تجارت کے لیے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے

پریشان حال لوگوں کو خود کفیل بنانے کی ضرورت

محب اللہ قاسمی

 

معیشت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جب انسان پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے آب و ہوا کے ساتھ ساتھ اشیائے خورد و نوش کا بھی انتظام کیا۔ ان چیزوں سے استفادہ کے لیے انسان کو ایک مضبوط جسم کے ساتھ دل و دماغ اور دیگر اعضاء و جوارح بھی عطا کیے تاکہ وہ محتاج اور مجبور محض بن کر نہ رہے۔ پھر اسے حکم دیا:فَإِذَا قُضِیتِ ٱلصَّلَوٰةُ فَٱنتَشِرُواْ فِی ٱلۡأَرۡضِ وَٱبۡتَغُواْ مِن فَضۡلِ ٱللَّهِ وَٱذۡكُرُواْ ٱللَّهَ كَثِیرٗا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ
پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے (الجمعة 10)
معلوم ہوا کہ مال کوئی خراب چیز نہیں کہ اس سے آنکھیں موند لی جائیں اور اسے حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ خود حضورؐنے بھی اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا” بلاشبہ اللہ مال دار متقی اور پوشیدگی اختیار کرنے والے کو پسند فرماتا ہے“ (مسلم)
رہی بات قرآن و احادیث میں مال و دولت کی مذمت کی تو یہ ان اموال کے سلسلے میں ہے جو حرام ہوں اور جنہیں مفاخرت کے جذبے سے حاصل کیا جائے، وہ اموال انسان کو اپنے خالق ومالک کی یاد سے غافل کر دیں یا جس کی کثرت کے لیے قلب ہمشہ مضطرب اور پریشان رہے یا اس سے فقراء ومساکین کاحق ادانہ کیا جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: یٰٓأَیهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُواْ لَا تُلۡهِكُمۡ أَمۡوَٰلُكُمۡ وَلَآ أَوۡلَٰدُكُمۡ عَن ذِكۡرِ ٱللَّهِۚ وَمَن یفۡعَلۡ ذَٰلِكَ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡخَٰسِرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں (المنافقون 9)
اگر کسی کی معاشی حالت مستحکم نہ ہو تو وہ اپنی ضررتوں کی تکمیل کے لیے دوسرں کے سامنے دست سوال دراز کرے گا، جس کی ممانعت احادیث میں آئی ہے۔ ایک مشہور حدیث میں نبیؑ نے ارشاد فرمایا: ’’دست سوال دراز کرنا ذلت کی بات ہے“
اس لیے انسان نے اپنے رب کی عطا کردہ ذہنی و جسمانی قوت کو من جد وجد کے تحت لگاتا ہے اور وہ ساری چیزیں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے لیے ناگزیر ہیں۔
اسباب معیشت:
اگر ہم اسباب معیشت پر غور کریں تو ہمیں اس کی تین قسمیں ملیں گی.
(۱) تجارت (۲) صنعت و زراعت (۳) ملازمت
تجارت معیشت کا بہترین ذریعہ ہے جو اگر اچھے، نیک اور خیر خواہ لوگوں کے ہاتھوں میں ہو تو اس کے بہترین اثرات معاشرے میں دکھائی دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں بڑی برکت رکھی ہے۔ یہ صبر آزما اور تسلسل کے ساتھ انجام دیا جانے والا عمل ہے۔
تجارت نبی اکرم ؐ کا طریقہ تھا جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین نے اختیار کیا اور معاشرے کو غربت و یاس سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس کی بہترین مثال کے لیے وہ واقعہ ہمارے ذہن میں رہنا چاہیے جب ایک شخص نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی ضرورتوں کا سوال کر بیٹھا۔ آپؐ نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: ایک چادر اور ایک پیالہ! آپؐ نے دونوں چیزوں کو طلب کیا اور انہیں صحابہ کرام کے درمیان رکھ کر بولی لگوائی جسے ایک صحابی نے اسے خرید لیا اور اس سے حاصل شدہ رقم کو اس آدمی کے حوالہ کرتے ہوئے آپؐ فرمایا کہ نصف رقم سے گھر کے لیے کھانے پینے کی چیزیں خرید لو اور نصف رقم سے کلہاڑی خرید لاؤ۔ چنانچہ اس نے ایساہی کیا، پھر آپؐ نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ لگا دیا اور حکم دیا کہ جنگل جا کر اس سے لکڑیاں کاٹو اور بازار میں لا کر فروخت کرو۔ اس نے ایسا ہی کیا اس طرح اس تجارت سے اس کی اقتصادی حالت در ست ہو گئی اور وہ سوال کی ذلت سے محفوظ ہو گیا۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بہت بڑے تاجر تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے پاس جو سونا تھا اسے کلہاڑی سے کاٹ کر وارثوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہؒ کی زندگی دیکھی جائے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں علم وعمل کے ساتھ مال و دولت میں بھی کافی فراوانی عطا کی تھی جس کا وہ مظاہرہ بھی کرتے تھے۔ عمدہ لباس زیب تن کرتے اور اپنے دوستوں پر بھی خوب خرچ کرتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی تاریخ میں متعدد شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو مال و دولت سے نوازا تھا اور وہ بحسن وخوبی اس کا حق ادا کرتے تھے۔ اس کے ذریعہ بہت سی دینی خدمات انجام دیتے تھے۔ زراعت یعنی کھیتی باڑی محنت و مشقت کے ساتھ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے کھیتی باڑی کا عمل انجام دیا جائے تو یہ بھی معیشت کا ایک اہم ذریعہ ہے جس سے انسانی زندگی کی بہت سی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔
درج بالا دونوں اسباب اختیار کرنے کے لیے مال و جائیداد کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب کہ ملازمت یعنی نوکری کرنے میں وہ بات نہیں۔ انسان اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نوکری حاصل کر لیتا ہے اور یہی چیز اس کے لیے دو وقت کی روزی روٹی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس دور میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، اس لیے ملازمت کی ضرورت بڑھ گئی ہے اور ملازمت نہ ملنے کی صورت میں بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر غور کیا جانا چاہیے۔
مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ اس وقت معیشت کے ہر میدان میں گراوٹ اور بدحالی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے روزگار ختم ہوتے جا رہے ہیں ہر طرف افراتفری کا ماحول بنا ہوا ہے لوگ پریشان حال ہیں ان کی تنگ دستی اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے انہیں خود کفیل بنانے اور امت میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش ہونا چاہیے۔ آغاز میں چھوٹے چھوٹے کاروبار کی طرف راغب کیا جائے۔ عملی اقدام جاری رہے جس کے لیے ماحول بنانا اور اسباب مہیا کرنا بھی ضروری ہے۔

تجارت معیشت کا بہترین ذریعہ ہے جو اگر اچھے، نیک اور خیر خواہ لوگوں کے ہاتھوں میں ہو تو اس کے بہترین اثرات معاشرے میں دکھائی دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں بڑی برکت رکھی ہے۔ یہ صبر آزما اور تسلسل کے ساتھ انجام دیا جانے والا عمل ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020