بے رحم کورونا اور بےحس انتظامیہ
تباہ کاریوں کے بیچ مذہبی نفرت عروج پر۔عالمی پیمانے پر ملک کی رسوائی
پروفیسر ایاز احمد اصلاحی، لکھنو
کورونا نامی وبا کی شدت اس وقت شباب پر ہے اور اس وقت اس کی وجہ سے پوری انسانی دنیا درد و الم سے سسک رہی ہے اور یہ مہلک وبا انسانوں کی سائنسی و طبی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی ضمیر کا بھی امتحان لے رہی ہے۔ رمضان کی آخری گھڑیوں میں ہماری دعا ہے کہ خالق کائنات ہمیں اس سے نجات دے اور اس سے مقابلے کی ہمت و صلاحیت دے۔ کووڈ-۱۹ سے کراہتی یہ وہی دنیا ہے جہاں امریکہ، اسرائیل اور ان کے بل گیٹ جیسے تاجر و طالع آزما کورونا سے تحفظ دینے اور انسانی جانیں بچانے کے لیے بننے والی دواؤں اور ویکسینز کا بھی قومی و معاشی مفادات کے پیمانوں سے سودا کر رہے ہیں۔ یہ وہی ترقی یافتہ دنیا ہے جہاں اسرائیل جیسی غاصب اور وحشی ریاست بھی ہے جو اپنے ہی مقبوضہ علاقوں کے شہریوں یعنی فلسطینیوں کے ویکسینیشن سے مستفید ہونے میں مانع ہے اور رمضان میں عین عبادت کے دوران بھی ان پر گولیاں چلا کر انہیں زخمی کر رہی ہے۔ یہ وہی دنیا ہے جہاں بھارت کی مرکزی اور یو پی کی صوبائی حکومتوں نے اس وبا پر قابو پانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کرنے کی بجائے عوام اور سیاست دانوں سمیت انتخابی عملہ میں شامل ملازمین کو بنگال یو پی اور دیگر ریاستوں میں انتخابات میں جھونک دیا اور ان کے لیے کوئی حفاظتی تدبیر نہ اختیار کر کے انہیں کورونا سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ان حکومتوں نے انتخابات جیتنے کے نشہ میں بعض ملازمین کو اپنے قریب ترین لوگوں کی آخری رسومات میں شرکت سے بھی روک دیا اور بعض حاملہ عورتوں کی چھٹی کی درخواست مسترد کر کے ان کے اور ان کے بچوں کی زندگیوں سے ایسا کھلواڑ کیا جس کی مثالیں اس مہذب دنیا میں ملنی مشکل ہیں۔
اس کے علاوہ یہاں بہت سے ضمیر فروش تاجر اور سیاست داں ہیں جو اس عذاب نما بیماری کو بھی اپنے لیے استحصال اور منافع خوری کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اور مریضوں کی بگڑتی حالت، اکھڑتی سانسیں، تڑپتی لاشیں اور اسپتالوں میں ان کے بے یار و مددگار رشتہ داروں کی چیخ وپکار بھی ان کے اندر کا انسان جگانے اور ان کی بے حسی توڑنے میں ناکام رہتی ہے۔ افسوس کہ انسانوں کی اخلاقی گراوٹ یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس کا ایک ایسا پہلو بھی ہے جسے دیکھ کر انسانیت کو بار بار شرمسار ہونا پڑتا ہے، یہ ہے فرقہ پرستی و فسطائیت کا وہ مکروہ چہرہ جو کورونا کی پہلی لہر میں تبلیغی جماعت پر حکومت اور اس کی انتظامیہ کے غیر قانونی حملوں اور الزامات کی شکل میں ظاہر ہوا اور بعد میں اس کی وجہ سے ملک کو پوری عالمی برادری کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا تھا۔ اس وقت بھی یہ چہرہ اپنی تمام تر کراہیت کے ساتھ ہمارے سامنے ہے اور پوری دنیا اس پر تھوک رہی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک طرف جہاں مسلم نوجوان اپنی دینی التزامات کو بھی فراموش کر کے کورونا کا شکار ہوئے اپنے ہندو بھائیوں کی لاشوں کو ٹھکانے لگا رہے ہیں اور شمال سے لے کر جنوب تک اپنے آپ کو داؤ پر لگا کر کورونا مریضوں کو ہر طرح کی سہولتیں پہنچا رہے ہیں تو وہیں مسلم دشمن بی جے پی حکومت کے کارندے اور فرقہ پرستی کے زہر سے مفلوج میڈیا کے کچھ نمائندے اس نازک صورت حال میں بھی واقعات کو فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھ رہے ہیں اور ملک کے باشندوں کو فرقہ وارانہ منافرت بنیاد پر تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کی تازہ مثال بنگلور کے ایک اسپتال میں بیٹھے بی جے پی حکومت کا ممبر آف پارلیمنٹ اور آر ایس ایس کا رکن تیجسوی سوریہ کا وہ ویڈیو ہے جس میں وہ ایک اسپتال میں کورونا مریضوں کی خدمت میں لگے دو سو چھ (206) عملہ میں سے 17 مسلمان ملازمین کی الگ سے نشاندہی کرتا ہے اور اسپتال میں اتنے مسلمانوں کی تقرری پر چیخ چیخ کر اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے۔ یہ واقعہ 4 مئی 2021 کا ہے جب اچانک وہ کرناٹک بی جے پی کے بعض صوبائی اسمبلی کے ممبروں اور اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ آکسیجن گھٹالے کی جانچ کے لیے اسپتال پہنچتا ہے، وہاں بی بی ایم پی (BBMP) کے ساوتھ زون کووڈ وار سنٹر میں پہنچنے کے بعد وہ عملے کی لسٹ طلب کرتا ہے، لسٹ میں سترہ مسلمانوں کا نام دیکھ کر وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے، اسے یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ وہ اس وقت ایک پبلک پلیس پر ہے، وہ سب سے پہلے ان مسلمانوں کو سنگل آؤٹ کرنے کے لیے الگ سے ان کے ناموں کی فہرست تیار کرواتا ہے، سب کے سامنے بلند آواز سے ان کے نام پڑھتا ہے، وہاں کی ذمہ دار خاتون کو ڈانٹتے ہوئے پوچھتا ہے یہ کیا ہے، اتنے مسلمان یہاں کیسے آ گئے؟ اور اس کے بعد وہیں بیٹھے بیٹھے ان سترہ مسلمانوں کو برخاست کرنے کا حکم دیتا ہے، جب کہ اس کے دوسرے ساتھی بھی اس کے ساتھ اس کووڈ سنٹر میں اتنے مسلمانوں کی تقرری پر طنز کرتے ہیں، انہی میں سے ایک کی آواز ویڈیو میں محفوظ ہے جو کہتا ہے "یہ تو بالکل مدرسہ ہے”۔ بعد میں جب اس ویڈیو سے پورے ملک میں اس کی بدنامی ہونے لگی اور اس کا اصل چہرہ سب کے سامنے آ گیا تو اس واقعہ کے پانچ دن بعد وہ اسپتال کے عملہ سے معافی مانگنے وہاں پہنچا اور کہا یہ سب اچانک ہوگیا تھا، اس کا مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ تازہ خبر آنے تک برخاست کیے گئے مسلم ملازمین کو ملازمت پر دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔ تاہم اس واقعہ نے اس کے چھپے ہوئے سیاہ کردار کو جس طرح طشت از بام کیا ہے اس سے صرف اس کی ہی نہیں بلکہ آر ایس ایس-بی جے پی کی اصلیت کا اندازہ بڑی آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
غور کیجیے اس ملک میں کیا ہو رہا ہے اور حکومت اپنے شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کے تئیں کتنی بیدار اور فکرمند ہے؟ ایک ایسے نازک وقت میں جبکہ سیاسی، مذہبی اور سرحدی اختلافات بھول کر پوری دنیا کرونا سے لڑنے میں مصروف ہے بی جے پی/ آر ایس ایس کے اسکول میں پلے بڑھے سیاسی ٹولے کی ترجیحات بدستور مذہبی بغض و نفرت پر مبنی نظر آرہی ہیں اور وہ اس حال میں بھی انسانیت سے جڑنے اور فرقہ ورانہ منافرت اور فسطائی ذہنیت کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس ذہنیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی طرف سے حکومتی سطح پر دن بدن مہلک تر ہوتی کورونا وبا سے مقابلے کے لیے جو سنجیدگی اور تیاری ہونی چاہیے وہ دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے جس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ اس کے گواہ عوام بھی ہیں، عدلیہ بھی اور ملک کا مین اسٹریم میڈیا بھی۔ اس وقت ملک میں بے قابو ہوتے کورونا اور اس کے اثرات کے سبب جو افراتفری مچی ہوئی ہے وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وزیر اعظم مودی سمیت موجودہ حکومت کے تمام ارباب حل وعقد کورونا کی پہلی لہر میں بھی غفلت میں پڑے رہے اور اس کے خلاف تیاریاں کرنے کی بجائے صرف دیا جلانے گھنٹی بجانے تھالی پیٹنے اور فرقہ پرستی کا رنگ دینے میں لگے رہے، اور اب جبکہ اس کی دوسری لہر کی تباہ کاریاں پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے جاری ہیں ہے جس کی ہلاکت خیزی سے پورا ملک کانپ رہا ہے اس وقت بھی ان کا یہی حال ہے۔ اس نئی لہر نے جسے ہندوستانی کورونا (Indian Variant) بھی کہا جاتا ہے، ہندوستان کو خاص طور سے نشانہ بنایا یے اور اس کا شکار ہو کر اب تک یہاں کے لاکھوں لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ اس کی آمد سے پہلے عالمی سطح پر بہت سے ملکوں کی حکومتوں اور ماہرین نے ہمیں آگاہ کر دیا تھا کہ بھارت کو اس کی دوسری لہر سے سخت آزمائش سے گزرنا پڑ سکتا ہے لیکن اس دوران ہمارے مرکزی حکمراں سب کچھ ان سنی کر کے بنگال سے یو پی تک اپنا پورا زور صوبائی انتخابات میں لگائے ہوئے تھے۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ کورونا کی اس دوسری لہر میں ملک کا ہر فرد اور ہر خاندان اپنے آپ میں درد کی ایک داستان بن کر رہ گیا ہے۔
اس وقت مرکز، کرناٹک اور زیادہ تر صوبوں میں سرکاریں بی جے پی کی ہیں، وہاں گھوٹالے ہوتے ہیں، آکسیجن کی کالا بازی عروج پر ہے، دواؤں اور طبی احتیاطی آلات کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کی جا رہی ہے، ہر بڑے شہر میں مرنے والوں کی تعداد سیکڑوں سے ہزاروں میں پہنچ گئی ہے، اس کے بعد بھی حکومت کی ترجیحات میں کوئی فرق نہیں آیا اور نہ اس کے کسی عمل سے ایسا لگا کہ وہ اپنے شہریوں کی زندگیوں اور ان کی صحت کے تعلق سے کچھ بھی حساس ہے۔ اس بے حسی کی وجہ سے ہر بڑے شہر میں خوف ودہشت کا ماحول بن گیا اور یہ بات پوری دنیا پر عیاں ہو گئی کہ ہندوستانی حکومت وبا سے نمٹنے، ڈاکٹروں اور مریضوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور میڈیکل تقاضوں کی بھر پائی کرنے میں ہر سطح پر ناکام ہو چکی ہے۔ لیکن اپنی کمیاں دور کرنے کی بجائے اس کے کارندے یا تو اپوزیشن کو نشانہ بنا کر گمراہ کن پروپیگنڈے میں لگے ہوئے ہیں یا اپنی کمیوں کے لیے فرضی دشمنوں کو ذمہ دار ٹھہرانے میں مصروف ہیں، اس کے علاوہ اس کے سیاست داں اور زرخرید ہمنوا جب بھی موقع ملتا ہے مسلمانوں پر حملہ کرنے سے کبھی نہیں چوکتے، اس طرح وہ عوام کو اصل مسائل سے بھٹکانے اور انہیں مسلسل فریب میں رکھنے میں پوری طرح سرگرم ہیں۔ بنگلورو کے ویڈیو کو پوسٹ کرتے ہوئے ایک سیکولر ہندو دانشور، سریواستا نے اپنے ٹویٹ میں بجا تبصرہ کیا ہے کہ "یہ ہے بی جی پی کی غنڈہ گردی کی سطح”۔
حالات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکومت پہلی اور دوسری لہر کی طرح تیسری لہر کے تعلق سے بھی بالکل غیر سنجیدہ ہے اور اب تک اس کی طرف سے ایسا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا جس سے محسوس ہو کہ اسے تیسری لہر کی خطرناکی کا کچھ بھی احساس ہے، جبکہ ماہرین کی رائے میں کورونا کی تیسری لہر ہندوستان کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گی اور اگر اس کے تعلق سے وقت رہتے پوری تیاری نہیں کی گئی تو اموات اور کرونا کے مثبت اندراجات (پازیٹیو کیسز) کے لحاظ سے ملک کی حالت مزید ابتر ہو جائے گی۔ کورونا کے تعلق سے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی اور انسانی جانوں کے تحفظ کی بجائے دیگر ترجیحات کی طرف توجہ کے معاملے میں یو پی سے کرناٹک تک بی جے پی حکومتوں کا یکساں حال ہے۔ یہاں تک کہ الٰہ آباد عدالت عالیہ کو اس جانب بار بار توجہ دینی پڑی، اس نے کورونا کے حوالے سے یو پی میں نظر آنے والی افسوسناک بد انتظامیوں کے لیے یوگی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور اس پر پھٹکار بھی لگائی ہے۔ عدلیہ نے خود آگے بڑھ کر اپریل کے دوسرے ہفتے میں اپنے ایک حکمنامہ کے ذریعہ غفلت میں پڑی صوبائی حکومت کو کورونا مریضوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ہدایات کے ساتھ اسے صوبے کے پانچ بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن لگانے کا حکم دیا اور کورونا سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں اور حکومت کی لا پروا روش پر پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس سے جواب طلب کیا۔ عدالت نے کثرت سے ہو رہی اموات کو نسل کشی یا قتل عام (Genocide) سے تعبیر کیا ہے۔ اس نے حکومت کے سیاسی ومعاشی بہانوں کو درکنار کرتے ہوئے اس کی سرزنش کی اور انسانی زندگیوں کو معاشی فوائد سے کہیں اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ معیشت تو دوبارہ بحال ہو سکتی ہے لیکن حکومت کی انتظامی لاپروائی کی بھینٹ چڑھ رہی عوام کو زندگیاں دوبارہ نہیں مل سکتیں۔ ظاہر ہے کہ قتل عام طبعی اموات کو نہیں کہتے بلکہ یہ وہ مرگ انبوہ ہے جو کسی حکومت یا کسی گروہ کے غلط اقدام یا مجرمانہ غفلت یا بد نیتی کے نتیجے میں واقع ہوتا ہے۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ خود اپنا محاسبہ کرے اور دیکھے کہ اس خون سے اس کے ہاتھ کتنے رنگین ہیں۔
یو پی میں کورونا سے ہونے والی اموات کے لیے عدلیہ کا یہ لفظ استعمال کرنا یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ صوبے میں کورونا کے سبب ہونے والی ہلاکتیں اپریل کے دوسرے ہفتے میں ہی سرخ لکیر پار کر چکی تھیں۔ سلام ہے ان ججوں کو جنہوں نے حکومت و انتظامیہ کے مقابلے میں زیادہ چوکسی کا ثبوت دیا اور لاک ڈاؤن کی سفارش کے علاوہ صوبائی حکومت کو بہت ساری ہدایات دیں جس میں عارضی اسپتال کھولنے اور ڈاکٹروں کی وقتی بھرتیاں کرنے جیسی ہدایتیں بھی شامل ہیں۔ لیکن افسوس کہ حکومت نے اس وقت اس پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور اپنے اڑیل رویہ کی وجہ سے عدالت عالیہ کی بروقت سفارشات سے کوئی فائدہ اٹھانے کی بجائے اسے اپنی حکومت پر ایک تہمت کی طرح دیکھا اور اسی لحاظ سے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ یاد رہے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ اپنے مشاہدے اور معتبر ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کی بنیاد پر لیا تھا، اس فیصلے میں اس نے میرٹھ اور دوسرے شہروں میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہوئی درجنوں اموات اور قرنطینہ مراکز کی بد تر صورت حال کا نوٹس لیا تھا اور ساتھ ہی ماسک اور سماجی فاصلہ بندی کے اصولوں کی ان دیکھی کیے جانے پر پولیس کی سرزنش کی تھی اور حکومت کو لاک ڈاؤ لگانے کا حکم دیا تھا۔ اس لیے کہ اس وقت تک حکومت کا ناکام نظم اور انتظامیہ کا نکما پن اس کے سامنے پوری طرح بے نقاب ہوچکا تھا۔ اگر حکومت اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی تو عدلیہ کو یہ قدم اٹھانے کی ضرورت پیش نہ آتی، لیکن اسے مجبوراً یہ قدم اٹھانا پڑا کیونکہ اس نے کورونا کے دوران عام آدمی کی تکلیف آور بے چارگی دیکھی تھی۔ یہ کنول جیت سنگھ ہیں جو 19 اپریل کو اپنے 58 سالہ والد نرنجن پال کو ایمبولنس میں آکسیجن سیلنڈر کے ساتھ لیے ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال چکر لگاتے رہے لیکن چار اسپتالوں نے بھی بیڈ کی کمی کا عذر کر کے انہیں واپس کر دیا یہاں تک کہ اس دوران ان کے والد ان کے سامنے دم توڑ گئے۔ انہوں نے کہا "یہ میرے لیے ایک دل توڑنے والا دن تھا۔ مجھے یقین ہے اگر میرے والد کو وقت پر اسپتال میں داخل کیا گیا ہوتا تو ضرور زندہ ہوتے (بی بی سی: 20 اپریل)۔ اور یہ ہیں گومتی نگر لکھنؤ میں رہنے والے سابق جج رمیش چندر 13 اپریل کو اپنی اہلیہ مدھو چند کو لیکر شہر بھر میں دوڑتے رہے اور انہوں نے ڈی ایم سے لیکر سی ایم او تک سبھی سے رابطہ کیا لیکن کوئی ان کی مدد کو نہیں پہنچا، سرکاری اسپتال نے سات گھنٹے انتظار کروانے کے بعد انہیں بیڈ کی کمی کا حوالہ دے کر گھر واپس بھیج دیا جہاں ان کی بیوی بھی بغیر کسی مناسب علاج کے زندگی کی بازی ہار گئیں۔ وہ غم وغصہ سے کہتے ہیں "ان سب نے اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا”
"They kept us hanging. She died at home. They left her to die”
( The Hindu: 17 Apr, 2021)
ہے رحم کورونا اور بے حس انتظامیہ کی وجہ سے اپنے قریب ترین لوگوں کو کھونے والے ایسے سیکڑوں غم زدہ خاندان ہیں جو ہمیں خون کے آنسو روتے ہوئے ہمیں اپنی داستان غم سنا رہے ہیں، لیکن گونگی بہری سرکاروں تک ان کی آوازیں اب بھی نہیں پہنچ رہی ہیں۔ یہی وہ اصل صورت حال ہے جس نے ہائی کورٹ کے ججوں کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور انہیں خود آگے بڑھ کر ہدایات جاری کرنی پڑیں، اس لیے کہ انہوں نے ایسے کتنے ہی لوگوں کو اپنے عزیزوں کو وقت پر امبولینس، بیڈ یا ٹریٹمنٹ نہ ملنے کے سبب بڑی بے بسی سے دم توڑتے دیکھا تھا۔ لیکن عدلیہ کے برخلاف حکومت کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ انتظامیہ بالکل مردہ بنی رہی اور صوبے کے وزیر اعلیٰ خود کو حالت قرنطینہ میں ڈال کر اپنا ذہن سیاسی وانتخابی سرگرمیوں پر مرکوز کیے رہے۔ حکومت کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ عدالت عالیہ کی ہدایات و تنبیہات کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ الٹا اس نے آکسیجن یا اسپتالوں میں بستروں کی کمی کی شکایت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ وزیر اعلیٰ یوگی نے پولیس کو ہدایت کہ ایسی باتیں یا اس کے بقول ” افواہ” پھیلانے والوں کے خلاف بدنام زمانہ قانون نیشنل سیکورٹی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت کارروائی کی جائے چنانچہ اسی دوران ایک ایسے شخص کے خلاف جس نے اپنے ایک ٹویٹ میں اپنے ایک دوست کے دادا کے لیے ایک آکسیجن کی فراہمی کی اپیل کی تھی، ایف آئی آر درج کی گئی۔۔۔۔ یعنی جو چیز ننگی حقیقت کی طرح عیاں تھی اسے نظر انداز کر کے وزیر اعلیٰ نے ان شکایتوں کو حکومت کو بدنام کرنے کی سازش سے تعبیر کیا اور انتظامیہ کو اپنی بپتا سنانے والے عام لوگوں، یا نظم میں کسی طرح کی کمی کی شکایت کرنے والے مریضوں، تیمارداروں یا کسی چیز کی کمی کا ذکر زبان پر لانے والے اسپتال کے عملہ کے خلاف فوری ایکشن لینے کا حکم صادر کر دیا۔ دوسری طرف کورونا کی وجہ سے صوبہ کی بد تر ہوتی حالت پر پردہ ڈالے رکھنے کی نیت سے حکومت 14 اپریل 2021 کو دو سے تین ہفتے کے لیے صوبے میں لاک ڈاؤن لگانے کے تعلق سے عدالت عالیہ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی اور اس کے قدم کا بی جے پی کی مرکزی حکومت اور اس کے سولیسیٹر جنرل تشار مہتا نے بھی بھر پور ساتھ دیا اور سپریم کورٹ میں الٹا لاک ڈاؤن کو نقصان دہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ حسب سابق سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے منشا کا خیال رکھتے ہوئے ایک بار پھر ایک ناقابل فہم فیصلہ دیا اور یو پی کی بگڑتی صورت حال اور عوام کے دکھوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے عدالت عالیہ کے فیصلے پر روک لگا دی اور لاک ڈاؤن کی سفارشات پر مبنی الٰہ آباد کورٹ کے فیصلے کو معلق کر دیا۔ دانشوروں اور معروف تجزیہ نگاروں کی اس رائے سے اتفاق نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یو پی حکومت نے اتنی نادانی کا فیصلہ محض کمبھ میلہ اور حال ہی میں ختم ہوئے صوبہ میں پنچایتی انتخابات کی رعایت میں اور اپنی حکومت کی خامیوں کو چھپانے اور اسے چاق وچوبند ثابت کرنے کی غرض سے ہی کیا ہے۔ بے شک ہر حکومت کی اپنی کچھ سیاسی و انتظامی مصلحتیں ہوتی ہیں لیکن کم سے کم کورونا جیسی ہلاکت خیز وبا کے دوران ایک جمہوری حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ محض اپنے سیاسی مفادات کے لیے سیکڑوں کی تعداد میں ہو رہی اموات کو نظر انداز کر کے کوئی ایسا فیصلہ لے گی جو ہلاکتوں کو بڑھانے اور وبا کی جڑوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنے۔ اس پر سپریم کورٹ کا حکومت کے حق میں اسٹے دینا مایوسیوں میں اضافہ ہی کرتا ہے۔ بہر حال اس فیصلے اور حکومت کے ناعاقبت اندیش رویے کی وجہ سے نہ صرف صوبے میں کورونا کو پیر پسارنے کا بلکہ یوگی حکومت کو من مانی کرنے کا بھی پورا موقع مل گیا۔ اور اب جب کہ کورونا اس صوبے میں خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے تو وہی یوگی حکومت آج کل صوبے میں ویک اینڈ کا جزوی کرفیو لگا کر اور 29 اپریل کو اسے دو دن کے کرفیو میں تبدیل کر کے اپنے گناہوں کی تلافی کرنے کا ڈھونگ کر رہی ہے۔ حکومت کے اسی اڑیل رویے کو دیکھتے ہوئے عدلیہ کا اس کے اوپر بالواسطہ قتل عام کا الزام لگانا مناسب ہے یا نہیں اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔
یہ صرف بی جے پی حکومت والے ایک صوبے کا حال نہیں ہے بلکہ مرکز کا بھی کم وبیش یہی رویہ ہے، تمام سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل کر کے کورونا کے خلاف اپنے کیل کانٹے درست کرنے کی بجائے دیکھا یہ جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت اپنے آئی ٹی سیل اور کچھ فلمی گرگوں کی مدد سے اپنے کو صحیح اور پوری دنیا کو غلط ثابت کرنے میں لگی ہے، اور کچھ نہ کر کے بھی وزیر اعظم کو ہیرو بنانے میں لگی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تمام حقائق کو بے شرمی سے نظر کرتے ہوئے اس کے وزراء وقائدین یہ ڈینگیں نہ مارتے پھرتے کہ "امریکہ کورونا کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا جب کہ مودی نے اپنے ملک کو بچا لیا”۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے ارباب اقتدار کورونا پر سیاست کرنے کے بجائے اس کے تباہ کن اثرات کو جلد از جلد ختم کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے اور اب تک جو ناکامی یا بد انتظامی سامنے آئی ہے اپنے مثبت اقدامات سے اس کی کچھ تلافی کرنے کی کوشش کرتے لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے، مودی اور ان کے ساتھی اپنی ناکامیوں کو آج بھی اپوزیشن کی کارستانی اور سازشی تھیوری میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت نہ تو ویکسین کے تعلق سے امریکہ سے کوئی خاطر خواہ ڈیل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ کورونا کی دوسری لہر کو دیکھتے ہوئے ملک میں جگہ جگہ آکسیجن پلانٹ کی تنصیب یا اسپتالوں اور کرونا مراکز کے قیام میں ہی اب تک کوئی اطمینان بخش قدم اٹھا سکی ہے۔ کورونا سے متعلق 2020 کی تیاریوں کے نتیجے میں امریکہ نے ہر ایک لاکھ کورونا مریضوں پر چھبیس آئی سی یو بیڈز کا تخمینہ طے کیا تھا اور اس کی دوسری لہر سے آنے پہلے ہی اس ہدف کو حاصل کر لیا، جبکہ دوسری لہر آنے سے پہلے اور 2020 کے آغاز میں چین کے پاس ہر ایک لاکھ پر تین اعشاریہ چھ آئی سی یو بیڈز تھے اور بھارت اس سے بھی پیچھے محض دو اعشاریہ تین بیڈز تک محدود تھا، اور اب بھی مریضوں کی بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے اعدادو شمار میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے۔ یہی حال آکسیجن پلانٹ کا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کورونا کے نام پر بی جے پی حکومت کی طرف سے پی ایم کیر فنڈ میں چندے سے کھربوں روپے نان ٹیکسیبل فنڈ میں اکٹھا کیے گئے تھے، جب 2020 میں تمام طبی تخمینات سے یہ واضح ہو گیا کہ کورونا سے متاثر مریضوں کی جانیں بچانے میں آکسیجن کی دستیابی کا بہت کلیدی رول ہوگا تو مرکزی حکومت نے انتظامیہ کو تمام ضلعی اسپتالوں میں پی ایس او آکسیجن پلانٹ کی فنڈنگ کا مجاز کر دیا اور وزیر اعظم کیر فنڈ سے ملک بھر میں 162 آکسیجن پلانٹ لگوانے کے لیے بڑی رقم مختص کی گئی۔ لیکن اب تک کی اطلاع کے مطابق یہ ہدف مشکل سے 30 پلانٹ تک پہنچ پایا ہے، جس میں سے بہت سے مقررہ نشانے کو پورا کرنے میں ناکام ہیں۔ خود بی جے پی حکومت والی سب سے بڑی ریاست، اتر پردیش میں ابھی تک صرف ایک پلانٹ لگ پایا ہے جب کہ سب سے زیادہ اسی ریاست میں پلانٹ لگانے کے لیے فنڈ فراہم کیا گیا تھا۔ اب تو کورونا کی تیسری خطر ناک لہر ہندوستان میں دستک دے رہی ہے لیکن حکومت کی لاپروائی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ہماری حکومت کی اس روش پر سر پیٹ رہے ہیں اور عالمی میڈیا اس کا تمسخر اڑا رہا ہے۔
مثال کے طور پر بی جے پی حکومت اور وزیر اعظم مودی کورونا کے تعلق سے کس قدر مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں عالمی خبر رساں ادارے سی این این نے اس کی تصویر اپنے ایک تجزیے میں پیش کی ہے اور بنگال کی ایک انتخابی ریلی میں مسٹر مودی کی "بنا ماسک” والی ویڈیو کلپ دکھاتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ 22 مارچ سے کورونا کی مار سے بھارت میں ہر آنے والا دن بد سے بد تر صورت حال پیش کر رہا ہے جب کہ "17 اپریل وہ دن ہے جب ایک بنا ماسک کا وزیر اعظم مودی” صوبائی انتخابی ریلی میں یہ ڈینگیں مار رہا کہ "میں نے کسی ریلی میں اتنا بڑا مجمع اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا”۔ پھر وہ آگے لکھتا ہے کہ ٹھیک اسی دن اس کا ملک وبائی بحران سے دوچار ہے جب کورونا کیسز کی یومیہ تعداد اب تک کا سب سے اونچا نشان چھوتے ہوئے 261000 پہنچ گئی، یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے جس کا تجربہ بہت سے ملکوں نے پورے وبائی دورانیہ میں کیا ہے۔
( CNN World: May1, 2021)
اس لاپروائی کے اسباب بہت ہو سکتے ہیں لیکن میرے نزدیک اس کا سب سے بڑا سبب اس سیاسی سوچ میں مضمر ہے جس کی موجودہ حکومت کے ارباب اختیار آنکھ بند کرکے اتباع کر رہے ہیں، یہ سوچ ایک جابرانہ سیاسی نظام والی سوچ ہے جس کی پہلی اور آخری ترجیح عوام کی خدمت یا ان کی جان و مال کی حفاظت نہیں بلکہ ان پر ہر حال میں اپنا جابرانہ تسلط قائم و دائم رکھنا ہوتا ہے۔
آج کل سپریم کورٹ کے ججوں کی طرح الیکشن کمیشن کے ذمہ دار بھی مرکزی حکمرانوں کے اشارے پر کاربند نظر آتے ہیں، اس سلسلے میں نہ تو انہیں حق وانصاف کا خیال رہتا ہے اور نہ اس ملک کے عام انسانوں کی جان ومال کا۔ یو پی الکشن کمیشن صوبے میں کورونا کے بڑھتے انفیکشن اور اموات کی تعداد میں روز افزوں اضافے کے باوجود یہاں پنچایتی الیکشن کرانے پر بضد رہا اور الیکشن ملتوی کرنے کے حق میں مختلف این جی او اور رفاہ عامہ سے متعلق بعض اداروں اور عوامی نمائندوں کی درخواستوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پنچایتی الیکشن کو بالآخر منعقد کیا جس میں ملکی سطح کے اخبارات اور چینلوں، جیسے ہندی روزنامہ "امر اجالا” اور آج تک چینل، کے مطابق کورونا کے سبب دیگر اموات کے علاوہ الیکشن کی انتظامی ڈیوٹی پر تعینات تقریباً 135 اساتذہ اور دوسرے کارندوں کی موت ہو گئی۔ الیکشن کمیشن کی اس بدبختانہ روش پر بھی 27 اپریل 2021 کو جسٹس سدھارتھ ورما اور جسٹس اجیت کمار پر مشتمل ایک دو نفری بنچ کے ذریعہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے سوموٹو نوٹس لیا اور اس کے ذمہ داروں سے ایک سو پینتیس ملازمین کی موت کے بارے میں جواب طلب کیا اور کہا کہ کیوں نہ انہیں اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ الیکشن کمیشن عدلیہ کی نوٹس کا کیا جواب دیتا ہے اور عدالت اسے اس مجرمانہ کوتاہی کی کیا سزا دیتی ہے یہ تو آئندہ معلوم ہو گا لیکن موجودہ یو پی حکومت کی طرح اس انتخاب کے برے اثرات اور حکومت کی غلامی میں آگے بڑھتا موجودہ الیکشن کمیشن کا کورونا کو بڑھانے میں جو رول ہے اسے سمجھنے کے لیے عدالت عالیہ کی اپنی مفاد عامہ کی رٹ (سو موٹو پی آئی ایل) ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ تاہم عدلیہ کے وہ الفاظ صورت حال کو مزید واضح کرتے ہیں جن کے ذریعہ اس نے الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے حوالے سے اپنا مشاہدہ پیش کیا ہے اور کہا ہے
"ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نہ تو پولیس اور نہ ہی الیکشن کمیشن نے ڈیوٹی پر تعینات ملازمین کو مہلک وائرس سے بچانے کے لیے کچھ کیا ہو”
الٰہ آباد ہائی کورٹ کا یہ ریمارک نہ صرف کورونا کے تعلق سے حکومت کی انتظامی خامیوں اور اس کی لاپروائی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ انسانی جانوں کے تئیں اس کی شرمناک بے حسی کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
اس کے علاوہ جج سدھارتھ ورما اور جج اجیت کمار پر مبنی ایک بنچ نے یوگی حکومت کی گوشمالی کرتے ہوئے جو تاریخی الفاظ استعمال کیے ہیں وہ عدلیہ کے فیصلوں میں اب کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ الفاظ قدیم وجدید ماہرین سیاسیات اور جمہوریت کے نظریہ سازوں کے اس تصور کی تائید کرتے ہیں جس میں بعض ایسی علامتیں پیش کی گئی ہیں جو ایک کامیاب و انصاف پسند جمہوری حکومت (Good Governance) کے منافی اور اس کی ناکامیوں کی دلیل مانی جاتی ہیں۔ اس فیصلے میں حکومت سے متعلق کثیر جہتی ریمارک کے تین پہلووں سے اس کی وضاحت بخوبی ہو جاتی ہے:
۱۔ فیصلے میں واضح طور سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ کورونا مراکز میں آکسیجن اور بیڈز کی قلت سے عام آدمی ہی زیادہ متاثر ہے اس کی وجہ یہ کہ ان دونوں چیزوں پر وی آئی پیز کا قبضہ ہے اور ان کی سفارش سے یہ چیزیں یعنی اسپتال میں داخلہ اور زندگی کی محافظ (لائف سیونگ) دوائیں مخصوص لوگوں کو ہی حاصل ہو پاتی ہیں اور عام آدمی بے یار و مدد گار رہ جاتا ہے۔
۲۔ اس میں دوسری اہم بات کہی گئی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ یہ صوبہ کورونا کی شدید گرفت میں ہے اس کے وزیر اعلیٰ نے بجائے اس کے کہ سامنے آ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرے اور مناسب اقدامات کرے، خود کو قرنطینہ میں ڈال کر سب کچھ حالات پر چھوڑ دیا، گویا روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے والی صورت حال ہے۔
۳۔ تیسری بات کا براہ راست تعلق گورننس (طرز حکمرانی) سے ہے اور عدالت نے صوبہ میں کورونا کی وجہ سے طب وصحت کی بدتر حالت اور بے قابو ہوتی بحرانی کیفیت کے لیے واضح طور سے حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس کی روش کو جمہوریت اور اس کے تقاضوں کے منافی قرار دیا ہے۔ عدلیہ کے یہ الفاظ کسی بھی حکومت کے لیے ایک تازیانہ سے کم نہیں ہیں:
"Those in the helm of affairs of governance are to be blamed for the present chaotic health problems and more so when there is a democracy which means a government of the people, by the people and for the people,”
یہ حال ہے اس ملک کا جہاں اس وقت ہر روز تقریباً 5 لاکھ (غیر سرکاری آٹھ سے 10 لاکھ) کورونا کے نئے معاملات درج ہو رہے ہیں اور جہاں ہر دن تقریبا 5000 ہزار (غیر سرکاری 6 سے 40 ہزار) افراد اس وبا کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے نہ تو حکمرانوں کی تاناشاہی طرز حکومت میں کوئی تبدیلی نظر آ رہی ہے اور نہ ہی اس کے کارندوں کی فسطائی اور فرقہ پرقہ پرست ذہنیت میں کوئی فرق دکھائی دے رہا ہے۔ اس بے حس اور حیوانی رویے کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ ایک تو حکومت کا اپنی ناکامیوں کو چھپانا اور دوسرا اپنے پرانے ایجنڈے کو اپنے ہم نواوں کے سامنے دہراتے رہنا جو اس سیاسی تنظیم اور اس کے مکتبہ فکر کی اساس ہے۔ یعنی ہندو مسلم منافرت اور اسلام دشمنی کا ایجنڈا۔ پوری دنیا اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ اس نفرت انگیز ایجنڈے کے ساتھ یہ پارٹی پہلے دن سے سیاست میں داخل ہوئی ہے اور ملک کے حالات جیسے بھی نا گفتہ بہ رپے ہوں وہ خود کو اپنی مسموم ذہنیت سے کچھ دنوں کے لیے بھی الگ نہیں کر پاتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اپنا اصل ایجنڈا مسلسل نہ دہراتے رہیں اور ہندو-مسلم کھیل نہ جاری رکھیں تو انہیں ڈر ہے کہ کہیں ان کے نکمے پن اور ان کے کرتوتوں کے سبب عوام انہیں ہمیشہ کے لیے رد نہ کر دیں اور ان کی اصل استحصالی تصویر ان کے اپنے اندھے بھکتوں سمیت اہل ملک کے سامنے عیاں نہ ہو جائے۔
اس کیفیت سے نجات اسی وقت ممکن ہے جب نکمی قیادت کے خلاف عوامی بیداری کو اس سطح پہنچا دیا جائے جہاں وہ ہر نفع ونقصان سے بے پروا ہو کر صرف حق وانصاف کے لیے لڑنے پر آمادہ ہو جائیں اور ان کی جدوجہد ایسا آتش فشاں بن جائے جس کی راہ روکنا شر پسند وگمراہ کن قوتوں کے بس میں نہ ہو۔ کیا کسانوں کی موجودہ تحریک یہ مقصد پورا کر پائے گی؟ کیا اس کے مقابلے کے لیے مسلمانوں کی تحریک کی بھی ضرورت ہے؟ ظاہر ہے کسی بھی مثبت اور بڑے مقصد کا حصول کسی طاقت ور تحریک کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ تحریک کورونا جیسے بحران سے لڑنے کے لیے بھی ضروری ہے اور ان طاقتوں سے مقابلے کے لیے بھی جو ملک کو اپنی غلط سوچ اور نا اہل قیادت سے تباہی کے دہانے پر پہنچا چکے ہیں اور ہمارے جمہوری و دستوری حقوق کو پورا کرنے میں عمداً یا سہواً ناکام ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں تو بس سیاسی بیانات اور مخصوص ریلیوں تک محدود رہتی ہیں لیکن دیرپا تحریکیں حق کی دعوت، انسانیت کی خدمت اور ظلم سے لڑنے کے لیے درکار عزم وہمت کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔ ایسی ہی تحریک سے مودی و یوگی جیسے حکمرانوں کی ظلم وزیادتی کا خاتمہ ہوگا اور ایسی ہی تحریک سے تیجسوی سوریہ جیسے فرقہ پرستوں کو دیوار سے لگانا ممکن ہوگا۔