ایس ایس رضا
آج کل بیشتر والدین یہی شکایت کرتے ہیں کہ بچے ان کی عزت نہیں کرتے، وہ اپنے والدین سے ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ والدین حیران وپریشان رہ جاتے ہیں کہ آخر ان کی غلطی کہاں ہے؟ والدین اپنے بچوں کے آرام وآسائش کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور بدلے میں عزت واحترام چاہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو پاتا جبکہ والدین سے بد تمیزی اور بد تہذیبی سے پیش آنا آج کل عام بات ہو گئی ہے۔
ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ بچے اپنے آس پاس کے ماحول سے ہی سب سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ چاہے وہ اسکول ہو، دوست ہوں یا گھر کا ماحول اور گھر میں والدین کا ایک دوسرے کے ساتھ طرز عمل۔ اس لیے بچوں کو مہذب بنانے اور ان میں اچھی خوبی پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے گھر کا ماحول درست کرنا ضروری ہے۔ گھر کے بزرگوں سے عزت واحترام کا رویہ رکھنا۔ بچوں کے سامنے کسی کے لیے بھی غلط زبان کا استعمال نہ کرنا، یہاں تک کہ گھر میں نوکروں سے بھی غلط الفاظ کا استعمال نہ کرنا بھی اشد ضروری ہے۔ بچوں سے عزت پانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ انہیں بھی پوری عزت دیں اور انہیں ’آپ‘ کہہ کر بلائیں۔ ان کے دوستوں سے بھی عزت سے پیش آئیں۔
بچوں سے قریبی اور ادب واحترام والا رشتہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان سے رسمی اور پر تکلف رشتہ بنانے کے بجائے ان سے سیدھا سادہ اور سچا رشتہ بنائیں۔ کئی بار بچے جب اپنے والدین سے کوئی ایسا سوال پوچھتے ہیں جس کے جواب دینے کی وہ پوزیشن میں نہیں ہوتے تو پھر وہ انہیں ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے بجائے مناسب یہ ہے کہ آپ انہیں بتائیں کہ اس بارے میں مجھے معلومات نہیں ہیں اور یہ کہ میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کروں گا یا کسی سے معلوم کروں گا اور جب معلوم ہو جائے گا تو آپ کو بتاوں گا۔ اسی طرح آپ ایسے ایسے موقع پر بچے کو خود جواب تلاش کرنے یا استاد سے معلوم کرنے کے لیے اکسا سکتے ہیں۔ اگر آپ نے بچے کو غلط جواب کے ذریعہ گمراہ کرنے کی کوشش کی تو یہ عمل اس وقت آپ کو بچے کی نظروں میں گرا دے گا جب اسے صحیح جواب کسی بھی طرح معلوم ہوجائے گا۔
بچوں کے ساتھ سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کو لے کر بعض لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر ان پر سختی کی گئی تو وہ اس کے خلاف احتجاج کریں گے اور ان کی عزت نہیں کریں گے۔ یہ بات بہت زیادہ اور غیر ضروری سختی کے بارے میں تو اندیشہ کے طور پر سمجھی جا سکتی لیکن اس حقیقت کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ غلط اور غیر مناسب کاموں اور باتوں پر ڈانٹنا اور سختی کرنا والدین کا فرض اور حق ہے۔ لیکن اس کے استعمال کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے طرز عمل اور پیار ومحبت کے ذریعے بچے کے ذہن میں اس خیال کو مضبوط کر دیں کہ والدین ہمارا بھلا چاہتے ہیں اور ان کی سختی بھی ہماری خیر خواہی کے لیے ہی ہے۔ اگر بچے کے اندر یہ تصور ہے کہ آپ کی بڑی سے بڑی سزا کو بھی برداشت کر لے گا اور مطمئن رہے گا۔ لیکن اگر آپ اس تصور کو اس کے ذہن میں بٹھانے میں ناکام رہے تو وہ یقیناً بغاوت اور بے عزتی پر اتر آئے گا۔ جس سے حالات بگڑنے لگیں گے۔
والدین بچوں سے جو کام کروانا چاہتے ہیں اس کے لیے ان سے ایک بار ہی کہنا کافی ہونا چاہیے اور آپ کی بات ماننے کے لیے بچوں کو بلا شرط تیار ہو جانا چاہیے مگر اس کے لیے پیار ومحبت کے جذباتی تعلق کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ آپ کہتے رہیں گے اور بچے کے کان پر جوں تک نہ رینگے گی۔ ایسی صورت میں بعض والدین بچوں کے ساتھ سودے بازی کرتے اور مختلف قسم کے لالچ دیتے ہیں۔ ایسے میں بچہ لالچ میں تو کام انجام دے دے گا مگر اس کے اندر اس بات کی فکر پیدا نہ ہوگی کہ والدین کی خدمت اور فرمانبرداری اس کی جنت اور جہنم کا معاملہ ہے۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان سے کسی قسم کی شرط ہرگز نہ لگائیں۔ کیونکہ آگے چل کر بچہ ایک طرف تو اس کا ناجائزہ فائدہ اٹھا سکتا ہے دوسری طرف اس عمل سے اس کے اندر والدین کی خدمت اور اطاعت کا وہ جذبہ پیدا نہیں ہوگا جس کی اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے اور جو ہم خود بھی چاہتے ہیں۔
آج کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے میں خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ اس کے لیے انہیں اسکولوں میں خود اعتماد بننے کی ہدایت اور تربیت بھی دی جاتی ہے۔ خود اعتمادی اپنی جگہ وہ ایک اچھی خوبی ہے لیکن اگر اس کا تعلق اخلاق و کردار کے دائرے سے نکلتا ہے تو اس کے خراب نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام بلند اخلاقی اقدار سکھانے میں ناکام ہے جس کے سبب یہ خود اعتمادی دھیرے دھیرے خود سری اور ضدی پن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پھر بچے اسی میں اپنی شان سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ ان کی حاضر جوابی ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ خود اعتمادی کا مطلب اور معافی ان پر واضح کیے جائیں اور خود سری اور ضدی پن کا فرق انہیں بتایا جائے۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ خود اعتمادی کو اخلاق و کردار کی مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی جائے، جہاں صحیح اور غلط کو جانچنے اور سمجھنے کی تربیت بھی ہو اور غلطی کو تسلیم کرنے کی خوبی بھی ہو۔ اگر ایسا نہ ہوگا تو بچے کے اندر ایک جذباتی کشمکش کی کیفیت جنم لے گی جو معاشرتی اور سماجی بغاوت کو فروغ دے گی۔ ایسی صورت میں بچے والدین اور بڑوں کی باتیں ماننے کے بجائے اپنی بات منوانے کو ہی اپنا شیوہ بنائیں گے جس کے نتیجے میں اگر سختی کی جائے تو اس کے الٹے نتائج کا نکلنا زیادہ ممکن ہو جائے گا۔
دراصل بچوں کے پاس اپنا کوئی ذخیرہ الفاظ نہیں ہوتا ہے۔ وہ وہی الفاظ زبان سے دہراتے اور ویسا ہی کرتے ہیں جیسا گھر اور سماج میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ غلط کام اگرچہ ہمیں کبھی بھی اور کہیں بھی نہیں کرنے چاہئیں لیکن بچوں کے سامنے تو ہرگز نہ کرنے چاہئیں کیونکہ اگر وہ والدین کو غلط کام کرتے ہوئے یا غلط بات کرتے ہوئے سنیں گے تو وہ بھی وہی کریں گے۔ ایسے میں اگر آپ ان سے خواہش کریں کہ وہ ایسا نہ کریں تو ایسا ممکن نہ ہو گا۔ سختی کی صورت میں بغاوت پر آمادہ ہو جائیں گے کہ خود تو کرتے ہیں اور ہمیں منع کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی نظر میں والدین کی عزت واحترام ختم ہو جائے گا۔ بچوں سے ہمیشہ شفقت اور محبت کا سلوک کریں اور ان کو اپنی اچھی طرح سمجھانے کی کوشش کریں۔ ان سے کھل کر بات کریں تاکہ آپ کے فیصلے پر انہیں کوئی اعتراض نہ ہو اور وہ آپ کا فیصلہ ادب سے مان لیں نہ کہ خوف سے۔
***
***
والدین بچوں سے جو کام کروانا چاہتے ہیں اس کے لیے ان سے ایک بار ہی کہنا کافی ہونا چاہیے اور آپ کی بات ماننے کے لیے بچوں کو بلا شرط تیار ہو جانا چاہیے مگر اس کے لیے پیار ومحبت کے جذباتی تعلق کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ آپ کہتے رہیں گے اور بچے کے کان پر جوں تک نہ رینگے گی۔ ایسی صورت میں بعض والدین بچوں کے ساتھ سودے بازی کرتے اور مختلف قسم کے لالچ دیتے ہیں۔ ایسے میں بچہ لالچ میں تو کام انجام دے دے گا مگر اس کے اندر اس بات کی فکر پیدا نہ ہوگی کہ والدین کی خدمت اور فرمانبرداری اس کی جنت اور جہنم کا معاملہ ہے۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان سے کسی قسم کی شرط ہرگز نہ لگائیں۔ کیونکہ آگے چل کر بچہ ایک طرف تو اس کا ناجائزہ فائدہ اٹھا سکتا ہے دوسری طرف اس عمل سے اس کے اندر والدین کی خدمت اور اطاعت کا وہ جذبہ پیدا نہیں ہوگا جس کی اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے اور جو ہم خود بھی چاہتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 دسمبر تا 1 جنوری 2021