بے لگام خواہشات کا برا انجام

قرآن و حدیث سے وابستگی اور مقصدِ زندگی کا شعور ضروری

عطیہ صدیقہ، نئی دہلی

آج کل معاشرے میں اختلاط مرد وزن عام ہو گیا ہے۔ گھر تعلیمی ادارے کمپنیاں تجارتی مراکز اور سیاحتی مقامات غرض کوئی جگہ ایسی نہیں بچی ہے جہاں لڑکے لڑکیوں کے خلا ملا کو روکا جا سکتا ہو الّا یہ کہ کسی کے دل میں خدا کا خوف بیٹھا ہوا ہو۔ اب تو بلا جھجھک بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنا بھی معیوب نہیں رہا جسے لیو ان ریلیشن شپ کا نام دیا گیا ہے۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں عصمت ریزی کے واقعات کی پہلے ہی بہتات ہے۔ زنا بالرضا اس پر ایک اور اضافہ ہے۔ چنانچہ گزشتہ دنوں ایک گریجویٹ لڑکی مجھ سے ملنے کے لیے میرے دفتر میں آئی وہ اس بات سے پریشان تھی کہ وہ ایسے ہی ایک زنا بالرضا کے معاملے میں ملوث ہو گئی تھی۔ حالانکہ اس کا رشتہ طے ہو چکا تھا اور اسی سے ملوث ہوئی تھی جس سے اس کا رشتہ طے ہوا تھا۔ وہ تو غنیمت ہوا کہ اس کے باوجود اس کی شادی اسی لڑکے سے ہونا طے پا گئی ورنہ بہت سے معاملات میں لڑکا اپنا مطلب نکال کر الگ ہو جاتا ہے اور لڑکیاں اچانک اپنے آپ کو بے آب و گیا صحرا میں محسوس کرنے لگتی ہیں۔ اس کے بعد یا تو وہ خودکشی کر لیتی ہیں یا پھر اسی گناہ کے دلدل میں زندگی گزار دیتی ہیں۔
اسلام میں مرد اور عورت کو اکیلے میں ملنے اور بلا ضرورت نامحرموں سے بات چیت کرنے سے روکا گیا ہے۔ لڑکے لڑکیاں اگر اسلام کی اس تعلیم پر عمل کریں تو وہ گناہ سے بچ جائیں گے۔ نامحرم مرد اور عورت کو اسلام نے تنہائی میں ملنے سے سخت منع کیا ہے۔ نبی کریم کا صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جہاں اکیلے میں ایک نامحرم مرد اور نامحرم عورت ہوتے ہیں وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ اور شیطان جس پر حاوی ہو جاتا ہے وہ ضرور شیطانی حرکات کر بیٹھتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں نہ جانے ایسے کتنے واقعات ہوتے ہوں گے جن کا کبھی کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا ہوگا۔ اللہ خیر کرے۔ یہ سب اسلام کی بنیادی تعلیمات سے محرومی اور جابجا فحاشی کے اسباب وآلات کی فراوانی کا نتیجہ ہے۔
مجھے اسلام پر رشک آنے لگا کہ کیا ہی خوب دین ہے کہ اس نے عورت اور مرد کے درمیان رشتے کی بنیاد نہایت پاکیزہ اصولوں پر رکھی ہے۔ نکاح کے لیے سرپرست کی موجودگی ضروری ہے۔ نکاح سے پہلے لڑکی کو ایک نظر دیکھنے کا حکم موجود ہے۔ اسلام نہایت معتدل اور بہترین نظام زندگی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی گزارنے کے لیے عطا کیا ہے جس میں زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: آنکھوں کا زنا فحش دیکھنا ہے، کانوں کا زنا فحش سننا ہے، زبان کا زنا فحش بات کرنا ہے۔ دل بدکاری کی خواہش اور تمنا کرتا ہے، اس کے بعد شرم گاہیں اس منصوبے کو عملی جامہ پہناتی ہیں (مسلم)
محترم قارئین! اس واقعہ میں والدین کے لیے بھی ایک بہت بڑا سبق ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت میں غفلت نہ برتیں بلکہ ان پر نظر رکھیں۔ اگر آپ ان کو تنہا باہر جانے کی اجازت دیں گے تو وہ ایسے کارنامے انجام دیں گی جس کے نتیجے میں آپ کو شرمسار ہونا پڑے گا۔ ان کا ٹھیک وقت پر نکاح کریں قرآن اور حدیث کی بنیادی تعلیم دیں۔ شادی وقت پر نہ کرنے سے اولاد ہلاکت میں پڑ سکتی ہے۔ دین بیزاری، قرآن و حدیث سے دوری، فیشن پرستی، آزادانہ میل جول اور نکاح میں تاخیر زنا کے اسباب میں سے ہیں اور ان سے بچنے کے لیے فہم دین، قرآن و حدیث سے وابستگی مقصدِ زندگی کا شعور اور نکاح میں تعجیل ضروری ہے۔ خاص طور پر میں لڑکیوں کو مشورہ دوں گی وہ سورہ نور کا مطالعہ غور وفکر کے ساتھ کریں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو۔ جب نماز کا وقت آجائے (تو اسے فوراً ادا کرو) جب جنازہ تیار ہو جائے (تو اسے بہت جلد زمین کے سپرد کردو) اور جب تم غیر شادی شدہ عورت کا ہمسر پاو (تو فوراً اس سے اس کا نکاح کردو)
ہمارے معاشرے میں نکاح کے مشکل ہوجانے کی ایک اہم وجہ نکاح کے لیے ہمارے خود ساختہ معیارات بھی ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیا جاتا ہے:
۱) اس کے مال وجائیداد کی وجہ سے
۲) اس کی خاندانی شرافت کی وجہ سے
۳) اس کے حسن و جمال کے سبب اور
۴) اس کی دینداری کی بنیاد پر۔ تم دیندار عورت کو حاصل کرو۔ یہ بات گرہ میں باندھ لو (بخاری، مسلم)
ہمیں اس تعلق سے بھی معاشرے میں بیداری لانے اور اس کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔
ان حالات میں امت مسلمہ پر بحیثیت داعی، امت وسط اور خیر امت، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات کو ملک و ملت کے ہر خاص و عام تک اور خصوصاً نوجوان نسل تک پہچانیں اور معاشرے میں اسلام کی تعلیمات کو جاری و ساری کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کی سکریٹری شعبہ خواتین ہیں)