ترقی پسندی
منصف مرزوقی | ترجمہ: سدید ازہر فلاحی
گذشتہ صدی کی چھٹی اورساتویں دہائی میں عرب اور یوروپی ممالک کی یونیورسٹیوں میں انسانوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاتا تھا: ترقی پسند، رجعت پسند اوروہ لوگ جن کی اصل مشکوک ہو۔ ترقی پسند سپکٹرم کے درمیان میں کمیونسٹ براجمان تھے۔ ان کے ایک طرف انتہا پسند بائیں بازو والے اوردوسری طرف شائستہ اور اعتدال پسند جمہوریت کے داعی سوشلسٹ تھے۔ ان سب کے درمیان یہ بات مشترک تھی کہ یہ سب اپنے آپ کوکھلے ذہن کے حامل، تہذیب یافتہ، بنی نوع انساں کے مستقبل کے بارے میں رجائیت پسند اور اس کی بہتری کے لیے کام کرنے والے اصحاب خیرسمجھتے تھے۔ ان کی نگاہ میں دوسرے لوگ اس کے برعکس رجعت پسند تھے جن میں بنیادی طور پروطنیت پرست اور قومیت پرست اوراگلے نمبر پر اسلام پسند، جو ان کے نزدیک بندروں اورنوع انسانی کے درمیان کی گم شدہ کڑی تھے، شامل تھے۔ یہ دراصل ماضی کی خرافات سے وابستہ پس ماندہ لوگ تھے جنھیں کم زوروں کے درد و آلام اور عورتوں کی حالت زار سے کوئی سروکار نہیں تھا، انھیں اس بات کا شعور نہیں تھا کہ تاریخ کا دھارا کس طرف رخ کررہا ہے اور نہ اس بات کا احساس تھا کہ بالآخر یہ لوگ تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیے جائیں گے۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان -ترقی پسند لوگوں ہی کی نظر میں- ایسے لوگ پائے جاتے تھے جومشکوک تھے۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ترقی پسندوں کے لیے فخر کی بہت ساری وجوہات تھیں۔ روئے زمین کے ۶؍۱حصہ پر کمیونسٹ حکومتوں کا غلبہ تھا۔ کمیونسٹ پارٹیوں کا دائرہ مغربی ممالک تک وسیع ہوچکا تھا۔ ترقی پسند قوتیں ہی استحصال، نسل پرستی اور استعمار کے خلاف انقلابات کی قیادت کررہی تھیں۔ تعلیم یافتہ لوگوں میں ترقی پسندوں ہی کا غلغلہ تھا اورسوویت یونین پہلی مرتبہ ایک عورت کو خلا میں بھیج رہا تھا۔ اس پر مستزاد تمام میدانوں میں سائنس وٹکنا لوجی کی غیر معمولی پیش رفت تھی۔ یہ سب اس بات کی علامت تھی کہ سائنس، ٹکنالوجی اور معیشت کے میدان میں ہمیشہ سیلاب کی طرح آگے کی جانب پیش قدمی ہوتی ہے اور اسے کو ئی روکنے پر قادر نہیں ہے۔
آج ترقی پسندوں کے لیے ایسی کوئی چیزباقی نہیں رہ گئی ہے جس کی وجہ سے وہ احساس برتری میں مبتلا رہیں۔ حالات نے ان کے اوہام و خیالات کی تردید کردی ہے اوروہ بسروچشم دیکھ رہے ہیں کہ مذہب جسے وہ ’’لوگوں کا افیون‘‘ کہتے تھے، پوری قوت کے ساتھ روسی معاشرے سمیت تمام معاشروں میں لوٹ رہا ہے اور عورتیں خود اپنی مرضی سے حجاب اختیار کررہی ہیں، جب کہ ان کے نزدیک عورت کی ترقی کی علامت اس کے اسکرٹ کا چھوٹا ہونا اور اس کے گھٹنوں کا عیاں ہونا تھا۔ ان ساری تبدیلیوں سے آگے بڑھ کر سرمایہ دارانہ نظام کی وہ جیت ہے جس نے ہم سب کے خوابوں کو چکناچور کردیا ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے، اسّی کی دہائی میں ان کی نمائندگی کا دعوی کرنے والی پارٹی کے خلاف بولونیا کے مزدوروں کی بغاوت، کمیونسٹ پارٹیوں کے زوال اور ان کی سب سے بڑی پارٹی ’’چینی کمیونسٹ پارٹی‘‘ کے سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے حامی ونگہبان کی حیثیت اختیار کرلینے کے بعد ان ترقی پسندوں کے لیے کیا باقی رہ جاتا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں!
اسلام پسندی کی نمایاں پیش رفت نے ان کے تمام اعتقادات کو غلط ثابت کردیا ہے لیکن وہ اپنے افکار پر نظر ثانی کرنے، اس صورت حال کے اسباب پر غور کرنے اور اپنے نظریات میں موجود نقائص اور خامیوں کا سراغ لگانے کے بجائے اپنی روش پر قائم ہیں۔ ان کا یہ رد عمل کس قدر افسوس ناک ہے۔ آخرکار’’ظلمت پسندوں‘‘ کے لیے ان کا بغض انھیں اس حد تک لے گیا کہ انھوں نے استبدادی قوتوں سے ناطہ جوڑلیا اور تونس میں اپنے بہترین نظریہ سازوں، کارکنوں کو ان کے جلادوں کے حوالے کردیا اور انقلاب کے علمبرداروں پر ہی شب خون مارنے لگے۔ لیکن اس کے باوجود نہ کوئی چیز انھیں فائدہ دے سکی، نہ ان کی مغلوبیت کو روک سکی اور نہ یہ خوش خبری دے سکی کہ روئے زمین سے مکمل طور پر محو ہوجانے سے یہ لوگ بچ سکیں گے۔
کوئی کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ پھر ایسی ایمبولنس پر گولی باری کیوں کررہے ہو جس میں صرف ایک لاش ہے یا ایسے مریض کو کیوں نشانہ بنا رہے ہو جو خود اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے؟ یہ اس لیے کہ سہل موت دینا ڈاکٹر کا کام نہیں ہے۔ اس کے حسن اخلاق اور پیشے کی اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے جس قدر غیر جانب داری کے ساتھ ممکن ہو، وہ مریض کی تشخیص کرے اور جس قدر نرمی کے ساتھ ممکن ہو اس کی صحت بحال کرنے کی کوشش کرے۔ میں نے ہمیشہ اسی بات کی کوشش کی ہے کیوں کہ میں اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو آج ترقی پسندی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، مگر ایک بہت مختلف نوعیت کی ترقی پسندی کی۔
ہم یہ یاد د لادیں کہ ترقی پسندی اپنے رائج مفہوم میں فرانسیسی لفظ progressisme کا ترجمہ ہے اور یہ لفظprogres سے مشتق ہے۔ سب سے پہلے اس کا استعمال فرانسیسی منصف Rabelaisنے ۵۴۶ ۱ میں کیا۔ اب ہمارے سامنے ایک مغربی بالخصوص فرانسیسی تصورہے جس کا ارتقا اس زمانے میں ہوا جسے عہد روشن خیالی (۱۷۱۵ تا ۱۷۸۹) سے موسوم کیا جاتا ہے اور جس کے بڑے نظریہ سازوں میں دو فلسفی ڈیڈروٹ (Diderot)اور کونڈورسیٹ (Condorcet)تھے۔ بعد کے دور میں یہ تصور پورے یوروپ میں عام ہوگیا اور انیسویں صدی کے آخر سے اسے پورے طور پر مارکسی استعمال کرنے لگے۔ پھر یہ پوری دنیا میں پھیل گیا اور بیسویں صدی کے دوران یہ تصور وطن پرستی، اشتراکیت اور جمہوریت جیسے دیگر تصورات کے ساتھ ہم عربوں تک پہنچا۔ ہم آج تک افکار واقدار کے صارف ہیں، اس بات کا انتظار کرتے ہوئے کہ اللہ اس امت کے لیے علم و معرفت کے دروازے کھولے گا تاکہ یہ تاریخ کے متاثرین کے مقام سے نکل کر دوبارہ تاریخ سازوں میں شامل ہو۔
اس تصور پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ تین اہم اعتقادات پر مشتمل ہے جو مختلف نوعیت کی ترقی پسند سمجھی جانے والی حزب اختلاف کی سیاسی تحریکوں اور برسراقتدار حکومتوں کے لیے فکری مرجع اور مضبوط اخلاقی محرک کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ یقین کہ ترقی ایک قطعی اور ناگزیر چیز ہے۔
یہ یقین کہ یہ ہمیشہ اپنے جلو میں خیر ہی لاتی ہے۔
یہ یقین کہ یہ نہ صرف انسان اور معاشرے کی بہتری کی ضامن ہے بلکہ ان دونوں کی فطرت تبدیل کرنے پرقادر بھی ہے۔
پہلی کم زوری: قطعیت
ترقی پسند اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ انسانی تاریخ تیر کی طرح ہے جو ایک مرتبہ کمان سے نکل جائے تو اسے روکنا ناممکن ہے اور اس کا رخ ہمیشہ آگے کی سمت ہوتا ہے۔ بھلا کون ایسے تیر کو جانتا ہے جو کمان سے نکلنے کے بعد رک گیا ہو یا پیچھے کی طرف مڑگیا ہو؟ یہ ایک ایسا دعوی ہے جس کی تائید میں مثالیں موجود ہیں۔ طب وصحت کے میدان کو لے لو۔ بیماریوں کے علاج ومعالجے کے میدان میں جو زبردست پیش رفت ہوئی ہے اس کا کون انکار کرسکتا ہے؟ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ دس ہزار سال قبل انسان کی اوسط متوقع عمر تیس سال سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ آج یہ ترقی یافتہ ممالک میں اسّی کی دہلیز عبور کرنے کو ہے۔
لیکن ساتھ ہی یہ ایک ایسا دعوی بھی ہے جو سادہ لوحی پر مبنی ہے۔ کیا سوویت یونین کی ’’یقینی ‘‘پیش رفت جاری رہی اورسامراجیت پر اس کے غلبہ پرمنتج ہوئی؟ کیا کسی ملک میں استحصال اور غلامی کا خاتمہ ہوگیا یا محض اس کی شکلوں اور شدت میں تبدیلی آئی ہے؟آج -جب کہ ہم کورونا کی وبا اور گلوبل وارمنگ کاسامنا کررہے ہیں- کون یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ موجودہ معاشرے’’یقینی طور پر‘‘ اپنے مطلوبہ مستقبل کی جانب فاتحانہ پیش قدمی جاری رکھ سکیں گے؟ اب ہم بمشکل ہی مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں اور بسا اوقات ہماری ساری تمنا بس یہی ہوتی ہے کہ معاملات جیسے ہیں ویسے ہی باقی رہیں۔
دوسری کم زوری: سائنس اور ٹکنالوجی کی پرستش
افسوس کہ تاریخ کے تجربے سے دو ایسی باتیں واضح ہوئی ہیں جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں۔ پہلی بات یہ کہ کسی ملک میں لاکھوں لوگوں کو غریبی سے نجات دلانے کی خاطر بے تحاشا فیکٹریاں بنانے کا نتیجہ ماحولیات کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ مغربی ممالک، چین اور ہندوستان میں یہی ہوا ہے۔ دوسری بات یہ کہ سستی اور ہر ایک کے لیے دستیاب بجلی کو یقینی بنانے کے لیے جو جوہری توانائی ایجاد کی جاتی ہے اس کے ساتھ ہی روئے زمین سے زندگی کا نام ونشان مٹادینے کی قدرت رکھنے والے ہزاروں ایٹم بم بھی جمع کیے جاتے ہیں۔ راتوں میں شہروں کوروشن کرنے والی بجلی کا استعمال لوگوں کو تعذیب کا نشانہ بنانے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اس طرح تاریخی تجربے کی پیش قدمی کے ساتھ سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق ہمارا یہ خواب کہ یہ صرف خیر ہی کا باعث ہوسکتے ہیں، آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگا اور اکیسویں صدی میں ہر دیکھنے والے پر یہ واضح ہوگیا کہ ان دونوں کا برائی کے ساتھ وہی تعلق ہے جوتعلق دھوپ میں چلنے والے کا سائے کے ساتھ ہوتاہے۔ ٹکنالوجی کو خیرکے لبادے میں شر کہہ سکتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ہم اسی شاخ کو کاٹنے جارہے ہیں جس پر ہمارا آشیانہ بنا ہوا ہے یعنی ہم اسی ماحول کی بربادی کے درپے ہیں جس کے بغیر روئے زمین پر زندگی ممکن نہیں ہے۔
سائنس اور ٹکنالوجی کے سراپا خیر ہونے کے بارے میں ہمارے اعتماد کو متزلزل کرنے کا دوسرا سبب وہ منظرنامہ ہے جسے میں’’جوے پر رکھی گئی قیمت میں اضافہ‘‘سے تعبیر کرتا ہوں۔ اس قاعدہ کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے: جس قدر ٹکنالوجی کی صلاحیتوں اور اس کے فائدوں میں اضافہ ہوتا ہے اسی قدر اس سے وابستہ خطرات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قدر ہماری جدت اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اسی قدر اور متوازی طورپرہماری خرابی وبربادی کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
اسی طرح میڈیا کے بے شمار فائدے ہیں لیکن ساتھ ہی جھوٹی خبروں، افواہوں اورنفرت انگیز باتوں کو پھیلانے میں اس کا نہایت تباہ کن رول ہے۔ اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ میڈیا ایک خوف ناک ہتھیار ہے جو ظالموں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے لوگوں کی نگرانی (surveillance)اور ان کے دماغوں سے کھیلنے کا کام لیں۔ ویڈیو گیم انڈسٹری کے جرائم ناقابل ذکر ہیں جسے چلانے والے لاکھوں لوگوں کو اس کی لت میں مبتلا کرکے کروڑوں روپے کمارہے ہیں۔ یہ ویسی ہی صورت حال ہے جیسی منشیات فروشوں اور اس کے صارفین کی ہوتی ہے۔ مصنوعی ذہانت (artificial intelligence)کے میدان میں ہونے والی پیش رفت سے نہ صرف دنیا بھر میں لاکھوں ملازمتوں کو بلکہ خود انسان کے موجودہ مقام ومرتبے ہی کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ ممکن ہے کہ وہ اپنی ہی ایجاد کا اسیر بن جائے اور اسی کا غلام بن کر رہ جائے جسے وہ اپنا غلام سمجھتا ہے۔
تیسری کم زوری: ترقی اور ارتقا کے بیچ التباس
جس بنیادی مقدمے پر ترقی پسند فکر کی عمارت تعمیر ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ انسان ’’ظلمت پسندی‘‘ یعنی ’’مذہبی خرافات سے جس کی زنجیروں میں وہ لمبی مدت تک جکڑارہا‘‘ بتدریج آزاد ہورہا ہے اور ترقی پسندوں کی سربراہی میں جاری سیاسی نظاموں کی بدولت نہ صرف یہ کہ تمام انسانوں کے حالات زندگی بہتر ہوجائیں گے، بلکہ ایک نیا انسان تخلیق ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب تک کی تاریخ نے یہی بتایا ہے کہ پچھلی دو صدیوں میں مغربی معاشروں میں غیر معمولی رفتار سے سائنسی علوم کی نشوونما، موثر دواؤں کی کثرت اورحالات زندگی کو بہتر بنانے والے بے شمار آلات کے ظہور کے باوجود نہ افراد کی فطرت میں کوئی بہتری آئی ہے اور نہ سماج کی فطرت میں۔ اس کی سب سے سچی دلیل ’’ترقی یافتہ‘‘ معاشروں کے نوآبادیاتی جرائم اور دوسری عالمی جنگ کے دوران نسل کشی کے کیمپوں میں ان کی بربریت ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہاں یہ ضروری ہے کہ ترقی اور ارتقا کے درمیان فرق کیا جائے کیوں کہ ہمیشہ ان دونوں تصورات میں التباس پیدا ہوجاتا ہے۔ ترقی سے مراد مادی میدان میں ترقی ہے اور ارتقا سے مراد اخلاقی میدان میں ارتقا ہے۔ کیا ایمیزون بیسن اور نیوگنی کے پہاڑوں پر بسنے والے قبائل پر تھوپی گئی ترقی کو ہم ارتقا کہہ سکتے ہیں؟ یا اس کے برعکس یہ ان کے ساتھ پیش آنے والا سب سے بڑا سانحہ ہے؟ بالکل اسی طرح کا سانحہ جو شمالی امریکہ کے قبائل کے ساتھ پیش آیا جن کا ترقی کے باعث کوئی ارتقا نہیں ہوا بلکہ اس ترقی نے ان میں سے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اورجولوگ ان بستیوں میں محصور رہ گئے تھے جنھیں سب سے زیادہ ’’ترقی یافتہ‘‘ انسانوں کی حرص نے ان کے لیے چھوڑدیا تھا، ان کے لیے موٹاپے کی بیماری اور شراب کی لت کا سبب بنی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی واقعی ارتقا کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے اور اس کے بغیر بھی، یہاں تک کہ وہ ایسے تہذیبی ارتداد کی صورت بھی اختیارکرسکتی ہے جو ترقی اور تمام ترقی پسندوں سے نفرت کا باعث بنے۔ اسٹالن اور پول پاٹ کی حکومتوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان حکومتوں کے وحشی پن کو سمجھنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ یہ دونوں اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ یہ تاریخ انسانی کے سب سے عظیم منصوبے یعنی نئے انسان کی تخلیق میں لگے ہوئے ہیں۔ اور اس ’’عظیم منصوبے‘‘ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ لہذا اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ’’پرانے‘‘ انسان کے لاکھوں نسخے نئے انسان کے استقبال کی راہ ہم وار کرنے کے لیے قربان کردیے جائیں کیوں کہ یہی تاریخ کے معرکے میں سب سے آخری اور بلند مرحلہ ہے۔
ترقی پسندی کا یہ سادہ نظریہ جس چیز کو نظر انداز کردیتا ہے اور جوحیاتیاتی علوم کے محققین کے درمیان آج ایک معروف حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ انسانی نسل جسے Homo Sapiensکہا جاتا ہے (جس کی سات ارب کاپیاں آج موجود ہیں)، اس میں لاکھوں برسوں سے کوئی جسمانی تبدیلی نہیں واقع ہوئی، نہ اس میں کسی نئے عضو کا اضافہ ہوا اور نہ ہی اس کے دماغ کا حجم بڑھا۔ اسی طرح عام تصور کے برخلاف اس کی ذہانت میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا، صرف اس کے تجربات بڑھ گئے ہیں۔ پتھروں اور ہڈیوں سے آلات بنانے کے لیے اور ہر طرح کے خطرات سے پر دنیا میں شکار کے طریقے ایجاد کرنے کے لیے آغاز تاریخ کے انسان میں جو ذہانت مطلوب تھی وہ اس ذہانت سے کم نہیں تھی جس کی اس دور کے انسان کو راکٹ بنانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ اس پوری تاریخ کے سفر میں انسان نے اسی طرح اپنے تمام رویوں اور طرزہائے عمل کو ان کی خصوصیات اور نقائص سمیت باقی رکھا ہے۔ یہ معاملہ اسی طرح جاری رہے گا یہاں تک کہ شاید فطری یا مصنوعی حیاتیاتی تغیر کے نتیجے میں ایک نئی انسانی نسل ظہور میں آجائے۔ لیکن موجودہ انسان کی فطرت میں کسی سیاسی نظام کی بدولت کسی تبدیلی کے امکان کا تصور کرنا ایسا ہی ہوگا جیسا یہ کہنا کہ لباس کی خوب صورتی سے اس جسم کے اعضا خوب صورت ہوجائیں گے جسے وہ ڈھانپے ہوئے ہے۔
اس تشخیص کے بعد ہم کیا نتیجہ اخذ کریں؟ کیا ترقی پسندی سے متعلق ہر چیز سے پوری طرح دوری اختیار کرلی جائے؟ یہاں ممکن ہے کہ ہم میں سے آدھے شرپسند لوگ ان لوگوں سے جو اب بھی اپنے آپ کو ترقی پسند کہتے ہیں، یہ کہیں: تم اپنے حریفوں کو تاریخ کے جس کوڑے دان کا خوف دلارہے تھے وہ تمہارے لیے سراپا انتظار ہے۔ یا یہ ممکن ہے کہ ہم سے آدھے خیر پسند لوگ ان سے یہ کہیں: جو اجتہاد کرتا ہے اور صحیح رائے پر پہنچتا ہے اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو غلطی کربیٹھتا ہے اس کے لیے ایک اجر ہے اور تم لوگوں سے متعلق ہم یہی کہیں گے کہ آدھا اجر کافی ہے اور کسی معاملے میں اختلاف رائے دوستی کو ختم نہیں کرتا۔ میرا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں، اس لیے کہ ہم نے صرف آدھے خالی گلاس پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی پسندی نے جن خوابوں کی دنیا سجائی تھی ان میں سے بیشتر کی تعبیر میں وہ ناکام ثابت ہوئی۔ لیکن مجھے بتاؤ! کون سا ایسا دوسرا نظریہ یا مذہب ہے جس نے اپنے سارے وعدے پورے کردیے ہوں؟ کیا سماجی تحفظ، انسانی روزگار کے لیے سازگار حالات کی فراہمی، اجرتوں میں استحصال کی کمی، تعلیم اور صحت کی ہر ایک کے لیے عام فراہمی، عورتوں اور کالونیوں کی آزادی جیسی حصولیابیاں ترقی پسندوں کے بہت سارے کارناموں میں سے نہیں ہیں؟
تاہم اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کیا وہ مسائل ختم ہوگئے جنھیں ترقی پسند حل کرنا چاہیے تھے؟ کیا دوسروں نے غربت، جہالت اور ظلم کے مثلث کا کامیاب حل ڈھونڈ لیا ہے؟ کیا ہمیں مستقبل کے سلسلے میں امید کی کرن کی ضرورت نہیں ہے؟ اور کیا اس بات پر کسی قدر اعتماد کی ضرورت نہیں ہے کہ تاریخ صرف لایعنی حوادث کا تسلسل نہیں ہے؟ بے شک تمام مسائل اپنی پوری شدت کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہیں اور ہمیں اب بھی اس یقین کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے مستقبل کی صورت گری کرسکتے ہیں اور ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس وخاشاک کی طرح نہیں ہیں۔ بے شک ہمیں ایسے وژن کی ضرورت ہے جو ترقی پسندی کے خواب اور اس کے اولین منصوبے یعنی ملکی وعالمی سطح پر سماجی عدل، انصاف اور تکریم انسانیت کی آخری حد تک فراہمی کو جاری رکھے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں ایسے وژن کی ضرورت ہے جس میں ذرا سی عاجزی بھی ہو اور جو یہ قبول کرتا ہو کہ تاریخ تمام امکانات کے لیے ایک کھلی فضا ہے۔ ۔ ۔ ، اور یہ کہ ہمیں انسان کی خصوصیات اور نقائص اور اس کی مختلف ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے ساتھ معاملہ کرنا چاہیے۔ انھی ضروریات میں اس کی دینی ضرورتیں بھی ہیں جن کی اہمیت تسلیم نہیں کی گئی ہے۔ ۔ ۔ ، اور یہ کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے کچھ خطرناک پہلو ہیں جنھیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ۔ ۔ ، اور یہ کہ گھٹیا وسائل سے اعلی مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہے، اور یہ کہ انسان کی آزادی، مختصر ترین مدت ہی کے لیے سہی، اسے غلام بنا کرحاصل نہیں کی جاسکتی چاہے ایسا کسی ایسی اعلی مصلحت کے نام پر ہی کیوں نہ کیا جائے جس سے صرف چند ترقی پسند اشرافیہ واقف ہوں۔ ۔ ۔ ، اور یہ وژن اس بات پر یقین رکھے کہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم کبھی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ آزادی کے منصوبے کو -ایک چھوٹا قدم ہی سہی- آگے بڑھائیں، اور کھنڈرات کی تعمیر نو کا کام انجام دیں، کیوں کہ یہی ایک چیز ہے جو ناگزیر ہے۔ بے شک ہمارے عرب معاشروں کو -جن کے پاس نہ کوئی خواب ہے اور نہ کوئی کمپاس- جس چیز کی ضرورت ہے وہ بالیدہ ترقی پسندی ہے جس کی نظریہ سازی اور جسے عمل میں لانے کا کام ایسے لوگ کریں جو ان تلخ جائزوں کو قبول کرنے والے ہوں، اور جو تاریخ سے سیکھنے والے ہوں نہ کہ تاریخ کی غلطیوں کو دوہرانے والے۔ ■