بھٹ جی کا ہندو توا اور سیٹھ جی کی سرمایہ داری کا کھیل
نئے بھارت میں سرمایہ داروں کی چاندی۔رام راجیہ میں عوام رام بھروسے چھوڑ دئے گئے
ڈاکٹر سلیم خان
بہار میں مویشیوں کی سائنس کی ایک یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر رامیشور سنگھ نے عالمی یوم دودھ کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حیرت انگیز انکشاف کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا کی وبا کے دوران دودھ کی فروخت میں 25 فیصد کمی آئی۔ کورونا وبا کے دوران دودھ کی فروخت میں کمی کے کئی اسباب ہیں اور یہ عین توقع کے مطابق ہے لیکن تعجب اس پر ہے کہ جہاں ایک طرف دودھ کم بکا وہیں پنیر اور مٹھائی کی تیاری میں اضافہ ہوا ہے یعنی اس دوران پنیر کی پیداوار میں 15 فیصد اور مٹھائی کی تیاری میں 25 فیصد کا اضافہ ہوا۔ یعنی کم مقدار دودھ کا بھی ایک بڑا حصہ پنیر ومٹھائی بنانے پر صرف ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ دودھ بچوں کی بنیادی ضرورت ہے اور پنیر ومٹھائی تو سامانِ تعیش ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مشکل حالات میں بنیادی ضروریات کی جانب توجہ بڑھے لیکن یہ سوال غور طلب ہے کہ ہمارے ملک میں الٹا کیوں ہو رہا ہے؟
اس طرح کا ایک معاملہ گزشتہ سال گجرات کے شہر سورت میں سامنے آیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب کورونا کی پہلی لہر کے بعد دیوالی کے موقع پر لاک ڈاون میں ڈھیل دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ دیوالی کا تہوار سونے چاندی کے زیور خریدنے، مٹھائی کھانے اور آتشبازی کے لیے مشہور ہے۔ شہر سورت کی ایک خاص مٹھائی ہے جو ’گھری‘ کہلاتی ہے۔ اس تہوار کے موقع پر ایک مقامی حلوائی نے ’طلائی گھری‘ نامی مٹھائی تیار کی۔ اس دوکان کے مالک نے قومی خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا کہ عام طور پر گھری مٹھائی 660 سے 820 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہوتی ہے لیکن اس نے جو مٹھائی تیار کی ہے وہ نو ہزار روپے کلو ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں سونا ڈالا گیا ہے جو کہ قدیم آیوروید کے مطابق صحت کے لیے مفید ہے۔ سونا چونکہ قیمتی دھات ہے اس لیے مٹھائی کی قیمت کا زیادہ ہونا فطری امر ہے۔ کورونا کی مشکلات کے ماحول میں بھی اگر لوگ اتنی مہنگی مٹھائی نوش فرماتے ہیں تو اس کی وجہ معلوم کرنا ضروری ہے؟ آگے اسی سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی جائے گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے اقتدار کے سات سال مکمل کرلیے۔ مودی جی کا عوام سے مطالبہ تھا کہ جب آپ نے دوسروں کو ساٹھ سال دیے تو مجھے بھی ساٹھ مہینے دیجیے تاکہ میں سب کچھ بدل دوں گا۔ عوام نے ان کو پانچ سال کے بجائے دس سال دے دیے اور اس میں سات سال پورے بھی ہو گئے لیکن اس بیچ کیا بدلا؟ کچھ بھی نہیں! ان لوگوں کے ’اچھے دن‘ تو نہیں آئے جنہوں نے ووٹ دے کر مودی جی کو اقتدار سونپا تھا بلکہ وہ بیچارے تو پہلے سے زیادہ مشکلات کا شکار ہو گئے۔ وزیر اعظم کے پاس یہ بہانہ ہے کہ اچھے دن تو آ رہے تھے لیکن درمیان میں کورونا نے آکر انہیں الٹے پاؤں لوٹا دیا۔ حالانکہ یہ وبا ایک دو نہیں پورے چھ سال بعد آئی۔ اس وقت تک اگر اچھے دن کا عشرِ عشیر بھی آچکا ہوتا تو لوگوں کو کورونا کا مقابلہ کرنے میں آسانی ہوتی۔ اس کے برعکس مودی جی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے معیشت کی کمر توڑ کر عوام کو رام مندر اور کشمیر کی دفعہ 370 کا چورن کھلاتے رہے۔ ایسے میں جب اندر سے وبا اور اوپر سے چین نے حملہ کیا تو سرکار کی دشواریاں بڑھ گئیں۔
ایک آزاد ادارہ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے تازہ جائزے کے مطابق کورونا کی دوسری لہر کی وجہ سے ایک کروڈ لوگ ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 87 فیصد سے زیادہ خاندانوں کی آمدنی گھٹ گئی۔ اپریل میں بیروزگاری کی شرح 8 فیصد تھی لیکن آگے آنے والے دنوں میں اور بھی گھٹ جانے کا امکان ہے۔ ایک سال کے وقفہ میں یہ دوسری بار ہوا ہے۔ پچھلے سال جب تالہ بندی کی گئی تو بیروزگاری کی شرح 23.5 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ دیہات کے مقابلے میں شہروں میں بیروزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ یہ بھی ایک سبب ہے کہ ان مشکل حالات میں لوگ شہروں کو چھوڑ کر گاوں چلے جاتے ہیں۔ ماہرین کی رائے ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کا زور ٹوٹ رہا ہے اس لیے بتدریج مختلف صوبوں میں تالہ بندی کا خاتمہ ہوگا اور معاشی سرگرمیاں تیز ہوں گی لیکن پھر بھی منظم شعبوں کو سنبھلنے میں سال بھر کا وقت لگے گا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مئی میں ملک کے سروس سیکٹر میں زبردست گراوٹ آئی۔ یہ عدم استحکام ’انڈیا سروسز بزنس ایکٹیوٹی انڈیکس‘ کو اپریل کے 54 سے گھٹا کر 46.4 تک لے آیا۔ سروسز سیکٹر انڈیکس میں آٹھ ماہ کے اندر پہلی بار اتنی بڑی کمی دیکھنے میں آئی۔ پچھلے سال کووڈ-19 کی پہلی لہر کے دوران بھی اتنی گراوٹ نہیں دیکھی گئی تھی۔ اس کی ایک وجہ غیر ملکی طلب میں چھ ماہ کے اندر ہونے والی سب سے بڑی کمی ہے کیونکہ دوسری لہر کے دوران کاروبار پر بندش اور بین الاقوامی سفر پر پابندی تھی۔ مثبت رجحانات میں نو ماہ کی کمی کے سبب کمپنیوں نے چھٹنی میں اضافہ کیا اور مئی میں یہ شرح اکتوبر2020 کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں بھی 10 مہینوں کی سست ترین نمو ظاہر ہوئی۔ آئی ایچ ایس مارکیٹ کے مطابق اگر مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبے کی کارکردگی کو یکجا کر دیا جائے تو مربوط انڈیکس جو اپریل میں 55.4 پر تھا مئی میں 48.1 پر آگیا۔
کوویڈ کے درمیان معیشت کو بچانے کے لیے کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کے صدر اور معروف بینکر اور کوٹک مہندرا بینک کے سی ای او اُدے کوٹک نے حکومت کو یہ مشورہ دیا کہ حکومت ریزرو بینک کے تعاون سے کرنسی کو پرنٹ کرنے کے لیے اپنی بیلنس شیٹ میں اضافہ کرے۔ ان کے مطابق ایسا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اگر اب ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر کب کریں گے؟ غریب لوگوں کے ہاتھوں میں براہ راست رقم دینے کی خاطر انہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت کو جی ڈی پی کا ایک فیصد یا 1 لاکھ کروڑ سے 2 لاکھ کروڑ کے درمیان خرچ کرنا چاہیے۔ اس سے نچلی سطح پر کھپت میں اضافہ ہوگا اور غریب ترین طبقے کو طبی فوائد حاصل ہوں گے۔ معیشت کی بحالی کے لیے انہوں نے حکومت کے ذریعہ گزشتہ سال بحران میں مبتلا شعبوں میں توسیع کر کے ان کی خاطر جو 3 لاکھ کروڑ کی کریڈٹ سکیم کا اعلان کیا گیا تھا اس کو بڑھا کر 5 لاکھ کروڑ کرنے کی رائے دی۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کا سنجیدہ سرمایہ دار فکرمند ہے مگر وزارت مالیات کو اس کی کوئی فکر نہیں۔
اس کے برعکس بھکتوں کا دعویٰ ہے کہ کورونا تو ایک آسمانی آفت ہے۔ اس لیے سرکار یا انتظامیہ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ درست ہے مگر کورونا جیسی وبا امیر غریب میں فرق نہیں کرتی اس لیے سبھی طبقات کو یکساں طور پر متاثر ہونا چاہیے۔ کیا وطن عزیز میں ایسا ہوا؟ اس وبا نے مودی جی کو ووٹ دینے والے کروڑوں متوسط طبقے کے لوگوں کو خطِ غربت کے نیچے دھکیل دیا اور بیچارے غریب تو دانے دانے کے محتاج ہو گئے لیکن جنہوں نے نوٹ دے کر اقتدار کا راستہ صاف کیا تھا ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا۔ وبا کے باوجود امیروں کی دھن دولت میں اضافہ ہوتا رہا۔ یعنی غریب تو دودھ بھی نہیں خرید سکے اور امیر مٹھائی کھاتے رہے۔ یہ ایک معمہ ہے کہ جب عام خریدار دیوالیہ ہو گیا تو سرمایہ دار کے خزانے میں روپیہ کہاں سے آیا کیونکہ وہ تو اپنا مال بیچ کر منافع کماتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مصیبت کے دور میں بھی سرکاری خزانہ بھرتا رہا۔ مثلاً خام تیل کی قیمت میں کمی کے باوجود ہندوستان میں پٹرول کے دام بڑھتے رہے، سرکاری خزانہ بھرتا رہا اور حکومت اس سے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچاتی رہی۔ انہیں پروجیکٹ دے کر ان کے وارے نیارے کرتی رہی۔ اس کے برعکس عوام نانِ جویں کے بھی محتاج ہوتے چلے گئے۔ اس کی عکاسی داغ دہلوی کے شعر میں دیکھیں ؎
کہیں ہے عید کی شادی کہیں ماتم ہے مقتل میں
کوئی قاتل سے ملتا ہے کوئی بسمل سے ملتا ہے
یہ کوئی خیالی مفروضہ نہیں ہے۔ اس سال مارچ میں یہ چونکانے والی خبر شائع ہوئی کہ سال 2020 میں چالیس ہندوستانی ارب پتی افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ یعنی ایک ایسے دورانیہ میں جب ملک کی جی ڈی پی پاتال میں پہنچ گئی تھی ان سرمایہ داروں کی کمائی آسمان کو چھونے لگی۔ ہورون گلوبل رچ (امیر) لسٹ 2021 کے مطابق مکیش امبانی 83 ارب ڈالر کی دولت کے ساتھ ایشیا کے مالدار ترین ہندوستانی بنے رہے۔ ریلائنس انڈسٹریز کے سربراہ نے اپنی دولت میں 24 فیصد کا اضافہ کر کے عالمی سطح پر بھی ایک مقام اور اوپر چڑھ کر آٹھویں امیر ترین انسان بن گئے۔ دولت کا یہ ارتکاز اس لیے پریشان کن ہے کہ ہورون گلوبل رچ لسٹ 2021 میں 68 ممالک کے 3228 ارب پتیوں میں چین کے امیروں لوگوں کی تعداد 1،058 سے گھٹ کر 932 پر آگئی جبکہ ہندوستان کے اندر غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا۔
امبانی کا معاملہ تو خیر مودی جیسا ہے لیکن ان کے نمبر دو شاہ جی کی طرح گوتم اڈانی بھی پیچھے نہیں رہے۔ موجودہ سرکار کی معروف حکمت عملی یعنی ’مشکل میں موقع‘ کا سب سے زیادہ فائدہ انہوں نے اٹھایا ہے۔ 2020میں اڈانی کی دولت تقریبا دوگنی ہو کر 32 بلین ڈالر ہو گئی۔ امبانی تو خیر صرف ایک مقام اوپر چڑھے لیکن اڈانی تو 20پائیدان چڑھ کر عالمی سطح پر 48ویں امیر ترین اور ہندوستان میں دوسرے امیر ترین سرمایہ دار بن گئے۔ ان کے بھائی ونود کی دولت میں 128فیصد اضافہ ہوا۔ ان دونوں گجراتیوں کے علاوہ بیجو رویندرن اور آنند مہندرا کی دولت میں بھی 100 فیصد کا اضافہ نظر آیا۔ ایسے میں راہل گاندھی کا سوال بالکل جائز نظر آتا ہے کہ جب ہر شخص کورونا وبا کے سبب کشمکش کر رہا ہے تو صنعت کار گوتم کی دولت میں 50 فی صد کا اضافہ کیسے ہوا؟ اپنی دولت میں اضافے کے معاملے میں اڈانی نے دنیا کے امیر ترین جیف بیزوس اور ایلون مسک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ انہوں نے عوام سے سوال کیا کہ آپ زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور وہ 12 لاکھ کروڑ روپے بناتے ہیں۔ اور ان کی دولت میں 50 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب میں بے حس قوم خاموش ہے کیوں کہ اس کی حالت اس شعر کی مانند ہے ؎
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
راہل گاندھی کے سوال کا جواب اڈانی گروپ کے ایک حالیہ فیصلے میں سامنے آیا۔ مودی سرکار نے اپنے پسندیدہ سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہوائی اڈوں کے انتظام وانصرام کو نجی ہاتھوں میں ٹھیکے پر دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت 2019 میں اڈانی گروپ نے لکھنو، جئے پور، احمد آباد، منگلور، ترواننت پورم اور گوہاٹی کے ٹینڈر پچاس سال کے لیے جیت لیے۔ دو سال بعد اپنی آمدنی میں اضافہ کی خاطر لکھنو ہوائی اڈے کا نرخ دس گنا بڑھا دیا یعنی 1000 فیصد اضافہ کیا۔ یہ خرچ براہِ راست مسافروں سے نہیں بلکہ ہوائی کمپنیوں سے وصول کیا جائے گا مگر وہ اپنے گھر سے تھوڑی دیں گی؟ وہ اس کی وصولی مسافروں سے کر کے اڈانی کو ادا کریں گی۔ اس سے قبل جب دہلی، ممبئی، بنگلورو اور حیدر آباد میں اضافہ کیا گیا تو اس کی مخالفت ہوئی تھی لیکن اڈانی کی مخالفت تو مودی کی مخالفت ہے اور مودی کے خلاف بولنا قوم دشمنی ہے اس لیے کون یہ جرأت کرے گا؟ اور کوئی کرے تو بعید نہیں کہ یوگی جی اس پر این ایس اے لگا کر جیل بھیج دیں گے یا انکاونٹر کروا دیں گے۔ جو لوگ پر یشان ہیں کہ اچانک لکھنو میں اس کی ضرورت کیوں پیش آئی تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آئندہ سال وہاں صوبائی انتخاب ہے۔ بی جے پی کو تشہیر کے لیے جو دولت چاہیے وہ کہاں سے آئے گی؟
وطن عزیز میں بہت سارے لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مودی جی ان سرمایہ داروں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کر کے ہندوتوا کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور ہندو راشٹر بنا رہے ہیں، ایسے لوگوں کو معلوم کرنا چاہیے کہ ان کا اپنے رائے دہندگان کے ساتھ کیا سلوک ہے۔ اڈانی اور امبانی جیسے گجراتیوں پر مودی سرکار کی نوازشیں تو اوپر بیان ہو گئیں اب یہ دیکھیں کہ وہ اپنے رائے دہندگان کے ساتھ کیا معاملہ کر رہے ہیں اور کورونا کے دور میں ان کا کیا حال ہے؟ احمد آباد کی ایک 23 سالہ خاتون گھروں میں کام کرتی تھی۔ نوکری چلی گئی تو اس نے ایک بے اولاد جوڑے کے لیے متبادل ماں (surrogate mother) بننے کا فیصلہ کیا۔ یعنی وہ اپنی بچہ دانی میں کرائے پر دوسروں کا بچہ پالے گی۔ اس طرح کے بیس تا پچیس واقعات گجرات میں سامنے آچکے ہیں کیونکہ ایسا کرنے والوں کو 3 تا 4 لاکھ روپے معاوضہ مل جاتا ہے۔ ایسا کرنے والی خواتین بتاتی ہیں کہ کورونا کے زمانے میں ان کی ملازمت چھوٹ گئی یا شوہر انتقال ہو گیا۔ کھانا وغیرہ بنانے کا کام شروع کیا تھا وہ بھی ٹھپ ہو گیا مجبوراً اس شرمناک کام کے لیے مجبور ہونا پڑا۔
ملک کی معاشی راجدھانی ممبئی کا بھی حال کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہاں پرچون کی دوکان کے مالک راکیش کمار 55 سال نے اپنی دکھ بھری داستان کچھ اس طرح سنائی کہ وہ پچھلے 18 سالوں سے یہ کاروبار کر رہا ہے لیکن پہلی بار کاروبار میں 25 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی طرح کے چھوٹے تاجروں کو فی الحال بڑے سرمایہ داروں مثلاً ریلائنس اور ڈی مارٹ جیسوں سے مسابقت کرنی پڑ رہی ہے کیونکہ کاروبار آن لائن ہو گیا ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے صرف وہی لوگ آرڈر دیتے ہیں جن کے پاس اس کا موبائل فون نمبر ہے جبکہ دوسروں کے نمبر انٹر نیٹ پر مل جاتے ہیں۔ دوسری لہر کے دوران اس کے لیے اپنے پانچ ملازمین کی تنخواہ ادا کرنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ دوکان صرف چار گھنٹے کے لیے کھل پاتی تھی اور اوپر سے پولیس ہراساں کرتی تھی جبکہ بڑے سرمایہ دار دھڑلے سے شٹر گرا کر اپنا کاروبار کرتے تھے۔
معاشی دارالحکومت ممبئی میں خوردہ فروشوں کی تنظیم ریٹیلرز ایسوسی ایشن آف انڈیا (آر اے آئی) کے سی ای او کمار راجہ گوپالن نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر ضروری خدمات کی گھریلو فراہمی کو کچھ کھپت برقرار رکھنے اور ان کے کاروبار کو جاری رکھنے کی اجازت دے۔ شہریوں کو روزانہ کی بنیاد پر دوسری چیزوں کے علاوہ غیر خوراکی اشیا کی بھی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ انہیں مشکلات کے بغیر ان تک قابلِ رسائی ہونا چاہیے۔ ملٹپلیکس ایسوسی ایشن آف انڈیا کے صدر کمل گیانچنداانی نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ آٹھ مہینوں تک کوئی محصول نہیں آیا۔ لاک ڈاؤن کے پہلے مرحلے میں ملٹپلیکس سیکٹر سب سے زیادہ متاثر ہوا اور دوسرے مرحلے میں اس پر ایک بار پھر برا اثر پڑا، وہ شعبہ اب دیوالیہ کی جانب رواں دواں ہے۔ مغربی ہندوستان کے ہوٹل اور ریسٹورنٹ ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر پردیپ شیٹی نے نشاندہی کی کہ پچھلے سال لاک ڈاؤن کے سبب ریاست میں تقریبا 35 فیصد ہوٹل اور ریستوراں بند ہوئے۔ دوسرے لاک ڈاؤن کے سبب کم از کم 30 فیصد ریستوراں مستقل طور پر بند ہو جائیں گے۔
ممبئی کے ویویانا مال کے سی ای او گرو وینیت سنگھ کے مطابق پہلے لاک ڈاؤن کے بعد ملک میں سب سے پہلے مہاراشٹر کے اندر مال کھولے گئے اور پانچ ماہ پہلے جبکہ ابھی پہلی لہر سے پوری طرح سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ دوسری لہر آگئی۔ اس پے در پے مصیبت میں حکومت کی طرف سے کبھی کوئی مدد نہیں ملی۔ یہ حالت اس مہاراشٹر کی ہے جو سب سے امیر ترین ریاست ہے اور ہندوستان کے کل جی ڈی پی کی تقریباً 15 فیصد کی نمائندگی کرتی ہے۔ ممبئی میں واقع ریٹنگ ایجنسی کیئر ریٹنگس نے اندازہ لگایا ہے کہ لاک ڈاؤن کے ہر مہینے میں جی ڈی پی کا تقریبا 5.4 بلین ڈالر ضائع ہو رہا ہے۔ ایشیا پیسیفک مالیاتی اداروں، ایس اینڈ پی نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ وبائی بیماری کو کنٹرول کرنا ہندوستان کی معیشت کے لیے ایک کلیدی خطرہ ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قومی معیشت پر لاک ڈاؤن کے وسیع اثرات طویل المدت ہوں گے۔
ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سرکار کس طرح نوٹ اور ووٹ دینے والوں کے ساتھ کیساتھ امتیازی سلوک کرتی ہے۔ یہ سب سنگھ پریوار کو نظر آرہا ہے لیکن اس کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ وہ اگر اب سرکار کی مخالفت کرے تو میڈیا اسے بھی قوم کا غدار قرار دے کر راندہ درگاہ کر دے گا جیسا کہ ڈاکٹر پروین توگڑیا کے ساتھ کیا گیا۔ اس لیے وہ حمایت کرنے پر مجبور ہے۔ اس کی حالت مسلمانوں جیسی ہے جو جانتے ہیں کہ کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتیں ان کا جذباتی استحصال کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتیں اس کے باوجود بی جے پی کے بغض میں اس کی حمایت کے لیے مجبور ہیں۔ اسی طرح سنگھ پریوار کے پاس بھی سب کچھ جانتے بوجھتے بی جے پی کی حمایت کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ بی جے پی کو ایک زمانے میں سیٹھ جی (سرمایہ دار) اور بھٹ جی (پروہتوں) کی پارٹی کہا جاتا تھا لیکن اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کی مخالفت کر کے بی جے پی والے بھٹ جی کو بیوقوف بناتے ہیں اور ان کی مدد سے اقتدار میں آکر سیٹھ جی کا بھلا کرتے ہیں۔ ہندوستان میں ہندوتوا کی آڑ میں غالی سرمایہ دارانہ نظام (Crony Capitalism) کا بول بالا ہو رہا ہے۔
***
کورونا جیسی وبا امیر غریب میں فرق نہیں کرتی اس لیے سبھی طبقات کو یکساں طور پر متاثر ہونا چاہیے۔ کیا وطن عزیز میں ایسا ہوا؟ اس وبا نے مودی جی کو ووٹ دینے والے کروڑوں متوسط طبقے کے لوگوں کو خطِ غربت کے نیچے دھکیل دیا اور بیچارے غریب تو دانے دانے کے محتاج ہو گئے لیکن جنہوں نے نوٹ دے کر اقتدار کا راستہ صاف کیا تھا ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا۔ وبا کے باوجود امیروں کی دھن دولت میں اضافہ ہوتا رہا۔ یعنی غریب تو دودھ بھی نہیں خرید سکے اور امیر مٹھائی کھاتے رہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021