ترکی کی افریقی ممالک پر مرکوز خارجہ پالیسی ،تجارت اور دفاعی تعاون میں اضافہ

استنبول سربراہی اجلاس میںباہمی شراکت اور کثیر جہتی تعلقات کو مزید فروغ دینے کا عزم

اسد مرزا

براعظم افریقہ دنیا میں کثیر تعداد میں مادی اور دیگر قدرتی وسائل کی بے شمار دولت رکھنے کے باوجود دنیا کے غریب ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے جبکہ زیادہ تر افریقی ممالک ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کی اہم وجوہات میں سے ایک وجہ استعماریت کے عروج کے زمانہ میں مختلف ملکوں خصوصاً برطانیہ، فرانس، پرتگال اور جرمنی کی جانب سے اس براعظم کے مختلف علاقوں پر قبضے کے بعد وہاں کے قدرتی وسائل کی لوٹ اور نسل پرستی بھی رہی ہے۔ تاہم اب تصویر بدل رہی ہے اور ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی دس تیز رفتار معیشتوں میں سے سات افریقہ میں موجود ہیں۔
غالباً اسی بنیاد پر اور افریقہ سے قریب ہونے کی وجہ سے ترکی نے مختلف افریقی ممالک کے ساتھ تجارتی، دفاعی اور تعلیمی وثقافتی شعبوں میں باہمی اشتراک کی نئی مہم شروع کی ہے۔ اس سلسلے میں 16تا19 دسمبر ترکی کی حکومت نے تیسرے ترکی-افریقہ شراکت داری سربراہی اجلاس کی میزبانی استنبول میں کی۔ اس سے قبل ایسے ہی دو اجلاس استنبول اور گینی کے شہر مالابو میں منعقد کیے جاچکے ہیں۔ حالیہ استنبول اجلاس میں 16صدور، 25 وزرائے خارجہ اور 100 سے زائد دیگر وزراء نے شرکت کی۔
اس اجلاس کے ذریعہ ترکی اور مصر کے درمیان 2013 سے کشیدہ تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ مصر کے نائب وزیر خارجہ نے اجلاس کے دوران ترک وزیر خارجہ میوت کوسوگولو سے ملاقات کی۔
استنبول اجلاس جس کا مرکزی عنوان باہمی ترقی اور خوشحالی کے لیے مشترکہ پارٹنرشپ تھا، اس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کے صدر رجب ایردوان نے کہا کہ علاقائی طور پر ترکی اور افریقی ممالک میں مختلف موضوعات پر کافی مناسبت ہے۔ ترکی سمجھتا ہے کہ جب تک دنیا کے ہر شخص تک بنیادی سہولتیں نہ پہنچ جائیں تب تک آپ سب کی ترقی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اسی لیے ترکی، مختلف افریقی ممالک کے ساتھ شراکت داری اور برابری کے اصولوں پر ان کی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ اب تک ترکی نے افریقہ کے مختلف ممالک میں تقریباً 70 بلین ڈالر کے مختلف پراجیکٹس مکمل کیے ہیں اور سن 2020 میں افریقی ممالک کو ترکی نے 15 بلین ڈالر کی اشیاء کی برآمد کی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ جن مسائل کا افریقہ کو سامنا ہے ان میں سے چند ایک کا سامنا ترکی کو بھی ہے جیسے ماحولیاتی تبدیلی اور دہشت گردی وغیرہ، اور ہمیں ان کا مقابلہ مل کر کرنا چاہیے۔
ترکی اور مختلف افریقی ممالک کے درمیان باہمی تعلقات میں 2005 کو انقرہ کی جانب سے ’افریقی سال‘ کے طور پر منانے کے بعد تجارت اور دیگر شعبوں میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ ترک حکومت نے اس بات کا احساس کرنے کے بعد کہ اس کے تاجروں کی افریقی ممالک میں ترقی کے کافی امکانات موجود ہیں، ان کو خصوصی طور پر افریقی ممالک میں سرمایہ کاری کرنے اور وہاں نئے پراجیکٹس شروع کرنے کی ترغیب دی اور نئے مواقع فراہم کروانے میں سرکاری سطح پر ان کی کافی مدد کی ہے۔ ان بہتر کاروباری تعلقات کا اثر خارجی سطح پر بھی نمایاں تبدیلی کی شکل میں سامنے آنے لگا۔ 2008 کے بعد سے ترکی افریقین یونین کا اسٹریٹجک پارٹنر ملک رہا ہے۔ گزشتہ اکتوبر میں ہی صدر ایردوان نے انگولا، نائجیریا اور ٹوگو کا دورہ کیا تھا۔
ترکی اور افریقی ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات میں بھی ایردوان کے 2014 میں صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد کافی ترقی ہوئی ہے۔ صومالیہ جہاں سے ترک تاجر اور فوجیں دونوں ہی افریقہ کے سب-سہارا علاقے میں بآسانی داخل ہوسکتی ہیں، اس کے ساتھ ترکی کے دفاعی تعلقات سب سے زیادہ گہرے ہیں۔ وہاں 2017 سے ترکی نے ترک سوم نامی اپنی فوجی بیس بھی تعمیر کرلی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف افریقی ممالک کو چھوٹے اسلحہ کی فروخت بھی ترکی کی ترجیحات میں شامل ہے۔ حالیہ عرصے میں نائجیریا، انگولا، چاڈ اور مراقش جیسے ملکوں کو ترکی نے خاطر خواہ مقدار اسلحہ فروخت کیا ہے۔ ان میں ترکی کا بنایا ہوا BEYRAKTAR اور TB2 ڈرون جو فضائی لڑائی اور فضائی نگہداشت دونوں کام بآسانی کر سکتا ہے، سب سے زیادہ مقبول ہتھیار ہے۔ ستمبر میں ترکی نے مراقش اور تیونس کو ان ڈرونس کی پہلی کھیپ برآمد کی تھی۔
حالیہ عرصے میں اپنی بڑی منڈی اور بے پناہ ترقیاتی منصوبوں اور دیگر شعبوں میں نئی جدت کی وجہ سے تقریباً تمام افریقی ممالک مختلف ممالک کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق براعظم افریقہ میں دنیا کی سب سے زیادہ جوان اور تیزی سے بڑھنے والی آبادی موجود ہے، جو 2100 تک بڑھ کر تقریباً چار کھرب تک پہنچ جائے گی۔ تو یہ بڑھتی ہوئی جوان آبادی تقریباً ہر شعبہ حیات میں بڑی کمپنیوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور وہ افریقہ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رہی ہیں کیونکہ ان کا مقصد اس آبادی کو اپنے مستقبل کے گاہکوں میں تبدیل کرنا ہے۔ لیکن مغربی ممالک کی استعماری پالیسیوں کے برعکس ترکی کی حکمت عملی بالکل مختلف ہے۔ ترکی نے انسانی زاویہ پر اپنی پالیسی کو مرکوز کر کے، مختلف افریقی ممالک کے ساتھ باہمی اور کثیر رکنی تجارتی تعلقات قائم کرنے پر زیادہ زور دیا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ اگر براعظم افریقہ میں چین وسکون اور امن وخوشحالی قائم رہے گی تو یہ اس کے مفاد میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ اسی زاویے سے ترکی نے اپنی افریقی کاوشوں کو ’ساتھ ساتھ ترقی، ساتھ ساتھ خوشحالی‘ کی بنیاد پر مرکوز کرتے ہوئے ان تمام ممالک کے ساتھ گزشتہ پندرہ سالوں میں اپنے معاشی، کاروباری اور سیاسی تعلقات کو مضبوط کیا ہے اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔
استنبول اجلاس کی کامیابی کا اندازہ اس میں شامل مختلف افریقی رہنماؤں کی موجودگی سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ نائجیریا کے صدر محمد علو بحاری نے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران، جہاں ترکی اور افریقی ممالک کی بڑھتی ہوئی شراکت داری کو سراہا، وہیں انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی اور دہشت گردی جیسے اہم موضوعات پر ترکی کے مختلف افریقی ممالک کے ساتھ نبردآزما ہونے اور ان سے متعلق کوششوں میں ترکی اور ایردوان کی کوششوں کی بھی تعریف کی۔ اس کے علاوہ افریقن یونین کے صدر کا کہنا تھا کہ براعظم میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی اور امن وامان کو یقینی بنانا افریقی ممالک اور ترکی دونوں کے حق میں بہتر رہے گا، کیونکہ جب ایک پرامن ماحول قائم ہوگا تبھی آپ ترقی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
اسی کے ساتھ اپنے خطاب میں ایردوان نے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں کسی افریقی ملک کو شامل کرنے کی بھی پرزور تائید کی، ان کا کہنا ہے کہ دنیا صرف پانچ طاقتوں پر مشتمل نہیں ہے اور سیکیورٹی کونسل میں ان پانچ ممالک کے علاوہ اس بڑے براعظم کی آواز کو بھی شامل کیا جانا ضروری ہے۔ کیونکہ آپ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے اور ترقی پذیر ممالک کو ان کی جغرافیائی اور اسٹریٹجک پوزیشن ہونے کے باوجود نظر انداز نہیں کر سکتے اور ترقی یافتہ ممالک کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان ممالک کے حالات بدلنے کی پوری کوشش کریں اور افریقہ کو اس کا جائز حق عطا کریں۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ افریقہ کے تعلق سے ترکی نے جو پالیسی اپنائی ہے، وہ ایک کامیاب پالیسی ہے، جس کا نتیجہ دونوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان ملکوں میں ایردوان کی مقبولیت میں بھی کافی اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ زیادہ تر ملکوں کا ماننا ہے کہ ترکی مشکل وقت میں کام آنے والا اتحادی ملک ہے اور اس کے علاوہ اس کے قائد اور سیاست داں دوسروں کے مقابلے میں اسلامی تشخص اور تعلیمات کو اپنے عملی کام کے ذریعہ پورا کر رہے ہیں جو کہ باقی مسلم قائدین میں نظر نہیں آتا۔جس طریقے سے رجب طیب ایردوان نے 2014 کے بعد ترکی کے داخلی امور کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ترکی کی شبیہ کو بہتر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، جس میں وہ حتی الامکان کامیاب رہے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں دنیا کے زیادہ تر مسلمان اپنے ایسے رہنما کی شکل میں دیکھتے ہیں جو عالمی سطح کے سیاسی داؤ پیچوں کے ساتھ ساتھ اپنے اسلامی تشخص کو بھی قائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں اسی کے ساتھ وہ اسلام کی شبیہ کو بھی صحیح معنوں میں دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب رہے ہیں جس کی وجہ سے ایردوان اور ترکی دونوں کی مقبولیت میں گزشتہ 25 برسوں کے دوران کافی اضافہ ہوا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  02 جنوری تا 08 جنوری 2022