متین طارق باغپت
پیاری بیٹی سلام مسنون
مسعود میاں کے خط سے معلوم ہوا ہے کہ تم اب الگ گھر میں آگئی ہو۔ یہ ویسے تو خوشی کی بات ہے مگر میرے خیال میں تمہاری ذمہ داری پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ ایک جگہ رہنے میں تو گھر کے سبھی افراد پر گھر کا بار ہوتا ہے لیکن الگ رہنے میں پورے گھر کی ذمہ داری ایک آدمی پر آپڑتی ہے بہرحال گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ آدمی تو ہے ہی کام کرنے والی مخلوق اور خصوصاً عورت کا فرض گھر کی دیکھ بھال کرنا ہے چناں چہ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرف ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے۔ فرماتے ہیں۔
’’بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اُسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہوجائے۔ جب عورت کسی بات کا حکم دے تو وہ اطاعت کرے اور تم گھر میں نہ ہوتو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔‘‘
اس حدیث میں جو فرائض بتائے گئے ہیں وہ دائمی ہیں کیا اچھا ہو اگر دنیا کی سب عورتیں ان کے موٹے حرفوں میں لکھ کر اپنے گھر میں ٹانگ لیں تاکہ اٹھتے بیٹھتے یہ فرائض آنکھوں کے سامنے رہیں۔ یہاں میں کچھ اور احادیث نقل کرتا ہوں جو عورتوں سے متعلق ہیں۔ حضورﷺفرماتے ہیں:
ایک عورت جو پابند صوم و صلوٰۃ ہو جو عفیفہ ہو، شوہر کو خوش رکھتی ہو جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہوسکتی ہے (بخاری)
جنت اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور تقرب کا دوسرا نام ہے، اب جو عورت اس منزل تک پہنچنا چاہتی ہے تو اس کو چاہیے کہ روزہ نماز کی پابند بنے اپنے شوہر کی اطاعت کرے تا کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوجائیں اور اپنے انعامات سے نوازیں۔
ایک حدیث حضرت اسما بنت یزیدؓ سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ ’’میں اپنی کچھ ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی تھی کہ حضورﷺکا ہمارے پاس سے گزر ہو تو آپ ﷺنے ہمیں سلام کیا اور فرمایا تم اچھے سلوک کرنے والے شوہروں کی ناشکری سے بچو۔ پھر فرمایا تم عورتوں میں سے کسی کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنے والدین کے گھر لمبے عرصے تک کنواری بیٹھی رہتی ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے شوہر دیتا ہے اور اس سے اولاد ہوتی ہے پھر کسی بات پر غصہ ہوجاتی ہے اور شوہر سے یوں کہتی ہے کہ مجھے تجھ سے کبھی آرام نہ ملا۔ تو نے میرے ساتھ کبھی احسان نہیں کیا‘‘۔
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کی ایک کمزوری کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی اُن میں ناشکری کا روگ عام طور سے پایا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شوہر کے ساتھ رہ کر بیشتر نعمتیں اس کو ملتی ہیں لیکن وہ ان کو بھول جاتی ہے اور شکایت کرنا اپنا شعار بنالیتی ہے۔ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے بچنا چاہیے بلکہ جذبہ شکر کے ساتھ شوہر کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ
مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضلیت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مرد کے پیچھے اللہ کی نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے خاندانی زندگی کا ناظم مرد کو بنایا ہے اس لیے عورت کو اُس کو اطاعت کرنی چاہیے اور جب وہ معاش کی تلاش میں گھر سے باہر جائے تو اس کے پیچھے عورت اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے اور پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ اگر یہ کرلیا تو کام ختم ہوگیا نہیں بلکہ قیامت میں اس کی باز پرس ہوگی چنانچہ ایک حدیث میں حضورﷺفرماتے ہیں کہ’’تم میں سے ہر ایک نگراں و محافظ ہے اور تم میں سے ہر ایک سے پوچھا جائے گا ان لوگوں کی بابت جو تمہاری نگرانی میں ہوں گے امیر بھی نگراں ہے اور اس سے بھی اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور شوہر اپنے گھر والوں کا نگراں ہے نیز عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر نگراں ہے اور نوکر اپنے آقا کے مال پر نگراں ۔ تو تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور تم میں سے ہر ایک سے ان لوگوں کی بابت پوچھ تاچھ ہوگی جو اس کی نگرانی میں دیے گیے ہیں‘‘۔
یہ حدیث بڑی اہم ہے اور بار بار پڑھنے کے لائق ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرد صرف کھانے پلانے اور خرچ اٹھانے کا ہی ذمہ دار نہیں، بلکہ پورے گھر کے لوگوں کی تعلیم و تربیت اچھائی برائی اور دین واخلاق کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اور اسی طرح بیوی کی ذمہ داری شوہر سے بھی بڑھ جاتی ہے اور اپنے شوہر کے مال و اسباب روپیہ پیسہ کی نگراں تو ہے ہی اسی کے ساتھ بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری بھی اس پر ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کے بارے میں بھی قیامت کے روز اس سے باز پرس ہوگی۔
اس حدیث کی روشنی میں اگر عورتیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں، اور آخرت کی جوابدہی کا خیال ہمہ وقت اپنے سامنے رکھیں تو میرا خیال ہے کہ موجودہ ماحول کی بے چینیاں دم کے دم میں کافور ہوجائیں گی۔ فقط
تمہارا باپ