بھارت اور دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کا زہر

امریکا میں اسلاموفوبیا کے خلاف قانون سے دنیا کو مثبت پیغام جانے کی امید

ڈاکٹر سلیم خان ، ممبئی

سفید فام نسل پرست امریکیوں کی کارستانیاں امن عالم کے لیے خطرہ ۔ اسلام مخالف ماحول کو کم کرنے میں ترکی اور پاکستان کا سرگرم رول
11 ستمبر 2001سے 6جنوری 2021تک کےطویل سفر میں امریکی رہنماوں کو یہ انکشاف ہو گیا کہ ان کی قومی سلامتی کا سب سے بڑا دشمن باہر نہیں بلکہ اندر ہے۔ براک اوباما اور جارج ڈبلیو بش کے ساتھ کام کرنے والے سابق سی آئی اے تجزیہ کار کے الفاظ میں 11ستمبر کا دور6 جنوری 2021کو ختم ہوگیا ۔ اس حقیقت کا نادانستہ احساس کروانے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی رعونت شکریہ کی مستحق ہے۔ اسلامو فوبیا سے متعلق منظور ہونے والے حالیہ امریکی قانون میں اس خطرے کے اعتراف کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ جو بائیڈن نے صدر بننے کے بعد مشیگن کی رکن کانگریس ایلیسا سلوٹکن کو داخلی تحفظ کے محکمہ کی ایک ذیلی کمیٹی کا صدر بناکر اس مسئلہ کا حل سجھانے کی ذمہ داری سونپی ۔ انہوں یہ اعتراف کیا امریکا کے لیے غیر ملکی دہشت گرد واحد سب سے بڑاخطرہ نہیں ہے۔ بیرونی دہشت گردی کا مفروضہ پرانا ہوچکا ہے ۔ کیپٹل ہل پر حملے نے ثابت کردیا ہے کہ گھریلو پرتشدد انتہا پسندی امریکی قومی تحفظ کے لیے عظیم ترین خطرہ ہے۔ان حملہ آوروں میں 300 کے خلاف دنگا فساد کےمقدمات درج کیے گئے ہیں۔اس جرم میں ملوث دو درجن سازش کرنے والوں کا تعلق بائیں بازو کےانتہا پسند مسلح گروہوں(ملیشیا) سے ہے ۔
ایلیساسلوٹکن کے مطابق یہ سفید فام نسل پرست انتہا پسند مستقبل میں بھی حملے کرسکتے ہیں ۔ ان لوگوں نے کورونا کی پابندیوں کے خلاف مشیگن کی سرکاری عمارت پر مسلح احتجاج کیا تھا اور ان پر گورنر گریشن وہٹمر کے اغواء کا بھی الزام لگا تھا۔ سلوٹکن کی تائید میں کمیٹی کی رکن شیلا جیکسن کہتی ہیں کہ 2009 سے 2018 کے درمیان امریکہ میں انتہا پسندی سے متعلق 427 ہلاکتیں ہوئیں ۔ ان میں سے313 یعنی 73.3 فیصد قتل بائیں بازو کے انتہا پسندوں نے کیے اور 23.4 فیصدہلاکتیں اسلامی انتہاپسندوں کے ہاتھوں ہوئیں ۔ 3.2 فیصدقتل دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے بھی کیے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر 4 میں 3 قتل سفید فام نسل پرستوں کا کارنامہ تھا۔ انہوں نے ان انتہاپسندوں کی خونی تاریخ کا حوالہ دے کر کہا کہ یہ اقلیتوں کے قتل عام کا نظریہ رکھنے والے یہ لوگ اس کا فخریہ اظہار کرتے ہیں ۔ شیلا نے یہ چونکانے والا انکشاف بھی کیا کہ کیپٹل ہل حملے میں سو سے زیادہ فوجی یا سابق فوجی شامل تھے۔ امریکا کے اندر روزافزوں اسلاموفوبیا کے لیے بھی یہی لوگ ذمہ دار ہیں۔
دنیا کے مہذب ترین امریکی معاشرے میں تشدد کے رحجان کا اندازہ اس بات سے کیا جاتا ہے کہ گزشتہ سال4؍جولائی کے آخر ہفتہ میں233 ؍ افراد قتل اور618؍ زخمی ہوئے مگر اس پر کوئی تشویش کا اظہار نہیں کرتا کیونکہ مغرب کے نزدیک اپنے لیے یا اپنوں کی خاطر معیار مختلف ہے اور غیروں کو وہ الگ پیمانے سے ناپتے ہیں ۔ وہ خود تو بڑے آرام سے اونٹ نگل جاتے ہیں لیکن دوسروں کی مکھی چھانتے ہیں ۔ امریکی ایوان نمائندگان کے ذریعہ منظور کردہ اسلاموفوبیا کی نگرانی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک خصوصی مندوب مقرر کرنے سے متعلق قانون سازی کی بحث میں سامنے آنے والے حقائق اس کا تازہ ترین نمونہ ہے۔ ویسے کانگریس میں 219 ڈیموکریٹک اراکین نے 212 ریپبلکنز کی مخالفت باوجود اس قانون کو منظور کروانے میں کامیابی حاصل کرلی مگر قوی امکان ہے کہ امریکی سینیٹ اسے مسترد کردے کیونکہ ان دونوں مقامات پر صورتحال متضاد ہے۔ ایوان نمائندگان میں جس جماعت کو اکثریت حاصل ہے وہ سینیٹ کے اندر اقلیت میں ہے ۔ جمہوری نظام میں اور معیار حق کا دارومدار دلائل اور ضمیر کی آزادی نہیں بلکہ پارٹی سے وفاداری ہے۔ سیاسی مفاد و عصبیت بھی اپنا مخصوص کردار ادا کرتے ہیں اور اکثریت کی رائے سےایک مجلس کا حق دوسری میں باطل ہوجاتا ہے۔
امریکا کے اندر گیارہ ستمبر 2001کے بعد سے اسلاموفوبیا کو نہایت منظم انداز میں عالمی سطح پر پھیلایا گیا ۔ بیس سال کے بعد امریکی ایوانِ نمائندگان کو دنیا بھر میں پھیلنے والے اسلاموفوبیا کا احساس ریپبلکن قانون ساز لارین بوئیبرٹ کے اس بیان سے ہوا کہ جس میں انہوں نے الہان عمر کو ایک مسلمان دہشت گرد سے تشبیہ دے دی ۔ خیر ’دیر آید درست آید‘ کی مصداق اس بل کو 2 قانون سازارکان نے پیش کیا ۔ان میں ایک تو خود الہان عمرتھیں جو ایوان کے مسلم اراکین میں سے ایک ہیں اور اکثر نفرت آمیز بیانیے اور قتل کی دھمکیوں کا سامنا کرتی رہتی ہیں۔ ان کے علاوہ دوسری رکن جین شیکوسکی شگاگو کے مضافات سے تعلق رکھنے والی 77 سالہ سفید فام یہودی خاتون ہیں۔ اس طرح امریکہ کے اندر اکثریتی مسیحیوں کی زیادتی کے خلاف مسلم اور یہودی اقلیت سے تعلق رکھنے والی دو خواتین نے اپنی مشترکہ صدائے احتجاج بلند کی۔
ان دوارکانِ کانگریس میں سے ایک سیاہ فام اور دوسری سفید فام ہے۔ ایک افریقہ کے صومالیہ سے آتی ہیں دوسری کے والدین مشرقی یوروپ سے آئے تھے مگر ظلم و ناانصافی کے خلاف دونوں کی متحدہ جدوجہد خوش آئند ہے۔ جین شیکوسکی نے نہ صرف بل پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اس کی منظوری کے لیے بھرپور مہم بھی چلائی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان کے عقیدے کی وجہ سے نشانہ بنائےجانے کے خلاف ہیں۔ جین کا دعویٰ ہے کہ عالمی سطح پر ڈرامائی انداز میں اسلاموفوبیا کے واقعات بڑھے ہیں ۔ امریکہ میں اسلاموفوبیا کے 500 سے زائد واقعات کا اندراج ہوچکا ہے۔ اس کے سبب لوگ نہ صرف ایک دوسرے کو برا بولتے ہیں بلکہ تشدد کی جانب گامزن ہیں۔ ہندوستان کے تناظر میں بلی بائی اور سلی ڈیل جیسے ایپ یا دھرم سنسد میں دی جانے والی نسل کشی کی دھمکیاں جین شیکوسکی کی تائید کرتی ہیں ۔
اسلاموفوبیا کے بل پر امریکی ایوان نمائندگان میں ہونے والی بحث سے ریپبلکن ارکانِ کانگریس کی ذہنیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس بل پرجاری بحث اس وقت معطل ہوگئی تھی جب اسکاٹ پیری نے الہان عمر کو یہود مخالف قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ ان کے تعلقات دہشت گرد تنظیموں سے ہیں حالانکہ وہ بھول گئے اسے پیش کرنے والوں میں ایک یہودی ہے۔ اسکاٹ پیری نے اس بل سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ بل میں ’اسلاموفوبیا‘ لفظ کی وضاحت نہیں ہونے کی وجہ سے یہ قانون سازوں کو ان کی ’سیاسی سازشوں‘ کے مطابق تشریح کرنے کاموقع دے گا۔ یہ اعتراض اگر درست بھی ہو تو مخالفت کے بجائے وضاحت کا مطالبہ ہونا چاہیے۔ ریپبلکن رکن کانگریس نے خیالی اندیشوں کا اظہار کرے ہوئے کہا کہ یہ بل اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں ایک ایسا دفتر تشکیل دے رہا ہےجو ممکنہ طور پر یہود مخالف نفرت کو ہوا دے گا اور اسلام کے تحفظ کی آڑمیں پوری دنیا کے اندر مغربی نظریات پر حملہ کرے گا۔
اسکاٹ پیری کے اس بے بنیاد تبصرے کو ڈیموکریٹس کی شدید برہمی اور اعتراض کے سبب ایوان کی کارروائی میں سے حذف کرنا پڑالیکن اس طرح کی اوٹ پٹانگ مخالفت مذکورہ قانون کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ اس قانون سازی کا بنیادی مقصد یہ ہے مذکورہ مندوبِ خصوصی پالیسی سازوں کو مسلم دشمنی سے منسلک اسلامو فوبیا کے عالمی مسئلے کو بہتر طور پر سمجھانے میں مدد کرے گا تاکہ اسکاٹ پیری جیسے لوگ ہوش کے ناخون لیں ۔ اس کے علاوہ یہ مندوب امریکی قیادت کے لیے دنیا بھر میں اسلاموفوبیا سے لڑنے کےلیے ایک جامع حکمت عملی بھی تجویز کرے گا ۔اسلاموفوبیا کی خوفناکی کا اعتراف کرتےہوئے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مسلمانوں کے تئیں پھیلنے والی نفرت کو وبا سے تشبیہ دی ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔ امریکی کانگریس کا یہ خصوصی مندوب اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سالانہ انسانی حقوق کی رپورٹ میں حکومتوں کی حمایت سے وقوع پذیر ہونے والے اسلام مخالف تشدد کے واقعات اور اس میں دی جانے والی تائید کی بھی تفصیلات پیش کرے گا۔ بھارت میں چونکہ اس طرح کے واقعات میں بے شمار اضافہ ہوا ہے جس کی تازہ ترین مثال گروگرام میں نماز کی مخالفت ہے اس لیے امریکی سرکار کی رپورتاژ ہر سال حکومت ہند کے لیے دردِ سر بن جائے گی لیکن یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اس سے خود امریکا کے اندر اسلام کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت انگیزی کے اندر کمی واقع ہوتی ہے یا نہیں ؟
آگے بڑھنے سے قبل یہ سوال قابلِ توجہ ہے کہ آخر عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کا فروغ کیوں اور کیسے کیا جارہا ہے؟ اس حقیقت کوفرانسیسی ہفت روزہ جریدے چارلی ہیبڈو میں شائع ہونے والے اہانت آمیز خاکوں کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کو مشتعل کرکے انہیں بدنام کرنے میں نبی کریم ﷺ کے ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت نے ایک بڑا کردار ادا کیا۔2006 کے اندر جب ان کی اشاعت ہوئی تو دنیا بھر میں اس کے خلاف احتجاج ہوا۔ اس کے باوجود 2011 میں مذکورہ میگزین پھرسے اسی گستاخی کا اعادہ کیا اور اسے جاری رکھا یہاں تک کہ 7 جنوری 2015 کو اس کے دفتر پر دو بھائیوں نے حملہ کرکےاس جریدے کا ایڈیٹر اور5 کارٹونسٹ سمیت 12 ؍ افراد کو ہلاک کردیا ۔ اس کے بعد اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے ایک محاذ کھول دیا گیا مگر اس کا یہ اثر بھی ہوا کہ عارضی طور پر یہ سلسلہ تھم گیا مگر 2019میں یہ شرارت پھر سے شروع کردی گئی۔
2020میں فرانس کے ایک اسکولی استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع گستاخانہ خاکے دکھائے اور اس کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کاسرقلم کردیا۔ اس حملہ آور نوجوان کو تو پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار دی مگر فرانسیسی صدر نے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطرملعون استاد کو ’ہیرو‘ قرار دے کر فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے نوازکر اس کی آخری رسومات میں خود شرکت کی نیز اس کی آڑ میں اسلاموفوبیا پھیلانے کی غرض سے 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال میں چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کروائی۔فرانسیسی صدر میکرون نےاس وقت کمال انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کی حمایت میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’مسلمان ہمارا مستقبل چھیننا چاہتے ہیں‘۔اس کے ساتھ’’بنیاد پرست اسلام‘‘ کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی بھی کی ۔ اس وقت میکرون کی سیاسی حیثیت خاصی کمزور ہوچکی تھی اس لیے انہوں نے گویا اسلام کی مخالفت کرکے اپنا مفاد حاصل کرنے کی سعی کی۔
ایمانوئیل میکرون کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے پورے یوروپ میں ایک اسلام مخالف لہر چل پڑی اور بائیں بازو کے اسلام دشمنوں کو نادر موقع مل گیا۔اس وقت دنیا بھر میں حالات اس قدر کشیدہ ہوگئے تھے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے فرانسیسی صدر کو 2 مرتبہ دماغی معائنہ کرانے کی تجویز دی اورفرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔اس کے علاوہ پاکستانی پارلیمان نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف قرارداد منظور کی اوردنیا کے کئی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی گئی ۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نےایک کھلے خط میں مغربی دنیا خاص کر یورپ میں اسلاموفوبیا کی تیزی، نفرت انگیزی اور ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی گستاخی سے امت میں بے چینی اور تشویش کا اظہار کیا ۔
عمران خان نے اس خط میں نہایت معروضی انداز سےان ممالک میں جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی مقیم ہے، قرآن پاک کی بے حرمتی جیسے واقعات کو یورپ کے بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کا مظہر قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ پورے یورپ میں مسلم مخالف جذبات پھیل رہے ہیں۔وہاں مساجد کو بند کیاجارہا ہے اور مسلمان خواتین کو عوامی مقامات پر اپنی مرضی کا لباس زیب تن کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی جبکہ پادری اور راہبائیں اپنا مذہبی لباس پہنتی ہیں۔ اس موقع پر عمران خان نے مسلمان قائدین کومتحد ہو کر آواز اٹھانے کی دعوت دی۔ انہوں اس بات پر زور دیا کہ مغربی ممالک کےغیر مسلم رہنماؤں کو مسلمانوں کے اندر قرآن پاک اور حضرت محمد ﷺ کے تئیں گہری عقیدت اور محبت سے آگاہ کیا جائے کیونکہ یہ اسلام کی پیغام رسانی کے ذریعہ نفرت اور جرائم کے سلسلے کو ختم کرنے کا وقت ہے۔
عمران خان کا وہ خط اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا ۔ اس میں یاد دلایا گیا تھاکہ یہودیوں کے قتل عام ہولوکاسٹ پر تنقید اور سوال کرنا مغربی ممالک میں جرم ہے اور مسلم دنیا میں اس کا احترام بھی کیا جاتا ہے اس کے باوجود اسلامی عقیدے اور حضرت محمد ﷺ کی گستاخی انتہائی درد ناک اور دل شکن حرکت ہے۔اسلاموفوبیا کے طوفان بدتمیزی پر لگام لگانے کی خاطر ترکی ،پاکستان اور ملیشیا نے مذہب ’اسلام‘ کے حقیقی تشخص کو اجاگر کرنے کی خاطرایک انگریزی چینل شروع کرنے اعلان کیا تاکہ ان تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے جو ناواقف لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف یکجا کرتی ہیں ۔ اس چینل کا ایک مقصد توہین رسالت کے معاملے کا سیاق و سباق درست کرنا بھی طے کیا گیا۔ عالمِ انسانیت کی تاریخ اسلام سے آگہی بھی اس کوشش کا مقصود ٹھہرا۔
اسلاموفوبیا سے نمٹنے کی خاطر منعقدہ مسلم رہنماوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اس مسئلہ کے حوالے سے مندرجہ ذیل بنیادی باتوں کی جانب شرکاء کی توجہ مبذول کرائی جو بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔ انہوں نےیہ اہم انکشاف کیا کہ نائن الیون سے قبل 75 فیصد خود کش حملے ہندو تامل ٹائیگرز نے کیے، دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے امریکی جنگی جہازوں پر خود کش حملے کیے، وہ تمام خود کش حملے مذہب کے لیے نہیں تھے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب خود کش حملوں کی اجازت نہیں دیتا لیکن بدقسمتی سے مغربی ممالک کے رہنماؤں نے انتہا پسندی اور خود کش حملوں کو بھی اسلام سے جوڑ دیا۔ عمران خان نے بجا طور پر کہا کہ دنیا میں کم و بیش تمام دہشت گردی کی کڑیاں سیاست سے جڑتی ہیں۔ سیاست کی ناانصافیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات دہشت گردی کو تقویت دیتے ہیں۔ یہی اسلاموفوبیا کی بنیادی وجہ ہے اوربالآخر اس کے خلاف ہونے والی عالمی جدوجہد رنگ لارہی ہے ۔ امریکی کانگریس کا قانون اس کی جانب ایک اہم پیش قدمی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ہند نژاد امریکی شہری راشد حسین کو بین الاقوامی مذہبی آزادی کے لیے سفیر یعنی ’امبیسڈر ایٹ لارج‘ نامزد کرکے ایک مثبت اشارہ کیا تھا۔ 41 سالہ راشد حسین اس اہم عہدہ پر فائز ہونے والے پہلے مسلم ہیں۔ ییل یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والے راشد نے ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز اور عربی میں ماسٹرس کی سند بھی حاصل کی ہے۔اوباما حکومت کے دوران راشد ادارہ برائے اسلامک تعاون (او آئی سی) میں امریکہ کے خصوصی سفیر، اسٹریٹجک کاؤنٹر ٹیررزم کمیونکیشن میں امریکہ کے خصوصی سفیر اور وہائٹ ہاؤس کونسل میں ڈپٹی ایسو سی ایٹ کی حیثیت میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔راشد نے یہودی مخالفت کا مقابلہ کرنے اور مسلم اکثریتی ممالک میں مذہبی اقلیتوں کی حفاظت کرنے کی کوششوں کی بھی قیادت کی ہے۔ اس سے قبل صدر بائیڈن نے پاکستانی نژاد وکیل خضرخان کو امریکی فوجیوں اور مذہبی آزادیوں کے لئے ان کی خدمات کے اعتراف میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی میں انہیں کمشنر کے عہدے پر نامزد کیا تھا۔ خضر خان کوسن 2016 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مذہبی آزادیوں کے حوالے سے تنقیدپر کافی شہرت ملی تھی مگر اس کا صلہ اب ملا ہے۔ ان تقررات سے امریکا میں اسلاموفوبیا کے اندر کمی کا امکان ہے اور اس کا اثر پوری دنیا پر ہوسکتا ہے۔
***

 

***

 اسلاموفوبیا کے خلاف بل کو 2 قانون سازارکان نے پیش کیا ۔ان میں ایک تو خود الہان عمرتھیں جو ایوان کے مسلم اراکین میں سے ایک ہیں اور اکثر نفرت آمیز بیانیے اور قتل کی دھمکیوں کا سامنا کرتی رہتی ہیں۔ ان کے علاوہ دوسری رکن جین شیکوسکی شگاگو کے مضافات سے تعلق رکھنے والی 77 سالہ سفید فام یہودی خاتون ہیں۔ اس طرح امریکا کے اندر اکثریتی مسیحیوں کی زیادتی کے خلاف مسلم اور یہودی اقلیت سے تعلق رکھنے والی دو خواتین نے اپنی مشترکہ صدائے احتجاج بلند کی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  06 فروری تا 12فروری 2022