بچوں میں انیمیا اور ٹھٹھر جانے کے معاملات میں اضافہ
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
قومی ترقی کا پیمانہ بچوں کی صحت ہوتا ہے۔ جس پر قوم کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ اس کے باوجود سالہا سال سے بچوں کی صحت کے معاملے میں مسلسل کھلواڑ ہورہا ہے جو موجودہ سنگھی قوم پرست حکومت کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔ 2017میں رسالہ ’’فیچر‘‘ نے بھارت کو دنیا بھر کے مقابلے میں ٹھٹھر جانے والےکروڑ بچوں کا مسکن بتایا ہے۔ اس کے بعد اس سمت میں بہتری کے لیے کم ہی پیش رفت ہوئی ہے۔ دی نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS-5) سے واضح ہوا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر ہر تین بچوں میں سے ایک بچہ مستقلاً بونے پن (stunted) کا شکار پایا گیا۔ اسٹنٹنگ یا گروتھ کی خامیاں کم عمر کے بچوں میں خراب تغذیہ کی وجہ سے ہوتی ہے جس سے بچوں میں ذہنی و جسمانی خرابی پیدا ہوتی ہے۔ ایک نئی رپورٹ جو ہارورڈ یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک ہیلت نے شائع کی ہے۔ اس کو سامنے رکھ کر نیتی آیوگ و دیگر اداروں نے اس پرانے مسئلہ کے حل کے سلسلہ میں ضروری قدم اٹھایا ہے۔ پہلی بار اس پر ایک واضح نقشہ شائع کیا گیا جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ملک کے 3941اسمبلی حلقے تغذیہ کی کمی کا شکار ہیں جن میں بچوں کی اکثریت ہے۔ اس لیے وہاں کے قانون سازوں کے لیے فرار کا کوئی جواز نہیں ہے وہ اب اپنی ذمہ داری سے پلہ نہیں جھاڑ سکتے۔ یہ اسمبلی حلقے ملک کے ’’بیمار‘‘ ریاستیں بہار ، راجستھان، اترپردیش،اور مدھیہ پردیش ہیں۔ یہ سب ریاستیں معاشی حیثیت سے کافی پسماندہ ہیں۔ اترپردیش میں ساٹھ سے زائد اسمبلی حلقے بشمول ایودھیا ہیں جہاں پچاس فیصد سے زائد بچے Stunted Level پر پائے گئے ہیں جبکہ بعض حلقے قومی اوسط 34فیصد سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ کیرالا کے 20حلقوں میں 16حلقے ہیں جہاں سب سے کم stunted کے کیسیز پائے گئے ہیں۔ وہاں26 حلقے ایسے بھی ہیں جہاں 42.8فیصد کیسز پائے گئے ہیں۔ درحقیقت ان کی درجہ بندی میں پڑوسی حلقوں کے مقابلے میں کافی تفاوت بھی نوٹ کیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ غذائیت کے مسئلہ پر کسی طرح کا اصول اب تک طے نہیں ہوپایا ہے۔ بھارت میں ریاستوں کے طبی معیار کے سلسلے میں بہت سارے چیلنجز ہیں۔ جن میں معاشی تفاوت ، سماجی تفریق اور جغرافیائی سختیاں وغیرہ اہم ہیں ملک گیر پیمانے پر ریاستوں کے لیے کوئی یکساں معیار طے نہیں کیا جاسکتا ہے اس لیے حالات کے مد نظر فلاحی پالیسی کے تحت ضروری قدم اٹھانا ہوگا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مقامی منتخب لیڈران پربڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عوام کو محض ووٹ بینک بناکر نہیں رکھا جانا چاہیے جب تک مقامی اور نچلی سطح پر بہتری نہیں ہوتی ہے حقیقی تبدیلی قومی پیمانے پر ممکن نہیں ہے۔
یونیسف نے سالہا سال سے بھارت میں تغذیہ کے فقدان کے مسئلہ کو زورو شور سے اٹھایا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق ملک کے 80لاکھ پانچ سالوں سے کم عمر کے بچے کورونا قہر روس اور یوکرین جنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سپلائی چین میں رکاوٹ آنے سے تغذیہ کی کمی کے سبب موت کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے humanitarian agenciesکے مطابق 15ممالک کے بچوں کی اکثریت طبی سہولیات اور زبردست غذائی فقدان سے بری طرح پریشان ہے۔ یونیسف کے عالمی رہنماوں نے بحران سے نمٹنے کے لیے 1.2بلین ڈالر کا امداد دینے کی اپیل کی ہے تاکہ بچوں کو بڑی تعداد میں اموات سے اور طویل مدتی شدید کم وزنی اور ویسٹنگ سے بچایا جاسکے۔ اس طرح کے حالات سے گزرنے والے ممالک میں سہارین ممالک یمن، سوڈان، ایتھوپیا اور صومالیہ ہیں جہاں 6لاکھ سے زائد بچے غذائیت کی کمی کی وجہ سے شدید تکالیف سے گزرتے ہیں۔ ان ممالک کے بچے رسک زون میں رہتے ہیں۔ اگرچہ ہمارا ملک ہائی رسک زون میں نہیں آتا ہے پھر بھی یونیسف کی تحقیق کے مطابق پانچ سالوں سے کم عمر کے بچے ویسٹنگ (اونچائی کے تناسب میں وزن کی کمی) کے بری طرح شکار ہیں۔ اگر پوشن ابھیان اور Integrated Child Development Services کو مناسب اور ایماندارانہ طور پر نافذ کیا جائے، غذائی سلامتی کے مد نظر مقوی غذائیں دی جائیں تو اس طرح کے چیلنجز سے نمٹنا آسان ہوجائے گا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ترجیحی بنیاد پر Nutrition Rehabilitation Centerکو مکمل طور پر فعال بناکر اس مقصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے مگر وسائل کی کمی ہمیشہ اس میں مانع ہوتی ہے۔ ہمارے بجٹ میں خراب تغذیہ (Malnutrition) سے پریشان بچوں کے لیے قلیل رقم کی جاتی ہے مرکزی اس بحران سے ہمیشہ اغماض برتتی ہے۔ اس لیے Malnutritionسے بچوں کے تحفظ کے لیے index policy پر وقتاً فوقتاً ضروری ردوبدل کیا جانا چاہیے۔
ایک اعداد و شمار کے مطابق ہمارے یہاں نصف سے زائد عورتیں او ربچے خون کی کمی کے شکار ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے اگرچہ 2005اور 2015 کے درمیان کی مدت میں خون کی کمی (Anemia) والے مرض میں کمی آئی ہے۔ حالیہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے NFHS-5 کے ڈاٹا کے مطابق خون کے فقدان میں مبتلا آبادی میں پھر اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ انامیا ریٹ 53فیصد سے بڑھ کر 57فیصد ہوگیا ہے۔یہ مسئلہ خواتین میں 58فیصد اوربچوں میں 67فیصد پایا گیا ہے۔ 2019-21کے ڈاٹا کے مطابق عالمی تنظیم صحت کے مطابق انیمیا اس حالت کو کہتے ہیں جس میں جسم ہیمو گلوبن کا ارتکاز معمول سے کم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے اور دیگر مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ NFHSکے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ فولاد سے پُر غذائیں اور دیگر متعدل غذائیں مثلاً گوشت، مچھلی، انڈا اور سبزیاں کھانے میں شامل ہوناچاہیے۔ NFHS-4 کے مقابلے NFHS-5میں خواتین اور بچوں میں گوشت مچھلی، انڈا کا استعمال قلیل مقدار میں بڑھائیے۔ اس طرح بچوں میں مناسب غذاوں کا استعمال 9.6فیصد سے بڑھ کر 11.3 فیصد ہوگیا۔ اب چھ ماہ کے دودھ پینے والے بچوں کی تعداد 54.9فیصد سے بڑھ کر 63.7فیصد ہوگئی ہے۔ خون کی کمی کا معاملہ خراب پینے کے پانی اور صفائی اور طہارت نہ ہونے سے زیادہ ہی گمبھیر ہوجاتا ہے۔ ان وجوہات سے لوگوں کے جسم میں فولاد کا انجذاب کم ہوتا ہے۔ انیمیا کے علاوہ بھی تغذیہ کے فقدان (Malnutrition) سے اسٹنٹنگ ، ویسٹنگ اور انڈر ویٹ جیسے مسائل در آتے ہیں۔ حالیہ انیمیا کے ڈاٹا سے واضح ہوتا ہے کہ کہیں گڑبڑی ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔
***
***
خون کی کمی کا معاملہ خراب پینے کے پانی اور صفائی اور طہارت نہ ہونے سے زیادہ ہی گمبھیر ہوجاتا ہے۔ ان وجوہات سے لوگوں کے جسم میں فولاد کا انجذاب کم ہوتا ہے۔ انیمیا کے علاوہ بھی تغذیہ کے فقدان (Malnutrition) سے اسٹنٹنگ ، ویسٹنگ اور انڈر ویٹ جیسے مسائل در آتے ہیں۔ حالیہ انیمیا کے ڈاٹا سے واضح ہوتا ہے کہ کہیں گڑبڑی ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022