نقشبند قمر نقوی
اسلام محض ایک نظریاتی دعوت نہیں جو کسی ایک رہنما کے وقتی جذبات یا حسی عوامل کا نتیجہ ہو بلکہ ایک ایسی مکمل اور مبسوط تحریک ہے جس کی بنیاد ابتدائے انسانیت سے رکھی گئی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا گیا، یہاں تک کہ رسول اکرم، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا مبارک دور آیا۔
رسول اللہ ﷺ کی نبوت اور دعوت کسی ایک فرقے، قوم اور ملک تک محدود نہیں بلکہ یہ تمام نوع انسانی کے لیے ایک عالمگیر دعوت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا (الاعراف : ۱۵۸)
ایھا النّاس کے تخاطب کا مفہوم ہی یہ ہے کہ اس کے مخاطب تمام انسان ہیں۔
رسول ﷺ کی دعوت کا بنیادی اصول توحید تھا جو درحقیقت سارے گزشتہ پیغمبروں کی تعلیم ودعوت کا بنیادی اصول رہا ہے۔ گویا یہ اعلیٰ انسانیت کے قیام کی دعوت ہے اور انسانیت اعلیٰ کا انبعاث وقیام اسی وقت ممکن ہے جب ایک فرد تمام ممکنات وموجودات سے قطع نظر کرتے ہوئے صرف ایک واحد احکم الحاکمین کا یقین کامل کر لے، ایک ایسا احکم الحاکمین جو منفرد ہو، جس کا نہ تو مثل ہو، نہ جس سے افضل کوئی طاقت موجود ہو۔ یہ توحید انسان کی عقل وخرد کو اس راہ پر لے جاتی ہے جہاں ایک تنہا، واحد، مالک الملک اور حی وقیوم ہی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذات ایسی ہے جس کے علم سے کوئی شئے مخفی نہیں ہے، وہ غفلت سے مبرا اور نسیان سے پاک ہے۔ اس جگہ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ توحید کے دائرہ حقیقت میں دو اہم شعبے بھی آجاتے ہیں وہ ہیں:
۱- توحید فی الذات
۲- توحید فی الصفات
یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں۔ یہ احکم الحاکمین اور لیس کمثلہ شی کا مفہوم بھی ہے۔
ایسی مہتم بالشان ذات باری تعالیٰ وسبحانہ کے تصور کے ساتھ ہی قدرتی طور پر ایک رعب ایک دبدبہ ایک تاثر پیدا ہوتا ہے جس کو ایک لفظ خوف سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ایک بہت بڑے حاکم کے سامنے ایک شخص کی جو کیفیت ہوتی ہے اس سے وہ تاثر بخوبی سمجھا جا سکتا ہے، گو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے متعلق خوف کی شدت اور ہمہ جہتی احکم الحاکمین کے مفہوم سے کسی حد تک ہی واضح ہوتی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف کو کسی اور خوف سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی، ایسی تشبیہ انسان کے دائرہ خیال سے ماورا ہے۔
یہ مقام ہے جہاں تقویٰ کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ لفظ تقویٰ قرآن پاک میں بار بار استعمال کیا گیا اور مختلف انداز بیانات کے ذریعے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ ربوبیت اور رحمت کی صفات کاملہ کے ساتھ ساتھ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مالک یوم الدین بھی ہے۔ اسی کے ساتھ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات عدالت وانصاف کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں متعدد آیات میں انسانوں کو تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی اور حکم دیا گیا: یا ایھاالناس اتقوا ربكم
علمائے کرام کی ایک جماعت نے تقویٰ کے مفہوم کو صرف خوفِ خدا بنا کر پیش کیا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ساری صفات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے مفہوم کو قہر وغضب سے تعبیر کر دیا جس کے نتیجے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ایک نہایت جابر وقاہر ہستی سمجھا گیا۔
واقعتاً تقویٰ کی تکرار سے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ مومن اس کی کامل حاکمیت کو قبول کرے اور سمجھ لے کہ تقویٰ صرف خوف نہیں ایک پاکیز طرز حیات کا منشور ہے۔ حاکمیت قبول کرلینے کا مطلب یہ بھی ہے کہ یقین کرنے والا جان لے کہ ایک نہ ایک دن وہ احکم الحاکمین ہر ایک بندے کا احتساب بھی کرے گا اور یہ فیصلہ کرے گا کہ اس نے اس کی توحید پر کامل یقین کیا کہ نہیں؟ اس کے احکام کی تعمیل کی یا نہیں؟
اب یہ توضیح بھی ضروری ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جبار و قہار بے۔ بے شک ہے، یہ دونوں صفات اس کے اپنے لیے بے شک ہیں لیکن جباری وقہاری محض ذات باری تعالیٰ کی تکمیل تفہیم کے لیے بیان کی گئی ہیں، ورنہ در حقیقت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات رحیمی، کریمی، غفاری اور دوسرے اسمائے حسنہ اس کی جباری اور قہاری پر غالب ہیں۔
جن مظاہر کو قہر وغضب پر محمول کیا گیا وہ عین متقاضائے رحمت ہیں، جیسے تعمیر کے تصور کے لیے ’’تخریب‘‘ کا تذکرہ لازم آتا ہے اور اسی طرح رحم وکرم کے کامل تصور کی تکمیل کے لیے جبرو قہر کا ذکر ضروری ہے اور اسی سےمیزان عدل قائم ہوتا ہے۔
’’احکام الحاکمین‘‘ اور ’’مالک یوم الدین‘‘ کی انتہائی حیثیت سے پیش نظر اس کے احکام کی تعمیل، ساری ہدایات کی پوری پوری پابندی اور بندگی کے سارے ضابطوں پر عمل ہی وہ طریقہ زندگی ہے جس کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی ہو سکتی ہے۔ یہی تقویٰ کا مفہوم ہے۔
صفات الٰہی میں جہاں قہر وجبر کا ذکر ہے وہاں دراصل ’’عدالت‘‘ کی توضحیح مقصود ہے، چناچہ تقویٰ کا مفہوم کاملہ سمجھ لینے کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت ’’احکم الحاکمین‘‘ کی صحیح تصویر سامنے آجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی جس عمل کا تصور پیدا ہوتا ہے وہ گویا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے رتبہ ’’مالک یوم الدین‘‘ کا ایک جزو لازم ہے اور اس کے نتیجے میں بندہ تعمیل کے مقام میں وارد ہوتا ہے۔
جب بندہ ان تمام تصورات تک پہنچ جاتا ہے تو پھر ’’قہر و غضب‘‘ کا تصور تو رہتا ہی ہے، واجب الوجوب کا مقام آجاتا ہے یا ’’وجوب عمل‘‘ قابل قبول ہے جو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کے ذریعے انسان تک پہنچایا۔
پاکیزگی اخلاق ان میں سب سے افضل ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکام کا لب لباب ہے، اس اخلاق کی زندہ جاوید تصویر تو رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ میں ملتی ہے مثلاً:
صداقت۔۔ کہ جس میں کسی حالت کے تحت بھی ذرا سا تزلزل پیدا نہ ہو۔
دیانت داری۔۔ کہ جس کے نتیجے میں انسان کا اس کے معاشرے میں مقام پیدا ہو سکے، ایفائے عہد وقرار۔۔ کہ جس بات کا عہد واقرار کیا جائے وہ ایسا پختہ ہو کہ اس میں کسی کمی، کسی تباہی یا تاخیر کا عنصر نہ ہو۔
حق گوئی۔۔ ایسی کہ صرف وہی بات کہی جائے جو بتقاضائے فطرت و واقعیت ہو اور اس میں کسی بیرونی اثر کے تحت تغیر وتبدل نہ ہو سکے۔
روابط انسانی میں اعتدال۔۔ رواداری، مروت، اخوت، اور اپنی آبرو کے ساتھ ساتھ دوسروں کی آبرو کا تحفظ۔
امداد باہمی۔۔ کا ایک مہذب جذبہ جس کو ہر مستحق کے لیے لازم سمجھا جائے۔
اس کے بعد دوسرا مقام پاکیزہ کردار کا ہے۔
ہر وہ شخص جس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکم الحاکمین اور مالک یوم الدین ہونے کا یقین ہو اور تقویٰ کو سمجھ گیا ہو، اس پر لازم ہے کہ انسان کے کردار اور ان اقدار کا تحفظ کرے جو اس کی اشرفیت کا تقاضا ہیں یعنی:
حیات، غیرت، وقار، سادگی، شرافت، تہذیب وشائستگی، ایمانداری اور حیا کا تقاضا ہے کہ فحش گوئی، بد زبانی، یاوہ گوئی اور خواہشات نفسانی کی آزادانہ تکمیل سے کامل احتراز کیا جائے۔
غیرت کا تقاضا ہے کہ ایسی کوئی حرکت، عملی یا زبانی، سرزد نہ ہو جس سے عزت نفس پر آنچ آتی ہو۔
اگر خود کو اہانت سے بچانا ہے تو دوسروں کی اہانت سے پرہیز کیا جائے، اگر اپنی عزت کا خیال ہے تو دوسروں کی عزت کی حفاظت ضروری سمجھی جائے۔
تیسری شق ہے عبادت جو بندے کا اصل فریضہ ہے۔
عبد اور عبادت لازم وملزوم ہیں۔ وہ بندہ یا ملازم ہی کیا جو اپنے مالک کا شکر گزار اور تابعدار نہ ہو؟ اور عبادت کا یہی مقصد ہے۔
عبادت صاحب ایمان شخص کے کردار کا جزوِ لاینفک ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عظمت والوہیت کا زبانی اقرار تو لازم ہے ہی، لیکن اس اقرار کی تکمیل کے لیے عملی طور پر جو کچھ لازم ہے وہی عبادت ہے اور عبادات میں نماز جسے قرآن پاک میں صلواۃ کہا گیا ہے، قطعی لازم ہے اور اعمال کا افضل ترین قرینہ ہے جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرض قرار دیا، یعنی ایسا قانون جس میں کسی قسم کی کمی، کوتاہی، عذر، معروض کا امکان نہیں۔ ہر بندے پر ہر حالت میں فرض ہے۔
إنَّ الصَّلـوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا
اس کے بعد ان فرائض کا مقام آتا ہے جیسے زکوٰۃ، صیام، حج وغیرہ
اس تمام بیان سے تقویٰ کے مفہوم کو واضح کرنا منظور تھا۔ معلوم یہ ہوا کہ جس نے تقویٰ اختیار کیا اس کے لیے یہ لازم نہیں کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرزتا کانپا رہے، بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ اس کے احکام کی پوری پوری تعمیل کرے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4 تا 10 جولائی 2021