ایم شفیع میر، جموں و کشمیر
کسی بھی دور میں تعلیم کی اہمیت ،افادیت اور اس کی روحانیت سے انحراف نہیں کیا گیا ہے ۔تعلیم کو زندہ قوموں اور باشعور ومہذب سماج کی بالادستی اس کی عظمت کی علامت گردانا جا تا ہے۔ایک تعلیم یافتہ سماج کی پہچان صبر، انکساری شکر گزاری، خوفِ خدا اور عزم و استقلال جیسی اہم ترین عادات ہوتی ہیں۔تعلیم کمزور ترین سماج کو طاقتور بنانے میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ صالح پاکیزہ اور صحتمند معاشرہ تشکیل دیا جا سکے تاکہ سماج ہمدردی، غمگساری اور خیر سگالی کے جذبہ سے معمور ہو۔تعلیم یافتہ حضرات نور علم ، بالغ نظری اوراپنی سنجیدہ کاوشوں کی بدولت نوعِ انسانی کے تحفظ کی فکر کر سکیں۔جب معاشرے میں اس مقصد و نوعیت سے محنت کی جائے تو یقیناً سماج سے تمام برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔جب اہلِ علم اپنے اندر ایک جنونی کیفیت پیدا کر کے اپنی صلاحیتوں اور سنجیدہ کاوشوں کو اِس مقصد کے لیے بروئے کار لائیں گے توظاہر سی بات ہے کہ اس کا فائدہ اہل علم کو ہونے کے ساتھ ساتھ سماج کے دبے کچلے اور علم سے محروم افراد کو بھی ہوگا، اور اس صداقت سے قطعی روگردانی نہیں کی جاسکتی ہے کہ تعلیم کے حصول کاجوثمرہ ہے وہ یہی ہے کہ بشریت کو زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہو تعلیم کی روشنی ان گھروں تک بھی جائے جو لاچاری مجبوری اور ناداری کی وجہ سے دولت علم سے محروم ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں تعلیمی شعبے کی کہانی کچھ الگ ہی ہے، یہاں تعلیم حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ایک صحتمند معاشرے کی تکمیل ہے۔
قارئین کرام! جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ملک بھر اور بالخصوص جموں و کشمیر میں شعبہ تعلیم کس قدر خستہ حالی کا شکار ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں نظام تعلیم انتہائی بدحالی کا شکار ہے ،تعلیمی سیکٹر کی حالتِ خستہ کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی ذی حس انسان یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرے گا کہ تعلیم کا حصول اب صرف اور صرف ڈگریوں تک محدود ہے یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کا داخلہ سرکاری اسکولوں میں نہیں کراتے ہیں۔ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں کا درہم برہم نظام اور دوسری جانب پھلتے پھولتے جا رہے نجی تعلیمی اداروں کی بھر مار انسان کو سوچنے کے لیے مجبور کر دیتے ہیں کہ آخر کونسی سے کھچڑی پکائی جار ہی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کے بڑھتے رجحان پر کبھی کبھار حکومت زبانی طور اگر کوئی بات کہہ بھی دے تو انہیں پھٹ سے یاد آ جاتا ہے کہ ہمارے تو اپنے بچے خود نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔اقتدار پر قابض سیاسی لیڈر چاہے وہ ماضی کے ہوں یا موجودہ وقت کے، بگڑتے ہوئے تعلیمی نظام کو سدھارنے میں بڑے بڑے اور بے شمار دعوے تو کرتے ہیں لیکن اُن کے دعوؤں کی پول صاف طور پر اُس وقت کھلتی دکھائی دیتی ہے جب کہ وہ خود اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانے پر راضی نہیں ہوتے۔ ایک صاحبِ سیاست نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ سرکاری اسکولوں میں بچوں کا داخلہ کرانے سے بہتر ہے کہ بچوں کا اپنے ہاتھوں سے قتل کیا جائے۔
شعبہ تعلیم کی اِس مایوس کن صورت حال کو دیکھتے ہوئے یوں کہا جائے کہ حکومتی تعلیمی ادارے اب جہالت کی تھوک منڈیاں بن گئے ہیں تو بے جا نہیں ہوگا۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سیاسی لیڈر اور سرکاری تعلیمی اداروں میں تعینات اساتذہ کے دعوے کیا ہیں جو یہ کہتے ذرا برابر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ دینے کے بجائے سرکاری اسکولوں میں داخلہ کرائیں جہاں تعلیم معیاری اور سستی ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے میں تعینات ایک اُستاد جو خود اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرارہا ہے اور پھر آسانی سے یہ کہہ دیتا ہے کہ تابناک مستقبل کے لیے والدین اپنے بچوں کا داخلہ سرکاری اسکولوں میں ہی کرائیں۔ گو کہ لوگ یہ بھاشن سنتے ہیں اور خاموش ہوجاتے لیکن اِس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سچائی پر پردہ پڑا رہے اور کوئی بھی اِس پردے کو ہٹانے کی زحمت گوارا نہ کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سرکاری اسکولوں میں تعلیم معیاری اور سستی ہے تو پھر اُن اساتذہ اور لیڈروں کے اپنے بچے سرکاری اسکولوں سے غائب کیوں ہیں؟کیوں زیادہ تر نجی تعلیمی اداروں کے مالکان یا تو سیاست داں ہیں یا پھر اساتذہ؟ کیا وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینا ہی نہیں چاہتے یا پھر وہ معیاری اور سستی تعلیم کا کھوکھلا اور جھوٹا ڈھنڈورا پیٹ کر لوگوں کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں؟ یا پھر غریب بچوں کوتعلیمی لحاظ سے مزید پسماندگی کی طرف دھکیلنے اور امیر کو مزید سہولیات سے استفادہ کرنے والا فارمولا اپنا کر تعلیم کی خرید و فروخت کا دھندا بنا کراپنی مٹھی میں رکھنا چاہتے ہیں اس لیے کہ کل کسی غریب کا بچہ اچھی تعلیم حاصل کر کے ہمارے برابر کھڑا ہو کر تعلیمی خریداری کے اس دھندے کو بند نہ کر دے۔قابل رحم ہے کہ سرکار اسکولوں میں اس وقت تعلیمی نظام اس قدر بگڑچکا ہے کہ ایک مزدور پیشہ انسان بھی دن بھر کی دیہاڑی لگا کر اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ کرا تا ہے۔جو لوگ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ کرانے پر مجبور ہیں وہ یہ رونا روتے ہوئے کہتے ہیں کہ کاش ہمارے پاس بھی معقول ذرائع آمدنی کا کوئی راستہ ہوتا تاکہ ہم بھی اپنے بچوں کا نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ کرا کر انہیں اچھی تعلیم سے آراستہ کراتے۔ کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بچوں کا داخلہ کرانا گویااُن کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہے کیونکہ سرکاری اسکولوں میں تعلیمی نظام اس قدر بگڑ چکا ہے کہ داخلہ کے وقت تو اسکولوں میں داخلہ بچوں کا کیا جاتا ہے لیکن چند سالوں کے بعد وہاں سے بچے نہیں بلکہ بوجھ ڈھونے والے گدھے باہر آتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ اس تمام صورت حال کا ذمہ دار اگر کوئی ہے تو وہ سرکار کا تعلیمی نظام ہے جس نے اسکولوں کو بجائے عبادت گاہ کے کریانہ کی دکان بنا کر رکھ دیا ہے۔اساتذہ جو بچوں کو علم کے نور سے منور کیا کرتے تھے اُسے بی ایل اوز بنا کر رائے دہندگان کی گنتی کا طالب علم اور مڈ ڈے میل کا اکاؤنٹ اسسٹنٹ بنا کر رکھ دیا ہے، کچھ اساتذہ کو مڈڈے میل کا سامان جیسے چاول،تیل، دالیں وغیرہ ڈھونے کا پابند بنا کر استاد کی عظمت کو خاک میں ملانے کے کام پر لگا دیا گیا ہے۔ ایسے میں اسکولوں سے گدھے باہر نہ آئیں تو اور کیا آئے گا؟ سوال یہ ہے کہ کیا والدین اپنے بچوں کو ایسے نظامِ تعلیم میں رکھنا پسند کریں گے؟ تو جواب نفی میں ہوگا۔
سرکاری اسکولوں میں بگڑتے نظام تعلیم میں جہاں سیاسی کارندوں کے غیر منصفانہ اور غیر دانشمندانہ اقدام کا ہاتھ ہے وہیں اسکولوں میں تعینات ایسے بھی اساتذہ ہیں جو سرکاری اسکولوں میں تعلیمی نظام کی بگڑی حالت کو بہتر بنانے کے تئیں نہایت ہی غیر سنجیدہ ہیں۔ایسے اساتذہ جو باتوں ہی باتوں میں سرکاری اسکولوں کے نظامِ تعلیم پر دعوے کرتے تھکتے نہیں ہیں لیکن حقیقی معنوں میں وہ زبانی جمع خرچ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔گوکہ سرکاری اسکولوں میں آج بھی ایسے اساتذہ ہیں جو بگڑے تعلیمی نظام کو سدھارنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں لیکن اِن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔بگڑے تعلیمی نظام کی ایک بنیادی وجہ اساتذہ کا بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ بھی ہے ،اساتذہ کا اپنے طالب علموں کے ساتھ دوستانہ رویہ ہونا کوئی بری بات نہیں لیکن اتنا بھی نہیں کہ استاد کی تشریف آوری ہو اور طالب علم ٹس سے مس نہ ہو وہ بغیر کسی ڈر و خوف کے اپنے استاد سے ہیلو ہائے کر کے بچی کھچی استاد کی عظمت کو اور زیادہ خاک میں ملانے کا کام انجام دیتا رہے۔ اور قابل رحم تو یہ ہے کہ اساتذہ اپنی عظمت سے آگاہ ہونے کے بجائے اس تمام صورت حال کو معمولی سمجھ کر بھول جاتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ اساتذہ خود اپنی عظمت و وقار کو بحال رکھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔تو صاف طور سے ظاہر ہورہا ہے کہ دورِ حاضر کا استاد اپنے اصل مقام سے آگاہ نہیں۔اساتذہ کا اپنے طالب علموں کے ساتھ غیر ضروری دوستانہ رویہ اگر نظام تعلیم کے بگڑی صورت حال کی ایک اہم وجہ ہے تو وہیں اس وجہ کو مضبوطی بخشنے میں والدین بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ دورِ حاضر میں جب والدین اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخلہ کراتے ہیں تو وہ یوں سمجھ لیتے ہیں کہ گویا اب ہم نے اپنے بچے کی اساتذہ یا پھر اس اسکول کے ساتھ بیعت کر لی ہے یہاں سے اب ہمارا کام ختم۔ بچہ اسکول کب جاتا ہے کب وہاں سے واپس لوٹتا ہے، وہاں کیا پڑھتا ہے اس سے والدین کو کوئی لینا دینا نہیں ہوتا انہیں تو بس بچہ پاس ہونا چاہیے۔ چاہے وہ نقل کر کے پاس ہو جائے یا پھر پیسہ دے کر اِس کی کوئی پروا نہیں۔ بچے نے اگلی جماعت میں قدم تو رکھا لیکن اس کا یہ قدم کہیں ڈگمگا تو نہیں رہا ہے؟ یا نقل کی بیساکھیوں کے سہارے یہ اگلا قدم کہیں اس کی پڑھائی کا آخری قدم تو ثابت نہیں ہوگا؟ اس کی معلومات رکھنا والدین اپنا فرض نہیں سمجھتے ہیں۔ بس تمنا اتنی سی ہے کہ ہر سال ہمارے بچے کا قدم اگلی جماعت میں ہونا ضروری ہے ،والدین کی بے خبری میں اٹھائے گئے بچے کے اس قدم میں والدین اپنے بچے کو کیا کیا نہیں دیکھتے ہیں ،کبھی ڈاکٹر،تو کبھی انجینئر، کبھی سائنس دان تو کبھی سیاست دان لیکن والدین کی اپنی بچوں کے تئیں عدم توجہی اُن کے نونہالوں کو ایک اچھا افسر تو کیا بنائے گی الٹا بھنگ، سگریٹ اور دیگر نشہ آور چیزوں کا ماسٹر ضرور بنا دے گی۔ جی ہاں!موجودہ دور میں دیکھا گیا ہے کہ اکثر بچے اپنے اساتذہ کے غیر ضروری دوستانہ رویے اور والدین کے غیر سنجیدہ رویے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اسکولی اوقات میں کلاس روم سے بھاگ آتے ہیں اور اوباش قسم کے لڑکوں سے اپنی دوستی کو بڑھا کر خود کو تباہی کی طرف دھکیلتے ہیں ،آئے روز اسکولوں سے بھاگ بھاگ کریہ طلباء آہستہ آہستہ منشیات کی مہلک وباء کے شکار ہو جاتے ہیں پھر
ایک دن ایسا آتا ہے کہ یہی بچے جو کل کا مستقبل ہو سکتے تھے منشیات کا ایسا دھندا کرتے نظر آتے ہیں جس سے پورا سماج متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ایسے ہی طلباء پر اساتذہ اور خاص طور پر والدین اپنی نظر رکھتے تو آج ہمارا ملک منشیات میں مقام اول پر نہ ہوتا اور پھر والدین کاسر بھی شرم سے جھکنے کے لیے مجبور نہیں ہوتا جو اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دے کرسماج میں سر اٹھا کر جینے کے خواب دیکھتے ہیں۔ بعد از خرابی والدین اپنی غیر سنجیدگی کو ضرور کوستے ہیں لیکن ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئی کھیت‘‘ کے مصداق شرمندگی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔اتنا کچھ ہونے کے باجود بھی والدین آنے والے وقت کے لیے ایک لائحہ عمل اختیار نہیں کرتے بلکہ اساتذہ یا پھر سماج کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبان میں جھانکا نہیں جاتا
جب کہ والدین اپنے بچوں کی خبر گیری کرنے کے لیے سال میں ایک مرتبہ بھی اسکول میں اپنی تشریف آوری کو یقینی نہیں بنا پاتے تاکہ اسکول جا کر معلوم کیا جا سکے کہ ہمارا بچہ کون سے گل کھلا رہا ہے۔اتنا ہی نہیں والدین اسکول سے دیر گئے لوٹنے کے بعد اپنے بچوں سے کبھی یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ آپ اتنی دیر کہاں تھے؟ ان اوقات میں بچے کیا گل کھلاتے ہیں یہ سامنے آنے کے بعد والدین کا اساتذہ یا پھر نظام پر بوکھلا جاناکوئی دانشمندی نہیں۔لہٰذا والدین، اساتذہ، اسکولوں و کالجز کے پرنسپلز یا پھر تعلیمی ٹھیکیداروں کو نجی تعلیمی اداروں پر لگام کسنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کیا سرکاری اسکول میں تعلیمی نظام کے بگڑنے کی وجہ کہیں ہم خود ہی تو نہیں اگر ایسا ہے تو پھر اس صورت حال کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرانے کے بجائے سب لوگ اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور نبھائیں وگرنہ یہ لفظی جنگ تعلیمی نظام کو سدھارنے کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہو سکتی بلکہ آپسی انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔ لباسِ غیر پہ اُنگلی اٹھانے سے پہلے اپنا گریباں اپنی نظر میں رہے تو اچھا ہے۔کیوں کہ نجی تعلیمی ادارے بھی تو ہمارے ہی ہیں اُن کے مالکان بھی تو ہم خود ہی ہیں یعنی کہ تمام برائیوں کی جڑ ہم خود ہی ہیں۔
***
سرکاری تعلیمی اداروں میں نظام تعلیم انتہائی بدحالی کا شکار ہے ،تعلیمی شعبہ کی حالتِ خستہ کو دیکھتے ہوئے کسی بھی ذی حس انسان کو یہ کہنے میں تامل نہیں ہوگا کہ تعلیم کا حصول اب صرف اور صرف ڈگریوں تک محدود ہے یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کا داخلہ سرکاری اسکولوں میں نہیں کراتے۔ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں کا درہم برہم نظام اور دوسری جانب پھلتے پھولتے نجی تعلیمی اداروں کی بھر مار ہے۔