بُتانِ رنگ و خُوں کو توڑ کر مِلّت میں گُم ہو جا
اختلافی مسائل میں الجھنے کی بجائے اعتدال کی راہیں تلا ش کریں
خالد سیف اللہ رحمانی
قرآن و سنت اتحاد کی مضبوط بنیاد۔اتحاد ملت کانفرنس میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا استقبالیہ خطاب
الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ وأصحابہ أجمعین والعاقبۃ للمتقین۔
ہم تمام داعیان کی طرف سے دل کی گہرائی سے آپ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ملت کے مسائل کی فکر کرنے کے لیے ہم سب کو مل بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کے اس مل بیٹھنے کو قبول فرمائے، بہتر فیصلوں کا ذریعہ بنائے اور امت کو اس سے زیادہ سے زیادہ نفع پہنچے۔
حضرات! اس اجتماع کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو فروغ دینا اور جن اسباب کی وجہ سے باہمی اختلافات پیدا ہوتے ہیں ان کو زیادہ سے زیادہ روکنے اور کم کرنے کی کوشش کرنا اور مشترک مسائل کے لیے مشترکہ جدوجہد کا نقشہ کار بنانا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جو باہمی دوریاں پائی جاتی ہیں وہ صرف ایک اتفاقی بات نہیں ہے بلکہ اسلام دشمن طاقتوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کو بانٹنے اورانہیں چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کرنے کی سازش رچی ہے۔ یہ بکھراؤ یوں تو کئی جہتوں سے پیدا کیا گیا ہے لیکن اختلاف کی جو بنیاد ان میں سب سے زیادہ گہری ہے وہ مذہبی اختلاف ہے، اس اختلاف سے جو زخم پیدا ہوتا ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مندمل نہیں ہو پاتا بلکہ اس کی گہرائیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ پُرجوش مقررین، جھگڑالو مناب ظرین اور لوگوں کے جذبات سے فائدہ اٹھانے والے اہلِ قلم اس فاصلہ کو بڑھاتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے درمیان اتنی اونچی دیواریں کھڑی ہوجاتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہیں سکتے۔ طوفان آتے ہیں لیکن یہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے، وہ خود اپنے اختلاف کے ذریعہ دشمن کی طاقت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو کمزور کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔
مذہبی اختلاف کی بنیادی طور پر دو نوعیتیں ہیں۔ ایک وہ اختلاف ہے جس کا تعلق عقیدہ سے ہے، دوسرے وہ جس کا تعلق فروعی مسائل جیسے عبادات ومعاملات کے احکام وغیرہ سے ہے۔ یہ دوسرے قسم کے اختلاف ہمیشہ سے علماء کے درمیان قابلِ برداشت رہے ہیں ؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اجتہاد میں اگر غلطی ہوجائے تب بھی ایک اجر سے خالی نہیں، (صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۷۳۵۲) ؛ اس لیے اجتہادی مسائل میں اختلاف کو ہر دور میں اہلِ علم نے گوارا کیا ہے بلکہ اسے محمود سمجھا ہے کیوں کہ اس سے فراخی کی راہ کھلتی ہے اور امت کی دشواریوں کو حل کرنے میں سہولت بہم پہنچتی ہے۔ دوسرا اختلاف وہ ہے جس کا تعلق اعتقادی امور سے ہے، جیسے اہل سنت اور اہل تشیع ہیں کہ ان کے درمیان اصول و عقائد میں اختلاف ہے۔ اصولی اختلاف میں بعض ایسے ہوسکتے ہیں جو واقعی کفر تک پہنچادیں لیکن اکثر اختلافات کی نوعیت ایسی نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں ایک حدیث زبان زد خاص وعام ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : یہودیوں کے اکہتر یابہتر فرقے ہوئے اورنصرانیوں کے بھی لیکن میری امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے ( ابو داؤد ، حدیث نمبر: ۴۵۹۶) اس طرح کی روایتیں مختلف کتبِ احادیث میں متعدد راویوں سے منقول ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے تہتر فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ ناجی ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بقیہ فرقے کیا اسلام کے دائرہ سے باہر ہیں؟ تو اگر غور کیا جائے تو حضور کے اِس ارشاد سے واضح ہے کہ یہ سب کے سب گروہ آپ کی امت ہی کے دائرہ میں ہوں گے، ان کا شمار آپ کی امتِ اجابت میں اور امت مسلمہ میں ہوگا۔ چنانچہ علامہ مناویؒ فرماتے ہیں :
’’ و أراد بالأمۃمن تجمعہم دائرۃ الدعوۃ من أہل القبلۃ‘‘(فیض القدیر : ۲ ؍ ۲۰ )
علامہ خطابی نے اس حدیث سے یہ بات اخذ کی ہے کہ ان فرقوں میں سے کسی کو اسلام سے خارج نہیں قرار دیا جائے گا، اس لیے کہ حضور ﷺ نے ان سب کو اپنی امت میں شامل فرمایا ہے:
’’ فیہ دلالۃ علی أن ہذہ الفرق کلہا غیر خارجین من الدین الخ ‘‘( بیہقی : ۱۰ ؍ ۲۰۸ ، حدیث نمبر: ۲۰۶۹۰ ، کتاب الشہادات ، باب ما ترد بہ شہادۃ أہل الأہواء )
پس اعتقادی اختلافات کے سلسلہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ کسی فرد یا گروہ پر کفر کا حکم لگانے میں آخری درجہ احتیاط کرنی چاہیے، اس سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صحابہ کے اخیر دور میں ہی ان مختلف فرقوں کا ظہور ہو چکا تھا، جن کو راہِ حق سے منحرف سمجھا گیا لیکن صحابہؓ نے ان کو کافر کہنے میں یا ان پر کفر کا حکم لگانے میں احتیاط سے کام لیا۔ سیدنا حضرت علیؓ کے عہد میں خوارج کا ظہور ہوا۔ یہ اس عہد کے صحابہ کے ان دونوں گروہوں کی تکفیر کرتے تھے جو حضرت علیؓ کے ساتھ تھے یا ان کے مخالف تھے لیکن حضرت علیؓ نے ان پر کفر کا حکم لگانے میں احتیاط برتی البتہ فرمایا کہ اگر وہ فساد مچائیں گے تو ہم ان سے جہاد کریں گے۔ پھر آپ نے ان سے جہاد فرمایا اور فتحیاب بھی ہوئے لیکن مفتوحین اور ان کے اموال کے ساتھ وہ معاملہ نہیں کیا جو غیر مسلموں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
بعد کے فقہاء کے یہاں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں، اہلِ سنت و الجماعت کے ساتھ معتزلہ اور مرجیہ نامی فرقوں کی بڑی کشمکش رہی ہے لیکن معتزلہ اور مرجیہ کو صریحاً کافر کہنے سے احتیاط برتی گئی۔ اسی طرح خود اہل سنت میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور حنابلہ کے درمیان اعتقادی اختلافات رہے ہیں لیکن ایک دوسرے کی تکفیر سے ہر ایک نے اجتناب کیا۔ اسی طرح اہل تشیع کے بارے میں فقہاء متقدمین کا عام نقطہ نظر یہی رہا کہ جو لوگ تحریفِ قرآن یا سیدنا حضرت علیؓ کے اندر خدا کے حلول ہونے کے قائل نہیں ہیں، ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ علامہ شامیؒ نے کئی جگہ اہل سنت کا یہی نقطۂ نظر نقل کیا ہے ۔ ( دیکھئے : رد المختار : ۳ ؍ ۲۹۳ ، ۶ ؍ ۴۱۳)
فقہاء نے یہ بات بھی لکھی ہے کہ جس بات کے کفر ہونے پر اتفاق نہ ہو اس کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا ، چنانچہ علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں :
’’ و اعلم أنہ لا یفتی بکفر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن أو کان في کفرہ خلاف ولوکان ذلک روایۃ ضعیفۃ ‘‘ (درمختار مع الرد : ۴/۲۲۴ )
’’کسی ایسے مسلمان پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا جس کے کلام کا بہتر مفہوم بن سکتا ہو یا اس کے کفر میں اختلاف ہو، چاہے اس سلسلہ میں فقہاء کا ضعیف قول ہی کیوں نہ ہو ‘‘
جہاں اتفاق واتحاد کے لیے ہمیں قرآن وحدیث اور اسوۂ نبوی سے روشنی ملتی ہے، وہیں اگر اختلاف کی صورت پیدا ہوجائے اور کسی ایک نقطہ نظر پر اتفاق نہ ہو پائے تو شریعت میں اس کے لیے بھی اصول موجود ہے جس کو ہم بنیادی طور پر تین نکات میں واضح کرسکتے ہیں:
اول یہ کہ جن امور میں اتفاق رائے نہ ہو، ان میں ہر گروہ کے لوگ اپنی اپنی رائے پر عمل کریں، قرآن مجید میں تو یہ اصول غیر مسلموں کے سلسلے میں بیان کیا گیا ہے: لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ (کافرون: ۶) جب غیر مسلموں کے حق میں یہ بات قبول کی جاسکتی ہے جب کہ وہاں ایک طرف کھلاہوا حق ہے اور دوسری طرف کھلا ہوا باطل ہے تو پھر مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے بارے میں تو مفاہمت کا یہ طریقہ بدرجہ اولیٰ قابل عمل ہے۔
دوسرے:دو مختلف نقاط نظر کے حاملین ایک دوسرے کے پیشواؤں اور مذہبی رہنماؤوں کو برا بھلا نہ کہیں، قرآن مجید نے توان دیویوں اور دیوتاوں کو بھی برابھلا کہنے سے منع کیا ہے جن کی غیر مسلم حضرات پرستش کرتے ہیں: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام: ۱۰۹) جب کہ ان کا معبود باطل ہونا ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ انبیاء کی بنیادی تعلیم یہی ہے کہ بندوں کو معبودان باطل کی پرستش سے بچایا جائے، پھر بھی دنیا میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے ان کی بے احترامی سے منع کیاگیا۔ مسلمانوں کا کوئی بھی طبقہ جن شخصیتوں سے اپنی نسبت کرتا ہو، وہ بہر حال علم وفضل اور اعمال واخلاق کے اعتبار سے امت میں امتیازی حیثیت کے حامل رہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان کے بعض افکار اور بعض تحریروں سے کچھ لوگوں کو درست یا نادرست اختلاف رہا ہو؛ لیکن بہرحال یہ ایسی شخصیتیں تھیں جنہوں نے قرآن وحدیث کی خدمت کی، احکام شریعت کی رہنمائی کی اور ہزاروں لوگوں نے ان کے ہاتھ پر توبہ کی۔ لہٰذا ان کے بارے میں بدرجہ اولیٰ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ چاہے آپ ان کا احترام نہ کریں لیکن کم سے کم ان کی بے احترامی سے تو اپنے آپ کو باز رکھیں۔
تیسرا اصول قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ جہاں اتفاق کی صورت نہ بن سکے وہاں کم سے کم اشتراک کا راستہ اختیار کیا جائے، یعنی جن امور میں اتفاق ہو ان کے لیے مل جل کر کوششیں کی جائیں۔ قرآن مجید میں اہل کتاب کو اسی اصول پر مسلمانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی دعوت دی گئی ہے: تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ (آل عمران: ۶۴) حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جو رسول اللہ ﷺ کے نبی ہونے اورقرآن مجید کے کتاب الٰہی ہونے کا انکار کرتے تھے۔ تو کیا مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر دین کے اکثر بنیادی عقائد اور اہم فروعی احکام میں متفق ہونے کے باوجود ایک ایسے ملک میں اس فارمولے پر عمل نہیں کرسکتے جہاں بہت سارے ملی مسائل ہمارے سامنے ہیں؟
مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند فسادات، نوجوانوں کی بے قصور گرفتاریاں، پولیس کے مظالم، معاشی نابرابری، تعلیمی پسماندگی، مغربی تہذیب کا مقابلہ، مسلم سماج کو بے حیائی سے بچانا، سود کے جال سے انہیں محفوظ رکھنا، قادیانیت اور عیسائیت کے فتنے سے مسلمانوں کی حفاظت، مسلمان نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا سد باب، تقریبات نکاح میں فضول خرچی کو روکنا اور نہ جانے کتنے مسائل ہیں جن میں کسی کو اختلاف نہیں اور جن سے وہ تمام لوگ دو چار ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، اور اگر ایسے مسائل پر مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر مل کر مشترکہ جدوجہد کریں تو باہمی نفرتیں کم ہوں گی اور اختلافِ رائے بھی ایک حد پر رہے گا۔
ہمیں اس بات کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اتحاد اس طرح نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص یا تنظیم سوچنے لگے کہ تمام لوگ اپنے وجود کو اس کے وجود میں گم کر دیں اور اس کے تابع ہوکر اتحاد قائم کریں، اس کی تنظیم اور جماعت کو اپنا مرکز تسلیم کر لیں۔ ایسا خیال کرنا یقیناً خود فریبی اور خوش فہمی کی بات ہو گی۔ اتحاد کی بنیاد یہی ہو سکتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرنا بلکہ ایک دوسرے کے کام اور طریقہ کار کا احترام کرنا سیکھیں۔ اگر کام کے میدان الگ الگ ہوں تو اپنے اپنے دائرے بنائیں اور دوسرے کے کام کو بھی قدر ومنزلت سے دیکھیں، اور اگر ایک ہی میدان میں کام کر رہے ہیں تو اس میں بھی کام کی یا علاقہ کی تقسیم ہو سکتی ہے۔
ہندوستان کا سیاسی نقشہ اس وقت جس تیزی سے تبدیل ہورہا ہے وہ کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے، ایسے لوگ جن کا ایک ساتھ بیٹھنا پہلے ناممکن سمجھا جاتا تھا اور ایسی جماعتیں جن کے اشتراک کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا وہ آج ایک دوسرے سے بغل گیر ہیں اور سیاست کی بساط پر ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر کھڑی ہوئی ہیں، پھر مسلمان جن میں اتحاد کی کتنی ہی بنیادیں موجود ہیں کیا وہ اپنے اختلافات کو بُھلا کر ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے؟ مصیبت اور پریشانی شیر اور بکری اور سانپ اور نیولے کو بھی ایک جگہ جمع کر دیتی ہے لیکن کیا ہم اس قدر بے شعور اور شخصی مفادات کے اسیر ہیں کہ عداوتِ سیلاب اور نفرت کا طوفان بھی ہم کو متحد نہیں کر سکتا؟ شاید علامہ اقبالؒ کی روح ہم پر نوحہ کناں ہو اور استفسار کر رہی ہو کہ:
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں ؟
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
خالد سیف اللہ رحمانی
***
اتحاد ملت کانفرنس کی قراردادیں
منعقدہ: ۸؍ اگست ۲۰۲۱، بمقام: دہلی
مختلف مکاتب فکر کے رہنماؤں اور اہم ملی تنظیموں کے ذمہ داروں کا یہ نمائندہ اجلاس طے کرتا ہے کہ:
ملت کا اتحاد واتفاق تو ہر دور میں ضروری رہا ہے لیکن موجودہ حالات میں اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے، اس لیے تمام برادران اسلام بالخصوص مختلف مسالک کے رہنماؤں اور ملی تنظیموں کے ذمہ داروں کا فریضہ ہے کہ وہ اتحاد واتفاق کو فروغ دیں، اس کے لیے ممکنہ تدابیر کو اختیار کریں، جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ مختلف مسالک ومشارب کی اہم شخصیات کی وفات یا کسی بڑی حصولیابی کے موقع پر کمیٹی کی جانب سے تعزیتی / تہنیتی جلسہ منعقد ہو، تاکہ آپسی محبت کا ماحول قائم بھی ہو اور باقی بھی رہے۔ نیز ایسی باتوں سے اپنے آپ کو بچائیں جو دوسرے مسلک ومشرب کے لیے دل آزاری کا سبب بنیں۔ ملت اسلامیہ کے مشترکہ مسائل کے لیے مل جل کر جدوجہد کریں اور فرقہ پرست عناصر کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان نفرت اور اختلاف پیدا کرنے کی جو کوشش کی جارہی ہے اس کو کامیاب نہ ہونے دیں۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دین وایمان پر ثابت قدم رہیں، چاہے کتنے ہی مادی نقصان سے دوچار ہونا پڑے اور جان ومال یا عزت وآبرو کو خطرہ درپیش ہو، جیسے ہمارے بزرگوں نے ہر طرح کے حالات میں صبر واستقامت کا ثبوت دیا ہے ہم بھی اس پر قائم رہیں اور نئی نسل کو بھی اس کی تلقین کریں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو عقیدہ توحید کی اہمیت، شریعت اسلامی کی نافعیت، رسول اللہ ﷺ سے سچی اور پکی محبت اور قرآن و حدیث پر اٹوٹ یقین، نیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے دیے گئے احکام کے انسانی عقل کے مقابلہ حاکم اور بالاتر ہونے کا عقیدہ ان کے ذہنوں میں راسخ کردیں، یہاں تک کہ نہ خوف ان کے قدموں میں لرزش پیدا کرے اور نہ حرص وطمع ان کو اپنے موقف سے ہٹاسکے۔
اسلام میں ہمسایہ قوموں کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور بہتر برتاؤ کی تعلیم دی گئی ہے، اس لیے ہم تمام برادران وطن سے تعلقات کو بہتر بنانے اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی مشترکہ طور پر کوشش کریں اور اس کے لیے برادران وطن کے مختلف طبقات کے ساتھ ان کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے مذاکرات کریں۔ انسانی مسائل کو حل کرنے میں نہ صرف برادران وطن کے ساتھ مل کر کام کریں بلکہ اس میں پیش پیش رہنے کی کوشش کریں۔ نا انصافی کسی بھی طبقہ کے ساتھ ہو اس کو روکنے کی جدوجہد میں شامل ہوں اور مظلوموں کا سہارا بنیں۔ آفات سماوی کے موقع پر خدمت خلق کے کام کو خصوصی اہمیت دیں اور ایک داعی امت کا کردار ادا کریں۔
یہ اجلاس ملت کے تمام افراد خصوصاً نوجوانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ مایوسی سے دور رہتے ہوئے ہمت وحوصلے کے ساتھ زندگی گزاریں اور یاد رکھیں کہ ہمارے ملک کا دستور ہمیں اپنی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے اپنے دفاع کا حق دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سماج دشمن عناصر اور لاقانونیت کا راستہ اختیار کرنے والے افراد کا پوری قوت سے مقابلہ کرنا چاہیے۔
ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو ملک وقوم کے لیے نافع بنائے اور کوشش کرے کہ معاشرہ میں اس کی نافعیت محسوس کی جائے، اس کے لیے مسلمان طلبہ وطالبات کو توجہ دلائی جاتی ہے کہ وہ تعلیم کے ایسے شعبوں پر خصوصی توجہ دیں جن کے ذریعہ سوسائٹی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، مظلوموں کی مدد کی جاسکتی ہے، ملک میں امن وامان کی فضا قائم کی جاسکتی ہے۔ اس لیے ان کو سائنس، ٹکنالوجی، تاریخ اور قانون کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
درج ذیل افراد پر مشتمل ’’مرکزی کمیٹی برائے وحدت ملت‘‘ تشکیل دی جاتی ہے جو اس کانفرنس کی قرارداد کو روبہ عمل لانے کے لیے حسب ضرورت قدم اٹھائے:
۱- مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی۲- مولانا سید ارشد مدنی۳- مولانا محمد سفیان قاسمی۴- مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی۵- مولانا سید محمود مدنی۶- جناب سید سعادت اللہ حسینی۷- مولانا محمد عبد اللہ مغیثی۸- ڈاکٹر محمد منظور عالم۹- مولانا سید مصطفی رفاعی جیلانی ندوی۱۰- مولانا سید نثار آغا (حیدرآباد)۱۱- ڈاکٹر عزیز بھائی صاحب قطب الدین۱۲- مولانا عبد الحمید نعمانی۱۳- مولانا عبید اللہ خاں اعظمی۱۴- مولانا سید اطہر علی۱۵- مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی۱۶- ایڈووکیٹ یوسف حاتم مچھالہ۱۷- جناب عبدالرشید چودھری۱۸- مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۱۹- مولانا خالد رشید فرنگی محلی۲۰- پروفیسر شمیم الدین احمد منعمی۲۱- پروفیسر سید علی محمد نقوی۲۲- ڈاکٹر ظہیر قاضی۲۳- مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (کنوینر کمیٹی)۲۴- مولانا انیس الرحمن قاسمی (جوائنٹ کنوینر)۲۵- مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی (جوائنٹ کنوینر)
یہ کمیٹی ہر سال وحدت ملت کانفرنس منعقد کرے اور مختلف مسلک ومشرب کے نمائندہ اداروں کو اس کی میزبانی کے لیے تیار کرے تاکہ اتحاد کی عملی شکل عام مسلمانوں کے سامنے آئے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021