بہار انتخاب :بَہار آنے کی امید کے خمار میں ہوں

چراغ کی بدولت بی جے پی اور جے ڈی یو میں خلیج دن بدن گہری ہورہی ہے

ڈاکٹر سلیم خان

 

"بہار کے موضوع پر بار بار لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس صوبائی الیکشن میں غیر بہاریوں کو تک اس قدر دلچسپی ہے کہ جتنی انہیں خود اپنی ریاست کے انتخاب میں بھی نہیں ہوتی۔ پردیس میں عام طور پر اپنے روزگار کے چکر میں اس قدر پریشان رہتے ہیں کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہندوستان میں کیا ہورہا ہے لیکن اس بار تومتحدہ عرب امارت میں رہنے والے تقریباً 5 لاکھ بہاری بھی ووٹ ڈالنے کے خواہشمند ہیں اور کیوں نہ ہوں؟ وہ لوگ بہار کی معیشت میں ہر سال دو ہزار کروڑ روپیوں کا اضافہ کرتے ہیں ۔ اتنی دولت تو ممبئی یا دہلی سے بھی نہیں جاتی ہوگی۔ اس بابت دبئی میں رہائش پذیر سیوان ٹیکنکل کنٹراکٹنگ کمپنی کے مالک انوج سنگھ کو ووٹ دینے سے محرومی کا ملال
ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سفارتخانہ اس کا اہتمام کرے تو طویل قطار نظر آئے گی ۔ بہار کے جلسوں میں بھیڑ دیکھ کر ان کی بات پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہےکیونکہ انتخابی بحث و مباحثہ کے ماحول نے انوج کمار کو گویا بہار میں پہنچا دیا ہے۔ نوین چندر کو بہار جیسے بڑے صوبے میں ایک بھی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے نہ ہونے کا افسوس ہے ۔ وہ پٹنہ، دربھنگہ اور گیا میں ائیرپورٹ دیکھنے کے آرزو مند ہیں ۔ پھلواری شریف کے عرفان الحق نے بہار میں آنے والی نئی حکومت سے بَہار کی امید وابستہ کر رکھی ہے ۔
بہار کے تین میں سے ایک مرحلے کا انتخاب ہوچکا ہے اور جب تک یہ مضمون قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا تب تک دوسرا مرحلہ بھی گزر جائےگا ۔سشانت سنگھ راجپوت کی موت کی وجہ معلوم کرنے کے لیے جس طرح اس کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اسی طرح این ڈی اے کی متوقع ہلاکت کا پتہ لگانے کے لیے اس میں شامل رہنماؤں کے بیانات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ بہار بی جے پی کے صدر ڈاکٹر سنجے جیسوال کا تازہ انٹرویو اس بابت بہت مفید ہے۔ ڈاکٹر جیسوال کے صاف اور سیدھے جوابات کو اگر جے پی نڈا پڑھ لیں تو آج ہی ان کی چھٹی ہو جائے گی لیکن انہیں پڑھنے لکھنے میں دلچسپی کم ہے اس لیے وہ محفوظ و مامون ہیں ۔ ڈاکٹر جیسوال سے جب پوچھا گیا کہ جنتا دل یو کے ساتھ بی جے پی کا بہت قدیم تعلق ہے اس کے باوجود وزیر اعظم سے لے کر صوبائی رہنماؤں تک کو بار بار یہ صفائی دینے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے کہ نتیش کمار ہی وزیر اعلیٰ ہوں گے؟ تو ان کا جواب تھا ہم صفائی نہیں دے رہے ہیں بلکہ سچ کو سامنے رکھ رہے ہیں ۔
ڈاکٹر جیسوال کے مطابق فروری میں ہی سابق پارٹی سربراہ امیت شاہ نے واضح کردیا تھا کہ این ڈی اے کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ہوں گے۔ یہ جواب کئی نئے سوالات پیدا کرتا ہے مثلاً کیا امیت شاہ قابلِ اعتماد آدمی نہیں ہے جو لوگ ان کے وعدے کی بار بار توثیق کرانا ضروری سمجھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہاں میں ہے کیونکہ انہوں نے 15 لاکھ کے وعدے کو انتخابی جملہ کہہ کر ہنستے ہنستے مسترد کردیا تھا ۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ان کی کوئی بات اعتماد کے قابل نہیں ہے لیکن اس بار صفائی کی وجہ دوسری ہے ۔ چراغ پاسوان کی روشنی سے اگر این ڈی اے کا قلعہ ہنوز منور ہوتا تو اس کی چنداں ضرورت نہیں پیش آتی لیکن جب وہ باہر نکل کر نتیش کو برا بھلا کہنے لگے تو بی جے پی والے چپ چاپ مسکراتے رہے۔ ان کے خود کو مودی جی کا ہنومان کہنے پر بھی بی جے پی نے تردید نہیں کی تب جا کر مجبوراً نتیش کمار کو بی جے پی کی ناک دبانی پڑی جس کے نتیجے میں اس کا منہ کھل گیا اور اوپر سے نیچے تک صفائی آنے لگی۔ ڈاکٹر صاحب سے دوسرا سوال پارٹی کے اندر ہونے والی بغاوت سے متعلق تھا جس میں اس بار سابق ارکان پارلیمان اور اسمبلی تک ملوث ہیں ۔ اس سوال کے تفصیلی جواب میں بی جے پی کے اندر پکنے والی کھچڑی کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے چھوٹتے ہی کہا جنتا دل (یو) میں بھی اتنے ہی باغی ہیں اور وہ بھی این ڈی اے کو نقصان پہنچا رہے ہیں حالانکہ یہ الزام تو لگایا ہی نہیں گیا تھا کہ بی جے پی والے این ڈی اے کو نقصان پہنچا رہے ہیں لیکن انہوں نے اسے ازخود اوڑھ کر اپنے حلیف کو بھی لپیٹ لیا جس کی ضرورت نہیں تھی ۔ جیسوال جی یہ بھی بھول گئے کہ دوسروں میں عیب تلاش کرلینے سے اپنے داغ نہیں دھلتے ۔ سنگھ پریوار کا حصہ ہونے کے سبب جس نظم و ضبط اور تربیت پر ناز کیا جاتا ہے وہ کہاں چلی گئی؟ ایک زمانے تک بی جے پی خود کو ایک مختلف و ممتاز پارٹی کہا کرتی تھی ۔ کیا اب وہ اس دعویٰ سے دستبردار ہو کر دیگر ابن الوقت جماعتوں کی طرح ایک موقع پرست پارٹی بن چکی ہے؟
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ عام طور سے سیاسی جماعتیں اپنے مخالفین میں عیب تلاش کرتی ہیں اس لیے اگر جیسوال جی کہتے کہ آر جے ڈی یا کانگریس میں بھی بغاوت ہوئی ہے تب تو ٹھیک تھا لیکن انہوں نے اپنی حلیف جماعت کو بلاوجہ گھسیٹ لیا اور اس کی مثال دے کر یہ اعتراف کرلیا کہ یہ دونوں چور چور موسیرے بھائی این ڈی اے کی قبر کھودنے میںخوب پھاوڑا چلا رہے ہیں ۔ ایک زمانے میں مرکز اور صوبے کی حکومتوں کے ایک ساتھ ہونے کو ڈبل انجن سرکار کہا جاتا تھا ۔ ویسے اس ریل گاڑی کے دونوں جانب انجن تو اب بھی لگے ہوئے ہیں لیکن وہ اسے مخالف سمتوں کھینچ رہے ہیں ۔ ایسے میں اس ریل گاڑی کا کیا حال ہوگا اور اس میں سوار مسافروں کی کیا درگت بنے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس مہاگٹھ بندھن آپسی تال میل کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ وہاں کوئی ناچاقی، بد اعتمادی یا نااتفاقی نظر نہیں آتی۔
ڈاکٹر سنجے جیسوال نے اپنے انٹرویو میں ایک ایسا خطرناک انکشاف کردیا کہ جس کی جرأت ابھی تک چراغ پاسوان بھی نہیں کرسکے ۔ وہ بولے’ حالانکہ بی جے پی کے باغیوں کو امبریلا (چھاتا) مل گیا ہے‘۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سا چھاتا ہے جو بی جے پی والوں کو انتخابی بارش اور دھوپ میں تحفظ فراہم کررہا ہے؟ وہ دراصل ایل جے پی کا انتخابی نشان گھر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کے سارے باغیوں نے لوک جن شکتی پارٹی کے گھر میں پناہ مل گئی ہے اور اس پر سنجے جیسوال اطمینان کا اظہار کررہے ہیں ۔ اس اعتراف و اطمینان کے بعد تو وہ سارے الزامات درست ثابت ہوجاتے ہیں جو بی جے پی اور ایل جے پی کے خفیہ تعلقات کی بابت لگائے جاتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ ایل جے پی کا وہ دعویٰ بھی درست لگتا ہے کہ انتخاب کے بعد بہار میں بی جے پی اور ایل جے پی مل کر حکومت بنائیں گے کیونکہ ایل جے پی سے بھی وہی بھگوا دھاری منتخب ہوکر آئیں گے جو ٹکٹ کی خاطر نکل گئے تھے۔
اس صورتحال میں بی جے پی کے ووٹر کا دھرم سنکٹ بڑھ جاتا ہے ۔ اس کے سامنے ایک تو جے ڈی یو کا امیدوار ہے جس کے لیے بی جے پی پرچار کررہی ہے اور دوسری طرف ان کی اپنی پارٹی کا سابق ساتھی ہے جو ایل جے پی کے ٹکٹ پرقسمت آزما رہا ہے۔ جس کے ساتھ برسوں پرانا تعلق ہے وہ فی الحال باغی کہلاتا ہے مگر ایک ایسی پارٹی میں داخل ہوا ہے جو خود کو وزیر اعظم کی وفادار کہتی ہے اور مرکزی سطح پر این ڈی اے میں شامل ہے۔ ایسے میں اگر بی جے پی والے اس باغی کو ووٹ دے دیں تو کیا جے ڈی یو کا امیدوار کامیاب ہوسکے گا ؟ اس طرح جے ڈی یو کے ساتھ اتحاد کرنے کا مقصد ہی فوت جائےگا ۔ اس کے جواب میں اگر جنتا دل (یو) والوں نے بھی بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا تو وہ کیسے کامیاب ہوسکیں گے؟ نیوٹن کا تیسرا قانون یہ ہے کہ ہر عمل کا مساوی اور مخالف ردعمل ہوتا ہے۔ یہ بات طبیعات کے ساتھ سیاست پر بھی صادق آتی ہے ۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جے ڈی یو پر اعتماد نہیں تھا تو اس کو این ڈی اے میں شامل کیوں کیا گیا؟ اس کا ایک جواب یہ بھی ہوسکتا ہے نتیش کمار کو مہا گٹھ بندھن میں جانے سے روکنے کے لیے یہ چال چلی گئی ۔ بی جے پی کو یہ غلط فہمی رہی ہوگی کہ نتیش کمار اگر مہا گٹھ بندھن میں شامل ہوجائیں گے تو وہ کامیاب ہوجائے گی لیکن مہم کے دوران یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ فی الحال ایک سیاسی بوجھ بن گئے ہیں اور ان کے خلاف عوام میں جو غم و غصہ ہے وہ بی جے پی کے حصے میں آرہا ہے ۔ نتیش کو اگر مہاگٹھ بندھن میں دھکیل دیا جاتا تو اس سے دوہرا فائدہ ہوتا لیکن اس کا اندازہ لگانے میں کل یگ کے چانکیہ ( شاہ) کے ساتھ ساتھ درونا چاریہ (مودی) بھی ناکام ہوگئے۔ مہابھارت کے کورو(بی جے پی) اور پانڈو (جے ڈی یو) کے مشترک گرو کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جو فوج آپس میں برسرِ پیکار رہتی ہے ان کو شکست فاش سے دوچار ہونے کے لیے کوئی دشمن درکار نہیں ہوتا۔بعید نہیں کہ بہار کی مہا بھارت مذکورہ کلیہ کو پھر سے ثابت کر دے کیونکہ بی جے پی کے سب سے قابلِ اعتبار نام نہاد اونچی ذات کے رائے دہندگان کو ناراض کرنے کے لیے نتیش کمار نے آبادی کی بنیاد پر ریزرویشن کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ اس کا مطلب تو برہمن، بھومی ہار شتریوں کا معاشی قتل عام ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی کی حالت کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے جیسی ہوگئی ہے کیونکہ اس کے لیے نہ تائید کرنا ممکن ہے اور نہ مخالفت کرنا آسان ہے۔ نتیش کمار اب ’ ہم تو ڈوبیں ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘ والی صورتحال کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں نتیش کمار انتخاب کے بعد بی جے پی کی اس غداری کا انتقام لیں گے اور وہ اس طرح بھی ہوسکتا ہے اگر معلق اسمبلی میں وہ خود وزیر اعلیٰ نہیں بن سکے تو تیجسوی کی حمایت کردیں گے لیکن بی جے پی کو اقتدار میں آنے نہیں دیں گے ۔ مہاراشٹر کے اندر بی جے پی نے اپنے حلیف شیوسینا کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا یہ نتیجہ دیکھا کہ وہ دشمنوں کے ساتھ مل کر اس جڑ کو کھود رہی ہے اس کا اعادہ بہار میں بھی ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر جسوال نے کارکنان کے حوالے سے اپنی چوک کا اعتراف تو کیا کہ غلطی ہوئی لیکن ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب ایک عام کارکن اس کی سزا کس کو دے اور کیسے دے؟ ڈاکٹر جیسوال اس بھول چوک کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ’ہم مقامی سطح پر این ڈی اے کو منظم نہیں کرسکے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں جماعتیں ایک ساتھ رہنے کے باوجود آپس میں شیر و شکر نہیں ہو سکیں۔ باہمی عدم اعتماد کے سبب دونوں فریق ایک دوسرے کو اپنا دشمن یا حریف سمجھنے لگے ۔جس گھر کے اندر یہ ماحول ہو اس کے بارے میں تو یہی کہنا پڑے گا ’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘۔ ڈاکٹر جسوال نے بتایا کہ پچھلی بار نند کشور یادو نے آپسی میل جول کے لیے جو کام کا تھا وہ اس بار نہیں ہو پایا لیکن پھر یہ سوال کہ مذکورہ غلطی نادانستہ ہوگئی یا جان بوجھ کر کینہ پروری کی وجہ سے کی گئی؟ اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہ جان بوجھ کر کیا جانے والا دھوکہ تھا تو اس میں این ڈی اے کے اندر شامل دوسری جماعتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں ۔
ستارے جب گردش میں آجائیں تو سایہ بھی دشمن ہو جاتا ہے۔ جتن رام مانجھی ایک زمانے میں نتیش کمار کے دست راست تھے ۔نتیش نے استعفیٰ دے کر انہیں کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا لیکن جب ہٹنے کے لیے کہا تو مانجھی بغاوت کرکے این ڈی اے میں چلے گئے۔ اس بار نتیش نے اپنے کوٹے سے ان کو 7 نشستیں دی ہیں اس کے باوجود وہ مہم کے دوران شراب بندی کی مخالفت کرنے لگے ۔فی الحال تقریباً 3 لاکھ نوجوان شراب کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار ہیں اور مانجھی کے مطابق ان میں اکثریت مہادلتوں کی ہے ۔ ان کے مطابق بہت سارے بے قصور جیل چلے جاتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ جس شراب بندی کو نتیش اپنی کامیابی بتاتے ہیں اسی پر ان کا ایک حلیف اعتراض کرتا ہے۔ چراغ پاسوان کا الزام ہے کہ شراب بندی کے ذریعہ نتیش نے بہاری نوجوان کو شراب کا اسمگلر بنا دیا ہے۔ چراغ پاسوان تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نتیش کمار نے 30 ہزار کروڑ کے 60 گھپلے کیے ہیں اور لوک جن شکتی پارٹی کی سرکار بنی تو انہیں جیل جانا پڑے گا۔ یہ الزام نیا نہیں ہے، گزشتہ انتخابی مہم میں خود وزیر اعظم نے نتیش کمار کی بدعنوانی کے 33 معاملات بتائے تھے مگر دو سال بعد اسی کی مدد سے بلیک میل کرکے ان کے ساتھ حکومت کرنے لگے۔ ان الزامات کی زد بی جے پی پر بھی پڑتی ہے کیونکہ نتیش کمار کے جملہ 15 سالہ دورِ اقتدار میں سے 13 سال تو بی جے پی ان کے ساتھ تھی اور خود لوک جن شکتی پارٹی بھی اس دوران این ڈی اے میں شامل تھی اس لیے سارے الزامات گھوم کر انہیں کی جانب لوٹ آتے ہیں۔ چراغ پاسوان کی یہ دھمکی ویسے تو یہ ’نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی‘ کی مصداق ہے لیکن اگر بفرض محال اسے درست مان لیا جائے تو یہ کیا بات ہوئی کہ جب تک کوئی ساتھ ہو ’کھاؤ اور کھانے دو ‘ کے اصول پر عمل کیا جائے اور جب بات بگڑ جائے تو جیل بھیجنے کی دھمکی دی جائے۔ چراغ پاسوان اگر بہار کی عوام کو اتنا بیوقوف سمجھتے ہیں تو ان سے بڑا احمق کوئی اور نہیں ہے۔
ایل جے پی چونکہ بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کا خواب دیکھ رہی ہے اس لیے نتیش کمار کو اقتدار سے بے دخل کرکے جیل بھیجنے کا مطلب بی جے پی کے ذریعہ جیل بھیجنا ہے۔ اس کا اثر جے ڈی (یو) کے کارکنان پر کیا ہوگا؟ اور وہ اپنی حلیف بی جے پی کی حمایت کیسے کرسکیں گے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان کی کھائی کو چراغ پاسوان دن بہ دن بڑھاتے جارہے ہیں ۔ ان کو غالباً اس بات کا احساس ہے کہ یہ الزامات اگر درست بھی ہوں تب ان سے بات نہیں بنے گی اس لیے مندر کے معاملے میں یہ ہنومان اپنے رام سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گیا ہے۔ اس نے اعلان کردیا ہے کہ ایودھیا کے رام مندر کی طرز پر متھلا میں سیتا کا شاندار مندر بنوائیں گے ۔ چراغ پاسوان ابھی بچے ہیں انہیں یہ نہیں معلوم کہ مندر بنانے پر ووٹ نہیں ملتا ۔ بی جے پی کو ووٹ بابری مسجد شہید کرنے کے نام پر ملا ہے اور اس بابت انہیں اپنے والد رام ولاس کے بیانات دیکھ لینے چاہئیں۔ بی جے پی کے ساتھ مل کر موقع پرستانہ سیاست کرنے والوں کی عقل یونہی ماری جاتی ہے۔
ملک کی سیاست اب مندر اور منڈل سے آگے نکل گئی ہے ۔ ایک زمانے میں ہندوستانی سیاست کے اندر روٹی کپڑا اور مکان کی بات ہوتی تھی اور یہ درست بھی تھا کیونکہ عوام کو بیوقوف بناکر اقتدار پر قابض ہونے والے حلوہ پراٹھا کھائیں اور عام لوگ سوکھی روٹی کے محتاج ہوں یہ کہاں کا انصاف ہے؟ عوام کے نمائندے محلوں میں ساٹھ لاکھ کا کوٹ پہن کر گھومیں اور عوام جھگی جھونپڑی میں پھٹے پرانے لباس میں میں زندگی بسرکریں یہ سراسر ناانصافی ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان کے بعد سڑک، بجلی اور پانی کا مرحلہ آیا اور اسے بنیادی ضرورتوں میں شامل کیا گیا۔ تیجسوی یادو اسے آگے بڑھا کر پڑھائی، دوائی اور کمائی تک لے گئے جو خوش آئند بات ہے اور اسی لیے نوجوان ذات پات کی حدود و قیود سے اوپر اٹھ کر ان کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں ۔ بہار کے لیے یہ نوید بہار سے کم نہیں لیکن چراغ اور نتیش جیسے کم نصیبوں کو اس پر اعتبار نہیں ہے۔
بقول حبیب احمد صدیقی؎
ہے نوید بہار ہر لب پر کم نصیبوں کو اعتبار نہیں
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020