ہوا ہے، اور وہ اضافہ حالیہ حکومت کی بدنیتی اور مسلم عوام کے اندیشے بڑھانے والا ہے، تاہم سی اے اے وجود میں آنے کے بعد اور این پی آر کو این آر سی سے جوڑ دینے کے ارادوں کے بعد اور موجودہ حکومت کی کھلی ہوئی بدنیتی کے بعد این پی آر اپنی پرانی صورت میں بھی اتنا ہی خطرناک ہوگیا ہے جتنا نئی صورت میں ہے۔ خاص طور سے این پی آر کی یہ شق کہ متعلقہ سرکاری افسر یا محکمہ کسی کے فارم پر ڈی کا نشان لگا کر اسے مشتبہ بناسکتا ہے، اور یہ شق کہ پبلک کو کسی بھی شخص کو مشتبہ قرار دینے کا حق ہے،بے حد خطرناک ہیں۔
اس لیے این پی آر کی ہر صورت کا بائیکاٹ ضروری ہے۔
بائیکاٹ کو کامیاب بنانے کی صورتیں
پہلی بات: مسلمانوں میں بائیکاٹ کی مہم چلائی جائے، اور یہ واضح پیغام دیا جائے کہ اس نازک موقع پر مسلم قیادت کی سب سے بڑی ذمہ داری اس سنگین اور نازک موقع پر اس مہم کے لیے متحد ومتفق ہو کر زیادہ سے زیادہ کوششیں کرنا ہے۔
دوسری بات: تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں پر کم از کم مقامی سطح پر تو یہ واضح کر ہی دیا جائے کہ اگر وہ اس بائیکاٹ میں پیش پیش نہیں رہیں گے تو عوام انھیں مسترد کردیں گے۔
تیسری بات: غیر مسلم عوام سے بڑے پیمانے پر ملاقات کی جائے اور انھیں بتایا جائے کہ یہ اقدامات ملک کو اور ملک کے تمام عوام کو شدید ترین نقصان پہونچانے والے ہیں۔
چوتھی بات: بائیکاٹ سے متعلق اندیشوں کو دور کیا جائے، اور خطرات سے مقابلے کی روح اور قربانی کے جذبے کو ابھارا جائے۔