بنگلہ دیش فسادات:حقیقت کیا ہے؟

قرآن کی بے حرمتی کی پرانی تصویر تشدد کے بھڑکنے کا سبب

اسد مرزا

وزیر اعظم مودی کا ردعمل سے گریز لیکن بی جے پی نے ممتا بنرجی کی ’خاموشی‘پر سوال اٹھائے
بھارت کے ہم سایہ ملک بنگلہ دیش میں 13اکتوبر سے 16اکتوبر کے درمیان ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں اب تک کم از کم 6افراد کی موت اور درگا پوجا کے موقع پر تعمیر کیے گئے پوجا پنڈالوں کو تہس نہس اور نذرِ آتش کرنے کے علاوہ مندروں پر حملے کرنے کی خبروں نے پوری دنیا کو چونکا دیا ہے۔
بنگلہ دیش مسلمان اکثریت والا ایک سیکولر ملک ہے، جس کا قیام 1972میں مذہبی نہیں بلکہ لسانی اور سماجی تشخص کی بنیادوں پر پاکستان سے الگ ہونے کے بعد ہوا تھا اور اس کے قیام میں بھارت نے ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ تاہم گزشتہ 25 سالوں کے درمیان انتہا پسند تنظیموں کے بڑھتے ہوئے شدت پسندانہ رویہ کی وجہ سے ملک میں گاہے بگاہے ہندوؤں کے خلاف تشدد کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بنگلہ دیش کے اخبار ’’ڈیلی اسٹار ‘‘کے مطابق ماحول میں کشیدگی 13اکتوبر کی علی الصبح اس وقت شروع ہوئی جب ایک شخص نے فیس بک پر ایک تصویر پوسٹ کی جس میں دیکھا جاسکتاتھا کہ ہندوؤں کے ہنومان کے مجسمے کی گود میں قرآن مجید رکھا ہوا ہے۔ یہ واقعہ کوملہ شہر کا ہے اور بہت جلد ہی یہ پوسٹ وائرل بھی ہوگیا اور بڑی تعداد میں مسلمان کوملہ کے پوجا پنڈال کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے جس کے بعد انہوں نے پنڈال میں رکھی ہوئی مختلف ہندو دیوی، دیوتاؤں کے مجسموں اور پنڈال کو توڑنا پھوڑنا شروع کردیا۔
’ڈیلی اسٹار‘کے مطابق پوسٹ کی گئی تصویر جعلی اور بنگلہ پولیس کے فیس بک پیچ سے اٹھائی گئی ایک پرانی تصویر تھی جو کہ پولیس نے 2019میں پوسٹ کی تھی اور جس میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ 2016میں قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے والے ایک واقعہ میں اس نے جہانگیر عالم نامی ایک شخص کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ اخبار کے مطابق فساد شروع کرنے والے افراد کو اس تصویر کی حقیقت معلوم کرنے کے علاوہ اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے تھا کہ درگا پوجا کے موقع پر بنائے گئے پنڈالوں میں ہنومان کا مجسمہ موجود نہیں ہوتا بلکہ صرف درگا ،پاروتی، سرسوتی اور گنیش کے مجسمے پنڈال میں پوجا کے لیے رکھے جاتے ہیں۔
فیس بک پر پوسٹ کیے گئے فوٹو کے فیک ہونے کی تصدیق انڈیا ٹوڈےکی حقائق کا پتہ لگانے والی ٹیم نے بھی کی ہے اور اسے پرانی تصویر قرار دیا ہے۔ تاہم عوام کو توہین رسالت اور توہین قرآن کے نام پر اکسایا جاتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ بنگلہ دیش کے 22صوبوں میں پہنچ چکی تھی جہاں سے اب تک تقریباً 750 افراد کے گرفتار ہونے اور چھ کے ہلاک ہونے کی خبریں ہیں۔
ان فسادات پر حکومت کی جانب سے وقت رہتے کارروائی نہ کرنے، وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جانب سے بیان دیر سے جاری کرنے اور پولیس فورس کو فوری طور پر کارروائی کرنے کے احکامات نہ دیے جانے کے الزامات کے پس منظر میں بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں کمال نے کہا ہے کہ پولیس نے بروقت کارروائی کی اور ملزموں کے پکڑے جانے پر انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جس چابک دستی سے شیخ حسینہ نے فوری طور پر کارروائی کی اور بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں شر پسندوں کو پکڑنے کا سلسلہ شروع کیا گیا وہ کسی بھی دوسرے ملک میں دیکھنے میں نہیں آیا۔
بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی حالت
بنگلہ دیش کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے اور پوری آبادی میں صرف 9 فیصد ہندو ہیں جو کہ ملک کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی حالت اور حالیہ فسادات پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے جنیو ہندو مہاجوت کے سکریٹری جنرل گوبند چندرا پرمانک نے بھارتی نیوز ویب سائٹ” The Wire "کے نامہ نگار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے ہندو چونکہ اقلیت میں ہیں اس لیے عام طور پر علاقائی آبادی یعنی مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ فسادات کی مذمت صرف ہندو رہنماؤں یا تنظیموں نے ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں مسلمان رہنماؤں، دانشوروں اور سماجی کارکنان نے بھی کی ہے۔
پرمانک جو کہ 2017-18میں وشو ہندو پریشد کی بنگلہ دیش برانچ کے صدر بھی رہ چکے ہیں انہوں نے حالیہ فسادات پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کوملہ شہر میں ہندوؤں کی تعداد بہت کم ہے اسی لیے وہاں پر ہونے والی درگا پوجا کی تقریبات وہاں کی مقامی مسلمانوں کے معاشی اور انتظامی تعاون سے ہوتی ہے۔ چو نکہ وہاں ہندوؤں کی تعداد کم ہے اس لیے پنڈال رات کو تقریباً 12 بجے بند کردیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق 12 اکتوبر کی دیر رات یا 13اکتوبر کی علی الصبح، کسی نے فیس بک پر قرآن مجید کی توہین کیے جانے کی فوٹو پوسٹ کی تھی جس کے بعد 13اکتوبر کو صبح سے ہی پنڈال کے باہر ایک اشتعالی ہجوم جمع ہوگیا تھا۔لیکن یہاں جو بات قابلِ غور ہے وہ ہے مسٹر پرمانک کی جانب سے یہ تسلیم کرنا کہ بنگلہ دیش کے چھوٹے شہروں میں جہاں ہندوؤں کی تعداد کم ہوتی ہے، وہاں پر درگا پوجا کے تمام انتظامات مقامی مسلمانوں کی شرکت کے ساتھ مکمل ہوپاتے ہیں جو کہ بنگلہ دیش میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی رواداری اور آپسی بھائی چارے کو اجاگر کرتا ہے اور اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ زیادہ تر اس طریقے کے واقعات شرپسندوں کی جانب سے بدامنی پھیلانے کے لیے اور حکومت کو بدنام کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی درمیان کسی نے پولیس کو اطلاع دے دی اور پولیس نے موقع واردات پر پہنچ کر قرآن مجید کو ہٹانے سے پہلے ایک مقامی باشندے کو سوشل میڈیا پر لائیو جانے کی اجازت دے دی جس نے حالات پر کمنٹری اور تبصرے کے ساتھ جذبات بھڑکانے کی پوری کوشش کی۔ اور اس کے بعد ہی پنڈال پر حملہ کیا گیا اور پھر یہ آگ پورے ملک میں پھیل گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکمراں جماعت عوامی لیگ کے ایک بااثر علاقائی لیڈر کے اس پورے معاملے میں ملوث ہونے کے قوی امکانات ہیں، کیونکہ اول تو پولیس موقع واردات پر بہت دیر سے پہنچی اور پھر اس نے سب سے پہلے ان ہندو۔ مسلمان علاقائی باشندوں کو منتشر کرنے کا کام کیا جو کہ ماحول کو خراب نہ کرنے کی اپیل کررہے تھے۔
حالیہ واقعے کے علاوہ بھی مجموعی طور پر حکمراں جماعت کی تنقید کرتے ہوئے مسٹر پرمانک نے کہا کہ شروع شروع میں بنگلہ دیش قائم ہونے کے بعد عوامی لیگ نے ہمیشہ ہندو اقلیتوں کا ساتھ دیا لیکن آہستہ آہستہ جب شدت پسند عناصر کی عوامی لیگ میں تعداد بڑھتی چلی گئی تو یہ جذبہ کچھ کم ہونے لگا، ساتھ ہی بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے پرتشدد واقعات میں اضافے کے بعد عوامی لیگ نے بنگلہ دیشی ہندوؤں کے تئیں اپنے نظریہ میں بھی کچھ تبدیلی کی ہے۔
اس کے علاوہ پرمانک کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصہ میں عوامی لیگ نے مقامی ہندوؤں کو صرف ایک ووٹ بینک کے طور پر دیکھنا شروع کردیا ہے اور ساتھ ہی اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ ہندو باشندے اس کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت بھارت کی بی جے پی حکومت اور وی ایچ پی اور آر ایس ایس کے خلاف ہے۔ جس کی وجہ سے شاید ہندو مخالف جذبات میں بہت اضافہ رونما ہوا ہے۔
فسادات پر بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پرمانک نے کہا کہ اول تو بھارت کا مذمتی بیان بہت دیر میں آیا، دوم یہ بیان وزیر اعظم کی جانب سے نہیں بلکہ بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے آیا ہے اور اس میں بھی سخت الفاظ کا استعمال بالکل نہیں کیا گیا، بلکہ اس سے زیادہ سخت بیان تو اقوامِ متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جاری کیے تھے۔ پرمانک کا کہنا ہے کہ موجودہ بھارتیحکومت کو بنگلہ دیشی ہندوؤں کی کوئی فکر نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ لیڈرشپ کو، ماضی میں بھی صرف آنجہانی سشما سوراج ہی پرزور طریقے سے بنگلہ دیشی ہندوؤں کی حمایت میں بولتی تھیں۔
بھارت کی جانب سے مذمت
بنگلہ دیش میں ہونے والے فسادات کی تقریباً تمام بھارتی سیاسی جماعتوں نے مذمت کی ہے۔اس کے علاوہ جنوب ایشیا کے مایہ ناز دانشوروں اور سماجی کارکنان نے بھی ان واقعات کی مذمت کی ہے۔ لیکن جو دوسب سے اہم مذمتی بیان ہیں وہ ہیں اے آئی یو ڈی ایف کے صدر مولانا بدرالدین اجمل اور جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر انجینئر سلیم کی جانب سے دیے گئے بیانات ہیں۔ مولانا اجمل نے بنگلہ دیشی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے یہ یقینی بنانے کے لیے کہ وہاں مقیم ہندو شہری محفوظ ر ہیں، سخت اقدام کرنے کی اپیل کے ساتھ ہی بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سفارتی ذرائع کے ذریعہ بنگلہ حکومت پر زور ڈالے کہ وہ بنگلہ ہندوؤں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوشش کرے۔
لیکن جس بیان پر سب سے زیادہ چہ میگوئیاں ہوئیں وہ تھا انجینئر سلیم کی جانب سےکیا جانے والا ٹوئٹ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ لا قانونیت جمہوریت کو کمزور کرتی ہے اور مذہبی مقامات کی بے حرمتی کی اجازت نہ تو آئین دیتا ہے اور نہ ہی اسلام۔ جناب سلیم کے اس ٹویٹ کو کچھ افراد نے فیک بھی قرار دیا۔ تاہم بعد میں کہا گیا کہ یہ ٹویٹ انہیں کا ہے اور اس میں شامل تاثرات جماعت کے فکری پہلو سے مناسبت رکھتے ہیں جو کہ ایک تکثیری سماج کو قائم کرنے کے لیے پابند ہے۔
اکثریت بمقابلہ اقلیت
بنگلہ دیش کے حالیہ اور ماضی کے مذہبی واقعات، اقلیت اور اکثریت کے درمیان ہونے والے تصادم کا شکار ہوجاتے ہیں، جو کہ ایک سماجی اور معاشی دونوں پہلوؤں کو اپنے اندر شامل کرلیتا ہے۔ سماجی ماہرین کے بقول بنگلہ دیش کا قیام لسانی اور تہذیبی بنیادوں پر عمل میں آیا تھا۔ان ماہرین کے مطابق اگر ہم بنگلہ دیش اور مغربی بنگال کے بنگالی قوم کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ پائیں گے کہ دونوں فرقے بہت سے قدریں آپس میں مشترک رکھتے ہیں۔جیسا کہ رابندرو سنگیت کا مزا ہندواور مسلمان یکساں طور پر لیتے ہیں، اسی طرح قاضی نذرالاسلام کے نذرو گیت دونوں فرقے گاتے ہیں اور اسے اپنی سماجی اور کلچرل اساس قرار دیتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جیسا کہ ہر سماج یا ملک میں دیکھنے میں آتا ہے، آہستہ آہستہ وہی سب بنگلہ دیش میں بھی ہونا شروع ہوگیا۔یعنی کہ جو ہندو بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے گئے تھے، انہوں نے اپنی زمینیں اور جائیدادیں مسلمانوں کو بیچ دی تھی، اور وہ مسلمان جو کسی وقت ان کھیت کھلیانوں میں مزدوری کرتے تھے، اب اس کے مالک ہوگئے۔اس مالی آسودگی کا منفی اثر کسی حد تک ان کی فکری اور سماجی نظریات پر بھی ہونا شروع ہوگیا۔
مذہبی تنظیموں کی مقبولیت اور ان کا اثر ورسوخ 1971سے پہلے بھی بنگلہ دیش میں موجود تھا تاہم اس میں اضافہ اس وجہ سے رونما ہوا کہ اب آپ کی حکومت قائم ہوگئی تھی لیکن اس کے باوجود بنگالی تہذیبی تشخص نے اپنی جگہ نہیں کھوئی تھی اور اقلیت و اکثریت دونوں ہی چین سکون کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ مگر اس میں جب آپ معاشی پہلو شامل کرلیتے ہیں تو سماجی پیچیدگیاں بڑھنی شروع ہوجاتی ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق اقلیتی ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد نے مختلف مغربی ممالک میں ہجرت کا راستہ اپنایا لیکن یہ ہجرت معاشی پہلوؤں اور مواقع کی بنیاد پر تھی نہ کہ مذہبی بنیادوں پر۔
لیکن یہاں ہم گزشتہ بیس سال کے عرصہ میں بنگلہ دیش میں شدت پسند مذہبی عناصر کی تعداد میں اضافے اور سماج میں دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کم ہوتی دیکھنے کو بھی مجبور ہوئے۔ اس کی ایک وجہ مذہبی جماعتوں کا سیاسی حلقوں میں شامل ہونا اور اس کے علاوہ مغربی ممالک سے ان نوجوانوں کا واپس آنا شامل تھا جو کہ کافی حد تک مغربی ممالک میں مسلمان مخالف پالیسیوں اور دہشت گردی مخالف پروگراموں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اس کے اثرات سے خائف تھے۔ یہ افراد زیادہ تر شدت پسند مسلم پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر دیگر مذاہب کے خلاف کارروائی کرنے پر اکسائے جاتے تھے اور 2001ء کے بعد اس سوچ میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا۔ یہاں ہم بنگلہ دیش حکومت کو قصور وار مان سکتے ہیں کہ وہ ان شدت پسند عناصر کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہی لیکن یہ الزام مغربی ممالک پر بھی عائد ہوسکتا ہے جیسا کہ حال میں امریکہ میں بلیک موومنٹ نے ثابت کیا ہے کہ فسادات مذہبی بنیادوں کے ساتھ ساتھ نسلی بنیادوں پر بھی ہوسکتے ہیں۔
بنگلہ دیش حکومت کی کارروائی
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ملک بھر میں جاری فسادات کو روکنے کے لیے ریاستی پولیس اور نیم فوجی دستوں، دونوں کو ملک میں امن و امان قائم کرنے کے کام پر فوری طور پر تعینات کردیا تھا۔ پولیس نے مختلف مقامات سے تقریباً 750افراد کو گرفتار کیا ہے اور کوملہ واقعہ کے اصل مجرم کو پکڑنے کی کوشش جاری ہے۔ شیخ حسینہ نے اپنی تقریر میں عوام کو یقین دلایا کہ مندروں اور پوجا پنڈالوں پر حملہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا، خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں۔
اپنی تقریر میں شیخ حسینہ نے بھارت کو بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ اسے بھی اپنے یہاں شرپسندانہ کارروائیوں میں ملوث افراد سے سختی سے نپٹنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انڈیا میں بھی ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے جو کہ ہمارے ہندو شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کردے۔ اگر انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو ہمارے یہاں کے ہندو اور مسلمان بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
اس تقریر کے ذریعہ بھارت کو سخت الفاظ میں اپنی اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کا مشورہ، شاید پہلی مرتبہ کسی عالمی رہنما نے کھلے لفظوں میں دیا ہے۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد بھی بھارتی مسلمان اور عالمی برادری خاموش رہی تھی اور اگر بنگلہ دیش جیسا کوئی چھوٹا ملک اس طرح کھلے الفاظ میں بھارتی سیاست دانوں کی سرزنش کرسکتا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ عالمی برادری بھارت کے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے اور داخلی صورت حال پر اپنی نظر رکھے ہوئے ہے اور بنگلہ دیش کے تیور دیکھتے ہوئےیہ امید کی جاسکتی ہے کہ اب حکومت ہند اقلیتی مخالف کسی بھی کارروائی پر سختی سے قابو پانے کی کوشش کرے گی۔
یاد رہے کہ اسی ماہ وزیر اعظم مودی کو اپنے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر جوبائیڈن اور نائب امریکی صدر کملا ہیرس کی جانب سے جمہوریت، جمہوری اقدار، مذہبی رواداری کے علاوہ کامیاب حکومت چلانے کی بابت مشورے بھی دیے تھے۔ اور اسی سال فروری اور اگست میں پاکستان کے مختلف شہروں میں مندروں پر ہونے والے حملوں کی وہاں کی سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیتے ہوئے ان مندروں کی تعمیرِ نو کے احکامات جاری کیے تھے اور وہاں کی نیشنل اسمبلی نے ان واقعات کی سخت لفظوں میں مذمت کی تھی۔ یہ واقعات بھی ایک مسلم اکثریتی ملک میں رونما ہوئے تھے لیکن پھر بھی وہاں کی عدلیہ اور قانون سازوں نے فوری طور پر ان کا نوٹس لیا اور اس کے خلاف قابلِ ستائش اقدامات کیے۔
تاہم ایسا لگتا ہے کہ بھارت میں حکمراں جماعت ابھی بھی کوئی فیصلہ بغیر مذہب کی آمیزش کے کرنے میں ناکام ہے۔ بنگلہ دیش کے افسوس ناک واقعات کا اثر مغربی بنگال میں دیکھنے میں آرہا ہے، جہاں حزبِ اختلاف کی جماعت یعنی بی جے پی نے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی تنقید کی ہے کہ وہ اس معاملہ پر چپ کیوں ہیں۔ شاید ان سیاست دانوں کو یہ نہیں معلوم کہ بنگلہ دیش ایک آزاد ملک ہے اور کسی دوسرے ملک کے واقعے پر تبصرہ یا بیان کسی ریاست کا وزیرِ اعلیٰ نہیں دے سکتا ، یہ ذمہ داری وزیر اعظم کی بنتی ہے کیونکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ وہاں کی بی جے پی اکائی نے واقعات کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہوئے انہیں مغربی بنگال کے ضمنی انتخابات میں پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے لیکن ممتا حکومت نے اس طرح کی کسی بھی مہم کے خلاف پولیس کو سخت اقدام لینے کا اشارہ دے دیا ہے۔ تاہم ان واقعات کا منفی اثر بھارت کے شہروں میں بھی دیکھنے میں آنے لگا ہے۔ تری پورہ سے جو کہ بنگلہ دیش کے کوملہ شہر سے زیادہ دور نہیں ہے، وہاں سے مسجدوں کی بے حرمتی کی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات اور تشدد افسوس ناک ہیں تاہم جس چابک دستی سے وہاں کی حکومت نے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئینی طور پر ایک مسلم ملک اپنے یہاں کی اقلیتوں کی حفاظت کے لیے اسلامی اصولوں کے مطابق پابند اور با عمل نظر آرہا ہے جبکہ ہمارا ملک جو کہ آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہے، وہاں سیکولرزم اور اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے جو کہ بھارت کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com
***

 

***

 اپنی تقریر میں شیخ حسینہ نے بھارت کو بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ اسے بھی اپنے یہاں شرپسندانہ کارروائیوں میں ملوث افراد سے سختی سے نپٹنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انڈیا میں بھی ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے جو کہ ہمارے ہندو شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کردے۔ اگر انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو ہمارے یہاں کے ہندو اور مسلمان بھی متاثر ہوتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021