بھارت میں سب سے زیادہ معاشی عدم مساوات

غربت دور کرنے کی واضح پالیسی موجود نہیں

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

پڑھائی، کمائی اور دوائی تک رسائی میں نابرابری کو ترجیحاً ختم کرنے کی ضرورت
دا ورلڈ ان ایکیولیٹی لیب نے 2022ء کی عالمی عدم مساوات رپورٹ (The world inequality report)کو 7دسمبر 2021ء کو شائع کیا۔ اس رپورٹ کو تیار کرنے میں فرانس کے نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات تھامس پیکٹی سمیت کئی ماہرین نے تعاون کیا ہے جن کی رہنمائی ورلڈ ان ایکولیٹی لیب کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر لوکس چانسل نے کی ہے ۔ WIRکے ان مطالعوں میں دنیا کے ممالک کے مختلف طرح کے مالیاتی اعداد وشمار کو ان کی آمدنی اور اخراجات کے حساب سے شامل کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عدم مساوات میں بھارت بدترین حالت میں ہے اور یہ ملک غربت وافلاس کا نمونہ بن گیا ہے۔ اگرچہ بہت خوشحال اور امیر ترین لوگ بھی ہیں لیکن سرفہرست 10فیصد اور سرفہرست ایک فیصد کے پاس قومی آمدنی کا بالترتیب 57فیصد اور 22فیصد ہے۔ وہیں نیچے سے 50فیصد آبادی کی اس میں شراکت محض 13فیصدہے۔ یہ صرف آمدنی اور دولت میں عدم مساوات نہیں ہے جو بھارت کو طاعون کی طرح تباہ کر رہا ہے بلکہ صنفی عدم مساوات کے معاملے میں بھی بھارتی خاتون مزدوروں کی آمدنی دنیا کے تمام ملکوں سے کم ہے جو مشرق وسطیٰ کے خواتین کی اوسط حصہ داری (15فیصد) سے تھوڑی ہی زیادہ ہے۔ ہمارے یہاں خاتون مزدوروں کی آمدنی میں حصہ داری 18فیصد ہے۔ یہ ایشیا کے اوسطاً (21فیصد چین کو چھوڑ کر) سے کم ہے۔ ہمارے ملک میں عدم مساوات اس قدر زیادہ ہے کہ بھارت کو اس حساب کتاب سے نکال دیا جائے تو نیچے سے 50فیصد لوگوں کی عالمی پیمانے پر آمدنی میں حصہ داری بڑھ جائے گی۔ ہمارے ملک کی معاشی بہتری کے ساتھ غربت اور عدم مساوات سے کیسے بچایا جائے، یہ ایک مسئلہ ہے۔ بھارت نسبتاً ایک غریب ملک ہے جس سے عدم مساوات کو دور کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ یہاں کی جی ڈی پی کے حجم کو بڑھایا جائے۔ بھارت کی اس حقیقت پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بھارت میں تیز رفتاری سے بڑھتی معیشت کا خیال ضرور ہے مگر غربت اور عدم مساوات کو دور کرنے کی واضح پالیسی نہیں ہے کیونکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ تیزی سے بڑھتی جی ڈی پی کافی نہیں ہے۔ جب تک پڑھائی، کمائی اور دوائی (Education Employment Health) رسائی میں عدم مساوات کو ختم نہ کیا جائے حکومت کی غربت اور عدم مساوات کے صحیح صحیح اعداد وشمار کو پیش کرنے کی شروعات تو فی الفور کرنی ہی ہو گی۔ 2021ء میں بھارت کے بالغوں کی آمدنی دو لاکھ سے تھوڑی ہی زیادہ ہے۔ یہی حالت اگلی فہرست کے 10فیصد لوگوں کی آمدنی 11.6لاکھ روپے ہے جبکہ 50فیصد نچلی سطح کے لوگ محض 53.6ہزار سالانہ ہی کماتے ہیں۔ اس کا سماجی اور سیاسی اثر ہونا لازمی ہے کیونکہ ہمارے ملک کی آبادی بے انتہا مفلس ہے جس سے ان کی تعلیم اور صحت کے شعبہ تباہ ہوگئے۔ ایسی معیشت میں لوگوں کے اندر بڑی محرومی کا احساس ہے۔ خصوصاً بچے اور نوجوان بڑی بُری حالت میں ہیں۔ ہمارے بڑے کاروباری ملک کو چھوڑ کر غیر ملکوں میں اچھا مستقبل تلاش کر رہے ہیں۔ ذہین اور باخبر افراد ملک کے باہر جاکر قسمت آزمائی کرنے پر مجبور ہیں۔ باقی مفلسوں کے پاس کوئی متبادل نہیں بچا ہے، وہ غربت اور محرومی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ نتیجتاً بد دماغی، تشدد، خرافات اور اندھ وشواس دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ ڈبلیو آئی آر کے مطابق دنیا میں عدم مساوات بیسویں صدی کی استعماری دور کے برابر ہے۔ کیا یہی ہے ہماری معاشی ترقی میں بہتری؟ ایک خاص رجحان یہ ہے کہ ملکوں کے درمیان عدم مساوات میں کمی آرہی ہے مگر عدم مساوات اندرون ممالک بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کا متوسط طبقہ (Middle class) غریبوں پر مشتمل ہے جن کی اوسط دولت 7,23,930روپے ہے جو قومی آمدنی کا 29.5فیصد ہوتا ہے جب کہ سرفہرست 10فیصد اور ایک فیصد کے پاس بالترتیب 63,54,070روپے اور 3,24,49,360روپے کی حصہ داری ہے۔ بھارت میں اوسط کنبوں کی آمدنی 9,83,010روپے ہے جبکہ نچلی سطح پر رہنے والے 50فیصد آبادی کے پاس تقریباً کچھ نہیں ہے۔ 2014ء کے بعد سے سرفہرست 10فیصد لوگوں اور نچلی سطح کے 50فیصد نچلی سطح کی آبادی کے ٹیکس سے قومی آمدنی غیر متبدل رہتی ہے۔ بھارت کے عدم مساوات کی کفییت کا ڈاٹا جسے حکومت ہند (GO1) نے جاری کیا ہے کافی ڈراونا ہے۔
ہمہ جہت مفلسی کے اشاریے (Multidimensional Poverty Index) جسے نیتی آیوگ نے تیا رکیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ہر چار شہریوں میں سے ایک شخص ہمہ جہتی مفلس ہے۔ بہار اپنی آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ 51.91فیصد مفلس ہے۔ اس کے بعد 42.14فیصد لوگ جھارکھنڈ اور اتر پردیش کے 37.79فیصد لوگ ہمہ جہتی مفلس میں مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ این ایس او سروے جو بہت چونکانے والا ہے کہ ملک کے زارعت پیشہ نصف سے زائد خاندان بہت زیادہ مقروض ہیں۔ 2019ء کے سروے کے مطابق 50فیصد سے زیادہ کسان گھرانے پر فی خاندان اوسطاً 74121روپے کا قرض تھا جس میں سے 69.6فیصد قرض بینکوں سے لیے گئے تھے۔ بقیہ سرکاری و نیم سرکاری اداروں سے لیے گئے۔ 20.5فیصد قرض زیادہ شرح سود پر سود خوروں سے لیا گیا تھا۔ سروے سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ 83.5فیصد دیہی کنبوں کے پاس ایک ہیکٹر سے بھی کم زمین ہے جبکہ 0.2فیصد کنبوں کے پاس 10ہیکٹر سے زیادہ زمین تھی۔ این ایس او کے کل ہند قرض اور سرمایہ کاری کے سروے کے مطابق ملک کے 10فیصد شہری خاندان کے پاس 1.5کروڑ روپے کی دولت ہے جبکہ نچلی سطح کے خاندان کے پاس محض 2000روپے ہیں۔ سروے کے مطابق دیہی علاقوں کی حالت شہروں کے حالات سے بہتر ہے۔ دیہی علاقوں میں سرفہرست 10فیصد خاندانوں کے پاس اوسطاً 81.7لاکھ روپے کا اثاثہ ہے جبکہ کمزور طبقوں کے پاس محض 41ہزار روپے کا ہی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ معاشی کھلے پن اور معاشی اصلاح کے فیصلوں کے بعد ملک میں لوگوں کی آمدنی ضرور بڑھی لیکن اس کے ساتھ معاشی عدم مساوات بھی بڑھا۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آزادی کے 75سالوں بعد بھی عدم مساوات بہت زیادہ ہے WIR کے مطابق برٹش راج (1858تا1947) میں سرفہرست 10فیصد لوگ 50فیصد دولت کے مالک ہوتے تھے۔ بھارت کی آزادی کے بعد سماج وادی معاشی پالیسی نے آمدنی میں عدم مساوات کو بہت حد تک کم کیا جس کی وجہ سے سرفہرست 10فیصد لوگوں کا حصص کم ہوکر 35-40فیصد ہوگیا۔ 1980ءکے وسط سے ڈی ریگولیشن اور لبرلائزیشن سے ساری دنیا میں آمدنی اور دولت میں بڑی تیزی سے عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ WIR کے مطابق دنیا کے 10فیصد افراد کے پاس 76فیصد دولت ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ امراء ایشیا میں رہتے ہیں، 21فیصد یوروپ میں جبکہ امریکہ میں 18فیصد امیر بستے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق کورونا کی دوسری لہر کے دوران ساری دنیا معاشی اتھل پتھل سے دوچار تھی اور لوگوں کی نوکریاں چلی گئی تھیں۔ چھوٹے موٹے کاروبار بالکل ختم ہوگئے تھے۔ مگر اس دور میں عالمی طور سے ارب پتیوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ فوربس کے ایڈیٹر اے ڈولان کا کہنا تھا کہ کورونا قہر کے باوجود دنیا کے امیر ترین لوگوں کے لیے یہ سال ایک ریکارڈ کی طرح رہا ہے۔ اس دوران جہاں ان کی دولت میں پانچ کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا وہیں نئے ارب پتی بھی بڑی تعداد میں بڑھے۔ بھارت تیسرا سب سے بڑا ارب تپیوں کا ملک ہے جبکہ سات سالوں میں 9کروڑ افراد خط افلاس کے قریب پہنچ گئے۔ یہ سارے حقائق ملک کے پالیسی سازوں کو بہت ہی غور وفکر کی دعوت دے رہے ہیں کہ امراء اور غرباء کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کیسے پاٹا جائے تاکہ ملک کے معاشی عدم مساوات کم سے کم ہو کیونکہ عدم مساوات سماج کے لیے بہتر ہے نہ ملک کے لیے۔
***

 

***

 بھارت تیسرا سب سے بڑا ارب تپیوں کا ملک ہے جبکہ سات سالوں میں 9 کروڑ افراد خط افلاس کے قریب پہنچ گئے۔ یہ سارے حقائق ملک کے پالیسی سازوں کو بہت ہی غور و فکر کی دعوت دے رہے ہیں کہ امرا اور غربا کے درمیان بڑھتی خلیج کو کیسے پاٹا جائے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26  دسمبر تا 1 جنوری 2021