بی جے پی کیوں بہار میں الجھن کا شکار ہے؟
10 لاکھ ملازمتوں کو ناممکن بتاکر 19لاکھ ملازمتوں کا وعدہ
ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
بی جے پی کو انتخاب جیتنے کی بہترین مشین کہا جاتا ہے۔ امیت شاہ چناو کےچانکیہ کہلا تے ہیں لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ چانکیہ کی دھرتی بہار میں یہ بیچارہ جعلی چانکیہ کنفیوژ ہوگیا ہے اور مشین فیل ہورہی ہے۔ اس کی تازہ مثال نرملا سیتا رامن کو انتخابی منشور جاری کرنے کے لیے بھیجنا ہے جو ٹھیک سے ہندی تک بول نہیں سکتیں ۔ مینی فیسٹو کوئی بجٹ تو ہے نہیں کہ وزیر خزانہ کے لیے اس کا پیش کرنا ضروری ہو۔ بی جے پی کے قومی صدر جگت پرشاد نڈا کا آبائی وطن ویسے تو ہماچل پر دیش ہے مگر ان کی پیدائش اور کالج تک کی تعلیم بہار کی راجدھانی پٹنہ میں ہوئی ہے۔ اسی شہر کے اندر وہ سنگھ کی شاکھا میں خاکی نیکر پہن کر شامل ہوئے اور تربیت حاصل کی ۔ آگے چل کر پٹنہ کالج میں سنگھ کی طلبا تنظیم اے بی وی پی سے وابستہ ہوئےاوراب کے صدرنشین ہیں، اس لیے منشور جاری کرناانہیں کا حق تھا لیکن شاید امیت شاہ نہیں چاہتے کہ نڈا کی مقبولیت میں اضافہ ہو اس لیے نرملا سیتارامن کو بھیج دیا ۔
12اکتوبر کو بی جے پی نے بہار کی انتخابی مہم کے لیے اپنے اسٹار پرچارکوں کی ایک فہرست شائع کی تھی ۔ اس میں وزیر اعظم مودی کے علاوہ جے پی نڈا کا نام سرِ فہرست تھا ۔ ان کے ساتھ راجناتھ سنگھ ، امیت شاہ ، دیویندر پھڈنویس، رادھا موہن سنگھ ، روی شنکر پرساد ، گری راج سنگھ ، اسمرتی ایرانی ، اشونی چوبے ، نتیانند رائے ، آر کے سنگھ ، دھرمیندر پردھان ، رگھوبر داس ، منوج تیواری ، بابولال مرانڈی ، نند کشور یادو ، منگل پانڈے ، رام کرپال یادو ، سشیل سنگھ ، چھیدی پاسوان ، سنجے پاسوان ، جنک چمار ، سمراٹ چودھری ، ویویک ٹھاکر ،یوگی ادیتیہ ناتھ اور نویدیتا سنگھ کا نام شامل تھا ۔ یہ سب بہترین ہندی میں فن خطابت سے واقف ہیں اس کے باوجود انہیں درکنار کرکے نرملا کا بھیجا جانا بی جے پی کا کنفیوژن نہیں تو اورکیا ہے؟ کچھ نیا کرنے کے چکر میں عجیب و غریب حماقت کر گزرنا اس حکومت کا شعار بن گیا ہے۔ بی جے پی نے جو انتخابی منشور پیش کیا اس میں فضول کی بے شمار بکواس کےساتھ دواہم نکات ہیں ۔ پہلا تو یہ کہ بہاری عوام اگر بی جے پی کو ووٹ دیں گے تو وہ انہیں مفت میں کورونا وائرس کا ویکسین دے گی۔ یہ بے انتہا احمقانہ اعلان ہے کیونکہ اس میں وباء کی رو ک تھام کو انتخاب سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ ایسا کرتے وقت نرملا سیتا رامن یہ بھول گئیں کہ وہ پورے ملک کی وزیر خزانہ ہیں اس لیے صرف بہار کے رائے دہندگان کو ووٹ کے بدلے ویکسین کا وعدہ نہیں کرسکتیں ۔انہیں یہ دھمکی دینا زیب نہیں دیتا کہ اگر این ڈی اے کو ووٹ نہیں دیا گیا ویکسین کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن صوبوں میں بی جے پی کی ریاستی حکومت نہیں ہے وہاں کے لوگ ووٹ نہ دینے کی سزا کے طور پر مفت ویکسین کی سہولت سے محروم کردیئے جائیں گے؟اور اگر سبھی کو مفت ویکسین ملنے والی ہے تو بہار کے منشور میں سب سے اوپر اس کا ذکر کس کو بیوقوف بنانے کے لیے کیا گیا ہے؟
بی جے پی کے منشور میں ملازمت کی بات دوسری بڑی حماقت ہے۔ پچھلے ہفتے تیجسوی یادو نے یہ اعلان کیا کہ وہ دس لاکھ لوگوں کو روزگار دیں گے۔ اس پر نتیش کمار نے مذاق اڑاتے ہوئے سوال کیا کہ اس کے لیے روپیہ کہاں سے لائیں گے ؟ ان کے نائب سشیل کمارمودی تو دو قدم آگے بڑھ گئے اور انہوں نے حساب کتاب لگا کر بتا دیا کہ فی الحال کتنی رقم سرکاری ملازمین پر خرچ ہورہی ہے ؟ اس فیصلے کے بعد مزید کتنا خرچ کرنا پڑے گا اور اگر سارا بجٹ تنخواہوں کی نذر ہوجائے گا تو دیگر ترقیاتی کاموں کے لیے کیا بچے گا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سارے اعدادو شمار بتاتے وقت سشیل کمار مودی کو اندازہ نہیں تھا کہ پارٹی کے منشور میں کیا کھچڑی پک رہی ہے؟ ۱۰ لاکھ ملازمتوں کو ناممکن بتانے والی پارٹی نے ۱۹ لاکھ ملازمتوں کا وعدہ کرکے خود اپنا مذاق بنالیا۔ سشیل مودی کے لیے جب اس زبردست سبکی کو سہنا مشکل ہو گیا تو وہ بھی شہنواز حسین کی طرح کورونا وائرس کا بہانہ بناکر انتخابی کوروکشیتر سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ویسے اگر یہ دونوں حضرات واقعی کورونا وائرس سے متاثر ہیں تو ان کی صحت کے لیے دعا کی جانی چاہیے۔ بی جے پی نے بہار کا انتخاب جیتنے کے لیے ایودھیا میں پھر سے شیلا نیاس کی نوٹنکی کی۔ جگت پرشاد نڈا نے دیکھا کہ اس سے دال نہیں گل رہی ہے تو این آر سی کا شوشہ چھوڑ دیا لیکن اب اس کی سمجھ میں آگیا کہ فی الحال بہار کے نوجوان کو رام مندر یا این آر سی میں دلچسپی نہیں ہے ۔اب انہیں وزیر اعظم کے دفعہ ۳۷۰، پلوامہ اور گلوان گھاٹی کے نام پر بہلانا پھسلانا ممکن نہیں ہے حالانکہ مرکزی حکومت اس محاذ پر بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔نئی نسل کے نوجوان کو پندرہ سال پرانے لالو یادو کے جنگل راج سے ڈرایا بھی نہیں جاسکتا اس لیے کہ اس نے تو وہ دیکھا ہی نہیں ہے۔ اس نے تو یہ دیکھا ہے کہ کورونا وائرس لاک ڈاون کے بعد جب وہ لوگ ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے اپنے گھروں کو آرہے تھے تو اترپردیش اور بہار کی پولس ان پر ڈنڈے برسا رہی تھی ۔ مودی جی آنکھیں موند کر کمبھ کرن کی نیند سورہے تھے ۔ کبھی تالی، تھالی بجوا رہے تھے تو کبھی دیا بتی جلوا رہے تھے ۔
بہار میں بیروزگاری کی شرح قومی اعدادوشمار کے مقابلے میں تقریباً دوگنی ہے یعنی اگر قومی سطح پر یہ 5.8فیصد ہے تو بہار میں اس کا تناسب 10.2 فیصد ہے۔ اسی لیے جب تیجسوی یادو بیروزگاری کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں تو نوجوان اس کی جانب متوجہ ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو اپنے منشور میں 19 لاکھ نوکریوں کا وعدہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا لیکن اگر غور سے دیکھا جائے توبراہ راست ملازمت صرف چار لاکھ لوگوں کو ملے گی باقی سب بالواسطہ ملنے والا روزگار ہے یعنی انتخابی جملہ بازی ہے۔ جی ڈی پی کے معاملے میں بہار کی کارکردگی قومی اوسط سے بہتر ہے یعنی ملک گیر سطح پر یہ شرح اگر 10فیصد ہے تو بہار میں یہ عدد 11.1فیصد پر ہے لیکن اس کا فائدہ عام لوگوں کو نہیں مل رہا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک عام بہاری کی اوسط سالانہ آمدنی صرف 44 ہزار روپے ہے جبکہ قومی سطح پر اوسط آمدنی اس سے تین گنا سے بھی زیادہ 1.35لاکھ روپے ہے ۔ اسی طرح بہار کی آبادی ملک کی جملہ آبادی کا 11فیصد ہے جبکہ قومی بجٹ سے صوبائی بجٹ کا موازنہ کریں تو وہ 6فیصدی ہے۔ نتیش کمار کے ۱۵ سالہ دور حکومت کے باوجود یہ حالت ہے ۔ وزیر اعظم نے سہسرام کے اندراپنی پہلی تقریر میں لالو پرساد یادو کے جنگل راج کا راگ الاپ کر یہ بتایا کہ نتیش کمار نے اسے ختم کردیا لیکن سرکاری اعداو وشمار اس کی تائید نہیں کرتے ۔ ہندی نیوز پورٹل ’جن ستّا‘ کے مطابق نتیش راج کے گزشتہ 10سال میں یعنی 2009 سے 2019کے درمیان بہار میں قتل کے معاملوں میں 5فیصد کا اضافہ ہوا ہے جب کہ قتل کی کوشش کے معاملوں کی تعداد 2004کے مقابلے 2019میں 148فیصد یعنی ڈیڑھ گنا بڑھی ہے۔ 2004سے 2019کے درمیان بہارکے اندر اغوا کے معاملوں میں 214فیصد اضافہ ہوا یعنی دوگنا ہوگئے۔وہیں 2009اور 2019کے درمیان ڈکیتی کے معاملوں میں بھی 48فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح چوری، چھینا جھپٹی اور رنگداری جیسے جرائم میں بھی نتیش راج کا ریکارڈ بہتری کا اشارہ نہیں کرتا۔جرائم کے اضافہ کا ایک اہم سبب پولیس کی تعداد کا فقدان ہے۔ 2009میں پولیس کے 30فیصد عہدے خالی تھے،ہونا تویہ چاہیے تھا کہ اس کو پر کیا جاتاتاکہ نوجوانوں کو روزگار بھی ملتا نظم و نسق میں بھی بہتری آتی لیکن 2019 کے آتے آتے یہ تعداد بڑھ کر 38 فیصد ہو گئی۔
وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن نے ملازمتوں کا اعلان کرکے جو غلطی کی اس سے بڑی حماقت وزیر اعظم نے لالو راج کے بارے میں یہ کہہ کر کردی کہ اس وقت جب کوئی بچی باہر جاتی تو ماں باپ اس کے لوٹنے تک فکر مند رہتے تھے ۔ ان کا یہ جملہ سن کر اتر پردیش کے جنگل راج کی یاد آگئی لیکن اس معاملے میں نتیش کمار کی حالت یوگی سے بھی بدتر ہے۔ نتیش راج کی تعریف و توصیف کرنے سے قبل وزیر اعظم کو ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کی بہار کے بال گریہہ(بچوں کا گھر) کی سوشل آڈٹ رپورٹ کو دیکھ لینا چاہیے تھا جس میں محکمہ سماجی فلاح و بہبود کے تحت چلنے والے 38 ضلعوں میں 110 بال گریہہ کا جائزہ لیا گیا ۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر مظفرپور شیلٹر ہوم کےخلاف پاکسو ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس کے بعد پولیس نے اس سے منسلک برجیش ٹھاکر، کرن کماری اور مینو دیوی، وغیرہ کو گرفتار کر کےجیل بھیج دیا۔ تفتیش کے بعد طبی جانچ میں پایا گیاتھا کہ مذکورہ شیلٹر ہوم کے اندر42میں سے 29 لڑکیوں کی آبرو ریزی کی گئی ۔ ایک لڑکی کو وہاں کے ملازمین نے پیٹ پیٹکر مار ڈالااور احاطے کے اندر ہی دفن کر دیا۔
ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کی اس رپورٹ میں بہار کےمزید 14 شیلٹر ہومس میں استحصال کی بات سامنے آئی ہے۔ اس میں وزیر سماجی فلاح و بہبود منجو ورما کے شوہر پر شک کا اظہار کیا گیا۔ نیوز لانڈری نامی پورٹل نے جب اس رپورٹ کے بعد فالو اپ کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ انتظامیہ، میڈیا اور سیاست عوام کی امیدوں کو تباہ کرنے کا آلہ کار بن گئے ہیں اس لیے عصمت دری اور ظلم وستم کے واقعات عام ہو چکے ہیں۔بہار کی سابق وزیر برائے سماجی فلاح منجو ورما کے شوہر چندیشور ورما کا جب نام آیاتو وزیر موصوف نے اعلان کیا کہ ’’اگر الزام صحیح ثابت ہوتاہے تو میں خود اپنے شوہر کو پھانسی پر لٹکا دوں گی اور استعفیٰ دے کر سیاست چھوڑ دوں گی۔‘‘ اس بیان میں تین نکات ہیں پہلا استعفیٰ دینا اور اس کے علاوہ شوہر کو سولی چڑھانے کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیارکرلینا۔ نتیش کمار نے دباو میں آنے کے بعد منجو ورما سے استعفیٰ تو لے لیا لیکن اس معاملے میں ابھی تک کسی کو پھانسی نہیں ہوئی حالانکہ منجو ورما کے شوہر پر الزام گرلس شیلٹر ہوم میں زیر ملازمت ایک افسر کی بیوی نے لگایا تھا کہ وہ اکثر وہاں آتے اور گھنٹوں گزارا کرتے تھے۔ جہاں تک سیاست سے کنارہ کشی کا سوال ہے جنتا دل یو نے منجو ورما کو دوبارہ ٹکٹ دے کر یہ واضح کردیا کہ وہ اس معاملے میں بالکل سنجیدہ نہیں ہے۔
بہار کے اندر خواتین کے عدم تحفظ پر منجو ورما این ڈی اے کے دیگر رہنماوں نے کہا کہ صوبے میں لڑکیوں کے محفوظ و مامون ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سائیکل منصوبہ کی بدولت لڑکیاں سائیکل پراسکول جاتی ہیں لیکن یہ تو کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے لڑکیاں سائیکل پر اسکول جا رہی ہیں۔90 کی دہائی میں لالو۔رابڑی راج کے دوران پٹنہ میں ایک لڑکی آٹو رکشہ چلاتی تھی کیونکہ اس کے والد بیمار تھے۔ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے پٹنہ ایڈیشن نے یہ خبر بھی شائع کی تھی۔ اگر لڑکیوں کے تحفظ کا یہ پیمانہ ہے تو پھر وزیر اعظم کو لالو کے زمانے کو جنگل راج کہنا درست نہیں ہے۔ اس سے بہار میں سرکاری مدد سے چلنے والے شیلٹر ہوم کے اندر نابالغ لڑکیوں کے استحصال کا کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ سنگین الزامات غلط ثابت نہیں ہوتے سچ تو یہ ہے خواتین تحفظ کے مورچے پر نتیش کمار حکومت بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے، لیکن جانبدار میڈیا اسے نظر انداز کردیتا ہے ۔
نتیش کمار کی پہلی مدت کار 2005-10کے دوران ایک شادی شدہ خاتون کو برہنہ کرکے پٹنہ ایس ایس پی کی رہائش سے چند قدم دوری پر واقع ایگزبیشن روڈ پر گھمانے کا شرمناک واقعہ پیش آچکا ہے۔ ’ہندوستان ٹائمز‘کے مطابق یہ خوفناک جرم کھلے عام کیا گیا تھا۔4 جنوری 2011 کو ایک خاتون پرنسپل روپم پاٹھک نے پورنیہ کے بی جے پی رکن اسمبلی کوچاقو سے قتل کردیا کیونکہ جنسی استحصال کرنے سے بھی جب اس درندے کادل نہیں بھرا تو اس نے اس کی نابالغ بچی پر نیت خراب کر دی ۔ اس لیے وہ خاتون یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی ۔ اس کے بعد بی جے پی رکن اسمبلی کے حامیوں نے روپم پر حملہ کرکے اسےتقریباً قتل کردیا تھا لیکن طویل علاج کے بعد وہ بچ گئی ۔ اس دوران مظلومہ سے ہمدردی جتانے کے بجائے بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی نے پورنیہ جا کر اس خاتون کے کردار پر سوال اٹھائے ۔بہارکی خواتین کئی بار ’بہار مہیلا نیٹورک‘اور ’ناگرک پہل‘ نامی تنظیموں کے تحت بھوک ہڑتال کرچکی ہیں لیکن اس کے باوجود کئی علاقوں میں اجتماعی عصمت دری، خواتین کو بے لباس کرنے اور ان کا ویڈیو وائرل کرنے کے معاملے سامنے آئے ہیں ۔حقوق نسواں کی کارکن نیلو اور کنچن بالا کا دعویٰ ہے کہ بہار میں آج خواتین اپنے آپ کو جتنا غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں، ایسی حالت پہلے کبھی نہیں تھی ۔ جرائم پیشے اب کھلے عام جرم کا ارتکاب کرکے اس کا ویڈیو وائرل کرنے سے بھی نہیں ڈرتے۔
نتیش کمار کے خلاف فی الحال عوام میں عام طور پر اور نوجوانوں میں خصوصاً شدید ناراضگی ہے۔ اسی لیے وزیر اعظم نتیش کمار کے 15سالوں کا کارنامہ بتانے کے بجائے صرف اپنے 4سال کے ساتھ کی بات کرتے ہیں حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نتیش کمار کے یہی 4 سال سب سے زیادہ مایوس کن تھے۔ بی جے پی کو بار بار محسوس ہوتا ہے کہ نتیش کمار فی الحال سرمایہ نہیں بلکہ بوجھ بن گئے ہیں اس لیے وہ وزیر اعلیٰ کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے ۔ ایسادوسری بار ہورہا ہے۔ پچھلے پارلیمانی الیکشن (2014) میں بی جے پی نے 22 نشستیں جیت کرسوچ لیا تھا کہ اسے نتیش کمار کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسے صرف 2پر کامیابی ملی تھی۔ 2015 میں بی جے پی نے جے ڈی یو کے بغیر صرف ایل جے پی کے ساتھ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ نتیش کمار اس کے خلاف عظیم اتحاد میں شامل ہوگئے ۔ انتخابی نتائج نے امیت شاہ کے ہوش اڑا دیئے۔ بی جے پی تیسرےنمبر پر پہنچ گئی اور اس کی نشستیں 95سے گھٹ کر 56 پر آگئیں ۔ اس کراری ہار نے امیت شاہ کو اپنی کم مائیگی کا احساس دلا کر حقیقت پسند بنا دیا ۔
بی جے پی نے اپنی رسوائی کے بعد دو سال کے اندر نتیش کمار کو بلیک میل کرکے اپنے ساتھ ملا لیا۔ نتیش کمار نے اس بار کےقومی انتخاب(2019) میں بلیک میلنگ کے جواب میں بلیک میلنگ کرکے 2 کے مقابلہ 17 سیٹیں جھٹک لیں اور بی جے پی کو 22 سے 17 پر اتار لیا ۔ 2019 کے قومی انتخاب میں جب بی جے پی کی جیت 100 فیصد تھی تو جے ڈی یو کی صرف ۹۴ فیصد۔ اس وقت بی جے پی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ اس بار اسمبلی انتخاب میں بی جے پی نے کوشش کی کہ نتیش کمار کو کم نشستوں پر انتخاب لڑنے پر مجبور کیا جائے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکی تو معاملہ برابری پر چھوٹا یعنی 123نشستیں جے ڈی یو تو اس سے ایک کم 121بی جے پی کے حصے میں آئیں۔ جے ڈی یو نے اپنے حصے میں سے 7 مانجھی کی ہم پارٹی کو دے دیں اور بی جے پی نے اپنی جیب سے 11نشستیں وی آئی پی کو دے دیں اس طرح فی الحال بی جے پی 210 اور جے ڈی یو 215 پر لڑ رہی ہے۔ چراغ پاسوان کو الگ کرکے فائدہ اٹھانا بی جے پی کو مہنگا پڑا کیونکہ اس کےبعد نتیش کمارنے اسے یہ اعلان کرنے پر مجبور کیا کہ اگر بی جے پی زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوجائے تو بھی وزیر اعلیٰ وہی ہوں گے۔
بہاراسمبلی کی انتخابی مہم میں جہاں ایک طرف مودی ، نرملاسیتا رامن اور نتیش کماراوٹ پٹانگ تقاریر کررہے ہیں وہیں راہل گاندھی، تیجسوی یادو اور کنہیا کمار نے مودی اورنتیش کمار پر زوردار حملہ بول دیا ہے جسے لوگ پسند کررہے ہیں ۔تیجسوی یادو نے ڈبل انجن حکومت کے خلاف بدعنوانی اوربے روزگاری کا سوال اٹھایا ہے ۔ وہ کورونا وائرس اور سیلاب کے معاملے میں نتیش کمار پر تنقید کرتے ہیں جبکہ راہل گاندھی چین اور قومی معیشت کا مسئلہ اٹھا کر مودی کو گھیرتے ہیں ۔ اس ماحول میں جب تیجسوی کہتے ہیں کہ ان کی حکومت اعلیٰ ذات، دلتوں، غریبوں، پسماندوں، انتہائی پسماندوں، اقلیتوں سبھی کو ایک ساتھ لے کر چلے گی تو عوام جھوم اٹھتے ہیں ۔ تیجسوی یادونے اپنی تقریر کے دوران جب یہ اعلان کیا کہ 9 نومبر کو لالو جی کی رہائی ہو رہی ہے، اسی دن میرا یوم پیدائش بھی ہے اور 10 تاریخ کو نتیش جی کی وداعی ہوگی تو عوام کا پر جوش ردعمل قابلِ دید ہوجاتا ہے ۔ اس پر مودی جی کو کہنا پڑتا ہے اس طرح کچھ لوگوں کے سامنے آجانے سےیا تبدیلی کے ماحول سے انتخاب پر اثر نہیں پڑتا لیکن وہ بھول گئے کہ ایسا نہ ہوتا تو وہ خود 2014میں کامیاب نہیں ہوتے۔
***
نتیش کمار کے خلاف فی الحال عوام میں عام طور پر اور نوجوانوں میں خصوصاً شدید ناراضگی ہے۔ اسی لیے وزیر اعظم نتیش کمار کے 15سالوں کا کارنامہ بتانے کے بجائے صرف اپنے 4سال کے ساتھ کی بات کرتے ہیں حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نتیش کمار کے یہی 4 سال سب سے زیادہ مایوس کن تھے۔ بی جے پی کو بار بار محسوس ہوتا ہے کہ نتیش کمار فی الحال سرمایہ نہیں بلکہ بوجھ بن گئے ہیں اس لیے وہ وزیر اعلیٰ کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے ۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020