بچوں کو نما ز کی تربیت کس طرح دی جائے؟
والدین بہترین نمونہ بنیں ۔نماز کی اہمیت ذہن نشین کرانے کے ساتھ شوق پیدا کرنے کی تدابیر کریں
ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی
نماز اسلام کی اہم ترین عبادت ہے، نماز کے تعلق سے ہمارے نبی ﷺ کے فرمودات بے شمار ہیں، مثلاً آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز مومن اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی ہے‘‘۔ یہ بھی فرمانِ نبوی ﷺہے: ’’جس نے نماز کو قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے نماز کو چھوڑ دیا اس نے دین کو منہدم کردیا‘‘۔ اور فرمایا : ’’نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے‘‘۔
ہمارے نبی ﷺ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ہم اپنے چھوٹے بچوں کو نماز سکھائیں، نماز کا حکم کریں اور نماز کی تربیت دیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے بچوں کو جس طرح قرآن کی تعلیم دیتے تھے اور اس کو صحیح ڈھنگ سے پڑھنا سکھاتے تھے، اسی طرح نماز بھی سکھاتے تھے اور اس کی عملی مشق بھی کراتے تھے۔جب تک بچے کو نماز کی عملی مشق نہیں کرائی جائے گی اور اس کو پراکٹیکل طور پر سکھایا نہیں جائے گا صرف نظریاتی طور پر سکھانے سے بچے صحیح نماز سیکھ ہی نہیں سکتے ہیں، آج ہم اس کا نظارہ مسجدوں میں ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ اہلِ علم سے بھی ایسی بعض غلطیاں ہوجاتی ہیں جن سے نماز ہی باطل ہوجاتی ہے، حالانکہ اس کا علم ہوتا ہے لیکن عملی مشق نہ ہونے کی وجہ سے اس طرف دھیان نہیں رہتا۔خود نبی کریم ﷺ نے نماز کی عملی مشق کرنے کا حکم دیا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘۔ یہ حکمِ نبوی ہے کہ اسی طرح نماز کی مشق کی جائے جس طرح ہمارے نبی ﷺ نے پڑھی ہے۔نماز کی تربیت اور ٹریننگ کے لیے اسلام نے مدت بھی متعین کردی ہے، فرمانِ نبویﷺ ہے: ’’سات سال ہونے پر اپنے بچوں کو نماز کا حکم کرو اور دس سال ہونے پر مارو‘‘۔
اسلام نے نماز سکھانے، اس کی عملی مشق کرانے اور اس کی ٹریننگ دینے کے لیے تین سال کا طویل وقت دیا ہے، تین سالوں تک نماز کا حکم دیا جاتا رہے گا اور اس کی عادت ڈالی جائے گی، اسی صورت میں ہی والدین اور سرپرستوں کو دس سال ہونے پر بچوں کو نماز نہ پڑھنے پر سزا دینے کا حق رہتا ہے، اگر کوئی اپنے بچے کو ان تین تربیتی سالوں میں نماز کی ٹریننگ نہ دے اور دس سال ہونے پر نماز چھوڑنے کی صورت میں تنبیہ کے طور پر سزا دے تو یہ صحیح طریقہ نہیں ہے اور اس کو مارنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے، کیوں کہ جس عمر میں شریعت نے نماز کی تربیت دینے کا حکم دیا ہے، ان سالوں میں تربیت نہیں کی گئی ہے۔دوسری طرف دس سال مکمل ہونے پر نماز نہ پڑھنے کی صورت میں والدین گناہ کے مستحق بھی ہوسکتے ہیں، کیوں کہ اسلام نے ان تین سالوں میں نماز سکھانے اور تربیت دینے کی ذمہ داری والدین اور سرپرستوں پر عائد کی ہے۔
سات سال سے دس سال کی عمر؛ یہ ایسی عمر ہے جس میں کسی بھی چیز کی تعلیم دی جائے اور اس کے ساتھ تربیت اور ٹریننگ بھی شامل ہو تو انسان کبھی اس تعلیم اور عادت کو پوری زندگی میں چھوڑتا نہیں ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ اسی عمر میں بچے میں اقدار پیوست ہوجاتے ہیں اور اس کا ذہن قبول بھی کرتا ہے اور محفوظ بھی رکھتا ہے، اس عمر میں جو چیزیں ذہن میں ڈالی جاتی ہیں وہ کبھی ذہن سے محو نہیں ہوتی ہیں۔
اس لیے اسی عمر میں بچوں کو نماز کی طرف متوجہ کرنا چاہیے، کیوں کہ بچپن سے لے کر ۹ یا ۱۰ سال تک کی عمر کا جو مرحلہ رہتا ہے وہ بڑا آسان رہتا ہے، اس وجہ سے مندرجہ ذیل امور پر اس مرحلہ میں توجہ دینی ضروری ہے تاکہ بچہ نماز کا عادی بھی ہوجائے اور اس کے ذہن میں نماز کی اہمیت بھی پیدا ہوجائے:
۔اللہ تعالیٰ کی نعمتوں، فضل وکرم اور احسانات کے بارے میں بچوں سے آسان اسلوب میں مثالوں کے ساتھ گفتگو کی جائے اور اس سلسلہ میں واقعات کو پیش کیا جائے، یہ بھی بتایا جائے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتا ہے اور اس کے ہم پر کتنے احسانات ہیں، اس سے بچے کے اندر خود سے اللہ سبحانہ وتعالی کو راضی کرنے کا شوق پیدا ہوجائے گا اور وہ نماز جیسی عبادت کی طرف مائل ہوجائے گا۔۔اس مرحلہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذاتِ عالی، اس کی قدرت اور اسمائے حسنی اور صفاتِ الہیہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ گفتگو آسان اسلوبِ بیان میں کی جائے، اسی کے ساتھ اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری کی ضرورت اور اطاعت کے جمال وجلال کا بھی تذکرہ کیا جائے۔
بچے کے سامنے بہترین نمونہ رہنا ضروری ہے، اگر والدین کسی اکتاہٹ اور کاہلی وسستی کے بغیر پوری پابندی کے ساتھ پانچ وقت کی نمازیں پڑھیں گے تو بچوں پر اس کا اثر نماز کی ادائیگی میں بہت بڑا ہوتا ہے اور یہی بچے کے سامنے بطورِ نمونہ کافی ہے، کیوں کہ یہ بچوں کی فطرت میں داخل ہے کہ آس پاس کے لوگ جو کام کرتے ہیں وہ ان کی نقل کرتے ہیں اور اپنے روزانہ کے سلوک وبرتاو میں اپنی دیکھی ہوئی چیزوں کی نقل کرنا پسند کرتے ہیں۔نماز صرف ایک عادت نہیں ہے، بلکہ نماز کو عبادت باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں میں نماز کے تعلق سے بیداری پیدا کی جائے، اس کی اہمیت اور حقیقت بتائی جائے، تاکہ بچہ صرف عادت کے طور پر ہی نماز نہ پڑھے، بلکہ اس کو عبادتِ خداوندی سمجھ کر ادا کرے، اس کے لیے سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسراء ومعراج کا واقعہ بچوں کو بتایا جائے، کیوں کہ اُسی موقع پر نماز فرض ہوئی تھی، صحابہ کے نماز سے متعلق واقعات بتائے جائیں اور ان کے نماز کے تعلق کو اجاگر کیا جائے۔
•نماز کی تربیت کے دوران یہ بھی ضروری ہے کہ سخت تنقید یا ڈرانے دھمکانے کا اسلوب اختیار نہ کیا جائے اور اس عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارا نہ جائے، کیوں کہ مارنے کا حکم دس سال مکمل ہونے پر ہے، بلکہ مثبت تنبیہ کی جائے یعنی بچہ کی ہمیشہ ہمت افزائی کی جائے، تاکہ نماز اس کی زندگی کا بنیادی جزء اور حصہ بن جائے۔
• ٹھنڈی اور سردیوں میں وضو کے لیے گرم پانی بچوں کو دیا جائے کیوں کہ ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا بچوں کے لیے دشوار ہوتا ہے، اگر بچوں کا اس طرح خیال رکھا جائے گا تو نماز سے دلچسپی پیدا ہوگی۔
یہ چند امور بچوں اور بچیوں؛ سبھوں کے لیے مشترک ہیں، اگر بچی ہو تو مزید چند امور کا خیال رکھا جائے، اگرچہ یہ امور چھوٹے اور بے حیثیت نظر آتے ہیں، لیکن بچی کی نفسیات پر اس کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے، مثلاً:
٭چھوٹا سا، خوبصورت مصلّی یعنی سجادہ لاکر دیا جائے تاکہ اس پر نماز پڑھنے میں اس کو دلچسپی پیدا ہو
٭بچی کے لیے نماز کے مخصوص کپڑے سیے جائیں
٭نماز کے وقت والدہ یا گھر کی کوئی عورت اس کو اپنے ساتھ کھڑا کرے
٭نماز پڑھنے پر خوشی کا اظہار کیا جائے اور دوسروں کے سامنے تعریف بھی کی جائے
بچہ ہو تو مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھا جائے:
٭والد، دادا، چچا یا ماموں وغیرہ کے ساتھ مسجد جانے کی ترغیب دی جائے
٭خوبصورت اور بہترین ٹوپی دلائی جائے، کیوں کہ بچہ عام طور پر اپنا موازنہ دوسرے بچوں کے ساتھ کرتا ہے، اگر اس کی ٹوپی کم تر رہے گی تو اس کو احساسِ کمتری ہوجائے گی، اسی طرح جوتے اور دیگر ملبوسات میں بھی خیال رکھا جائے
یہ چند امور ان بچوں کی نماز کے تعلق سے تربیت کے سلسلہ میں ہیں جن کی عمریں دس سال سے کم ہوں۔
البتہ جن کی عمر اس سے زیادہ ہوتو ان بچوں کی طبیعت اور نفسیات میں تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں، سرکشی اور عناد پیدا ہوتا ہے، سستی رہتی ہے، کسی کام کی پابندی نہیں رہتی ہے، کسی کی بات ماننے کے موڈ میں نہیں رہتا ہے، اس عمر میں تربیت کا انداز بھی بدل جاتا ہے اور بدلنا بھی چاہیے، ماہرینِ نفسیات نے دس سال سے پندرہ سال تک کی عمر کو زندگی کا سب سے خطرناک مرحلہ قرار دیا ہے، یہ بلوغت سے پہلے اور ابتدائے بلوغت کا زمانہ ہے، اس پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، انشاء اللہ آئندہ کسی شمارہ میں اس مرحلہ کی خصوصیات، طریقۂ تربیت پر روشنی ڈالی جائے گی، اس مرحلہ کو مراہقت کا دور کہاجاتا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ سب سے پہلے ہم مربین ؛ والدین، اساتذہ اور محلہ کے ذمہ داران کو پابندی کے ساتھ نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارے بچوں کے سامنے ہم بہترین نمونہ بنیں اور وہ ہماری تقلید کریں۔ آمین
***
بچے کے سامنے بہترین نمونہ رہنا ضروری ہے، اگر والدین کسی اکتاہٹ، ملل اور کاہلی وسستی کے بغیر پوری پابندی کے ساتھ پانچ وقت کی نمازیں پڑھیں گے تو بچوں پر اس کا اثر نماز کی ادائیگی میں بہت بڑا ہوتا ہے اور یہی بچے کے سامنے بطورِ نمونہ کافی ہے، کیوں کہ یہ بچوں کی فطرت میں داخل ہے کہ آس پاس کے لوگ جو کام کرتے ہیں وہ ان کی نقل کرتے ہیں