تربیت اطفال: بیٹی کے نام باپ کے خطوط
متین طارق باغپتی
پیاری بیٹی!
السلام علیکم
تمہارا خط نہ آنے سے تمہاری امی تمہارے لیے بے چین ہیں ۔ یہ ایک قدرتی بات ہے۔ دنیا بھر کی مائیں ایک سی ہوتی ہیں انہیں اپنے بچوں سے دلی لگاو ہوتا ہے۔ اس کی ذرا سی تکلیف سے وہ بے چین ہوجاتی ہیں۔ ذرا روتا دیکھتی ہیں تو ان کا دل بھر آتا ہے۔ چلتے چلتے بچہ کہیں گرگیا تو کلیجہ دھک سے ہوجاتا ہے۔ دوڑ کر اٹھاتی ہیں پیار کرتی ہیں اور اپنے آرام کو تج کر ان کی دیکھ ریکھ کرتی ہیں۔ یہی بچے بڑے ہوکر زندگی اور سماج کے بنانے میں حصہ لیتے ہیں۔ سچ پوچھو تو محبت سے بھی زیادہ ان کی تربیت کی ضرورت ہے۔ اگر شروع ہی سے انہیں نیکی کی ترغیب دلائی جائے اور بری باتوں سے روکا جائے تو آگے چل کر وہ بہترین انسان بن سکتے ہیں اس میں اپنا بھی فائدہ ہے اور ان کا بھی ، اور اگر خدانخواستہ وہ بے راہ ہوگئے تو نہ صرف اپنا نقصان ہوتا ہے بلکہ دنیا کے لیے بھی وہ عذاب بن جاتے ہیں۔یہ ذکر میں نے اس لیے چھیڑا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ تمہارے پاس آج کل تمہاری نند کے بچے آئے ہوئے ہیں۔ بچے چاہے اپنے ہوں یا پرائے بہرحال وہ انسانیت کی امانت ہیں۔ ان کی تربیت کرنا اور ان کے مستقبل کو بنانا ہمارا فرض ہے۔ بچوں کے مستقبل کا اچھا برا ہونا دراصل تربیت ہی پر منحصر ہے جب کبھی میں نے اس بات پر غور کیا تو ساتھ ہی دو کہانیاں میرے دماغ میں گھوم جاتی ہیں ایک تو اس بچے کی جس نے پھانسی کے تختہ پر لٹکنے سے پہلے اپنی آخری تمنا اس طرح پوری کی تھی کہ اپنی ماں کے کان کو اپنے دانتوں سے چبالیا تھا اور بوڑھی ماں کو لہو لہان کردیا تھا۔ لوگوں کے پوچھنے پر لڑکے نے یہ راز افشا کیا کہ آج مجھے پھانسی اسی ماں کی بدولت مل رہی ہے ۔ کیونکہ اگر یہ مجھے پہلے دن جبکہ میں مدرسے سے قلم چرا کر لایا تھا چوری کی برائی بتاکر چوری کرنے سے منع کرتی تو میں چوری کرنے کا عادی نہ ہوتا اور آج پھانسی کے تختے پر نہ لٹکتا۔
اس قصے کی اصل کچھ ہو مگر ہے سبق آموز اور اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ماں بچے کی پہلی درس گاہ ہے جہاں بچہ پلتا بڑھتا ہے اور بہت کچھ سیکھتا ہے۔ قرآن پاک کی آیت سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے جس کا ماحصل ہے کہ سب بچے اچھی فطرت پر پیدا ہوتے ہیں مگران کے ماں باپ ان کو عیسائی، یہودی یا نصرانی بنادیتے ہیں۔
جس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ ماں باپ پر بچے کی تربیت کی خاص ذمہ داری ہے۔ ان کی ذرا سی غفلت کام بگاڑ سکتی ہے جس کا نتیجہ نہ صرف دنیا میں بلکہ مرنے کے بعد بھی بھگتنا پڑے گا جو لوگ آخرت پر سچا یقین رکھتے ہیں وہ اپنی اولاد کی تربیت شروع ہی سے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق کرتے ہیں اس سلسلہ میں حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ کے بچپن کی سچی حکایت یاد دلائوں گا کہ تم پڑھو اور اس پر غور کرو۔
ان کی والدہ پرانے وقتوں کی سیدھی سچی عورت تھیں۔ انہوں نے اپنے نور نظر کی پرورش میں انہی باتوں کا خیال رکھا جو اللہ کو پسند ہیں۔ چنانچہ تم نے سنا ہی ہے کہ جب وہ بغداد تعلیم حاصل کرنے تشریف لے جارہے تھے انہوں نے ان کی صدری میں چالیس اشرفیاں سی دی تھیں اور چلتے وقت کہہ دیا کہ قادر اب تم جارہے ہو۔ دیکھو کبھی جھوٹ نہ بولنا۔ جھوٹ ایک بیماری ہے جس کو لگ جاتی ہے اس کو تباہ کردیتی ہے۔ ایسے آدمی سے اللہ بھی ناراض ہوجاتا ہے۔ بچے نے اتنا سن کر سر جھکادیا جیسے پلے میں گروہ باندھ رہا ہو۔
پھر راستے میں وہ واقعہ پیش آیا جس کو دیکھ کر ڈاکووں کے پورے گروپ نے چوری سے توبہ کی۔ یہ سب ایک ماں کی پرخلوص تربیت کا نتیجہ تھا۔ آج بھی اگر مائیں اس کام کی طرف لگ جائیں تو سماج کی گندگی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ سماج افراد کے اکٹھا ہونے سے بنتا ہے جب افراد نیک، اچھے اور پرہیزگار ہوں گے تو سماج اپنے آپ ہی سدھر جائے گا۔ سماج کے سدھرنے سے دنیا کی اصلاح ہوگی اس اصلاح کا سہرا عورت کے سر ہوگا۔ پھر وہ مرد سے کہہ سکتی ہے کہ جس دنیا کو تم نہیں سدھار سکے اسے ہم نے سدھار لیا۔ اس سے عورت کا مقام بھی اونچا ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ تم عورت کے اس کام کو سمجھنے کی کوشش کرو گی۔ خیر طلب
تمہارا باپ