بیمار معیشت میں تغذیہ کی کمی کا بحران

بچے بدترین شکار۔ ملک کا مستقبل دائو پر !

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

دنیا بھر میں بچوں میں تغذیہ کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق دنیا میں تقریباً 69کروڑ افراد تغذیہ کی کمی کے شکار ہیں اور 14 کروڑ 40لاکھ بچے بدترین تغذیہ کی کمی میں مبتلا ہیں۔ 4کروڑ بچے تغذیہ کی کمی کی وجہ سے جسمانی طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں یہ مسئلہ زیادہ ہی گمبھیر ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک بچوں میں تغذیہ کی کمی کے خلاف اعلان جنگ کرچکے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق اس کے خاتمہ کی کوشش میں بھی لگے ہوئے ہیں مگر تمام تر کوششوں کے باوجود خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے۔ اس پر یہ عالمی کورونا کے قہر نے تغذیہ کی کمی کی آفت کو اور بھی بڑھادیا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے انسانی ادارہ سربراہ مارک بولاک نے سلامتی کونسل کو آگاہ کیا کہ کورونا بحران نے معاشی طور سےکمزور ممالک کے صحت عامہ کے شعبہ پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔ اس کی وجہ سےغریب اور کمزور ملکوں میں بھکمری میں اضافہ ہوگا۔ شہریوں کی اوسط عمر کم ہوجائے گی۔ تعلیم کی حالت اور بھی بدتر ہوجائے گی۔ بچوں کے اموات میں اضافہ ہوگا۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عالمی پیمانہ پر کورونا وائرس کے پھیلاو کے بعد تقریباً 10ہزار بچے ماہانہ محض بھوک کی وجہ سے مررہے ہیں۔ عالمی معاشی کساد بازاری کے بدترین سایے کی وجہ سے یہ اعداد و شمار مزید خطرناک ہوسکتے ہیں۔ بھارت کا حال بھی اس معاملے میں بدحال ہے کیونکہ معاشی کساد بازاری کی مار یہاں سب سے زیادہ پڑی ہے۔ لڑکھڑاتی معیشت کی جی ڈی پی میں پہلی سہ ماہی میں23.9فیصد گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جاریہ مالی سال 2020-21میں یہ منفی 10.3فیصد رہنے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے کہ کورونا قہر کی وجہ سے کروڑوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اس کا اثر بچوں کی صحت پر پڑنا لازمی ہے۔ ہماری نئی نسل اس طرح تغذیہ کی کمی کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جاتی رہے گی تو خود کفیل بھارت کا کیا ہوگا جو بھارت میں آج بھی 5سال سے کم عمر کے تقریباً 8لاکھ 80ہزار بچے ہر سال موت کے منھ میں جارہے ہیں۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق 2019میں 69فیصد بچوں کی موت محض تغذیہ کی کمی کے باعث ہوئی ہے۔ مگر مرکزی حکومت اس طرح کے اعداد و شمار کو بہت سنجیدگی سے لیتی نظر نہیں آتی۔ گزشتہ دہائی سے بچوں کی نشو و نما اور بہتری کے لیے حکومت نے کچھ کام کیا ہے۔ اس میں مڈ ڈے میل قابل ذکر ہے لیکن ملک میں معاشی ابتری اور بد عنوانی کی وجہ سے ایسے منصوبہ کو موثر بنانے کے لیے کئی طرح کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے کم عمر بچوں میں تغذیہ کی کمی کا بحران اور بھی بڑھ رہا ہے اس میں اس بات کا زیادہ ہی اندیشہ ہے کہ ہمارے ملک کے غریب اور دیہی علاقے کے بچوں کی پوری نسل بھرپور نشو و نما سے محروم نہ رہ جائے۔ بچوں کے فلاح و بہبود کے سلسلے میں ہماری حکومت بہت زیادہ حساس نہیں ہے کیونکہ بچوں پر سرمایہ کاری سے اسے فوری طور پر معاشی فائدہ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔ اس لیے بچوں کے لیے فلاحی منصوبہ کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ حکومت اپنے مستقبل کو داو پر لگاکر کبھی بھی نہ5 ٹریلین ڈالر والی معیشت بن سکتی ہے اور نہ ہی خود کفیل۔
یونیسف کی نئی رپورٹ دی اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2019کے مطابق 5سال سے کم عمر کا ہر تیسرا بچہ تغذیہ کے فقدان کا شکار ہوتا ہے اس معاملے میں ہمارے ملک کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ عالمی بھوک انڈیکس کے مطابق ملک میں کچھ معاشی بہتری کے باوجود ملک میں تغذیہ کی کمی کی حالت میں زیادہ تبدیلی نہیں ہوئی کیونکہ 107ممالک کے عالمی بھوک انڈیکس میں ہمارا مقام 94واں ہے۔ تحقیق کے مطابق کم عمر کے بچوں کے شرح اموات کے معاملے میں مدھیہ پردیش اونچائی پر ہے۔ یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی اعتبار سے 2018میں 5سال سے کم عمر کے 14.9کروڑ بچوں کا نشو و نما نہیں ہوا جبکہ تقریباً 5کروڑ بچے جسمانی طور پر کمزور ہیں۔ اس کا اثر نہ محض ان کے بچپن پر پڑا ہے بلکہ ان کا مستقبل بھی برباد ہورہا ہے۔ حال ہی میں پبلک ہیلتھ فاونڈیشن آف انڈیا آئی سی ایم آر اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف نیوٹریشن کے ذریعے ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی مختلف ریاستوں میں تغذیہ کی کمی کا پیمانہ مختلف ہے۔ جھارکھنڈ میں 3بچوں میں سے ایک بچہ بدترین تغذیہ کی کمی کا شکا رہے۔ اس لیے وہاں 29فیصد بچے جسمانی طور پر تباہ ہورہے ہیں اس کے علاوہ دیگر بڑی ریاستوں تامل ناڈو، مغربی بنگال ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور کرناٹک کے 5بچوں میں 1بچہ جسمانی طور پر تباہ ہوجاتا ہے۔ غریب ریاستوں میں بہار ، راجستھان اور اڑیسہ میں قومی اوسط میں بہتری کے ساتھ 13.4فیصد بچوں کی صحت تباہ ہے جبکہ اتراکھنڈ ، پنجاب و دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں یہ تباہی 10فیصد سے کم ہے مگر بچوں کی عمر کے حساب سے لمبائی میں کمی اور ٹھٹھراو بہار میں 42فیصد ہے اور اترپردیش ، مدھیہ پردیش میں یہ 40فیصد جبکہ جموں و کشمیر میں یہ محض 10فیصد ہے ۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق 2017میں ملک میں کم وزن والے بچوں کی پیدائش کی شرح 21.4فیصد رہی۔ جن بچوں کا نشو و نما نہیں ہورہا ہے وہ 39.3فیصد ، جلدی تھک جانے والے بچوں کا فیصد 15.9ہے۔ کم وزن والے بچوں کی تعداد 32.7 فیصد ہے۔ قلت خون سے متاثر بچوں کی تعداد 59فیصد اور اپنی عمر سے زیادہ وزن کے بچوں کی تعداد 16.5فیصد ہے حالانکہ 5سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات کے معاملے میں 1990کے مقابلےمیں 2017میں کمی آئی ہے۔ 1990میں یہ شرح فی لاکھ2,336تھی جو 2017میں گھٹ کر 801ہوگئی لیکن تغذیہ کی کمی والے اموات میں معمولی فرق آیا ہے۔ سال 1990میں 704فیصد کی یہ شرح 2017میں 62.8فیصد رہی یہ تشویشناک ہے کیونکہ تغذیہ کی کمی کا خطرہ کم نہیں ہوا ہے۔
ماہرین کا انتباہ ہے کہ اسکو دور کرنے کے لیے کوئی جادوئی چھڑی کار گر نہیں ہوسکتی۔ غذائی سلامتی کا خراب نظام، صفائی ستھرائی کا فقدان اور گھروں کی تنگی، صحت عامہ تک کم رسائی ماؤں کی تکالیف میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے ۔ بھارتی بچوں کی بربادی کا سبب ہوتا ہے حالیہ دنوں میں ملک کی غذائی اجناس کی بڑی پیداوار کے باوجود غریب کنبوں کو صحتمند غذائی اشیا کی رسائی بہت مشکل ہے۔ دی انٹیگریٹیڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز پروگرام نے ہدف طے کیا ہے کہ تغذیہ سے بھرپور غذا، بنیادی صحت کی دیکھ بھال اور ایمونائزیشن سرویس تمام کم عمر بچوں اور ان کی ماؤں کو بروقت فراہم کیا جائے کیونکہ صحت مند مائیں ہی صحتمند بچوں کے ساتھ بہتر مستقبل دے سکتی ہیں۔ فی الوقت تغذیہ کی کمی کا مسئلہ ایک بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے جسے باہر سے ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں دیہی علاقے اس طرح کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی پوری قوت رکھتے ہیں۔ تغذیہ کی کمی کا ایک علاج ممکن ہے اور وہ ہے تغذیہ سے بھرپور باغبانی (Nutrition Gardening)جسے ایک ماڈل بناکر سارے ملک میں پھیلایا جاسکتا ہے۔ سرکاری سطح پر اس طرح کی باغبانی سے ملک تغدیہ کی قلت سے نجات پاسکتا ہے۔ اس لے وہ مختلف ریاستوں میں تغذیہ سے پر باغبانی کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے جارہی ہے۔ جھارکھنڈ میں اس منصوبے پر کام شروع ہوچکا ہے۔
***

کورونا بحران پراقوام متحدہ کے انسانی ادارہ کے خدشات
• غریب اور کمزور ملکوں میں بھکمری میں اضافہ ہوگا
• شہریوں کی اوسط عمر کم ہوجائے گی
• تعلیم کی حالت اور بھی بدتر ہوجائے گی
• بچوں کے اموات میں اضافہ ہوگا
• ماہانہ 10ہزار بچوں کی بھوک کی وجہ سے موت

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020