تحریک اسلامی میں خواتین کا کردار

طبقہ نسواں کودین اسلام سے شعوری وابستگی کےلیے تیار کرنے کی ضرورت

عتیق احمد شفیق اصلاحی، بریلی

 

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ (آل عمران:۱۱۰) تم سب سے بہتر امت ہو جسے نکالا گیا ہے، معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
قرآن مجید کا خطاب مردوں سے بھی ہے اور عورتوں سے بھی۔ امت مسلمہ پر جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس میں امت کی خواتین اور مرد دونوں شریک ہیں۔ اس لیے یہ سوچنا صحیح نہ ہوگا کہ اس کا بار صرف مردوں کو اٹھانا ہے اور عورتیں اس سے آزاد ہیں۔ اس سے پہلو تہی کرنا اور غفلت برتنا جس طرح مردوں کے لیے درست نہیں اسی طرح خواتین کے لیے بھی صحیح نہیں ہے۔
تحریک کا مفہوم: اپنے نصب العین کے لیے اجتماعی طور پر وابستگان کو حرکت میں رکھنا۔ یہ جمود و تعطل کی ضد ہے۔ جہاں جمود ہوگا وہاں تحریک نہیں ہوگی جہاں تحریک ہوگی وہاں جمود نہیں ہوگا یہی تحریک کو پرکھنے کا معیار ہے۔
اسلامی کا مفہوم: اسلام جاہلیت کی ضد ہے اسلام کا کسی بھی پہلو سے اور کسی بھی حیثیت سے کوئی بھی رشتہ جاہلیت سے نہیں ہے۔ اگر کسی قول، فعل یا رویے میں ذرا بھی آمیزش ہوگی تو وہ اسلامی نہیں کہلائے گی۔ اسلام مکمل نظام زندگی ہے جب کہ جاہلیت کی ہر شکل ناقص اور ادھوری ہے۔ قران مجید میں کہا گیا ہے: للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن (النساء ۳۲) مردوں کا حصہ وہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کا حصہ وہ ہے جو انہوں نے کمایا۔ والمؤمنون والمؤمنت بعضھم اولیاء بعض یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر (التوبہ۴) مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔
مرد اور عورت دونوں اللہ کے بندے ہیں اور دونوں اللہ تعالی کے مخاطب ہیں۔ فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا (الروم ۳۰) قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔
اس موضوع کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم درج ذیل سوالات کے جوابات مدینہ منورہ کے اس معاشرے میں تلاش کریں جو رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں اور اس کے بعد خلافت راشدہ کے زمانے میں قائم تھا۔
٭اس زمانے میں تحریک اسلامی میں خواتین کا کیا کردار تھا؟
٭ان کے کیا حقوق تھے؟
٭خاندان اور عمومی سماجی زندگی میں خواتین کا کیا اثر تھا؟
٭کیا خواتین کا دائرہ کار صرف اندرون خانہ تک محدود تھا یا اجتماعی زندگی میں بھی کوئی خاص کردار تھا ؟
٭کیا رسول اکرم ﷺ مسلم خواتین سے بھی اجتماعی امور میں کبھی مشورہ لیتے تھے؟
٭کیا آپ نے کوئی اجتماعی ذمہ داری کسی خاتون کے سپرد کی تھی؟
٭کیا اہم مواقع پر آپ نے صرف مردوں سے بیعت لی تھی یا خواتین کو بھی اس لائق سمجھا تھا کہ ان سے الگ سے بیعت لیں؟
٭کیا آپ ﷺ نے دینی تعلیم اور تربیت کے لیے صرف مردوں کو چنا تھا یا خواتین کو بھی براہ راست مخاطب کیا تھا؟
٭کیا اس پاکیزہ معاشرے میں خواتین اور مردوں کی دنیا ایک دوسرے سے بالکل تھی؟
٭کیا خواتین اور مردوں کے درمیان اجتماعی معاملات میں کوئی تعاون نہ تھا؟
٭کیا معاشی زندگی میں خواتین کو تجارت اور کسب معاش میں براہ راست حصہ لینے کی ممانعت تھی؟
الحمداللہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس قرآن ہے اور احادیث کا بیش قیمتی ذخیرہ موجود ہے۔ خلفائے راشدین کے دور کے مصدقہ تاریخی ذرائع بھی موجود ہیں جن کے مطالعہ سے چند باتیں سامنے آتی ہیں۔
٭خواتین کے معاملے میں وہ فراخ دل اور کشادہ ظرف معاشرہ تھا جس نے عورت کو وقار بخشا۔
٭ماں کی حیثیت سے اس کے قدموں کے نیچے جنت کی بشارت دی تھی اور بیوی کی حیثیت سے واضح حقوق متعین کیے گیے ہیں۔
بہن اور بیٹی کی نیک تربیت اور اچھے سلوک کو جنت کا ضامن بنادیا گیا۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کو نیکی اور تقوی کا جز قرار دیا گیا۔
تحریک اسلامی کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ابتداء سے عورتوں نے اس تحریک میں مردوں کے ساتھ برابر کا حصہ لیا ہے۔ تحریک اسلامی کے ابتدائی دور میں ابو طالب کی خدمت عظیم ترین خدمت ہے۔ حمایت اسلام میں حضرت ابو بکرؓ کی زندگی خود اپنی مثال آپ ہے لیکن صنف نازک میں اس عظیم نمونے کا ثانی بھی کہیں نظر نہیں آتا۔نبی ﷺ پر ایمان لانے کی سعادت سب سے پہلے جس کو نصیب ہوئی وہ ایک خاتون ہی تھیں یعنی آپ کی اور سب مسلمانوں کی ماں حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ جو دس سال تک ہر قسم کی سختیوں میں حضور کی بہترین رفیق بنی رہیں اور انہیں کا سرمایہ تھا جس سے مکی دور میں اسلام کا مشن چلتا رہا۔ حضرت خدیجۃ الکبری نے اپنے ہاتھوں سے حضور کے زخمی دل پر جو مرہم رکھا وہ نہ جناب ابو طالب کے بس میں تھا نہ حضرت ابو بکر ؓ ہی اسے پیش کر سکے تھے۔
نبوت کے پہلے تین سالوں میں جو پچپن اشخاص ایمان لائے تھے ان میں ۹؍ خواتین شامل تھیں۔ سات آٹھ برس تک مکہ میں انتہائی ظلم و ستم سہنے کے بعد جو ۸۳؍ اشخاص ہجرت کرکے حبشہ کی طرف گئے ان میں ۱۸؍ خواتین تھیں جنہوں نے دین کی خاطر جلا وطنی کی مصیبتوں میں اپنے شوہروں اور بھائیوں کا ساتھ دیا۔ ظلم سہنے میں اگر بلالؓ اور عمارؓ جیسے مرد تھے تو امؓ عبس اور ام عمارؓ اور زبیرہؓ جیسی خواتین بھی تھیں۔
مدنی دور میں جہاں مردوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں دیں۔ وہیں خواتین بھی پیش پیش تھیں۔ ایک نیک بخت خاتون کو جنگ احد کے موقع پر شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے کے شہید ہونے کی خبر پہنچی تو اس نے پوچھا یہ بتاؤ محمد ﷺ تو خیریت سے ہیں؟ اور جب اس نے آپ ﷺکو بخیر دیکھا تو کہنے لگی کہ آپ زندہ ہیں تو ہر مصیبت ہلکی ہے۔ اسی جنگ میں ام عمارؓ پانی پلانے کی خدمت انجام دے رہی تھیں جب انہوں نے دیکھا حضور ﷺ زخمی ہوگئے ہیں اور کفار نے نرغے میں لے لیا ہے تو تلوار نکال کر سامنے کھڑی ہو گئیں اور آپ کو بچانے کے لیے لڑتی رہیں یہاں تک کہ شانے پر گہرا زخم کھایا۔
تحریک اسلامی کے ابتدائی دور میں خواتین نے مردوں کے دوش بہ دوش قربانیاں پیش کی ہیں۔ اس کی ایک مثال اسلام کے لیے جام شہادت نوش کرنے والی پہلی خاتون حضرت سمیہؓ تھیں۔ حضرت عروہؓ رسول اکرم ﷺکا تعاون کرتی تھیں اور قریش کے اعلیٰ خاندان کی خواتین تک اسلام کی دعوت پہنچاتی تھیں اور انہیں حلقہ بگوش اسلام کرتی تھیں۔ مکہ کے لوگ ان پر برہم ہو گئے اور ان کو مکہ سے نکال دیا۔ ایک بار ۱۲؍ خواتین مدینہ میں جمع تھیں ایک سوچ نے ان میں بے چینی پیدا کردی طے یہ ہوا کہ نبی ﷺ سے پوچھنا چاہیے حضرت اسماءؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر حضور کی خدمت میں بھیجا انہوں نے اس طرح اپنی بات پیش کی ’’یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے انصار خواتین نے اپنا نمائندہ بنا کر آپ کی خدمت میں بھیجا ہے میں تمام خواتین کی طرف سے ایک مشترکہ درخواست لے کر حاضر ہوئی ہوں۔ یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالی نے آپ کو مردوں اور عورتوں سب کے لیے نبی بنا کر بھیجا ہے ہم نے آپ کو نبی مان لیا ہم سب نے اللہ کو اپنا الہٰ تسلیم کرلیا لیکن ہم خواتین بہت سے نیکیوں کے کام سے محروم ہیں اولاد کو اٹھائے پھرتی ہیں آپ لوگ مرد ہیں مردوں کو ہم سے زیادہ ثواب کمانے کے مواقع حاصل ہیں وہ جمعہ کی نمازوں میں بھی شامل ہوتے ہیں جنازے کی نماز پڑھتے ہیں اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ان کو دینی اجتماع میں آپ کے ساتھ بیٹھنے کا موقع زیادہ سے زیادہ ملتا ہے اور جب آپ حج، عمرہ اور جہاد کے لیے گھروں سے باہر ہوتے ہیں تو ہم عورتیں آپ کے گھروں کی حفاظت کرتی ہیں اور آپ کی اولادوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ یہ ہماری حالت ہے۔ کیا اس حال میں ہم عورتیں بھی مردوں کے ساتھ اجرو ثواب میں شریک سمجھی جائیں گی؟ حضور ﷺ نے یہ تقریر غور سے سنی اور صحابہ سے پوچھا کیا تم نے اس عورت سے بہتر کسی کو دین کے بارے میں سوال کرتے پایا؟ سب نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ ہم تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کی ایک خاتون بھی اتنی عمدہ تقریر کر سکتی ہے۔ بے شک اس خاتون نے اپنی جنس کی بہترین نمائندگی کی ہے۔ نبی ﷺ نے حضرت اسماؓء کی طرف دیکھا اور فرمایا تم کو جن عورتوں نے نمائندہ بنا کر بھیجا ہے تم ان سے کہہ دو کہ عورت کا اپنے شوہر کی اطاعت اور خاطر کرنا ان اسلامی عبادتوں کے ثواب کے برابر ہے۔ حضرت اسماؓ حضور ﷺ کا یہ پیغام لے کر واپس ہوئیں انہوں نے خواتین کو یہ پیغام سنایا تو ساری خواتین خوش ہوگئیں۔
اسلام پھیلانے والی خواتین کے یہ نمونے ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے دین کی خاطر ظلم و ستم بھی سہے، خطرات سے بھی سابقہ پیش آیا، جان و مال کی قربانیاں بھی دیں، عزیز واقارب کو بھی چھوڑا، جلا وطنی، فقر وفاقہ کی تکلیفیں بھی اٹھائیں اور اپنے باپوں، شوہروں اور بھائیوں کے ساتھ وفاداری کا حق بھی پوری طرح ادا کیا۔ یہ پیش رو خواتین کے کارنامے ہیں جن کی بدولت ابتدء میں اسلام دنیا پر چھایا تھا اور آج اس دین کو پھر دنیا پر چھانا ہے تو یہ بغیر اس کے نہیں ہو سکتا کہ آج کی خواتین انہی جان نثار خواتین اسلام کے نقش قدم پر چلیں اور انہیں کی طرح اخلاص ایمان کا ثبوت دیں۔
مقصد میں اشتراک کے باوجود عورت کے دائرے الگ ہوں گے اور وہ ان حدود میں کام کریں گی جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کر دیے ہیں۔ حدود قیود نہ خود ساختہ ہونا چاہئیں اور نہ رسم و رواج سے متاثر ہونے چاہئیں بلکہ قرآن و سنت سے ماخوذ ہونا چاہئیں اس لیے کہ مصلحتوں کا علم خدا اور رسول سے بہتر کس کے پاس ہو سکتا ہے؟
اسلام میں فراخی اور کشادگی ہے، بے جاپابندیاں اور جکڑ بندیاں نہیں ہیں۔ طٰہ ما انزلنا علیک القرآن لتشقیٰ ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ ۔پابندیوں کا نتیجہ اگر یہ نکلے کہ جو حقوق اور مراتب اللہ نے دیے ہیں وہ غیر موثر ہو جائیں تو اس کا نتیجہ جمود ہے۔
٭ایک طرف اللہ کے رسول گھر کے کاموں میں مدد کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ام المومنین تحریک اسلامی میں شانہ بشانہ آپ ﷺ کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔
٭عورتوں کا اصل کردار سامنے آئے اس کے لیے تحریک کے مرد اور خواتین دونوں کو اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دینا ہوں گی۔
٭خواتین کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ نو عمر بچیاں اور ان پڑھ خواتین کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا جائے اور جو پڑھی لکھی ہیں ان کی صلاحیتوں کی نشو ونما کی جائے۔
٭ خواتین کو تحریک اسلامی کے نصب العین، مقاصد اور طریقہ کار سے واقف کرایا جائے۔ عام طور سے مشاہدے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ دین دار گھرانے کی دین دار خوتین ہونے کے باوجود تحریک سے بالکل واقفیت نہیں ہوتی ہیں۔
٭گھریلو اجتماعات پابندی و تواتر سے کرنے کا اہتمام کیا جائے اس سے گھر میں دینی تعلیمات عام ہوں گی۔
٭تحریک سے وابستہ مرد حضرات کی یہ ذمہ داری ہے کہ جن گھروں میں جو خواتین تحریک سے وابستہ نہیں ہیں ان کے روابط تحریک سے وابستہ خواتین سے کرائیں۔ اس سلسلے میں وابستگان تحریک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروں کی خواتین کو تحریک سے جوڑیں۔
٭خواتین کو گھر کے کاموں امور و خانہ داری میں ہی تک انہیں نہ محدود کر دیا جائے بلکہ ان کی شخصیت کا ارتقاء کیا جائے۔ ان کو اس کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
٭دعوتی و تحریکی میدان میں کام کرنے والی خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے پاس لٹریچر رکھیں جو پڑھی لکھی خواتین ہوں انہیں لٹریچر کا مطالعہ کرایا جائے اور جو ان پڑھ ہوں ان کو سنانے کا بندو بست کیا جائے۔
٭خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی شخصیت کو مردوں کی شخصیت میں گم نہ ہونے دیں اپنے دین کو مردوں کے حوالے نہ کریں بلکہ اپنا دینی و شخصی تشخص کو باقی رکھتے ہوئے ازدواجی زندگی گزاریں۔
خواتین اوراصلاح کی تدابیر
٭تحریکی کاموں کو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قول و فعل میں یکسانیت پائی جاتی ہو اللہ و رسول کے احکام پر سختی عمل کیا جائے۔ اسلامی حدود کی پابندی کا اہتما م کیا جائے ۔ رسم و رواج سے مکمل طور سے اجتناب برتا جائے۔
٭تحریکی کا موں کے کرنے لیے ضروری ہے کہ خواتین اخلاق و سیرت کا بہترین نمونہ پیش کریں۔ یہ خاموش تبلیغ ہے۔
٭معروف میں شوہر کی اطاعت کی جائے اور معصیت کا حکم دے تو معذوری ظاہر کردیں نرمی سے سمجھادیں کہ آپ اللہ تعالٰی کی نا فرمانی نہیں کر سکتیں۔ اس کے مال و متاع کی حفاظت کریں۔ جب آمادگی محسوس کریں تو کوئی آیت، حدیث یا سلف کا کوئی واقعہ سنا کر اصلاح کی کوشش کی جائے۔
٭بحث و تکرار سے کلی طور پر اجتناب برتا جائے کیونکہ اعتراض و تنقید کسی طرح مفید نہیں۔غصہ کا اظہار بھی نقصان دہ ہے اس سے ضد و نفرت پیدا ہو سکتی ہے۔ تنقید برداشت کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب دینی جذبہ بہت زیادہ قوی ہو۔
٭بچوں کی اصلاح:چوں کی تربیت پر خصوصی توجہ کی جائے۔ ماں ان کی نگراں اور سرپرست ہے بچے معروف میں ماں کی اطاعت کے پابند ہیں ماں کو بچوں کی اصلاح وتربیت کا اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا عورت نگراں ہے اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی اور ان کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔ ماں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو اسلام کی تعلیم دے اسلام اور غیر اسلام کا فرق سمجھائے۔ دین کا صحیح اور جامع تصور ان کے ذہنوں میں بٹھائے اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔ کفر وشرک اور بدعت سے اجتناب کی تعلیم دے۔ نماز روزہ اور دیگر احکام کا پابند بنائے۔ غیر اسلامی فضا میں ہماری مائیں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں تو ہمارے گھر دینی تعلیم کا بہترین مرکزبن جائیں۔
٭خاندان کی اصلاح: قریبی رشتہ دار بہن بھائی کی اصلاح و تربیت کا فرض انجام دیں جس طرح حضرت عمرؓ اپنی بہن کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اپنے بڑوں کو عزت و احترام کے ساتھ توجہ دلائیں۔ بڑوں کی غلطیوں پر نہ ٹوکنا خیر خواہی نہیں ہے اس معاملے جو بھی مد د کی جا سکتی ہے کی جانی چاہیے ۔
٭ماحول کی اصلاح: خاندان سے باہر شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے مسلمان خواتین کو دعوت و اصلاح کا فرض انجام دینا چاہیے۔ برائیاں گھروں میں ہی نہیں پورے ماحول میں پھیل چکی ہیں۔خدا بے زاری عبادات سے غفلت، اخلاق میں گراوٹ، معاملات میں بگاڑ، ظلم و زیادتی، اونچ نیچ اور غلط رسم ورواج نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس کی اصلاح میں بھی عورتوں کو اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے۔ خواتین تقریروں کے ذریعہ اور مقالے اور مضامین لکھ کر ان برائیوں کے خلاف فضا بھی بنا سکتی ہیں اور اسلامی تعلیمات روشناس کرا سکتی ہیں۔
بعض خواتین میں شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ دین کے احکام صرف مردوں کے لیے ہیں دعوت اور تبلیغ ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ایسی خواتین کی غلط فہمی کو دور کرنے کی جد وجہد کی جائے۔
٭علمی تیاری: ہماری خواتین کو دین کا علم بہت کم ہے دین کی بنیاد کچھ رسم و رواج اور روایات پر قائم ہے وہ دین کی قدر وقیمت سے بالکل بے خبر ہیں۔ وہ دین پر کسی اعتراض کا جواب نہیں دے سکتیں اور نہ دفاع کر سکتی ہیں۔ کسی سوال کا معقول اور تسلی بخش جواب ان کے لیے ناممکن ہے اپنے ماحول کی خبر ہے نہ ان نظریات سے واقفیت ہے جو ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ دین کی ناقص اور محدود معلومات اور حالات سے اس قدر بے خبری ہونے کے ساتھ تحریک کی کامیابی نا ممکن ہے۔
اس لیے دین کی گہری بصیرت حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
٭پورے دین پر عمل: دین کی مکمل پیروی کا نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ جو آسان ہو اس پر عمل اور زحمت ہو تو اس کو چھوڑ دینا یہ دین پر عمل نہیں کہلا سکتا۔ نیکی اور دین داری کا محدود تصور صحیح نہیں ہے۔ نماز پڑھیں گے زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ قرآن کی تلاوت کریں گے اور اس کی کوتاہی پر افسوس بھی لیکن اولاد نہیں پڑھ پارہی ہے اس کی انہیں فکر نہیں۔
٭جن خواتین کے شوہر دین کے پابند ہیں اور دعوت و تبلیغ میں لگے ہیں ایسی خواتین کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ کسی داعی کے بیوی بچے دین سے دور ہوں تو دوسرے کے لیے کیا کشش ہو سکتی ہے۔کہنے والے کہیں گے کہ جس دین کو آپ پوری دنیا پر قائم کرناچاہتے ہیں اسے اپنے بیو ی بچوں پر نافذ کر کے دکھائیں۔
ہر اجتماعی تحریک عورتوں کی شرکت اور تعاون کو اہمیت دینے پر مجبور ہے کیوں کہ خواتین نصف سے بھی زیادہ ہیں اور ان کی گود تربیت گاہ ہے۔ خصوصیت کے ساتھ اسلامی تحریک خواتین کی شرکت کو بہت اہمیت دیتی ہے۔ اسلام خدا کی بنائی ہوئی ساخت کے مطابق انسانی زندگی کا نظام درست کرنا چاہتا ہے جس کے لیے عورتوں کا درست ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مردوں کا۔ خدا ان کا بھی ویسا ہی خدا ہے جیسا مردوں کا۔ یہ دین عورتوں کے لیے بھی ہے ویسے حقوق دیتا ہے جیسے مردوں کو۔ جس دوزخ سے وہ مردوں کو بچانا چاہتا ہے وہ عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی خوفناک ہے جتنی مردوں کے لیے ہے۔ کوئی بھی عورت اس بنا پر پر نجات نہیں پا سکتی کہ اس کے گھرکے مرد تحریک کا حصہ تھے۔
***

اسلام خدا کی بنائی ہوئی ساخت کے مطابق انسانی زندگی کا نظام درست کرنا چاہتا ہے جس کے لیے عورتوں کا درست ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مردوں کا۔ خدا ان کا بھی ویسا ہی خدا ہے جیسا مردوں کا۔ یہ دین عورتوں کے لیے بھی ہے ویسے حقوق دیتا ہے جیسے مردوں کو۔ جس دوزخ سے وہ مردوں کو بچانا چاہتا ہے وہ عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی خوفناک ہے جتنی مردوں کے لیے ہے۔ کوئی بھی عورت اس بنا پر پر نجات نہیں پا سکتی کہ اس کے گھرکے مرد تحریک کا حصہ تھے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021