تاریخ کی روشنی میں مسجد آیا صوفیہ کی قانونی حیثیت

خان یاسر

(فیکلٹی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ، دہلی)

 

آج جہاں مسجد آیا صوفیہ قائم ہے اس زمین پر انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق پہلے پہل قسطنطین اول نے ایک پرانے غیر عیسائی (pagan) معبد کی بنیادوں پر 325 سن عیسوی میں ایک چرچ تعمیر کرایا۔ ملک کے داخلہ ہنگاموں کے دوران 404 سن عیسوی کو لکڑی سے بنے اس سیدھے سادے کلیسا میں آگ لگ گئی۔ کونسٹانس اول نے اس کی تعمیر نو کرائی۔ لکڑی سے بنی یہ عمارت ایک بار پھر داخلی خلفشار کے دوران 532 سن عیسوی کو نذر آتش ہوگئی۔  جس کے بعد جسٹینین اول نے دو ماہر معماروں کو تعمیر کا کام سونپا۔ 537 عیسوی میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔ مختصراً یہ کہ 325 سے قبل اس جگہ کی حیثیت ایک غیر عیسائی معبد، مابعد 325 اس کی حیثیت ایک چرچ، بعد ازاں خصوصاً 537 کے بعد اس کی حیثیت بازنطینی کیتھیڈرل کی ہوگئی۔ عیسائیوں کے آپسی اختلافات اس دوران شدت اختیار کرتے رہے جس کے اثرات آیا صوفیہ پر بھی پڑے۔ خصوصاً آٹھویں صدی عیسوی میں عمارت سے بتوں، تصویروں اور کچھ دیگر شعائر کو ہٹانے کے لیے ایک مہم چلی۔ اس متنازعہ دور کو Iconoclastic Period بھی کہتے ہیں۔ 1054 عیسوی میں یہ قضیہ اپنے انجام کو پہنچا اور کیتھڈرل پر یونانی آرتھوڈوکس فرقے کے عیسائیوں کا تسلط قائم ہوگیا۔ مسیحی تاریخ میں اس اہم وقوعے کو The Great Schism کہا جاتا ہے۔

1204 عیسوی میں قسطنطنیہ پر صلیبیوں کے حملے کے نتیجے میں آیا صوفیہ رومن کیتھولک کیتھیڈرل میں تبدیل کردیا گیا۔ 1261 میں بازنطینیوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر اس کی یونانی آرتھوڈوکس کیتھیڈرل والی حیثیت بحال ہو گئی۔

1453 میں سلطان محمد فاتح کی قیادت میں مسلمانوں نے قسطنطنیہ پر فتح حاصل کی۔ قسطنطنیہ استنبول اور کیتھیڈرل آیا صوفیہ جامع کبیر آیا صوفیہ ہوگیا۔ کیتھیڈرل کی مسجد میں یہ تبدیلی کیا شرعاً و قانوناً جائز ہے؟ اس سوال پر ٹھہر کر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اس ٹھہرنے سے میری مراد تین اہم نکات کو ذہن میں تازہ کرلینا ہے۔

پہلا نکتہ: خیال رہے کہ اپنے تمام تر عقل و شعور کے باوجود انسان ایک مادی و حسی وجود ہے اور اکثر و بیشتر خود کو زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد نہیں کرپاتا۔ تاریخ کے مطالعے کی بدترین شکل یہ ہے کہ ہم اپنے دور میں رہ کر اپنے دور کے مسلمات کے مطابق ماضی کی ہر چیز کا جائزہ لینے لگیں۔ ایسی تنقیدیں اپنی جنس میں آج کے کسی آٹھ سالہ پوتے کی اٹھاسی سالہ دادا پر کی گئی اس تنقید کے مترادف ہے کہ اتنے بڑے ہوگئے ہیں آپ کو موبائل چلانا کیوں نہیں آتا؟ آپ کہیں گے مثال صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ ٹیکنالوجی کا معاملہ ہے۔ لیکن ذہن و تصورات کی دنیا میں بھی ارتقا ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی میں ہونے والا ارتقا بھی فکر کی دنیا میں ہونے والے ارتقا کا بالواسطہ ثبوت ہے۔ شریعتیں بھی انسان کے شعوری ارتقاء کی مناسبت سے بھیجی گئیں۔ انسانی شعور جب بالغ ہوا تو آخری ہدایت کا نزول ہوا، ارتقا کے اس اصول کو تسلیم نہ کریں تو آخری ہدایت کے سب سے پہلے نازل نہ ہونے کی کوئی توجیہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ آخری ہدایت کے نزول کا مطلب بھی end of history نہیں ہے۔ یہ ارتقا تاقیامت جاری رہے گا۔ قرآن و سنت سے اصولی رہنمائی ملتی رہے گی اور ان اصولوں کی روشنی میں اجتہادات کیے جائیں گے۔ اسلام کے ever relevant رہنے کا صحیح مطلب یہی ہے۔ لہذا ایک بات جو انسان کی سیاسی فکر کے ارتقا کی ایک سطح پر صحیح ہو، ضروری نہیں کہ وہ ہر سطح پر صحیح قرار پائے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ماضی سے انصاف کرنے کے لیے ذہن و دماغ میں ٹائم مشین رکھنی ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ یہ ماضی پر تنقید کی نفی نہیں ہے، بیجا تنقید کی ایک خاص قسم کی نفی ہے۔

دوسرا نکتہ: اسلام ایک عملی دین ہے، یہ اپنے ماننے والوں کو بیجا مشقت میں مبتلا نہیں کرتا نہ غیر عملی قسم کی idealistic تعلیمات دیتا ہے۔ اس کے اپنے ideals بہت اونچے ہیں لیکن کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں فیصلے دوسروں کے طرز عمل کو مدنظر رکھ کر لیے جاتے ہیں اور لیے جانے چاہئیں۔ یہ عملیت اسلام کا عیب نہیں حسن ہے۔ مثال کے طور پر جنگ کے دوران بھی پیڑ پودے کاٹنے کی ممانعت ہے — لیکن — جنگی ضرورت کے تحت ایسا کیا جاسکتا ہے؛ جنگ میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں، اور راہبوں کو مارنے کی ممانعت ہے — لیکن — لیکن اگر وہ خود حملہ آور ہوجائیں تو ان پر بھی تلوار اٹھائی جائے گی؛ حرام مہینوں میں قتال منع ہے — لیکن — اگر دشمن اس حرمت کا پاس نہ رکھے تو قتال کیا جائے گا؛ حدود حرم میں قتال منع ہے — لیکن — دشمن اگر آمادہ جنگ ہو تو حرم میں بھی قتال ہوگا۔ یہ صرف چند کا ذکر تھا ورنہ بین الاقوامی تعلقات پر منطبق ہونے والی قرآن و سنت کی بہت سی تعلیمات ہیں جہاں اپنے طرزِ عمل کے لیے سامنے والے کے طرز عمل کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ذرا آگے بڑھ کر ہمارے بہت سے فقہا اور مفکرین نے کہا ہے کہ جزیہ، ذمی، جنگی قیدیوں، لونڈی اور غلام وغیرہ کے سلسلے میں فقہ اسلامی کے بہت سے احکام (خصوصاً وہ جو اگلے وقتوں میں ذرا regressive معلوم ہوں) وقت کے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں طے پاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اسلام کے مطمح نظر تاجروں کی حوصلہ افزائی اور تجارت کا فروغ ہے بالفاظِ دیگر فری ٹریڈ کا تصور اسلامی تعلیمات سے زیادہ میل کھاتا ہے لیکن حضرت عمرؓ نے دیگر ممالک میں مسلم تاجروں پر محصول لگائے جانے پر بلاد اسلامیہ میں آنے والے غیر مسلم تجار پر بھی محصول عائد کیا۔ یہ اللّٰہ کے دین کا حسن ہے اور بالغ نظری ہے ہمارے فقہا کی، جنہیں اللّٰہ نے دین کی سمجھ عطا کی کہ ہمارے دین میں مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔

تیسرا نکتہ: ہمارے فقہ کی کتابوں میں دو قسم کی فتوحات کا تذکرہ ہے۔ بذریعہ صلح اور بزور قوت۔ صلح کی صورت میں ظاہر ہے کہ مقبوضہ آبادی، ان کے اموال و جائیداد، اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ اور بزور قوت فتح پانے کی صورت میں یہ وقت کے اولوالامر کی صوابدید پر ہوگا کہ وقت اور حالات کے تناظر میں چاہے تو سختی کا رویہ اختیار کرے اور چاہے نرمی اور احسان کا۔ اسلامی تاریخ میں کم ہی ایسا ہوا جب سختی کے رویے کو اختیار کیا گیا۔ عام طور پر عفو و درگزر اور نرمی و احسان کی مثالیں ہی ملتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سختی ناجائز اور غیر قانونی ہے۔ یوں ایک قانونی مسئلے میں selective مثالیں جذباتی انداز میں پیش کرکے مسجد آیا صوفیہ کی بازیافت پر سوالات اٹھانا مناسب نہیں ہے۔ یاد رہے سیرت میں فتح مکہ ہی نہیں طائف، حنین، بنو نضیر اور بنو قریظہ بھی ہے۔ یہ تحریر لکھتے وقت میرے سامنے امام ابویوسف کی کتاب الخراج ہے جس میں تفصیل سے فتح کی دونوں قسموں پر بحث کی ہے اور مثالیں پیش کی گئی ہیں چنانچہ متعدد لڑائیوں میں دشمن پر فتح پاکر حضرت خالد بن ولیدؓ نے جنگ کے قابل مردوں کو تہہ تیغ کردیا، عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا، اور ساز و سامان، اسلحہ اور مویشیوں پر بطور مال غنیمت قبضہ کرلیا۔ اس کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس سے بہت سے قبائل صلح پر راضی ہوئے اور نتیجتاً کم جانوں کا ضیاع ہوا۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوسکتا ہے کہ مزاحمت کرنے والوں سے بھی احسان کا معاملہ رکھا جائے لیکن اسلامی ریاست کی اگر ایسی کوئی مستقل پالیسی ہوئی تو اس کے ساتھ پہلے ہی صلح کرنے میں بھلا کیا فائدہ رہ جائے گا؟

ان بنیادی نکات کی توضیح کی ضرورت اس لیے پڑی تاکہ بیجا مثالیت پسندی سے بچتے ہوئے ہم اپنے ماضی اور اپنے اسلاف کے ساتھ انصاف کرسکیں اور حال میں احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں۔

اب آئیے 1453 کے قسطنطنیہ میں چلتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب عثمانی فوجیں شہر میں داخل ہوئیں تو قتل عام ہوا۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ اس قتل عام سے کیا مراد ہے۔ دراصل دشمن کے شہر کو جب بزور قوت فتح کیا جاتا تھا تو ان کا زور توڑ دینے کے لیے شہر میں قتال کیا جاتا تھا۔ جس دشمن نے آخر آخر تک مزاحمت کی ہو اس کی طرف سے شہر میں گھستے ہی غافل ہو جانا یقیناً دانشمندی نہ تھی۔ یہ سوچنا سادہ لوحی ہوگی کہ فوجوں کی مزاحمت صرف شہر کے صدر دروازے پر ہوگی حالانکہ ہاری ہوئی فوج کے بے ترتیب حصے اور جوشیلے نوجوان ہر گلی کوچے میں مزاحمت کرتے تھے۔ ایسے میں ایک بے ضرر شہری اور دشمن فوج کے سپاہی میں امتیاز مشکل تھا۔ چنانچہ مسلم افواج کی کوشش یہ ہوتی تھی بلکہ باقاعدہ اعلان ہوتے تھے کہ لوگ گھروں میں دروازہ بند کرلیں وگرنہ انہیں دشمن کا سپاہی سمجھا جائے گا۔ اسے آپ چاہیں تو موجودہ دور میں فسادات کے دوران کرفیو اور شوٹ ایٹ سائٹ سے یک گونہ تشبیہ دے کر سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ خود حضرت محمدﷺ نے عین فتح مکہ کے وقت یہ اعلان کیا تھا کہ جو ابوسفیان کے گھر، حکیم بن حزام کے گھر، کعبے میں، یا اپنے گھر کا دروازہ بند کرکے رہے اسے امان ہے۔ بھلا بتائیے سڑک پر چلنے والے ایک عام شہری کو رسول کی امان کیوں حاصل نہیں تھی؟ کیونکہ اس وقت تک اسلامی افواج نے شہر پر مکمل تسلط حاصل کرکے، نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے کر امن و امان قائم نہیں کیا تھا۔ جیسے ہی شہر کا کنٹرول ہاتھ آیا لوگوں کو مکمل امن عطا ہوا۔ قسطنطنیہ میں جو قتل عام ہوا اگر اس کی نوعیت یہ تھی تو پھر یہ ناگزیر تھا۔ اگر اس کے علاوہ کچھ تھی تو اسے بے احتیاطی کہیے یا جواں سال سلطان کے نظم کی کمزوری — یقیناً اسے جسٹیفائی نہیں کیا جائے گا، لیکن ان بے احتیاطیوں کی وجہ سے پوری فتح کو متہم نہیں کیا جائے گا۔ میری اپنی رائے میں قتال کی نوعیت وہ تھی جس کا ذکر دشمن کا زور توڑنے اور شہر پر تسلط حاصل کرنے کے ضمن میں کیا گیا چنانچہ عزیر احمد لکھتے ہیں کہ شہر میں داخلے کے بعد عثمانی فوج نے ”فتح کے ابتدائی جوش میں قتل عام شروع کردیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب یہ جوش کسی قدر ٹھنڈا ہوا اور نیز یہ دیکھ کر کہ شہر والوں کی طرف سے مزاحمت نہیں ہوتی، انہوں نے اپنی تلواریں نیام میں کرلیں۔“ (دولت عثمانیہ، جلد اول) یعنی جب مزاحمت نہیں ہوئی (یا ہونی بند ہوگئی) تو عثمانی تلواریں بھی نیام میں چلی گئیں۔ عزیر احمد ایورسلے کو نقل کرتے ہیں جو 1204 کے صلیبی کے بھیانک مظالم کا تذکرہ کرنے کے بعد سلطان محمد فاتح کی افواج کے بارے میں لکھتا ہے کہ شہر میں ”داخلے کے ابتدائی چند گھنٹوں کے بعد اس موقع پر کوئی قتل عام نہیں ہوا، آتش زنی بھی زیادہ نہیں ہوئی، سلطان نے گرجاؤں اور دوسری عمارتوں کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب رہا۔“ اس کے بعد کیا ہوا؟ مورخ اکبر شاہ نجیب آبادی لکھتے ہیں، ”قسطنطنیہ کے باشندوں کو سلطان فاتح نے امن و امان عطا کیا، جو لوگ اپنے مکانوں اور جائدادوں پر قابض رہےاور بخوشی اطاعت قبول کی ان کو اور ان کے اموال کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ عیسائیوں کے معبدوں اور گرجوں کو (بجز ابا صوفیہ کے) علی حالہ قائم اور عیسائیوں کے تصرف میں رکھا۔ قسطنطنیہ کے بشپ اعظم کو سلطان نے اپنی خدمت میں بلا کر خوش خبری سنائی کہ آپ بدستور یونانی چرچ کے پیشوا رہیں گے۔ آپ کے مذہبی اختیارات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ سلطان محمد خاں فاتح نے خود یونانی چرچ کی سرپرستی قبول کی اور بشپ اعظم اور پادریوں کو وہ اختیارات حاصل ہوگئے جو عیسائی سلطنت میں بھی ان کو حاصل نہ تھے، عیسائیوں کو کامل مذہبی آزادی عطا کی گئی۔ گرجوں کے مصارف اور چرچ کے اخراجات پورا کرنے کے لیے بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں۔ جنگی اسیروں کو جو فتح مند فوج نے گرفتار کیے تھے سلطان فاتح نے خود اپنے سپاہیوں سے خرید کر آزاد کیا اور ان کو شہر قسطنطنیہ کے ایک خاص محلہ میں آباد کیا۔“ (تاریخ اسلام، جلد سوم)

اختصار کے ساتھ کہیں تو سلطان محمد فاتح نے دشمن پر فتح پاکر ان کے ساتھ قانونی نہیں بلکہ احسان کا معاملہ فرمایا۔ ایک آیا صوفیہ کے معاملے میں یہ روش اختیار نہیں کی۔ ویسے تو اس بات کا الگ جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ قانون کی رو سے جب انہیں پورے شہر پر تسلط کا اختیار تھا اور انہوں نے اس قانونی حق کو استعمال نہ کرتے ہوئے ہر معاملے میں، بجز ایک کے، احسان کی روش اختیار کی تو کون سا سوال باقی رہ جاتا ہے۔ لیکن پوچھنے والے پوچھتے ہیں۔ خیر، آیا صوفیہ کے استثنی ہونے کی جو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

آیا صوفیہ کوئی عام چرچ نہیں بلکہ ایک کیتھیڈرل تھا۔ کیتھیڈرل مرکزی چرچ کو کہتے ہیں۔ دیگر چرچ اس مرکزی چرچ کے تابع ہوتے ہیں۔ ایم جے ہگنس اور ایف نکس بازنطینی چرچ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسے سمجھنے کے لیے ایک مسیحی جہانی ریاست (Christian World State) کے تصور کو سمجھنا ہوگا کیونکہ سلطنت کی استعماری پالیسیز کے نفاذ میں چرچ ایک آلہ کار تھا۔ بادشاہوں کی تاجپوشی آیا صوفیہ میں بطریق کے ہاتھوں ہوتی تھی۔  یہ چرچ (بطور ایک عبادت گاہ نہیں ایک ادارہ) کی طاقت ہی تھی کہ بسااوقات بادشاہ اور بطریق میں قوت و اقتدار کی جنگ چھڑ جاتی تھی۔ مارک کارٹ رائٹ بتاتے ہیں کہ صرف بطریق نہیں بلکہ مقامی بشپ بھی سیاسی قوت و اقتدار کے مالک تھے۔ وہ بڑے بڑے قصبوں میں بادشاہ اور بطریق کے نمائندوں کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔ ان کے پاس بے شمار دولت ہوا کرتی تھی۔ دولت و طاقت اور روحانی اثر و رسوخ کی بدولت انہوں نے ایک طرح سے متوازی اقتدار قائم کررکھا تھا۔ عمیر بھائی کے الفاظ میں، ”آیا صوفیہ کی حیثیت سبھی تاریخی روایات کے مطابق محض مذھبی عمارت کی نہ تھی بلکہ ایک سیاسی اور عسکری ہیڈکوارٹرز کی بھی تھی، اس لئے اسکے ساتھ مذھبی عمارتوں والا سلوک کیا جانا ممکن نہیں تھا، مزید یہ کہ اس زمانے کی صلیبی جنگیں چرچ کے ذریعے ہی انجام دی جا رہی تھیں اور پوپ حضرات ہی جنگوں کے فیصلے لیا کرتے تھے لہٰذا پوپ کی اور انکے مراکز کی حیثیت…“ عام عبادت گاہوں، مدرسوں یا خانقاہوں جیسی نہ تھی۔ (ڈاکٹر عمیر انس، فیس بک، 12 جولائی) کیتھیڈرل سے بہت سے توہمات وابستہ تھیں۔ ایڈورڈ گبن جیسے مورخ نے ان توہمات کا مذاق اڑایا ہے کہ کس طرح چرچ میں موجود لوگ آخر آخر تک ایک فرشتے کے انتظار میں تھے لیکن فرشتے کو نہ آنا تھا، وہ نہ آیا۔ (The Decline and Fall of the Roman Empire, 6th Volume) اس سے بالواسطہ طور پر یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کیسی ہی جھوٹی بشارتوں کی بنیاد پر لیکن کیتھیڈرل سے بالکل آخری وقت تک سلطان کی افواج کی مزاحمت ہوئی تھی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قانونی حق رکھنے کے باوجود سلطان نے اس کا استعمال نہیں کیا۔ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کے الفاظ میں، ”سلطان فاتح نے زبردستی ایاصوفیہ پر قبضہ کرکے اسے مسجد میں تبدیل نہیں کیا، بلکہ خطیر مال صرف کرکے اسے مسیحیوں سے خریدا۔ سوشل میڈیا پر وہ دستاویزات عام ہو گئی ہیں جن میں خرید و فروخت کی تفصیلات مذکور ہیں۔“

یوں ایمانداری سے دیکھا جائے تو آیا صوفیہ کی حیثیت دہلی کی جامع مسجد کی نہیں بلکہ لال قلعہ کی تھی، ایک نئی مفتوحہ سرزمین پر قوت و اقتدار کے ایسے اہم مرکز پر اگر ایک فاتح نے اپنے قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے قبضے کو برقرار رکھا بلکہ مزید احسان کا رویہ اختیار کرکے اسے زر کثیر عوظ خرید کر وقف کردیا تو اس پر اعتراضات بے محل نظر آتے ہیں۔ اس اخلاقی وعظ کی گنجائش البتہ ہے کہ سلطان کو ایسا نہیں ویسا کرنا چاہیے تھا، سو اس سے ہم نہیں روکتے۔

1453 سے لے کر 1931 تک، جب اتاترک کی ایما پر مسجد پر تالے ڈال دیے گئے، مسجد آیا صوفیہ میں نمازیں ہوتی رہیں۔ 1934 میں کیبنیٹ نے آیا صوفیہ کو مسجد سے ایک میوزیم میں تبدیل کردیا۔ یہ ایک عدالتی نہیں بلکہ آمرانہ فیصلہ تھا کیونکہ ترکی میں کیبنیٹ کی حیثیت highest executive authority کی رہی ہے۔ اس غیر ضروری، غیر معقول، اور غیر قانونی فیصلے پر دہائیوں تک عمل ہوتا رہا۔ اس دوران مسجد کی بازیافت کی کوششیں لگاتار ہوتی رہیں۔ بالآخر جولائی 2020 میں کونسل آف اسٹیٹ نے، جسے ترکی کی اعلیٰ ترین انتظامی عدالت کی حیثیت حاصل ہے، 1934 کے فیصلے کو غیر قانونی ٹھہرایا اور یوں مسجد کے مسجد بننے کی راہیں ہموار ہوئیں۔ فیصلے کی قانونی بنیادیں بہت مضبوط ہیں، صرف اس فیصلے کو پڑھ لیا جائے تو بہت سے اعتراضات آپ سے آپ ختم ہوجائیں۔ کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں:

1۔ آیا صوفیہ کو مسجد سے میوزیم بنانا سلطان محمد فاتح کی وصیت اور قانون وقف کے خلاف ورزی تھی۔

2۔ سلطان کے وقف کی حیثیت non-transferable ہے۔

3۔ ریاست وقف جائیدادوں کے امین (custodian) کی حیثیت رکھتی ہے، اسے اس نوعیت کے تصرفات کی اجازت نہیں ہے۔

ناواقفیت کے نتیجے میں ایک اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد بنانے کا فیصلہ یونیسکو کے Protection of World Cultural and Natural Heritage کنونشن کے خلاف ورزی ہے۔ اس بات پر عدالت نے پہلے ہی غور کر لیا تھا، چنانچہ کہا گیا کہ:

4۔ مسجد سلطان احمد کی طرح ایسی بہت سی heritage sites ہیں جو بطور مسجد استعمال ہورہی ہیں۔ یونیسکو کے کنونشن میں ایسا کچھ نہیں ہے جس کی وجہ سے آیا صوفیہ کا استعمال اسلامی قانون کے مطابق نہ کیا جاسکے۔

میں نے اس فیصلے پر (جس پر اعتراض کرنے والے تعصب کی تہمت بھی لگا سکتے ہیں) اکتفا نہ کیا بلکہ یونیسکو کے اس کنونشن کا بہ نفس نفیس مطالعہ کیا اور عدالت کے اس تبصرے کو قرین انصاف پایا۔ حتیٰ کہ یونیسکو نے اپنے جس بیان میں اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اس میں بھی اس فیصلے کو کنونشن کے خلاف ورزی نہیں قرار دیا ہے۔ اس بیان میں صرف اتنا لکھا ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں اگر عمارت تک عام لوگوں کی رسائی میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے یا عمارت کے ڈھانچے میں کوئی بنیادی تبدیلی کی جاتی ہے تو یہ کنونشن کے خلاف ورزی ہوگی۔ اب جب کہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ زائرین پر کوئی روک ٹوک نہ ہوگی اور یہ کہ کوئی ٹکٹ بھی نہیں لگے گا تو اس سے رسائی کے بڑھنے ہی کا امکان نظر آتا ہے گھٹنے کا نہیں!

خلاصہ کلام یہ آیا صوفیہ کی زمانہ ماقبل تاریخ کی pagan عبادت گاہ سے لے کر، ایک چرچ اور مختلف عیسائی فرقوں کے کیتھیڈرل، مسجد اور میوزیم تک مختلف حیثیتیں رہی ہیں۔۔۔ اور یہ کہ قانون کی کوئی بھی تعریف متعین کرلی جائے، اس کی مسجد والی حیثیت کو غیر قانونی نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

ہم اللّٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ جو مسجد قانونی طور پر مسجد تھی وہ ایک بار پھر مومنوں کے سجدوں سے معمور ہوگی!