بڑھتی عسکریت اور سرکاری غفلت
کشمیر ، منی پور اور بہار میں خوں چکاں واقعات اور وزیر داخلہ کو یوپی الیکشن کی فکر!
ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
وزیر داخلہ کی بنیادی ذمہ داری نظم و نسق قائم رکھنا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں اس ہفتہ چار ایسے واقعات رونما ہوئے جن پر وزارت داخلہ کو متوجہ ہونا چاہیے تھا ۔ کشمیر کے علاوہ منی پور اور بہار میں تشویشناک واقعات رونما ہوئے اور مہاراشٹر میں نکسلوادیوں کے خلاف ایک بہت بڑا آپریشن کیا گیا۔ یہ اتفاق کی بات ہے مہاراشٹر کو چھوڑ کر بقیہ تینوں صوبوں میں بی جے پی کا اقتدار ہے ۔ منی پور میں اقلیت میں باوجود امیت شاہ نے اپنا وزیر اعلیٰ تو بنوا دیا مگر عسکریت پسندی پر قابو نہیں پاسکے ۔ بہار میں متحدہ قومی محاذ کی حکومت میں وزیر اعلیٰ نہ سہی مگر دو عدد نائب وزرائے اعلیٰ بی جے پی کے ہیں۔ کشمیر میں صدر راج نافذ ہے یعنی مرکزی حکومت کے تحت بی جے پی کا لیفٹننٹ گورنر سرکار چلا رہا ہے۔ اس کے باوجود وزیر داخلہ نے ان لوگوں کے ساتھ مل کر حالات کو بہتر بنانے کے بجائے اپنی ساری توجہات کو اتر پردیش پر مرکوز کر رکھی ہے۔
اتر پردیش میں فی الحال بی جے پی کا اسٹار پرچارک وزیر اعلیٰ ہے جسے انتخاب جیتنے کی خاطر ملک بھر میں دوڑایا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کامیابی کم ہی ہاتھ آتی ہے۔ اتر پردیش میں اس وزیر اعظم کا حلقہ انتخاب ہے جسے انتخابی کھیل میں ترُپ کا پتّا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود آئے دن وزیر داخلہ کا اپنا کام چھوڑ کر یوپی جانا اس بات کا اشارہ ہے کہ یا تو ان کے اندر اس اہم ترین ذمہ داری نبھانے کی صلاحیت نہیں ہے یا دلچسپی نہیں ہے۔ ہر دو صورتوں میں انہیں وزارت داخلہ کسی اور کے حوالے کر کے پھر سے پارٹی کا صدر بن جانا چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان پر انتخاب کا اس قدر جنون سوار ہوجاتا ہے وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتے ہیں ۔ اس کی ایک اور وجہ اتر پردیش کی انتخابی مہم میں وزیر اعلیٰ یوگی کو دوسرے مقام پر دھکیلنا بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اگر بی جے پی کے ہاتھ پھر سے بٹیر لگ جائے اور وہ کامیاب ہوجائے تو اس کا فائدہ اٹھا کر یوگی شاہ کی جگہ مودی کی جانشینی کا دعویٰ کر دیں گے ۔ اس لیے کامیابی کا کریڈٹ لے کر اپنی اہمیت جتانے کے لیے شاہ جی انتخاب میں لگے رہتے ہیں جس کی قیمت ملک کے عوام چکاتے ہیں ۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ دائمی نہ سہی تو کم ازکم عارضی طور پر وزارت داخلہ کسی فعال اور باصلاحیت فرد کے حوالے کر کے الیکشن پر یکسو ہو جائیں ۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے پچھلے دنوں کشمیر کا دورہ کرکے اعلان کیا تھا کہ وادی میں امن و امان قائم ہوگیا ہے لیکن آئے دن ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خون خرابے کی خبریں ان کی تردید کردیتی ہیں۔حال ہی میں سری نگر کے بوہری کدل علاقہ میں ایک عام شہری کا گولی مار کر قتل کرنے کی واردات رونما ہوئی ۔ کشمیر میں یہ چوبیس گھنٹوں کے اندر دوسرا حملہ تھا ۔اس سے قبل باندی پورہ کے باشندے محمد ابراہیم خان کو گولی مار دی گئی تھی۔ وہ مہاراج گنج علاقہ میں ایک کشمیری پنڈت کی دوکان پر سیلس مین کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس طرح وادی میں مارے جانے والے شہریوں کی کل تعداد پندرہ ہوگئی۔ ان شہریوں کے علاوہ ایک دن قبل کشمیر کے بٹمالو علاقہ کی ایس ڈی کالونی میں انتیس سالہ پولیس کانسٹیبل توصیف کا گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔ ان واقعات سے جہاں ایک طرف حفاظتی دستوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں وہیں کشمیری پنڈتوں کی وادی میں باز آبادکاری کا دعویٰ بھی کھوکھلا ہوجاتا ہے۔
وزیر داخلہ کے بعد جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جموں کا دورہ کیا تو امیت شاہ سے مایوس کشمیری پنڈت رہنماوں نے ان سے رجوع کیاحالانکہ موصوف کشمیر کے سارے مسائل کے لیے کانگریس کے گاندھی خاندان اور عبداللہ خاندان کے ساتھ مفتی خاندان کو بھی ذمہ دار ٹھیراتے ہیں ۔ پندرہ نومبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق کشمیری پنڈتوں کےپانچ نمائندوں نے محبوبہ مفتی سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور وادی میں جاری چنندہ طریقے سے قتل پر اپنی تشویش اور فکرمندی کا اظہار کیا ۔ یہ ملاقات خوش آئند ہونے کے ساتھ بی جے پی پر ان کے عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ کشمیر کے مسلمان تو ویسے بھی بی جے پی پر بھروسہ نہیں کرتے اب اگر پنڈتوں کا بھی اعتماد اٹھ جائے تو اس کا بیڑہ ہی غرق ہو جائے گا۔ جموں کے ڈوگروں کی بھی وہی حالت ہے جو کشمیری پنڈتوں کی ہے۔ وہ بھی اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں بعید نہیں کہ جموں وکشمیر کے اندر بھی بی جے پی کی وہی حالت ہوجائے جو مغربی بنگال میں ہوئی ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے ساتھ الحاق کرنے والی محبوبہ مفتی نے پنڈتوں کی نقل مکانی کو کشمیری مسلمانوں کا ‘نقصان‘ بتایا۔ وہ ان کی واپسی یقینی بنانا چاہتی ہیں ۔ ان کے مطابق اس مقصد کے حصول کی خاطر نئی نسل پر ایک دوسرے کے قریب آنے کی ذمہ داری ہے تا کہ 1990 سے پہلے کے بھائی چارے والی ماحول سازی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہندو برادران کی باعزت طریقہ پر واپسی کے لیے کشمیری مسلمانوں کو سخت محنت کرنی ہوگی۔ اسی کے ساتھ محبوبہ مفتی نے عوام کو خبردار کیا کہ بی جے پی ووٹ حاصل کرنے اور ’تقسیم کرنے والی سیاست‘ کو فروغ دینے کی خاطر کشمیری پنڈتوں کے درد کو ہتھیار بناتی ہے یعنی ان کی مشکلات پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکتی ہے۔ بی جے پی کے طریقہ کار پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ بولیں کہ اس سے جڑے کچھ لوگ دہلی میں اسٹوڈیو کے اندر بیٹھ کر کشمیری پنڈتوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے اور زہر گھولتے ہیں۔ انہوں نے ایسے لوگوں پر وادی میں پنڈتوں اور مسلمانوں کے درمیان رضامندی کو روکنے کا الزام لگایا۔
محبوبہ مفتی نے جموں میں ممتاز سماجی کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری پنڈت طویل عرصہ سے گھروں سے دور رہنے کے بعد لوٹنا چاہتے ہیں، لیکن بی جے پی کا طریقہ کار پنڈتوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم پیدا کرنے اور زہر گھولنے کا ہے۔انہوں نے بی جے پی پر جموں وکشمیر میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو پامال کرنے کا الزام لگایا۔ان کے مطابق بی جے پی حکومت ’’اپنے ہی لوگوں کے ساتھ جنگ‘‘ میں مصروف ہے۔ مرکزی حکومت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے محبوبہ مفتی نے یہاں تک کہہ دیا کہ بی جے پی افغانستان میں تو شمولیتی حکومت اور انسانی حقوق پر نصیحت کرتی ہے مگر کشمیر کے اندر لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آئینی حقوق کا مطالبہ کرنے پر غداری کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ یہی رویہ تریپورہ میں ہونے والے تشدد کے خلا ف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں بلکہ حقائق کو پیش کرنے والوں پر بغاوت کا مقدمہ دائر کرکے اختیار کیا گیا۔ محبوبہ مفتی کے مطابق بی جے پی کے نزدیک شمولیت کا مطلب اس کے خطوط پر چلنا اور اس کے ایجنڈے کی تشہیر کرناہے۔
یہ بات ایک ایسے وقت میں کہی گئی جب دلی میں افغانستان کے مسئلہ پر ایک اہم بین الاقوامی اجلاس کا انعقاد ہوا اوراس میں بلند بانگ دعوے کیے گئے ۔ اس تناظر میں پی ڈی پی سربراہ نے کہا کہ ملک اور دنیا کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے کہ کس طرح بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اکثریت پسندی کو نافذ کر رہی ہے ۔ یہ پارٹی دنیا کو جمہوریت، انسانی حقوق اور انسانی اقدار پر نصیحت کرتے ہوئے کس طرح جموں وکشمیر میں انسانی اقداراورجمہوریت کو پامال کر رہی ہے۔ وادی میں پی ڈی پی کی سب سے بڑی حریف نیشنل کانفرنس ہے لیکن اس کے رہنما اور فاروق عبداللہ کے بھائی شیخ مصطفیٰ کمال نے بھی اپنے تازہ بیان میں محبوبہ مفتی کی ہی بات کہی ۔ انہوں نے پہلے تو یہ اعتراف کیا کہ جموں وکشمیر میں جاری نامساعد حالات، سیاسی خلفشار اور معاشی بدحالی سے تینوں خطوں کے لوگ انتہائی رنج و اندیشہ اور بے چینی و غیریقینیت کا شکار ہوگئے ہیں ۔ ان کے مطابق 1990 کی طرح کے حالات رونما ہوچکے ہیں لیکن بدقسمتی سے مرکز کے سخت گیر حکمران کشمیری عوام کے تئیں بے رخی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال کے بقول وادی کشمیر کو مکمل طور پر ایک فوجی چھاونی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ خوف اور دہشت کے ماحول میں لوگ گھروں میں سہمے ہوئے ہیں۔ مرکز کے بی جے پی حکمرانوں نے ریاست کے لوگوں کو آئینی، جمہوری اور مذہبی آزادی وصحافت سے محروم کرکے اہل کشمیر کے دلوں سے اعتماد اور بھروسہ چھین لیا ہے۔ انہوں نے شیر کشمیر اسٹیڈیم میں پارٹی کارکنان سے اپنے خطاب میں کہا کہ مرکز کے بی جے پی رہنما 370اور 35Aکی منسوخی کو مودی کا سب سے بڑا تحفہ قرار دیتے ہیں مگر نہ کشمیریوں نے اسے قبول کیا ہے اور نہ کریں گے۔ مصطفیٰ کمال نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ کشمیر کا مسئلہ ابھی حل طلب ہے اور ریاست نہ بھارت میں ضم ہوئی ہے اور نہ ہوگی۔ انہوں نے ملک کی آزادی اور سالمیت قائم رکھنے کی خاطر وقت ضائع کیے بغیر ریاستی عوام کے تمام آئینی اورجمہوری حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ مصطفیٰ کمال نے ہندو، مسلم، سکھ ، عیسائی اور بودھوں سے اپیل کی کہ وہ متحد ہوکر اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔ ان کے مطابق فی الحال ڈوگرہ، لداخی، کشمیری اور سکھ یک زبان ہوکر -A 35 اور دفعہ 370کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ بات اگر درست ہے تو یہ بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس موقع پر نیشنل کانفرنس (جموں) کے صدر ایڈووکیٹ رتن لال گپتا نے حاضرین کو ان فرقہ پرستوں سے ہوشیار رہنے کی اپیل کی جو عوام کو مذہب اور زبان کے نام پر تقسیم کرتے ہیں۔
ان آوازوں کے برعکس کشمیر کی زمینی صورتحال کو بہتر قرار دیتے ہوئے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے بالکل متضاد بات کہہ دی۔ انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں کی مدد سے جنگجوؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر کامیاب آپریشن جاری ہے کیونکہ کشمیری عوام اب تشدد سے پاک ماحول چاہتے ہیں جو کہ ایک مثبت چیز ہے ۔ سرکار کا اپنے آپریشن میں مقامی عوام کواستعمال کرنا بڑی عجیب بات ہے اور ڈیفنس چیف آف اسٹاف کا اسے کامیاب آپریشن کہہ کر یہ اعلان کرنا کہ کسی بھی جنگجو کو بخشا نہیں جائےگا اور بھی تعجب خیز ہے۔ اسی کے ساتھ جنرل راوت نے یہ اعتراف بھی کیا ’وہ نہیں جانتے کہ آیا یہ مقامی لوگوں کی طرف سے جنگجوؤں کے لیے کوئی پیغام ہے یا یہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے کھیل کھیلا جا رہا ہے‘۔ یہ عجیب بات ہے کہ عدم معلومات کے باوجود انہوں نے اس کو ایک اچھا کارڈ قرار دے دیا ۔ وہ اسے نگرانی کی حوصلہ افزائی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں مانتے اس لیے کہ ان کے نزدیک جنگجوؤں کو مارنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے ۔
جنرل راوت نے ٹائمز ناو کے انٹرویو میں جواب دینے کے بجائے سوال کیا کہ اگر آپ کے علاقے میں کوئی عسکریت پسند کام کر رہا ہے تو آپ اسے کیوں نہ ماریں؟ لیکن کسی کو مارنے کا کام اگر عوام کے صوابدید پر چھوڑ دیا جائے تو قانون کی حکمرانی کہاں باقی رہے گی؟ ہر بارسوخ آدمی اپنے دشمن کو عسکریت پسند کہہ کر مار ڈالے گا ۔ اتفاق سے جس دن ان کا یہ بیان چھپا اسی دن بہار کے ضلع گیا میں نکسلیوں کے گھر میں گھس کر ایک خاندان کے چار لوگوں کو ہلاک کرنے کی خبر بھی اخبارات میں چھپی ۔ یہ واردات ڈومریا کے سنوبر کے جنگل سے متصل علاقہ میں انجام دی گئی جہاں سریو سنگھ بھوکتا اپنے بیٹے ستیندر اور مہندر اپنی بیویوں منورما اور سنیتا کے ساتھ رہتے تھے۔ نکسلوادیوں نے ان کی لاشوں کو کھلے عام پھندے پر لٹکانے کے بعد گھر کو بارود سے اڑا دیا۔ اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد وہ جائے واردات پر جو کاغذ چپکا گئے اس پر لکھا تھا کہ انسانیت کے قاتل، غداروں اور دھوکہ بازوں کو سزائے موت دینے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ یہ ہمارے چار ساتھیوں امریش، سیتا، شیوپوجن اور اودے کمار کی شہادت کے قتل کا انتقام ہے۔ یہ واقعہ اس بہار کے اندر پیش آیا جہاں بی جے پی حکومت میں شامل ہے ۔ سرکار اس طرح قانون کو ہاتھ میں لے کر سزا دینے کو غلط ٹھیراتی ہے لیکن جنرل بپن راوت کشمیر میں جس طریقہ کار کو درست ٹھیراتے ہیں اس میں اور گیا کے واقعہ میں فرق کیا ہے؟ دونوں جگہوں پر عدالت سزا دینے کو درست ٹھیرایا گیا ہے۔
نکسل نوازوں سے نمٹنے کی سرکاری حکمت عملی کا مظاہرہ گڈچرولی میں سامنے آیا جہاں ایک انکاؤنٹر میں چھبیس نکسلیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ گڈچرولی کی تاریخ کا یہ دوسرا طویل ترین انکاؤنٹر تھاجو صبح چھ بجے سے شام چار بجے تک چلا۔ اس سے قبل 23 اپریل 2018 کو گڈچرولی میں ہی پولیس نے دو الگ الگ جھڑپوں میں چالیس ماؤنوازوں کو ہلاک کیا تھا۔ حالیہ تصادم میں پولیس نے ملند تیلتمبڈے کے مارے جانے کی اطلاع دی جس پر پچاس لاکھ روپے کا انعام تھا۔ وہ بھیما کوریگاؤں کیس کے این آئی اے چارج شیٹ میں ملزم تھا۔ مہلوکین میں چار ماؤنواز خواتین بھی شامل تھیں۔ حیرت کی بات ہے یہ کمانڈوز جب چھبیس نکسلیوں کی لاشوں کے ساتھ گڈچرولی ہیڈکوارٹر واپس آئے تو ان کے ساتھیوں نے ڈھول بجا کر آپریشن کو کامیاب کرنے والوں کا استقبال کیا۔ اس پر محبوبہ مفتی کا وہ فقرہ ثبت ہوجاتا ہے کہ حکومت اپنے ہی لوگوں سے بر سرِ پیکار ہے اور اس کا جشن بھی منانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔
ملک میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ساری علیحدگی پسندی وادی کشمیر تک محدود ہے لیکن ابھی حال میں منی پور میں آسام رائفلز کے کمانڈنگ آفیسر ویپلو تیواری اور ان کے اہل خانہ پر عسکریت پسندوں نے گھات لگا کر حملہ کردیا۔ اس حملے میں تیواری کے ساتھ ان کی اہلیہ اور ایک بچے کے علاوہ چار فوجی بھی مارے گئے۔ اس کی ذمہ داری پیوپلس لبریشن آرمی منی پور اور منی پور پیوپلس فرنٹ نے مشترکہ طور پر قبول کی۔ ان لوگوں نے تیواری کے اہل خانہ کی موجودگی کے بارے میں اپنی لاعلمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے حفاظتی دستوں کو ایسے علاقوں میں اپنے اہل خانہ کو نہیں بلانا چاہیے جنہیں حکومت ہند نے شورش زدہ قرار دے دیا ہو۔ اس طرح گویا عسکریت پسندوں نے بے قصور لوگوں کی ہلاکت کا الزام بھی ویپلو تیواری پر ہی ڈال دیا اور دیگر مہلوکین کے ناموں سے بھی خود آگاہ کیا۔ یہ سب اس وزیر داخلہ کے دور میں ہو رہا ہے جو اپنے آپ کو سپرمین سمجھتا ہے۔
منی پور میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد بی جے پی نے سوچا تھا اب ساری دہشتگردی ختم ہو جائے گی مگر چار جون 2018 کو اسی طرح کا ایک حملہ ہوا جس میں حفاظتی دستے کے اٹھارہ اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔حالیہ حملے کی بابت منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ نے انکشاف کیا کہ حملہ آور میانمار سے آئے تھے۔ یعنی یہاں پاکستان سے در اندازی کا الزام بھی نہیں لگ سکا۔ انہوں نے حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس کو بزدلانہ حرکت بتایا اور اعلان کیا کہ کسی کو بخشا نہیں جائے گاکیونکہ ان کی نظر میں یہ ایک غیر انسانی اور دہشت گردانہ کارروائی ہے۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ منی پور میں اس طرح کے حملے ہوتے رہے ہیں بلکہ چوبیس اکتوبر 2016 میں کانگریسی وزیر اعلیٰ اوكرام ابوبي سنگھ پر بھی اس طرح کا حملہ ہوچکا ہے جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر ہو یا منی پور حکومت کے بدل جانے سے یا بندوق کی نوک پر اس طرح کے مسائل حل نہیں ہوتے۔اس کے لیے حکومت کو عوام کے مسائل حل کرکے ان کا اعتما د حاصل کرنا پڑتا ہے مگر موجودہ سرکار اس کی قائل نہیں ہے اس لیے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ وزیر داخلہ کو چاہیے کہ وہ انتخابی مہمات کے بجائے ان کو سدھارنے پر مخلصانہ توجہ کریں ۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 21 نومبر تا 27 نومبر 2021