بچپن کی شادی :قوانین صرف سزا دلا سکتے ہیں،سماجی تبدیلی نہیں لا سکتے
شادی کی عمر میں اضافہ مسئلہ کا حل نہیں‘ لڑکیوں کو بااختیار بنانے کی ضرورت
ایناکشی گنگولی
مرکزی کابینہ نے جیا جیٹلی کی زیر قیادت ٹاسک فورس کی جانب سے سفارشات کی بنیاد پر شادی کی عمر کو 21سال تک بڑھانے کی تجویز کو منظوری دی ہے۔ شادی کی صنفی۔غیرجانب دارعمر کی تاخیر سے پہچان اور خواتین کو بااختیار بنانے پر زور خوش آئند ہے۔ تاہم کیا خواتین، شادی کی عمر بڑھانے سے با اختیار ہوجائیں گی کیا ان کی قوت میں اضافہ ہوگا اورکیا وہ خود اپنی زرخیزی (Fertility) کو کنٹرول کرنے کے قابل ہوں گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہم کو ڈھونڈنا ہو گا۔
میں اپنے ذاتی تجربہ سے اور جو سفر میں نے طے کیا ہے اس سے اپنی گفتگو کا آغاز کرنا چاہوں گی۔ میرا تعلق لڑکیوں کی اس دوسری نسل سے ہے جو بچپن کی شادی سے بچ گئیں۔ (میری نانی اور دادی دونوں کی بچپن میں شادی ہوئی تھی اور وہ کم عمری میں ہی ماں بنی تھیں) اور میرے اپنے خاندان میں کم عمری میں بیوہ بننے کی کہانیاں موجود ہیں۔ بچپن کی شادی دراصل ایک سماجی برائی ہے۔ اسی بات کو سمجھتے ہوئے ہم بڑے ہوئے ہیں۔ جب میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی جہد کار بنی تو میرا پہلا ارادہ بچپن کی شادی پر پابندی یا اسے بجائے خود غیر قانونی قرار دینا تھا۔ میں نے اس مسئلہ پر تین ریاستوں تلنگانہ، مغربی بنگال اور راجستھان میں براہ راست کام کرنا شروع کیا۔ ان نو عمر لڑکیوں سے بات چیت کی جن کی شادی ہوئی تھی یا منگنی کی رسم ہوئی تھی یا وہ شادی نہ کرنے کے لیے جدوجہد کررہی تھیں۔ اس موضوع پر میرے نقطہ نظر میں بتدریج تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی اور آج میرا مضبوط ایقان ہے کہ بچپن کی شادی کا حل اور لڑکیوں کو با اختیار بنانے کا تعلق شادی کی عمر بڑھانے میں مضمر نہیں ہے۔ میرے اس یقین کی بنیاد اس پر ہے جو میں نے 2006ء سے سیکھا ہے۔
کیا بھارت کو خواتین کی شادی کی عمر بڑھانا چاہیے؟
ماہرین میں اختلاف رائے
قوانین جبری یا انتظامی بچپن کی شادیوں کو ختم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ڈیٹا بشمول حالیہ قومی خاندانی صحت سروے5- سے ظاہر ہوتا ہے کہ 18سال سے کم عمر میں شادی کرنے والی لڑکیوں کا تناسب بتدریج گھٹ رہا ہے اور اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ اس میں مسلسل کمی آسکتی ہے۔ بلاشبہ بہت چھوٹے بچوں کی ایسی مثالیں بھی ہیں جنہیں زبردستی شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہیں تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں بچپن کی شادی کے امتناعی قانون 2006ء (PCMA) کافی ہونا چاہیے۔
ایسا کیوں ہے کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (PCMA) کیسز کی اتنی کم شرح ریکارڈ کرتا ہے یا مجسٹریٹ شاذ ونادر ہی حکم امتناعی جاری کرتے ہیں جبکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی شادیاں ہورہی ہیں جن میں اکثر سیاستدان اور برادری کے لیڈر شریک ہوتے ہیں۔
اس مسئلہ کا جواب شادی کی عمر کے قانون میں نہیں ہے بلکہ سماجی رویہ اور ضابطے میں مضمر ہے۔ پی سی ایم اے نے اگرچہ بڑی حد تک بیداری پیدا کرتے ہوئے اپنے مقصد کو پورا کیا ہے اور اس نے لڑکیوں کو اپنی شادیاں رکوانے یا موخر کرنے کے لیے خاندانوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا حوصلہ دیا ہے تاہم شواہد اور تجربہ دونوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کے تحت قانونی چارہ جوئیوں پر والدین حاوی ہوتے ہیں جو بھاگنے والی اپنی بیٹیوں اور اپنی خواہش کے خلاف شادی کرنے والے ان کے شوہروں کو سزا دلانا چاہتے ہیں۔
لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھانا نیک مقصد ہے لیکن مسئلہ کا حل نہیں ہے
لڑکیوں کے درمیان بیداری دیگر اشاریوں کے ساتھ میل نہیں کھاتی جیسے اسکولوں میں بڑی تعداد میں ان کا ہونا، ایک محفوظ اور تشدد سے پاک ماحول، صحت کی خدمات اور مستقبل کے لیے بہتر مواقع ۔
چونکہ شادی عورت کی سماجی اور معاشی حیثیت میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے خاندانوں پر لڑکیوں کی جانب سے شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے اور لڑکیاں خود بھی شادی کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔ لہٰذا، جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ زیادہ جہیز سے بچنے کے لیے نوعمر لڑکیوں کی زبردستی شادیاں اور انتظامی شادیاں ہوتی ہیں نیز، اسے لڑکیوں کے تحفظ کا ایک طریقہ سمجھ لیا گیا ہے۔
بچپن کی شادی کیا اور کیوں؟
اس بات کے بہت سے شواہد موجود ہیں کہ کم عمری میں شادی لڑکیوں کے اسکول چھوڑ دینے کا نتیجہ ہے۔ یہ دراصل ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی وخامی ہے جس کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیاں دونوں تعلیم ترک کر رہے ہیں۔
بات یہ نہیں ہے کہ کم عمری میں شادی زیادہ زرخیزی کا سبب ہے۔ درحقیقت ملک کی زیادہ تر ریاستوں بشمول جہاں پر کم عمری میں شادیوں کی شرح نسبتاً زیادہ ہے، زرخیزی کی شرح سابقہ اوسط سے گر رہی ہے۔
اعلیٰ سماجی و معاشی گروپوں میں کم عمری کی شادیاں رائج نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مذہبی اہلکار جو شادی کی رسم انجام دیتے ، وہ بھی اپنے بچوں کی کم عمری میں شادی نہیں کرتے۔
آج، میری دادی یا میری والدہ کے زمانے کے برعکس جو زیر تعلیم رہنے کی وجہ سے اس سے بچ گئیں تھیں، بچپن کی شادی کا وسائل سے محروم اور کمزور طبقوں کے مابین بہت زیادہ رجحان پایا جاتا ہے۔ ان طبقات کی معاشی صورتحال ہنگامی حالات کی وجہ سے دگرگوں ہوجاتی ہے جیسے فی الحال کووڈ۔۱۹ سے پیدا شدہ صورتحال کی مثال لی جاسکتی ہے۔
کم عمری میں لڑکیوں کی شادی کو ان لڑکیوں کی دلہن کے طور پر کم صنفی تناسب والے علاقوں میں اسمگلنگ یا استحصال کی دوسری شکلوں کے لیے ایک قانونی ذریعہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
بچپن کی شادیوں کی مختلف قسمیں ہیں جن سے ہم نمٹ رہے ہیں: وہ بچیاں جنہیں ان کے گھر والوں کی طرف سے زبردستی شادی پر مجبور کیا جاتا ہے، اور وہ جو خود شادی کا انتخاب کرتی ہیں۔ اکثر مؤخر الذکر شادی کو گھریلو کام کاج، گھریلو بدسلوکی اور محرومی کی موجودہ زندگی اور مواقع کی کمی سے فرار حاصل کرنے یا اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ تعلق کے واحد راستے کے طور پر دیکھا جاتاہے۔
پہلی صورت میں وہ خاندان ہیں جو مجرم ہیں، لیکن دوسری صورت میں، خود شادی کے اصل کردار کو مجرم سمجھا جاتا ہےجو اکثر صورتوں میں مرد ہوتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کا قانون (POCSO) 2012 ،جو جنسی رضامندی کی قانونی عمر 18 سال مقرر کرتا ہے، تمام نوعمروں کے جنسی فعل کو جرم گردانتا ہے جس میں باہم رضامند ساتھیوں کے درمیان غیر جبری تعلق بھی شامل ہے ۔
شادی کے لیے خواتین کی کم از کم عمر میں اضافہ:
کیا بچپن کی شادی کو روکے گا؟
ان کے لیے عرض ہے جو پی سی ایم اے کی شقوں سے واقف نہیں ہیں، بچپن کی شادی اگر کی جائے تو یہ کالعدم نہیں ہوگی ۔ لیکن سن بلوغ کو پہنچ جانے پر فریقین کی جانب سے اسے کالعدم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، رشتے میں شامل لڑکوں اور نوجوان مردوں پر فوجداری قانونی چارہ جوئی کی جاتی ہے، خواہ وہ شادی شدہ ہوں، کیونکہ 2018 میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں بچوں کے جنسی استحصال کے قانون کی دفعات کو بچپن کی شادی تک توسیع دی گئی ہے۔
POCSO ایکٹ منسلکہ تعزیری دفعات کے ساتھ لازمی رپورٹنگ کا تقاضا کرتا ہے جو صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ اس کا اطلاق صحت خدمات فراہم کرنے والوں اور مشورہ دینے والوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف اس رازداری کی خلاف ورزی ہوتی ہے جس کی نابالغ لڑکیوں کو ضرورت ہوتی ہے، بلکہ اس سے محفوظ اسقاط حمل یا جنسی اور تولیدی صحت جیسی خدمات تک رسائی میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
یہ عمر اب بڑھا کر 21 کردی جائے تو کیا ہوگا ؟ بہت سے نوجوانوں کو مجرم بنایا جاسکے گا اور خدمات تک رسائی میں مزید رکاوٹ پیدا ہوگی۔
حل؟ یقینی طور پر مزید قوانین نہیں
خاندانوں اور معاشرے میں صنفی امتیاز، زوجین پر تشدد، جائیداد کی ملکیت، مساوی اجرت – یہ تمام چیلنجز ہیں جن کا خواتین کو سامنا ہے۔ کم عمر لڑکیوں کی شادی کو ان کو کم جنسی تناسب والے علاقوں میں دلہن کے طور پر اسمگل کرنے یا استحصال کی دوسری شکلوں کے لیے قانونی ذریعہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
عمر بڑھنے سے یہ حقیقت کیسے بدلے گی؟
تعزیری یا سخت قوانین صرف سزا دینے کا کام کرتے ہیں، وہ سماجی تبدیلی کا باعث نہیں بنتے۔ اس معاملے میں قانون بنیادی ساختی مسائل کو حل نہیں کرتا جو لڑکیوں کو کم عمری کی شادی میں دھکیل دیتے ہیں۔
درحقیقت، سماجی و معاشی گروہوں کو دیکھتے ہوئے جہاں یہ موجود ہے، یہ پہلے سے بے اختیار افراد کو سزا دینے کا ایک اور اقدام بن جائے گا۔
کم عمری کی شادی نہیں بلکہ غربت ماؤں اور ان کے نوزائیدہ بچوں کی خراب صحت کی بڑی وجہ ہے۔ قانون کے ذریعے شادی کی عمر بڑھانے سے کم عمری کی شادی کو روکنا ممکن نہیں ہوگا البتہ جرم ثابت ہوگا۔
یہ محفوظ اسقاط حمل اور دواخانوں کے ذریعہ زچگیوں کو اور بھی مشکل بنا دے گا کیونکہ بے بس جوڑے اور خاندان فوجداری قانون کی زد میں آنے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عمر کو 21 سال تک بڑھانا نوجوانوں کو ذاتی فیصلوں کے حق سے محروم کر دے گا اور جوڑوں کو والدین کی طرف سے دائر کیے جانے والے توسیع شدہ تعزیری مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا، جو ہم پہلے ہی ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
ایک مرکوز حکمت عملی وقت کی ضرورت
ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
قانون ضروری ہے۔ لیکن اسے متعلقہ طبقات کے لیے مددگار ثابت ہونا چاہیے نہ کہ سزا دینے والا ۔ کسی بھی صورت میں، قانون کم عمری کی شادیوں سے نمٹنے کا بنیادی ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے ایک ٹھیک حکمت عملی جو ایک سازگار ماحول بنانے پر مرکوز ہو یعنی ایک ایسا ماحول جو محفوظ اور بااختیار بناتا ہو۔ ہمیں ساتھیوں کے درمیان غیر جبری باہمی رضامندی سے نوعمری کے جنسی تعلق کو پہچاننے اور جرم سے پاک کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے اندر ذمہ دارانہ جنسی رویہ پیدا کرنے پرتوجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک مختلف قانونی جواب، جو کم عمری کی شادی کے مختلف رجحانات کے لیے موجودہ قانون پیش کرتا ہے، اور شادی کو مسترد کرنے کا اختیار دیتا ہے، اسے برقرار رکھا جانا چاہیے۔
دیہی اور شہری پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کا ایک قومی نیٹ ورک، ینگ وائسز نیٹ ورک (جس نے ٹاسک فورس کو ایک میمورنڈم پیش کیا)، ہمیں بتاتا ہے کہ شادی میں تاخیر کافی نہیں ہے۔ مناسب وسائل اور مواقع کے ذریعے پسماندہ دیہی پس منظر رکھنے والی لڑکیوں کو بااختیار بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔وائی وی این کا مزیدکہنا ہے کہ لڑکیاں سماجی اور معاشی بقا کے لیے شادی کی مجبوری سے آزاد ہونا چاہتی ہیں۔ وہ معیاری تعلیم، روزگار، حفاظت، نقل و حرکت، اور اس انتخاب کی آزادی کا مطالبہ کرتی ہیں کہ انہیں کب، اور کس سے شادی کرنی ہے۔اس طرح سے خود بخود شادی کی عمر بڑھ جائے گی۔ پوری دنیا کے شواہد یہی ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن واقعی، کون سن رہا ہے؟ ظاہر ہے حکومت تونہیں سن رہی ہے۔
یقیناً کوئی یہ بھی پوچھ سکتا ہے: اگر کوئی 18 سال کی عمر میں ووٹ ڈالنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے، کسی معاہدے پر دستخط کر سکتا ہے، یا روزی کمانے کے لیے کام کرنا شروع کر سکتا ہے یا کسی جرم میں اس کے ساتھ بالغ جیسا سلوک کیا جا سکتا ہے، تو کیا یہ عحیب وغریب بات نہیں ہے کہ کس سے شادی کرنی ہے؟یہ فیصلہ کرنے میں اس کی نااہلیت دیکھی جائے۔
(ایناکشی گنگولی انسانی حقوق کی کارکن ہیں اور جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ مصنف کے اپنے ہیں۔ بہ شکریہ: دا کوئنٹ)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 دسمبر تا 1 جنوری 2021