بیلاروس۔پولینڈ سرحد پر پناہ گزینوں کا بحران

سردی میں ٹھٹھرتے مہاجرین اور بے رحم عالمی سیاست

مسعود ابدالی

بے خانماں شامی و عراقی عوام کی مفلوک الحالی پر مسلم و عرب دنیا مہر بہ لب
مشرقی یورپ اس وقت شدید سردی کی لپیٹ میں ہے جہاں درجہِ حرارت نقطہ انجماد سے کافی نیچے ہے۔خون جمادینے والی اس سردی میں مشرقی یورپ کے دو ملکوں، بیلاروس (Belarus) اور پولستان (Poland) کی سرحد پر ہزاروں شامی و عراقی پناہ گزین کھلے آسمان تلے اپنی کربناک موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ بدنصیب جنگ وبدامنی سے پریشان ہو کر پناہ کی تلاش میں نکلے ہیں۔ سرحد کے قریب موجود شامیوں نے ترکی، اردن اور لبنان میں پناہ لے لی لیکن بحر روم کے ساحل تک پہنچ جانے والے شامی، ٹوٹی پھوٹی کشتیوں پر نکل پڑے، جن میں سے ہزاروں کو سمندر نگل گیا۔ اب بچ جانے والے ’خوش نصیب‘ یورپ اُتر کر پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔
داعش کی چیرہ دستیوں کا شکار شمال مغربی عراق کے لوگوں نے بھی شام کے راستے بحرِ روم کا رخ کیا۔ کافی تعداد میں عراقی و شامی مہاجرین۔ ایران سے گزر کر آذربائیجان کے راستے مشرقی روس سے ہوتے ہوئے بیلاروس پہنچ گئے۔ ان بے خانماں لوگوں کو امید تھی کہ وہاں سے مغرب میں سرحد عبور کرکے وہ پولستان پہنچ جائیں گے جو یورپی یونین یا بزعمِ خود مہذب دنیا کا حصہ ہے۔ لیکن پولستانی افواج نے ان لوگوں کو اپنی سرحد پر روک دیا۔ دوسری جانب روس نے بیلاروس کی سرحد پر اپنے دستے تعینات کردیے جس کی وجہ سے یہ ہزاروں افراد یہاں پھنس کر رہ گئے۔ اب نہ وہ پولینڈ میں داخل ہوسکتے ہیں اور نہ بیلاروس کو واپسی ممکن ہے۔
مہاجرین کی ان پریشانیوں کی بڑی وجہ یورپ میں پناہ گزینوں کے خلاف ایک عام رویہ ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کا سب سے بڑا محرک یہی تاثر تھا کہ یونین کا حصہ ہونے کی وجہ سے سلطنتِ برطانیہ کا اپنی سرحدوں پر کوئی کنٹرول نہیں اور کسی بھی یورپی ملک میں داخل ہونے والا ’کنگلا و قلاش‘ مہاجر منہ اٹھا کر لندن چلا آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرحدوں پر پہرہ لگانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانیہ میں ’مزدوروں‘ کی سخت قلت پیدا ہو گئی۔ حال ہی میں لندن کے پٹرول پمپوں پر ایندھن ختم ہو گیا کہ تیل ڈھونے والے ٹرکوں کے لیے مطلوبہ تعداد میں ڈرائیور میسر نہ تھے۔ اس متعصبانہ فکر کے ساتھ روس و مغرب کی روایتی کشکمش نے مہاجرین کا معاملہ مزید خراب کر دیا ہے۔
ترانوے لاکھ نفوس پر مشتمل بیلاروس، بیلورشین سوویٹ سوشلسٹ ریپبلک یا Byelorussian SSR کے نام سے آنجہانی سوویت یونین کی ایک ریاست تھی۔ جب افغان مجاہدین کے ہاتھوں روس کے ٹکڑے ہوئے تو 1990 میں بیلاروس ایک آزاد ملک بن گیا۔ اسی دوران مشرقی یورپ پر بھی روس کی گرفت کمزور ہوئی اور اکثر ممالک نے کمیونزم کی چھتری سے باہر آکر مغربی جمہوری نظام اپنا لیا۔ بیلاروس پر روس کی سیاسی واقتصادی گرفت مضبوط رہی اور اب یہ روس اور مغربی دنیا کی سرحد ہے۔
بیلاروس کی آزادی اور نئے دستور کی منظوری کے بعد ہونے والے پہلے عام انتخابات میں سوویت یونین کے فوجی افسر اور کمیونسٹ پارٹی کے سابق رہنما الیگزینڈر لکاشینکو (Alexander Lukashenko) صدر منتخب ہوئے۔ جناب لکاشینکو اپنے انتخاب کے پہلے دن سے مغرب کے لیے ایک ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔ امریکا اور اس کے حلیفوں کو شکایت ہے کہ موصوف آمرانہ ذہن رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین، سول سوسائٹی اور آزاد میڈیا کے خلاف پر تشدد رویہ اپنایا ہوا ہے۔ان الزامات کے تحت 2006ء میں سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے بیلاروس پر پابندیاں کیں۔ بش انتظامیہ کے مطابق ان اقتصادی و سفارتی قدغنوں کا مقصد صدر لکاشینکو کی آمرانہ حکومت کو انسانی حقوق کے حوالے سے معقولیت پر مجبور کرنا تھا۔ جارج بش کے بعد اقتدار سنبھالنے والے صدر بارک اوباما نے بھی بیلاروس کے خلاف امریکی تعزیرات برقرار رکھیں۔
اگست 2020 میں ہونے والے کے انتخابات کے بعد اس کشیدگی میں شدت آگئی۔ اس چناو میں الیگزینڈر لوکاشینکو چھٹی مرتبہ بیلاروس کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔حزبِ اختلاف نے انتخابی عمل پر دھاندلی کا الزام لگا کر ملک گیر مظاہرے شروع کردیے جسے کچلنے کے لیے لکاشینکو سرکار نے مبینہ طور پر سخت گیر رویے کا مظاہرہ کیا۔ کئی ماہ جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران چالیس ہزار کے قریب افراد گرفتار کیے گئے اور سیکڑوں مخالفین کو پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان اقدامات پر مغرب کا ردعمل شدید تھااور امریکا کے ساتھ یورپی یونین نے لکاشینکو کی حکومت پر اضافی پابندیاں عائد کر دیں۔
اس سال مئی میں بیلاروس کے جنگی طیاروں نے یونان سے لتھوانیا جانے والی پرواز کا رُخ موڑ کر اسے اپنے دارالحکومت منسک (Minsk) اترنے پر مجبور کر دیا۔حزب اختلاف نے الزام لگایا ہےکہ اس کارروائی کا مقصد جہاز پر سوار حکومت مخالف صحافی رومن پروٹا سیوچ (Roman Protasevich) کو حراست میں لینا تھا۔ دوسری طرف بیلاروس شہری ہوابازی کا موقف ہے کہ
نجی ایئرلائن Ryanair کی پرواز 4978 انتباہ کے باوجود مقررہ فضائی راستے سے مخلتف سمت میں جا رہی تھی۔اس اقدام کے بعد یورپی یونین نے بیلاروس کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دیں اور تمام درآمدات پر پابندی لگادی جن میں پٹرولیم مصنوعات، پوٹاش، کھاد اور زرعی آلات شامل ہیں۔ان پابندیوں سے بیلاروس کی معیشت بیٹھ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
ان پابندیوں پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر لکاشینکو نے کہا کہ خراب معاشی حالات کے باعث ان کا ملک پناہ گزینوں کی میزبانی کا خرچ نہیں اٹھا سکتا لہٰذا بیلاروس کے لیے یورپی یونین سے کیے جانے والے اس معاہدے پر عملدرآمد جاری رکھنا ممکن نہیں جس کے تحت غیر قانونی تارکین وطن کو دوسرے ملک جانے سے روکنا میزبان ملک کی ذمہ داری ہے۔ ان کا ملک اب یورپی یونین کی طرف جانے والے والے پناہ گزینوں کے سفر میں رکاوٹیں نہیں ڈالے گا۔
یورپی یونین نے الزام لگایا ہے کہ معاہدے کی یکطرفہ منسوخی کے بعد بیلاروس حکومت نے عراق، شام اور دیگر ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کو پڑوسی ممالک پولینڈ، لتھوانیا اور لٹویا کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔ پولینڈ حکام کے مطابق بیلاروس کے حزب اختلاف کے رکن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سرکاری ٹورسٹ ایجنسی ان پناہ گزینوں کو سرحدی علاقوں تک سفر میں معاونت فراہم کر رہی ہے یعنی صدر لکاشینکو پناہ گزینوں کو پابندیوں کے خلاف بطور ’مہرہ‘ استعمال کر رہے ہیں۔
دوسری طرف بیلورشین صدر، یورپی یونین کی جانب سے سرحدوں کو بندش کو کٹھور دلی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے پولینڈ نے اپنی سرحد پر خصوصی پولیس اور مسلح دستے تعینات کر دیے ہیں اور یہ سپاہی بے سہارا پناہ گزینوں کو جانوروں کی طرح ہنٹر مار مار کر بیلاروس کی طرف واپس دھکیل رہے ہیں۔ سات آٹھ ہزار پناہ گزین انتہائی سرد موسم میں کھلے آسمان تلے ہیں اور گزشتہ تین چار دنوں میں کم ازکم آٹھ افراد ٹھٹھر کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
پولینڈکی جانب سے سرحد پر فوج تعیناتی کے جواب میں روس اپنے فوجی دستے بیلاروس بھیج رہا ہے جو اعلان کے مطابق پولستانی سرحد کے قریب بیلاروس کی فوج کے ساتھ مشترکہ مشق کریں گے۔ اس مقصد کے لیے مبینہ طور پر روسی چھاتہ بردار فوج بھی بھیجی گئی ہے۔
امریکی فوجی ذرائع کے مطابق پولستانی سرحد کے ساتھ جنوبی بیلاروس میں یوکرین کی سرحد پر بھی روسی فوجوں کی نقل وحرکت دیکھی جا رہی ہے۔ امریکا اور نیٹو خدشہ ظاہر کرہے ہیں کہ پناہ گزینوں کے معاملے پر پولینڈ اور بیلاروس کی کشیدگی سے فائدہ اٹھا کر روس، یوکرین کے خلاف ویسی ہی مہم جوئی کا ارادہ رکھتا ہے جیسی 2014 میں کی گئی تھی جب روس نے کریمیا پر قبضہ جما لیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ماسکو کے عسکری عزائم کے بارے میں واشنگٹن سُوئے ظن کو مناسب نہیں سمجھتا لیکن اُن کے ہتھکنڈوں سے غافل رہنا بھی ممکن نہیں۔ روس اور بیلاروس دونوں نے یوکرین کی سرحد پر فوج کی تعیناتی کی تردید کی ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ روس بیلاروس کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے تو دوسری طرف یورپی یونین پولینڈ، لتھوانیا اور لٹویا کی غیر مشروط حمایت پر کمربستہ ہے۔ یورپی کونسل کے صدر چارلس مچل کے مطابق بلاروس سرحد پر خاردار تار لگانے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کی تجویز زیر غور ہے جو یورپی یونین کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہوگا۔ غیر معمولی فوجی اجتماع اور عسکری نقل وحرکت سے جہاں مسلح تنازعہ کی صورت میں علاقائی امن کو شدید خطرہ درپیش ہے وہیں سخت سردی میں شیر خوار بچوں سمیت ہزاروں پناہ گزینوں کی موجودگی خوفناک انسانی المیے کا سبب بن سکتی ہے۔ موسم کے رحم وکرم پر موت کا انتظار کرتے ان ہزاروں افراد کے دونوں جانب مسلح فوجی دستے لڑائی کے لیے تیار کھڑے ہیں یا یوں کہیے کہ مظلوم پناہ گزین دونوں طرف کے بندوقچیوں کے نشانے پر ہیں۔ یہ بد نصیب اب نہ اپنے ملکوں کو واپس جاسکتے اور نہ ہی یورپ کی جانب سفر ممکن ہے۔ ہلکے سے اشتعال اور معمولی تصادم کی صورت میں گولیوں کی پہلی باڑھ ان بے کسوں کے سینے چھلنی کر دے گی۔
اقوام متحدہ اور عالمی اداروں سے کیا شکوہ کہ مسلم وعرب دنیا کو اس خطرناک صورتحال کا ادراک تک نہیں۔ اب تک شام اور عراق کی حکومتیں، عرب لیگ، موتمر عالم اسلامی اور مسلم ممالک کی تنظیم (او آئی سی) اس معاملے سے بالکل لا تعلق ہیں۔
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 مشرقی یورپ اس وقت شدید سردی کی لپیٹ میں ہے جہاں درجہِ حرارت نقطہ انجماد سے کافی نیچے ہے۔خون جمادینے والی اس سردی میں مشرقی یورپ کے دو ملکوں، بیلاروس (Belarus)اور پولستان (Poland) کی سرحد پر ہزاروں شامی و عراقی پناہ گزین کھلے آسمان تلے اپنی کربناک موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ بدنصیب جنگ وبدامنی سے پریشان ہو کر پناہ کی تلاش میں نکلے ہیں۔ سرحد کے قریب موجود شامیوں نے ترکی، اردن اور لبنان میں پناہ لے لی لیکن بحر روم کے ساحل تک پہنچ جانے والے شامی، ٹوٹی پھوٹی کشتیوں پر نکل پڑے، جن میں سے ہزاروں کو سمندر نگل گیا۔ اب بچ جانے والے ’خوش نصیب‘ یورپ اُتر کر پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 نومبر تا 27 نومبر 2021