تحقیق و ترقی کے میدان میں پستی اور معاشی ابتری
’ وشو گرو ‘بننے کے لیے بھارتی معیشت کا مضبوط ہونا ضروری
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ہندوستان کو اپنی معیشت میں بہتری لانے کے لیے تعلیم و تحقیق کے میدان میں جی ڈی پی کا کم از کم 6 تا 7 فیصد حصہ خرچ کرنا ہوگا۔ جی ڈی پی کا محض 3 فیصد حصہ خرچ کر کے تعلیم اور ریسرچ کے میدان میں کوئی انقلاب برپا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے نہ تو ہم وشو گرو بن سکتے ہیں اور نہ ہی خود مکتفی بھارت کا خواب دیکھ سکتے۔ اگرچہ وزیر اعظم مودی کا نعرہ تو یہی ہے۔ اس نعرے کا عمل میں ڈھلنا کیونکر ممکن ہے جب کہ ہماری معیشت کا ایک قابل لحاظ حصہ سیاسی جوڑ توڑ پر خرچ ہوتا ہے؟ حکومت سازی کے لیے الیکشن کے موقع پر کروڑہا روپے لیڈروں کی خرید و فروخت پر لٹائے جاتے ہیں تاکہ زور زبردستی سے ہی سہی لیکن کسی طرح ملک کے تمام ریاستوں پر دستوری یا غیر دستوری طریقہ سے قبضہ ہو جائے۔ دوسری طرف اسی جمہوریت میں وزیر اعظم مودی کی شخصیت کی تشہیر کے لیے حکومت ہر منٹ ٹیکس دہندوں کا ایک لاکھ روپیہ اڑاتی ہے۔ اگر ملک میں ہونے والے ریاستی و جنرل الیکشن میں مودی جی کی تشہیر کے اخراجات کو جمع کر دیا جائے تو یہ رقم ہر منٹ 2 لاکھ روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ مودی سرکار میں محض ایک آدھ دن کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ 6 سالوں سے مسلسل ہو رہا ہے۔ الیکشن کے اخراجات کو چھوڑ دیں تو مودی جی کی تشہیر پر ایک دن کا صرفہ دیڑھ کروڑ روپے کے لگ بھگ آتا ہے۔ مودی جی کی شاہ خرچی دیکھ کر آنکھیں چندھیا جائیں گی۔ ملک چاہے جہاں جائے ملک کی عوام چاہیں بھوکوں مر جائیں ’’غریب کے بیٹے‘‘ کو تو عیش کرنے کا خوب اچھا موقع ملا ہے۔ زر خرید میڈیا کے ذریعہ وزیر اعظم کو طاقتور کامیاب قائد کے طور پر کئی گنا بڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے جمہوریت کو ہر روز روندا جا رہا ہے حالاں کہ معیشت بیمار ہو کر پہلے ہی آئی سی یو میں پڑی ہوئی ہے۔ تعلیم و تحقیق کا حال بے حال ہے۔ چین ہماری سرحد پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے، ہمیں چین سے مقابلے کے لیے اس سے بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔ کسی بھی ملک کی ہمہ جہت ترقی اور قوت بننے کے لیے اس کا معاشی قوت بننا ضروری ہے۔ خواہ سیاسی ہو، تعلیمی ہو سماجی ہو یا فکری ہو۔ ہر جگہ معاشی ترقی کا اہم رول ہے یا یہ کہہ سکتے کہ وشو گرو بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری معیشت مضبوط اور مستحکم ہو۔ ملک میں خوشحالی ہو، علم و تحقیق میں بھی اس کا مقام ہو اسی وجہ سے ہم نے 2025 تک اپنی معیشت کی جی ڈی پی کے شرح نمو کو 7 تا 8 فیصد رکھ کر 5 ٹریلین ڈالر کا ہدف رکھا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار جتنی زیادہ تیز ہوگی اتنی ہی تیزی سے کوئی ملک عالمی قوت بنے گا۔ اگر دولت ہوگی تبھی تو وہ ملک فوج پر اور دفاع پر خرچ کرسکے گا۔ فوج کو جدید ترین بنانے کے لیے بھی پیسے کی ضرورت ہوگی بلکہ دوسرے ملکوں یا اپنے پاس پڑوس کے کمزور ملکوں کی اقتصادی مدد کبھی کر سکے گا۔ اس کے علاوہ اسے سفارت کاری میں بھی مقام حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر ملک کے پاس اقتصادی قوت ہو تو وہ عالمی پیمانے پر اپنے مفاد سے سمجھوتہ کم ہی کرے گا اور فوج کو جدید اور طاقتور بنانے کے لیے اپنے پسندیدہ شرائط پر ہتھیار بھی خرید سکے گا۔ اسے روٹی اور بندوق کے درمیان انتخاب کا بھی موقع رہے گا۔ اسے یہ فکر لاحق نہیں ہوگی کہ فوجی قوت بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کریں یا نہ کریں۔ اسے ہر میدان میں جدت کے لیے تحقیق وترقی کے شعبہ میں بخالت سے کام نہ لے کر سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ اقتصادی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے ہی غربت و بھکمری سے دوچار ملک کی ایک بڑی آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم رہتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی کا براہ راست تعلق سیاسی قوت سے بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں کورونا قہر نے دھوم مچا رکھی ہے روزانہ 75 ہزار سے زائد نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ 64 ہزار سے زائد لوگ ابھی تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس طرح کورونا نے ملک میں طبی اور معاشی بحران پیدا کر دیا ہے۔ مگر ہمارے پڑوسی ملک چین میں دونوں طرح کا بحران نہیں کے برابر ہے۔ اس لیے وہ بہت ہی منصوبہ بند طریقے سے متوسط آمدنی سے زیادہ آمدنی والے ملک کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عنقریب امید کی جاسکتی ہے کہ چین دنیا کی اول نمبر کی معاشی قوت بن جائے گا۔ اس کے لیے اسے اپنی پیداوار بڑھانی ہوگی۔ اپنی پیداوار کی کھپت کے لیے عالمی منڈی میں جانا ہوگا جس کے لیے چین بری و بحری راستوں کو اپنے مقاصد کے حصول میں بڑی مستعدی سے لگا ہوا ہے۔
بھارت معاشی طور پر گلوبل لیڈر بننے کے لیے چین سے مقابلے کی تیاری میں ہے لیکن پیداوار کے معاملے میں ہم چین سے بہت بہت زیادہ ہی پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ ہم روایتی طور سے کاروبار کر رہے ہیں۔ نئی نئی ٹکنالوجی کا استعمال اپنی صنعتوں میں کم کر پاتے ہیں۔ ہم اختراعیت کے میدان میں چین سے کافی پیچھے ہیں اس کا اندازہ پیٹنٹ کے لیے دی گئی درخواستوں سے کیا جا سکتاہے۔ بھارت نے 2019 میں محض 2053 درخواستیں پیٹنٹ کے لیے دی ہیں۔ ورلڈ انٹلیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن (WIPO) کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں ساری دنیا سے پیٹنٹ کے لیے 2,65,800 درخواستیں آئی تھیں اس میں ہمارا ملک محض 2053 درخواستیں ہی دے پایا۔ اس طرح پیٹنٹ درخواست کی حصہ داری ایک فیصد سے بھی کم رہی۔ پیٹنٹ 3 کے درخواست گزاری کے معاملے میں ہمارے ملک کا مقام چودھواں ہے۔ 2019 میں سب سے زیادہ درخواستیں 58900 چین نے دی ہیں۔ اس طرح بھارت چین کے مقابلے 97 فیصد کم ہے۔ چین کے بعد 57840 درخواستیں امریکہ کی ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم آر اینڈ ڈی کے میدان میں خرچ کرنے میں بڑی بخالت سے کام لیتے ہیں یا ہمارے پاس اس میدان میں خرچ کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اس لیے صنعتی میدان، دفاعی میدان میں کسی طرح کی جدت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو ڈبلیو آئی پی او کے معاملے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مقابلے میں بھی بہت پیچھے ہیں کیونکہ 2019 میں چین کی کمپنی ہوا وی نے 4411 درخواستیں پیش کیں۔ اسی طرح بھارتی کمپنیوں کی حالت بہتر نہیں ہے۔ پیٹنٹ فائیلنگ کرنے والی کمپنیوں کی فہرست میں ٹاپ 50 میں کوئی کمپنی نہیں ہے۔ وہیں چین کی 13کمپنیاں 50 میں شامل ہیں۔ اس میں چار کمپنیاں ٹاپ 10میں ہیں۔ پچھلے ہفتے ایک این جی او کے ورچول پروگرام میں وزیر مالیات سیتا رامن نے پیٹنٹ کے لیے درخواستیں داخل کرنے کی اہمیت کو محسوس کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کمپنیوں سے اپیل کی تھی۔ 2019 میں درخواست دینے والی ٹاپ 10کمپنیاں اس طرح ہیں۔ (1) ہواوے 4411 (2) متسوبیشی الکٹرک 2261 (3) سنسیانگ 2334 (4) کوالکم 2127 (5) اویو موبائل 1927 (6) بوئی ٹکنالوجی 1864 (7) ایرکسن 1698 (8) پنگ این ٹکنالوجی 1691 (9) رابرٹ باش کارپوریشن 1687 (10) ایل جی الکٹرانکس 1646۔ پیٹنٹ فائلنگ کے معاملے میں 2019 میں چین نے امریکہ کو پیچھے چھوڑا۔ 1978 میں پیٹنٹ کوآپریشن سمجھوتہ شروع ہونے کے بعد پہلی بار چین نے امریکہ کو پیچھے کیا ہے۔ 1999 میں چین نے پیٹنٹ کے لیے 276 درخواستیں دی تھیں جو 2019 میں بڑھ کر 58990 ہوگئیں۔ اس طرح 20 سالوں میں چین کی پیٹنٹ فائیلنگ 200 گنا سے زیادہ بڑھ گئیں۔ ڈبلیو آئی پی او کے ڈائرکٹر فرانسس گوری کا کہنا ہے کہ پیٹنٹ فائیلنگ میں اس طرح بے تحاشہ ترقی اختراعیت (Innovation )کے میدان میں بے مثال ترقی کا مظہر ہے۔ فی الوقت بھارت آر اینڈ ڈی میں بہت معمولی خرچ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک چین کے مناسبت سے پیٹنٹ فائیلنگ کے معاملے میں کہیں کا نہیں ہے۔ بھارتی وزارت صنعت کی طرف سے گزشتہ سال جولائی میں پیش کیے گئے اندازے کے مطابق آر اینڈ ڈی میں بھارت کا خرچ پچھلے کئی سالوں سے لگاتار جی ڈی پی کا 4.2 فیصد، امریکہ 2.8 فیصد اور چین 2.1 فیصد خرچ کرتا ہے۔ پیٹنٹ کے علاوہ ہمارے ملک کا ریکارڈ ٹریڈ مارک کے معاملے میں بھی کافی ابتر ہے۔ ڈبلیو آئی پی او کے ڈاٹا کے مطابق 2019 میں پوری دنیا سے ٹریڈ مارک کے لیے 21807 درخواستیں وصول ہوئیں اس میں بھارت کی حصہ داری 0.7 فیصد ہے۔ بھارت کے انڈسٹریل ڈیزائننگ کی درخواست تقریباً صفر ہے۔ ڈاٹا کے مطابق بھارت سے ڈیزائیننگ کے ٹریڈ مارک کے لیے 2 درخواستیں ہی آئیں۔ کیا اس سے ہم چین یا دیگر ترقی یافتہ ملکوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وشوگرو بن سکیں گے؟ چین سے مقابلہ کے لیے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہوگا کہ ہمارا پڑوسی کیسے سوپر پاور بن پایا؟ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ 1978 میں چین کی فی کس سالانہ آمدنی ہم سے بھی کم تھی مگر آج ہم سے دگنی ہے۔ اس تبدیلی سے وہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک بن گیا۔ ہر ملک اپنے حساب سے ترقی کرتا ہے اس لیے ہمیں اس کے تجربہ سے ضرور سیکھنا چاہیے۔ چین نے 1978میں معاشی اصلاحات کا آغاز کیا اور سب سے بڑی اور بنیادی تبدیلی زراعت کے میدان میں کی ۔ مگر ہمارے وزیر اعظم 20 جوانوں کی شہادت کے بعد وادی گلوان میں جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے ملک کی حفاظت اور مطلق العنانیت کے تحفظ کے لیے چوکس ہیں۔ اگر بھارت چین کی فوجی قوت میں برابری چاہتا ہے تو اسے اپنے محدود ذرائع وسائل سے اس بڑی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا جو کہ ابھی تک صرف نعرہ بازی تک ہی محدود ہے۔ ہندو مسلم اور مندر مسجد کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ ہمیں چین ہی کی طرح معاشی قوت بننا ہوگا۔ اس کے لیے کورونا قہر کے پہلے کی حالت میں آنے کے لیے وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانا ہوگا تاکہ معاشی تگ و دو اپنی رفتار پکڑ سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں اور قیادت کے سامنے اپنے ذرائع کو بہتر طور سے استعمال کرنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کا مسودہ ملک کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہ منصوبہ عام شہریوں کی بیداری کے معاملے میں بالکل ہی خاموش ہے۔ اس تعلیمی منصوبہ میں ذرائع وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کا کوئی خاکہ نہیں ہے۔
ہمیں ریسرچ و تحقیق کے ذریعے دفاع کے نظام کو بہتر کرتے ہوئے ہر طرح کی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہوگا کیونکہ چین سائنس اور ٹکنالوجی کو بہت خوبصورتی سے استعمال کرکے محض برّی میدان میں نہیں بلکہ بحری شعبے میں بھی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔