تلنگانہ بجٹ میں تعلیم کا شعبہ ایک بار پھر نظر انداز
خانگی اساتذہ کو کوئی راحت نہیں۔ ٹیچرس کی کمی کے باوجود بھرتیوں سے گریز نسبتاً غیر اہم پراجکٹس کے لیے زیادہ رقوم مختص
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
اسکولوں اور انٹرمیڈیٹ کالجوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک تلنگانہ میں تعلیم کا شعبہ طویل عرصے سے بد حالی کا شکار ہے بجٹ میں شعبہ تعلیم کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ فنڈز اور تدریسی عملے کی کمی نے اس شعبہ کو مزید ابتر حالت میں پہنچا دیا ہے۔ اس سال بھی تلنگانہ بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم میں کمی کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ ٹی ہریش راؤ نے اسمبلی میں پیش کردہ بجٹ میں تعلیم کے لیے بہت ہی مختصر رقم یعنی محض ۶.۷۸ فیصد مختص کی ہے۔
۲۰۱۴ میں علیحدہ تلنگانہ ریاست وجود میں آنے کے بعد تعلیمی شعبہ کو یکسر نظر انداز کرنے کا رجحان دیکھا جارہا ہے۔ اگر اس کا تقابل متحدہ ریاست آندھرا پردیش سے کیا جائے تو اس شعبہ کے لیے مختص کی جانے والی رقم میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔ ۲۰۱۴ میں تعلیم کے شعبہ کو کل بجٹ کا تقریباً گیارہ فیصد مختص کیا گیا تھا۔ ۱۵-۲۰۱۴ کے بجٹ کے مطابق مختص شدہ رقم تقریباً تیئیس ہزار کروڑ روپے تھی جبکہ اس سال بجٹ میں صرف پندرہ ہزار چھ سو پانچ کروڑ روپیہ ہی مختص کیے گئے جو کہ انتہائی تشوش کی بات ہے۔ بجٹ میں اس قسم کی کٹوتی یقیناً شعبہ تعلیم پر منفی اثرات مرتب کرے گی اور ساتھ ہی ریاست کو تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیل دے گی اور لازمی طور پر اس میدان میں کسی بھی قسم کی غفلت ریاست تلنگانہ کی معاشی پیشرفت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو گی۔
تلنگانہ پروگریسیو ٹیچرس فیڈریشن کے میگزین کے چیف ایڈیٹر کے وینگوپال نے کہا ’’کوٹھاری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ریاست کو اپنے بجٹ کا ۳۰ فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کرنا چاہیے۔‘‘ ریاست نے دو ہزار کروڑ روپے الگ سے مختص کیے ہیں جب کہ یہ رقم بھی ان چار ہزار کروڑ روپیوں میں سے ہے جو اگلے دو سالوں میں اسکولوں اور کالجوں کی درستگی اور اس کی تعمیری ضروریات کے لیے ہیں۔ ریاستی حکومت نے اس میں بھی کمی کی ہے انفراسٹرکچر کے لیے چار ہزار کروڑ کی رقم میں سے صرف دو ہزار کروڑ ہی مختص کیے ہیں۔ جبکہ دیگر ریاستیں شعبہ تعلیم کے لیے اپنے بجٹ کا اوسطً پندرہ فیصد مختص کرتی ہیں۔ ۱۵-۲۰۱۴ میں متحدہ آندھرا پردیش ریاست کے بجٹ میں بھی تعلیم کے لیے چودہ فیصد رقم مختص کی گئی تھی ۔
تلنگانہ یونائیٹڈ ٹیچرس فیڈریشن کے ریاستی جنرل سکریٹری چاوا روی نے کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ بجٹ میں کمی کر کے حکومت اپنی ذمہ داری سے دستبرداری اختیار کر رہی ہے جو اس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر بچے کو تعلیم فراہم کرائے اور یہ حکومت کی سماجی ذمہ داری بھی ہے اس سے وہ دستبردار نہیں ہو سکتی‘‘
مردم شماری ۲۰۱۱ میں تلنگانہ کی خواندگی کا تناسب ۶۶.۵۴ فیصد تھا جو قومی اوسط ۷۴.۰۴ فیصد سے بہت کم ہے۔ اگر ان اعداد و شمارمیں حیدرآباد اور اس کے آس پاس کے علاقوں کو شامل نہ کیا جائے تو یہ اور بھی بدتر ہیں۔ ریاست میں ٹی آر یس کی حکومت ہے اور اس کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راو نے حکومت میں آنے سے قبل اپنے انتخابی منشور میں اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ وہ کے جی ٹو پی جی (کنڈرگارٹن سے پوسٹ گریجویشن تک) مفت تعلیم فراہم کریں گے۔ کیا سالانہ بجٹ میں کمی کے ذریعہ وہ اس مقصد کو حاصل کرسکیں گے؟ کیا وہ اپنے وعدہ کو اس طرح پورا کرسکیں گے؟ یا پھر وہ محض ایک جملہ تھا جس طرح نریندر مودی ادا کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے بھی تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں کمی کی ہے گزشتہ بجٹ میں یہ تین اشاریہ دو فیصد تھا جو اب گھٹ کر دو اشاریہ سات فیصد ہو گیا ہے۔
حکومت نے قیام تلنگانہ کے سات سال بعد اسکولوں میں بنیادی ڈھانچے کے درستگی کے لیے دو ہزار کروڑ روپے علیحدہ سے مختص کیے ہیں جو ناکافی ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے دس ہزار کروڑ روپے درکار ہوں گے۔ اس دو ہزار کروڑ کی رقم سے وہ محض اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے کو محض بہتر بنا سکتی ہے معیاری نہیں۔ اگر موجودہ اسکولوں کو معیاری بنانا ہو تو اسے پانچ ہزار کروڑ روپے درکار ہوں گے۔ جب کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی حالت اس بھی دگرگوں ہے۔ اگر اسے ان کو بہتر بنانا ہو تو ہر سال ایک ہزار کروڑ روپے درکار ہوں گے۔ اکثر سرکاری اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ان اسکولوں میں نہ ہی بچوں کے بیٹھنے کے لیے میز ہیں اور نہ ہی انہیں پڑھانے والے اساتذہ موجود ہیں۔ کئی اسکولوں میں پینے کے لیے پانی، رفع حاجت کے لیے بیت الخلا، نہ پنکھے اور نہ صفائی کرنے والا عملہ موجود ہے۔ بچے خود ہی اپنے اسکولوں میں صفائی کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
اس بجٹ میں ایس سی، ایس ٹی، بی سی اور اقلیتوں کے اقامتی اسکولوں کے لیے بجٹ میں مختص رقم کو ۲۰-۲۰۱۹ کے ایک ہزار نو سو ترسٹھ کروڑ سے بڑھا کر دو ہزار پانچ سو پندرہ کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ ان اسکولوں میں طلبہ کی تعداد بھی پچھلے سال کے مقابلے میں بڑھی ہے۔ گزشتہ سال اسکولوں میں تین لاکھ اٹھاسی ہزار طلبہ زیر تعلیم تھے۔ اس سال یہ تعداد بڑھ کر چار لاکھ اکتالیس ہزار ہوگئی ہے۔ اگرچہ حکومت نے اپنے بجٹ میں اقامتی اسکولوں پر توجہ دی ہے۔ وزیر خزانہ ہریش راؤ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ حکومت ایس سی طلبا کے لیے ۲۶۸ نئے گروکل اسکول، ایس ٹی طلباء کے لیے ۱۶۹ نئے گروکل اسکول تعمیر کرے گی اور اگلے تعلیمی سال سے ۷۱ اقلیتی جونیئر کالج بھی کام کرنا شروع کر دیں گے‘‘ اس وقت ریاست میں جملہ نو سو انسٹھ قامتی اسکول کام کر رہے ہیں۔ لیکن غیر اقامتی اسکولوں پر جن میں طلبہ کی تعداد زیادہ ہے کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ مجموعی طور پر بجٹ میں محکمہ تعلیم کے لیے مختص رقم میں کمی کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست کے قیام کے بعد سے اس میں مسلسل کمی آتی جا رہی ہے۔ یقیناً اس کمی کا منفی اثر تعلیم پر پڑے گا۔ تلنگانہ اسٹیٹ یونائیٹڈ ٹیچرس فیڈریشن (ٹی ایس یو ٹی ایف) کے جنرل سکریٹری چاوا روی نے کہا ’’ریاستی حکومت کو محکمہ تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بجٹ میں کٹوٹی سے ہم معیاری تعلیم کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘
حکومت نے اساتذہ کی آٹھ ہزار سات سو بیانوے مخلوعہ جائیدادوں کو پُر کرنے کے لیے ۲۰۱۷ میں اعلامیہ جاری کیا تھا لیکن حکومت اس کے امتحانات منعقد نہیں کر رہی تھی تو ہائی کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی تب جا کر حکومت نے ۲۰۱۸ میں ان امتحانات کا انعقاد کیا لیکن ابھی تک ان جائیدادوں کو پُر نہیں کیا جا سکا۔ دو۔۔۔ پچاس افراد جنہوں نے یہ ٹسٹ کامیاب کیا ہے انہیں ابھی بھی اپنی تقرری کا انتظار ہے کیوں کہ کسی نے ان امتحانات میں گڑبڑی کی شکایت ہائی کورٹ سے کردی اور مقدمہ دائر کر دیا ابھی یہ مسئلہ عدالت میں زیرِ دوراں ہے۔ ہر اسکول میں اوسطاً ڈیڑھ سے دو جائیدادیں خالی ہیں یعنی ریاست میں تقریباً سات ہزار جائیدادیں خالی ہیں۔ وبائی مرض کووڈ-۱۹ کے بعد ان اسکولوں کی حالت اور بھی بدتر ہو چلی ہے۔
کووڈ-۱۹ کے دوران سارے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ اس دوران بچوں کو آن لائن تعلیم دینے کی بات کہی گئی لیکن اس کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا گیا کیوں کہ اس کے لیے حکومت کے پاس کسی بھی قسم کا انفراسٹرکچر موجود نہیں تھا۔اس وبائی مرض سے متاثرہ تعلیمی سال میں سرکاری اسکولوں کے صرف پندرہ فیصد طلباء نے ہی آن لائن تعلیم سے فائدہ اُٹھایا ہے جب کہ چالیس فیصد طلباء ٹیلی ویژن کے ذریعہ کلاسس میں حاضر رہ سکے ہیں۔ یعنی باقی طلباء تعلیم سے محروم رہے۔ متعدد طلباء حکومت کے ٹی سیاٹ چینل تک رسائی حاصل نہیں کرسکے جس پر سارے مضامین پڑھائے جا رہے تھے۔ یہ سرکاری اسکولوں کی صورت حال ہے۔ خانگی اساتذہ اور خانگی اسکولوں کی صورت حال بھی بڑی افسوس ناک ہے۔
ریاست کے پندرہ ہزار اسکولوں میں تقریباً ڈھائی لاکھ اساتذہ تدریسی کام انجام دیتے ہیں۔ وبائی مرض کے بعد ان کی نوکریاں ختم ہو گئیں اور وہ بے یارو مدد گار ہوکر اپنی زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے اپنے پیشہ تدریس کو چھوڑ کر دیگر پیشے اختیار کر لیے ہیں۔ بہت سے اسکول انتظامیوں نے بھی ان کی باقی تنخواہیں ادا نہیں کیں۔ ان میں سے کوئی سبزیاں بیچنے پر مجبور ہو گیا تو کوئی چائے بنانے اور مزدوری کرنے پر۔ کسمپرسی کے ان حالات میں بھی حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ تلنگانہ پرائیویٹ ٹیچرس فورم کے صدر شیخ شبیر علی نے کہا کہ ہم نے اس معاملے پر حکومت کے خلاف سخت احتجاج کیا، ہم سڑکوں پر نکلے، اسمبلی، پرگتی بھون اور یم ایل اے کوارٹرس پر دھرنا دیا، احتجاج منظم کیا، یوم اساتذہ کو بطور یوم سیاہ منایا گیا، گاندھی جینتی پر خاموش احتجاج کیا گیا، ریاست بھر میں کلکٹر آفس پر دھرنے منظم کیے گئے لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی‘‘
شیخ شبیر علی نے مزید کہا کہ ’’اس نازک موقع پر بھی کارپوریٹ اسکولوں نے اولیائے طلباء کو پوری فیس ادا کرنے پر مجبور کیا، ان سے ساری فیس وصول کی لیکن جب اسکولوں کو دوبارہ کھولا گیا گیا تو اساتذہ کو ان تنخواہیں پوری ادا نہیں کی گئیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کچھ کارپوریٹ اسکولوں جیسے نارائنا اور چیتنیا نے اساتذہ کو صرف تیس تا چالیس فیصد تنخواہیں ہی ادا کی ہیں۔ ان میں سے کچھ ادارے تو فی گھنٹہ 300 روپے ہی ادا کر رہے ہیں اس حساب سے انہیں باقی تین ماہ کے لیے پانچ تا چھ ہزار روپے تنخواہ دی جا رہی ہے۔ اس معاملے میں بھی حکومت نے خانگی انتظامیہ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ انہیں پابند کیا کہ وہ تنخواہوں ادا کریں۔ ریاست کے قیام کے بعد سے اب تک صرف ایک مرتبہ ہی اساتذہ کی بھرتی کے لیے اعلامیہ جاری کیا گیا۔ جب ریاست بھر میں تقریباً تیس ہزار جائیدادیں خالی ہیں‘‘ اساتذہیونینوں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سے اب تک ریاست بھر میں تقریباً ایکتیس اساتذہ نے خود کشی کی ہے۔
حکومت غیر ضروری پراجکٹس کی تعمیرات جیسے یادادری مندر کی تعمیر پر اٹھارہ سو کروڑ اور نئے سکریٹریٹ کی تعمیر پر تقریباً پانچ سو کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کر رہی ہے جس کی عوام کو چنداں ضرورت نہیں۔ ریاستی حکومت کے پاس اتنا وقت اور پیسہ موجود ہے کہ وہ اپنے مقررہ وقت پر انتخابات کرواتی ہے چاہے وہ بلدیاتی انتخابات ہوں یا یم ایل سی کے۔ اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ان انتخابات میں سیکڑوں کروڑ روپے خرچ کرنے کے لیے اس کے پاس وافر رقم موجود ہے لیکن شعبہ تعلیم کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں جب کہ کوٹھاری کمیشن کی رو سے بجٹ کا تیس فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص ہونا چاہیے۔ اس کے بر عکس حکومت ہر سال تعلیم پرخرچ کم کرتی جا رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ حکومت اپنی بنیادی ذمہ داری سے خود کو الگ کر کے سارے تعلیمی شعبہ کو خانگی ہاتھوں میں دے دے اور تعلیم کو کارپوریٹس کے حوالہ کر دے۔
حکومت غیر ضروری پراجکٹس کی تعمیرات جیسے یادادری مندر کی تعمیر پر اٹھارہ سو کروڑ اور نئے سکریٹریٹ کی تعمیر پر تقریباً پانچ سو کروڑ کی خطیر رقم خرچ کر رہی ہے جس کی عوام کو چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ریاستی حکومت کے پاس اتنا وقت اور پیسہ موجود ہے کہ وہ اپنے مقررہ وقت پر انتخابات کرواتی ہے چاہے وہ بلدیاتی انتخابات ہوں یا یم ایل سی کے۔ اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ان انتخابات میں سیکڑوں کروڑ روپے خرچ کرنے کے لیے اس کے پاس وافر رقم موجود ہے لیکن شعبہ تعلیم کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا 10 اپریل 2021