بھارتی معیشت اور عالمی معاشی انحطاط کی دستک
ملک میں سب سے زیادہ رئیس مگر 22کروڑ انسان بھوکے سونے پر مجبور
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
بھارت کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا ماننا ہے کہ عالمی مندی کا اثر ہماری معیشت میں بھی سستی پیدا کرنے کا باعث بنے گا اور ہم بھی سری لنکا کے طرز پر رواں دواں ہوں گے مگر زعم ہے کہ ہماری معیشت کی بنیاد بہت مستحکم ہے، ہماری شرح نمو کی رفتار دنیا کے بعض ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہتر ہے اور ہم دنیا کی چھٹی سب سے بڑی معیشت بن چکے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ معاشی پالیسی بے سمتی کا شکارہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں کارپوریٹس اور رئیسوں کی تعداد میں برطانیہ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے مقابلے میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ کورونا وبا کے دوران بھارت میں ایسے امراء جن کے اثاثے دو سو کروڑ سے زیادہ ہیں ان کی تعداد میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اب دو سو کروڑ سے زائد اثاثے والے افراد بڑھ کر 13637 ہو گئے ہیں مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ عام بھارتیوں کے اثاثے سات فیصد تک کم ہو گئے ہیں۔ اس طرح امیر مسلسل امیر اور غریب لگاتار غریب ہوتا جا رہا ہے، یوں امیر وغریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ حکومت کی اس مسئلہ پر کسی طرح کی کوئی پیش قدمی نہیں دکھائی دیتی۔ ایک رپورٹ مشہور بین الاقوامی تجارتی میگزین فوربس نے انڈیا کے ارب پتی افراد کی فہرست شائع کی ہے دوسری طرف وزارت دیہی ترقیات نے بھارت میں انتہائی غربت اور خط افلاس کے نیچے رہنے والوں کے بارے میں ایک رپورٹ لوک سبھا میں پیش کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے دو ملک ہیں ایک بھارت اور دوسرا انڈیا۔ ایک طرف دولت کی ریل پیل ہے اور وسائل کا پہاڑ ہے تو دوسری طرف غربت، افلاس، بھکمری اور قلت خوراک سے 22 کروڑ افراد متاثر ہیں مگر حکومت درباری میڈیا کے ذریعہ سماجی انصاف کا ڈنکا پیٹ رہی ہے اور الیکشن جیتنے کے لیے 88 کروڑ لوگوں کو ریوڑی کے طور پر مفت راشن دے رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں سماجی انصاف، جمہوریت اور مساوات کے پس پردہ سرمایہ داری کی مکروہ فضا کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ اسی طرح کی ایک اور رپورٹ سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ دودھ، دال، سبزی کی پیداوار میں ہم دنیا بھر میں پہلے مقام پر ہیں مگر ملک کے 22 کروڑ افراد تغذیہ کی کمی کے شکار ہیں یا انہیں محض ایک وقت کا کھانا مل پاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ حاشیے پر پڑے لوگ روزانہ بھوکے سونے پر مجبور ہوتے ہیں کیا یہی ہماری طاقتور اور بہتر معیشت ہے؟ وجہ یہ ہے کہ امراء اور غرباء کے درمیان کی خلیج مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ ورلڈ ہنگر انڈیکس ہمارا مذاق اڑاتا رہتا ہے کیونکہ غربت اور بھکمری کے خاتمہ کی ہماری رفتار تمام ترقی یافتہ ممالک سے بہت سست ہے یہاں تک کہ بنگلہ دیش، افغانستان، پاکستان، ایران نیپال وغیرہ سے بھی بہتر نہیں ہے۔ ہماری مرکز کی حکومت کی عیاری ملاحظہ ہو جو اپنی معیشت کو دنیا کی سب سے تیز رفتار بتانے سے کبھی نہیں تھکتی۔ مگر جب مقوی غذائیت کی بات ہوتی ہے تو ہم پھر مذکورہ بالا ممالک کو سامنے لاکر اپنی پیٹھ تھپتھپانے لگتے ہیں تاکہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ دار ہمارے بازار کو دیکھ کر ہمیں اول ہونے کی سند دیں خواہ حقیقت کچھ بھی ہو۔ دراصل ہماری حکومت کی ترجیح ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ اور مذہبی منافرت کا زہر پھیلانا، دستوری طور سے جو بھی حکومت بنے اسے خرید و فروخت کے ذریعے ختم کرنا، عام لوگوں کو مندر، مسجد کا لالی پاپ دے کر اور حاشیے پر پڑے غریب لوگوں کو مذہب کا افیوم پلا کر گہری نیند سلانا اور ملک میں دہشت کا ماحول پیدا کرنا ہے ۔
اقوام متحدہ کی دنیا میں غذائی طمانیت و تغذیہ کی صورتحال سے متعلق 2022 کی رپورٹ (The State of Food Security and Nutrition in the World) کے مطابق 2019 کے بعد لوگوں کی بھوک کے خلاف جدوجہد بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ 2021 میں ساری دنیا کے 76.5 کروڑ افراد تغذیہ کی کمی کے شکار پائے گئے۔ ان میں 22.4 کروڑ (29فیصد) بھارتی تھے جو دنیا بھر کے کل تغذیہ کی کمی کا شکار لوگوں کی ایک چوتھائی سے بھی زائد ہے جبکہ گلوبل ہنگر انڈیکس 2021 کے مطابق بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا غذا پیدا کرنے والا ملک ہے جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے کہ بھارت کا دودھ، دال، چاول، سبزی، مچھلی اور گیہوں کی پیداوار میں پہلا مقام ہے پھر بھی ہمارے ملک کی بڑی آبادی تغذیہ کی کمی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے حالیہ رپورٹ کے مطابق 2004-06 میں ہمارے یہاں 24 کروڑ لوگ تغذیہ کی کمی کا شکار تھے۔ ان کے خوردنی اشیا میں مقوی غذائیت کی مقدار پچاس فیصد سے بہت کم رہی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کی کوششوں سے ہمارے ملک کے حالات میں قدرے بہتری آئی ہے۔ پندرہ سال قبل 216 فیصد آبادی کی تغذیہ کی کمی کی شکار اب 16.3 فیصد آبادی کو مقوی غذا نہیں مل پا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں بھوک سے جنگ کے میدان میں سست رفتاری سے ہی سہی کچھ بہتری آئی ہے۔ دوسری طرف لوگوں میں موٹاپے کی بیماری میں اضافہ ہوا ہے۔ پندر سے 49 سال کے 3.4 کروڑ لوگ فاضل وزن والے زمرے میں آگئے ہیں جبکہ چار سال قبل یہ تعداد محض 2.4 کروڑ تھی۔ اسی طرح خواتین میں خون کی کمی کا مرض بھی بڑھ رہا ہے۔ 2021 میں کل 18.7 کروڑ خواتین میں خون کی کمی پائی گئی جبکہ 2019 میں یہ تعداد 17.2 کروڑ تھی۔
حکومت معیشت کی بدحالی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور آسمان کو چھوتی ہوئی بے روزگاری کے لیے کورونا قہر، عالمی مندی اور روس یوکرین کی کئی ماہ سے جاری جنگ کی آڑ لے رہی ہے مگر حکومت کو بتانا ہو گا کہ پھر ایسے حالات میں سرمایہ داروں کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ کیوں کر ہو رہا ہے اور غریب مزید غریب کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ اس بھیانک عدم مساوات اور نا برابری کی خلیج کو پاٹنے کے لیے حکومت کیا اقدام کررہی ہے؟ اگرچہ حکومت کو اپنی نا اہلی، بے سمتی اور حاشیے پر پڑے ہوئے غریبوں و مزدوروں کے ساتھ دشمنی پر مبنی رویے کی پردہ پوشی کے لیے روس۔ یوکرین جنگ کا حیلہ مل گیا ہے لیکن اسے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا رہنے کی ضرورت نہیں ہے اور اسے وقت کے رہتے ہوئے عالمی کساد بازاری اور ترقی پذیر معیشتوں کے ممکنہ بحران کے مد نظر مالیات پر قابو پانا ضروری ہے۔ فی الحال بھارت میں گیارہ فیصد مالیاتی خسارہ ہے جبکہ چالو کھاتے کا خسارہ (Current account deficeit) دوگنا ہو کر جی ڈی پی کا نو فیصد تک پہنچنے والا ہے۔ افراط زر، کنزیومر انفلیشن سات فیصد اور ہول سیل پرائس انفلیشن (WPI) پندرہ فیصد کی سطح پر ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک کے قرض اور جی ڈی پی کا تناسب 90 فیصد تک جاچکا ہے جسے کم کرنا ضروری ہے۔ ہم دو وقتوں کا کھانا بھی غریبوں کو مہیا نہیں کر پا رہے ہیں۔ ملک میں اناج کے ذخائر کا پیٹ پھول رہا ہے اور دوسری طرف غریبوں کے پیٹ پیٹھوں کو لگ رہے ہیں۔ کیسی ہے ہماری معاشی پالیسی، جسے نہ ہم دیکھ پا رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے ماہرین اقتصادیات اس کی اصلاح پر قادر ہیں، حالاں کہ ہمارے پاس بین الاقوامی شہرت یافتہ نامور ماہر اقتصادیات موجود ہیں مگر سنگھی ارباب حل و عقد ان سے مشورہ کرنا کسر شان سمجھتے ہیں۔
***
***
حکومت معیشت کی بدحالی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور آسمان کو چھوتی ہوئی بے روزگاری کے لیے کورونا قہر، عالمی مندی اور روس یوکرین کی کئی ماہ سے جاری جنگ کی آڑ لے رہی ہے مگر حکومت کو بتانا ہو گا کہ پھر ایسے حالات میں سرمایہ داروں کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ کیوں کر ہو رہا ہے اور غریب مزید غریب کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ اس بھیانک عدم مساوات اور نا برابری کی خلیج کو پاٹنے کے لیے حکومت کیا اقدام کررہی ہے؟
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2022