لئیق اللہ خاں منصوری، ایم اے (بنگلورو)
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد
’’اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کُفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔‘‘ (ابراہیم : ۷)
دین اسلام میں شکر گزاری کی بڑی اہمیت ہے۔ آئیے ہم اس اصطلاح کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
٭ مولانا مودودی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ میں شکر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو، اس کے احسان کی قدر کرے، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے اور اس کا دل اپنے محسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو‘‘۔
٭ اوپر کی آیت میں شکر کو کفر کی ضد کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ شکر گزاری ایمان کی علامت ہے جبکہ ناشکری کفر ہے۔ اسی طرح کی بات سورہ دہر کی آیت نمبر ۳ میں کہی گئی ہے کہ: ’’ہم نے اسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔‘‘
٭ پیش نظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت سنائی کہ ’’اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا‘‘ گویا شکر گزاری سے برکت حاصل ہوتی ہے۔
٭ اور ناشکری کا انجام یہ بتایا گیا کہ ’’میری سزا بہت سخت ہے‘‘ یعنی ناشکری پر اللہ کے شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
٭ قرآن میں اللہ کی عبادت بجا لانے کو بھی شکر گزاری سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ’’تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔‘‘(الزمر:۶۶)
٭ قرآن مجید میں یہ بات بھی آئی ہے کہ بہت کم لوگ ہی اللہ کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ ’’میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں۔‘‘(سبا:۱۳)
٭ شکر گزاری کے تصور کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو: ’’حقیقت یہ ہے کہ ایک دانشمند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگر ہو سکتی ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔ قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دنیا کو اس پر چلائیں۔ ‘‘
٭ شکر گزاری کا ایک پہلو یہ ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ بندوں کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سمجھایا ہے کہ ’’وہ شخص اللہ کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا‘‘ (ابو داؤد) اسی لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر کے ساتھ والدین کا شکریہ ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔(لقمٰن:۱۴)
٭ شکر بندۂ مؤمن کی زندگی کا ایک پہلو ہے، اس کا دوسرا پہلو صبر ہے۔ حدیث میں صبر و شکر ایک ساتھ مؤمن کی شان کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔ ’’مؤمن کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے اس کا سارا معاملہ بھلائی کا معاملہ ہے اور یہ صورت حال سوائے مؤمن کے کسی کے بھی حصہ میں نہیں آتی اگر اسے کوئی فراخی یا آسانی میسر ہے تو وہ شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر کا معاملہ ہوتا ہے اور اگر کوئی مصیبت یا تنگی پڑتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے بہتری اور خیر کا معاملہ ہوتا ہے۔‘‘(مسلم)
٭ قرآن مجید میں بھی ایک جگہ صبر و شکر کو یکجا بیان کیا گیا ہے۔ ’’ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔‘‘ (ابراہیم : ۵)
٭ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ادراک ہو، ان کی ہم قدر کریں اور جو نعمت جس مقصد کے لیے ملی ہے اس کو اسی مقصد کے لیے لگائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کرنے اور ان نعمتوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا 10 اپریل 2021