تحریک اسلامی میں خواتین کی فعال شرکت کیوں اور کیسے؟

کام کے لگے بندھے طریقوں کے بجائے نئے طریقے تلاش کیے جائیں

فرزانہ ناہید

 

تحریک اسلامی کا تصور خواتین کی سرگرم شمولیت کے بغیر ناممکن ہے۔ اسلامی تحریک تو بہت بڑی چیز ہے دنیا کی چھوٹی موٹی تحریکات بھی خواتین کی فعال شرکت کے بغیر غیر موثر ہی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں تحریک اسلامی کبھی بھی خواتین کو ساتھ لے کر چلنے سے غافل نہیں رہی ہے۔ البتہ طبقہ نسواں کے مطلوبہ رول میں متعدد وجوہ سے ضرور کمی محسوس کی جاتی رہی ہے جن پر غور وفکر کے ذریعہ اور خواتین کے دائرہ کار کی رعایت کرتے ہوئے تحریکی جدوجہد میں ان کی فعال شرکت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے جس کے ایک جزو کا تعلق خواتین کی عام فطرت یا سادہ لفظوں میں اگر کہیں تو ان کے سوچنے کے عام انداز سے ہے۔ فطری طور پر خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی تحریک کے لیے بڑھ کر کچھ کام کریں۔ چنانچہ اسی کے نتیجے میں کبھی کبھی ان کے اجتماعات بھی ہوتے رہتے ہیں اور وہ اپنے کام کی راہیں تلاش کرتی ہیں اور منصوبے بھی بناتی ہیں لیکن عام طور پر ذہن ان ہی کاموں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو معروف طریقے پر تحریک کے کام سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً تحریک کا تعارف کرانا، اس کا لٹریچر پڑھنا اور پڑھوانا، اجتماعات کا اہتمام کرانا، خواتین کے حلقے میں متفقین بنانا اور جہاں ممکن ہو وہاں تقریر وتحریر کے ذریعہ اپنی بات دوسروں تک پہنچانا لیکن یہ سارے کام کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ ہر خاتون کے لیے ان کاموں کو اچھی طرح انجام دینا ممکن نہیں ہوتا، کہیں تو صلاحیت کی کمی ہوتی ہے، کہیں مواقع میسر نہیں ہوتے اور کہیں وہ ذمہ داریاں آگے نہیں بڑھنے دیتیں جو ہمارے معاشرے میں بہرحال ہر خاتون کو ادا کرنی ہی ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند خواتین کو چھوڑ کر باقی کا جوش عمل تھوڑے دن برقرار رہنے کے بعد سرد پڑ جاتا ہے۔ یہ تجربے بار بار ہوئے ہیں اور شاید آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔
پھر کیا کیا جائے؟ کیا خواتین یہ سمجھ لیں کہ تحریک اسلامی کے سلسلے میں ان کے کرنے کے کام اجتماعات کے انعقاد، ملاقاتوں اور لٹریچر پڑھنے پڑھانے تک محدود ہیں؟ اور وہ سارے کام جو وسیع تر سماج پر اثر انداز ہوتے ہیں جن میں ہم وطنوں تک دعوت دین پہچانے سے لے کر خدمت خلق کی سرگرمیاں شامل ہیں کیا صرف مردوں تک محدود ہیں؟ کیا خواتین کے لیے یہ رویہ درست ہے کہ وہ ان کاموں کا خیال تک دل میں نہ لائیں اور ان سرگرمیوں کو یکسر نظر انداز کر دیں جن کے لیے زیادہ وقت نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے بارے میں مَیں چاہتی ہوں کہ خواتین کے ذہنوں میں کوئی الجھن باقی نہ رہے۔
سب سے پہلے یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اسلام نے مومن مردوں اور مومن عورتوں پر جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں وہ سب ان کی فطری صلاحیتوں کے عین مطابق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا کھلا ہوا فیصلہ ہے کہ وہ کسی پر کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جس کے اٹھانے کی طاقت اس میں نہ ہو۔ ہمیں جب بھی کوئی الجھن درپیش ہوتی ہے تو وہ خود ہمارے اپنے سمجھنے کی غلطی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
خواتین کو تحریک اسلامی کے سلسلہ میں کچھ کرنا چاہیے۔ اور وہ کیا کر سکتی ہیں اس کا ایک پہلو تو وہی ہے کہ اگر ان کو موقع حاصل ہو تو وہ شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے دعوت کے ان معروف طریقوں کو بھی اپنا سکتی ہیں جن پر مرد عمل کرتے ہیں مثلاً اگر انہیں تقریر کرنا آتا ہو تو وہ تقریر کریں اور اپنی بہنوں کو اللہ کے دین کی روشنی سے فائدہ اٹھانے پر ابھاریں۔ اگر انہیں لکھنا آتا ہے تو وہ اس صلاحیت سے کام لے کر ذہنوں کو بدلنے کی کوشش کریں اور اگر انہیں مواقع حاصل ہوں تو وہ شریعت کی حدود کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے عام ملاقاتوں کے لیے مواقع نکالیں اور زبانی گفتگووں کے ذریعہ خواتین کی رہنمائی کریں۔
خواتین اپنے دائرے میں رہتے ہوئے بھی تحریک اسلامی کی شرکت کا پورا پورا ثواب حاصل کر سکتی ہیں اور یہ تحریک کے لیے بڑی معاون اور مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان کا پہلا بڑا کام تو یہ ہے کہ وہ اپنی گودوں سے تحریک اسلامی کو ایک درخشاں مستقبل دیں اور دوسرا کام یہ ہے کہ اپنے اہل خانہ کے اندر اسلامی تحریک کے مقاصد کو حاصل کرنے کا جوش وجذبہ پیدا کریں اور اس کام میں ان کے معاون بن جائیں۔ سورہ الفتح کی ان آیتوں پر ذرا غور کریں جس میں اللہ رب العزت نے سکینت اور اپنے اجر وکرم سے مومن عورتوں کو ذرا سابھی تہی دامن نہیں رکھا ہے :
هُوَ الَّذِىْۤ اَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ فِىْ قُلُوْبِ الْمُو ْٔمِنِيْنَ لِيَزْدَادُوْۤا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِهِمْ ۗ وَلِلهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۗ وَكَانَ اللهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا ۙ O لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْۗ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللهِ فَوْزًا عَظِيْمًا ۙ-
’’وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے۔(اُس نے یہ کام اِس لیے کیا ہے) تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اُن کی برائیاں اُن سے دور کر دے اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے‘‘
خواتین کو تیزی سے بدلتے ہوئے سماج اور حالات کے جدید تقاضوں کو سمجھتے ہوئے آفاقی سوچ کے ساتھ مقامی سطح پر موثر رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بدلتے ہوئے رجحانات کا تقاضہ ہے کہ کام کے لگے بندھے طریقوں کے اسیر بنے رہنے کے بجائے نئے طریقوں کو تلاش کریں ۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا بھی ابلاغ وترسیل اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔خواتین اپنے گھر کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اس پلیٹ فارم کا استعمال کر سکتی ہیں۔ نیز خواتین مقامی سطح پر خدمت خلق، صحت وصفائی کی مہم اور دینی وعصری تعلیم کے نظم وانصرام میں بھی رول ادا کرسکتی ہیں۔ تحریک اسلامی میں جو خواتین ذمہ دارانہ مناصب پر فائز ہیں، ان گزارشات کی روشنی میں میری ان سے خواہش ہے کہ وہ کام کے روایتی طریقوں سے ہٹ کر کچھ اور طریقوں پر غور کریں اور تحریک اسلامی میں خواتین کی فعال شرکت کو یقینی بنانے کا ایک موثر لائحہ عمل تیار کریں۔

خواتین کو تیزی سے بدلتے ہوئے سماج اور حالات کے جدید تقاضوں کو سمجھتے ہوئے آفاقی سوچ کے ساتھ مقامی سطح پر موثر رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بدلتے ہوئے رجحانات کا تقاضہ ہے کہ کام کے لگے بندھے طریقوں کے اسیر بنے رہنے کے بجائے نئے طریقوں کو تلاش کریں ۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا بھی ابلاغ وترسیل اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔خواتین اپنے گھر کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اس پلیٹ فارم کا استعمال کر سکتی ہیں۔ نیز خواتین مقامی سطح پر خدمت خلق، صحت وصفائی کی مہم اور دینی وعصری تعلیم کے نظم وانصرام میں بھی رول ادا کرسکتی ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4 تا 10 جولائی 2021