بنگال پر دیدی کا دبدبہ ، اوچھی سیاست کام نہ آئی

نفرت کی سیاست سے مخالف حکومت لہر ماند پڑگئی۔مودی۔ شاہ کی جارحانہ مہم نے مسلم ووٹوں کو متحد کیا

ڈاکٹر سلیم خان

 

نندی گرام میں دیدی کو ہروانے والے مودی ہندوستان کی بازی ہار گئے۔ مغربی بنگال کی انتخابی مہم کے دوران ’دیدی او دیدی‘ کی گونج تو بہت سنائی دی لیکن اب نتائج کے بعد اس کا دیوانہ دیور تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے کیونکہ ’ہم آپ کے ہیں کون‘ فلم کا ہیرو تو دراصل دیور ہی تھا۔ فلم ہو یا سیاست دونوں ہیرو کی وجہ سے چلتی اور پٹتی ہیں۔ اس کی کامیابی کا کریڈٹ لینے والوں کو ناکامی کی ذمہ داری بھی قبول کرنی پڑتی ہے۔ فی الحال مغربی بنگال کے رائے دہندگان نے ہیرو کو زیرو بنا دیا ہے۔ ایک سیاسی سپر اسٹار کا دامن تار تار کیسے ہوا؟ اس پر بعد میں بات ہو گی پہلے یہ جان لیجیے کہ یہ دیور اور بھابی کا رشتہ کیا ہے؟ ممتا بنرجی کا سیاسی جنم دراصل کانگریس پریوار میں ہوا مگر جلد ہی بغاوت کر کے انہوں نے اپنا الگ گھر بسا لیا لیکن خاندانی نام پھر بھی ساتھ لگا رہا۔ ٹی ایم سی کا پورا نام آج بھی آل انڈیا ترنمول کانگریس ہے۔
ممتا دیدی نے یہ فیصلہ اس وقت کیا تھا جب ایچ ڈی دیوے گوڑا جیسا علاقائی رہنما وزیر اعظم تھا۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ اس طرح ان کے سر پر بھی تاج آ سکتا ہے۔ نتیش کمار نے بھی اسی زمانے میں وزیر اعظم بننے کا خواب آنکھوں میں سجا کر الگ سے سمتا پارٹی بنائی تھی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس کے بعد جب مرکز میں اٹل جی کی سرکار آئی تو ان دونوں نے سنگھ پریوار میں قدم رکھا اور جب وہ اقتدار سے بے دخل ہوئے تو دیدی نے سنگھ کو چھوڑ دیا مگر نتیش کمار اس کے ساتھ لگے رہے۔ آج پھر سے ممتا کے اندر وزیر اعظم کا امیدوار دیکھا جا رہا ہے جبکہ سنگھ کی دوستی کے سبب نتیش کمار کی امیدوں کا چراغ بجھ چکا ہے۔ خیر اس دوران 2011میں ممتا نے کانگریس سے ہاتھ ملایا پھر چھڑا لیا۔ یہ سارے فیصلے شاہد ہیں کہ دیدی نے اقتدار سے بیاہ رچا لیا اور اسی کی تابعداری میں اپنا ہر قدم بڑھاتی رہیں۔ ملک میں فی الحال اقتدار کا چھوٹا بھائی وزیر اعظم کے سوا کون ہے؟ اس لیے دیدی کا دیوانہ دیور کہلانے کے حقدارمودی ہی ہیں۔
وزیر اعظم نے اس انتخابی مہم کے دوران ممتا بنرجی کو مخاطب کرتے ہوئے ایک حیرت انگیز جملہ کہا تھا ’’آپ کا تھپڑ بھی میرے لیے آشیرواد بن جائے گا، میں وہ بھی کھالوں گا‘‘۔ اس طرح کی عقیدت کا اظہار تو کوئی دیور ہی اپنی بڑی بھاوج سے کر سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی کے طمانچوں کو بنگال کے عوام نے اپنے دل پر لے لیا اور ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ پردھان سیوک کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔ اس طرح تھپڑ آشیرواد تو بنا مگر ممتا کے لیے۔ امیت شاہ کا 200 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی دعویٰ سچ تو نکلا مگر ٹی ایم سی کے حق ہیں۔ اس کو ماننا پڑے گا کہ دیوانے دیور اور اس کے پریوار کی ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں۔ اس الٹ پلٹ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے بڑی وجہ مودی جی کا سوانگ رچانا تھا۔ رامائن کی سیتا کو اغوا کرنے کے لیے راون بھی سادھو کا بھیس بدل کر آیا تھا لیکن ممتا نامی کل یگ سیتا کو یرغمال بنا لینا اتنا آسان نہ تھا۔
وزیر اعظم نے انتخاب سے قبل اپنے آپ کو بالکل رابندر ناتھ ٹیگور بناکر پیش کیا تو بنگالی عوام کو خوشی ہوئی لیکن پھر انہوں نے دیکھا کہ یہ کل یگ کا جعلی ٹیگور تو بنگال کے وقار کو پامال کر رہا ہے۔ بنگال کی بیٹی کا تمسخر اڑا رہا ہے۔ لوگوں میں محبت کے بجائے نفرت پھیلا رہا ہے تو وہ سمجھ گئے کہ بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا چھپا ہوا ہے۔ انسان کے ظاہر و باطن کے درمیان معمولی فرق چھپ جاتا ہے لیکن زمین و آسمان کا فاصلہ نہیں چھپتا۔ مودی جی اپنے مخالفین کی تذلیل کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے آنجہانی راجیو گاندھی کو بھی نہیں بخشا لیکن اگر وہ گاندھی کا چولا اوڑھ کر ایسا کرتے تو عوام ان کو سبق سکھاتے۔ اس بار مودی جی سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے رابندر ٹیگور کی شبیہ کے ساتھ کھلواڑ کر کے عوام کا غصہ مول لیا۔ یہی کام ان کے شاگردِ خاص یوگی نے کیا۔ وہ رام کو میدان میں لے آئے اور وقت بے وقت رام نام جپنے لگے لیکن انتخابی نتائج نے ’ہے رام ‘ بلکہ ’رام نام ستیہ‘ کہہ کر بی جے پی کی ارتھی اٹھا دی۔ این آر سی کے بہانے مسلمانوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کی دھمکی دینے والے شاہ جی کو پھر ایک بار اپنا تڑی پار ہونا یاد آگیا۔
بی جے پی کے سامنے بنگال میں کوئی بہت بڑا چیلنج نہیں تھا۔ دو سال قبل اس کے اور ٹی ایم سی کے درمیان صرف ۳ فیصد ووٹ کا فرق رہ گیا تھا۔ اس کا مطلب اگر وہ ٹی ایم سی کے صرف دو فیصد مزید ووٹ اپنی جانب کرنے میں کامیاب ہوجاتی تو اسے سبقت مل جاتی۔ نشستوں کو دیکھیں تو 2019ء کے حساب سے 122حلقہ جات میں بی جے پی کو پہلے سے برتری حاصل تھی اور اسے صرف 26 مزید نشستیں درکار تھیں یعنی ایک چڑیا کو مارنا تھا لیکن اس کے لیے توپ کا استعمال کیا گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ مہم کے دوران اس کے پرخچے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ اس سے پیر پر پلاسٹر چڑھائے ابلہ ناری کے تئیں عوام کے دل میں ہمدردی پیدا ہو گئی جو ان کی اپنی زبان بولتی تھی اور وہیں پلی بڑھی تھی۔ اس طرح بی جے پی کا گھونسا ممتا کے لیے وردان بن گیا۔
ممتا بنرجی چونکہ 10سال سے برسرِ اقتدار ہیں اس لیے ان کے خلاف ایک فطری ناراضی تو موجود ہی تھی۔ اس کا فائدہ اٹھانے کی خاطر اگر مقامی رہنماوں کی پیچھے سے ہلکی پھلکی مدد کی جاتی تو یہ ہدف بہ آسانی حاصل ہو سکتا تھا لیکن مودی اور شاہ پر ایک جنون سوار ہو گیا۔ انہوں نے 8 مرحلوں میں انتخاب کروایا تاکہ اپنے بے پایاں وسائل کو ٹھہر ٹھہر کر استعمال کیا جا سکے۔ یہ فطری بات ہے کہ ایک وقت میں آدمی کتنا زہر کھائے گا۔ عوام کے ذہن کو پراگندہ کرنے کے لیے نفرت کی پڑیا کا رک رک کر استعمال کیا گیا تاکہ سانپ کو مارے بغیر ترنمول کی لاٹھی کو توڑ دیا جائے۔ زہریلے سانپوں کو ووٹ کی خاطر زندہ رکھنا ضروری تھا۔ اتفاق سے مودی کی موجودگی میں متھن چکرورتی نے اپنے آپ کو کوبرا کہہ کر اس کا اعترف بھی کرلیا تھا خیر ممتا کے خلاف اتنی اوچھی اور گھناونی مہم چلائی گئی کہ عوام کو غصہ آ گیا اور انہوں نے ممتا کے سارے قصور معاف کر کے بی جے پی کو سبق سکھا دیا۔
مودی اور شاہ کی یہ حکمت عملی ہندوو ووٹرس کو متحد کرنے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن گئی۔ وہ اندرونی اور بیرونی نیز بنگالی اور غیر بنگالی کے درمیان منقسم ہو گئے۔ بی جے پی کو شہروں کی پارٹی سمجھا جاتا ہے اور سنگھ کا اثر بھی وہیں تک محدود ہے مگر شہری باشندوں نے زعفرانیوں کو دھتکار کر یہ خوش فہمی دور کر دی۔ بی جے پی نے مسلمانوں کی مخالفت کرکے اپنا دائرہ کار از خود 70 فیصد ہندو رائے دہندگان تک محدود کر لیا تھا۔ ان کی تقسیم نے بی جے پی کی ناکامی پر مہر لگا دی۔ مودی اور شاہ کی جارحانہ مہم نے مسلمانوں کو متحد کر دیا اور انہوں نے دیگر جماعتوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنا وزن ٹی ایم سی کے پلڑے میں ڈال دیا۔ کانگریس اور دائیں بازو کے سارے امیدوار ہار گئے مگر اس الحاق میں شامل نوزائیدہ عباس صدیقی کی آئی ایس ایف نے اپنا کھاتہ کھول لیا۔ اس طرح مسلمانوں کو بے وزن کرنے والے خود روئی کے گالوں کی مانند ہوا میں اڑ گئے۔ بی جے پی کو پھر ایک بار احساس ہو گیا کہ اگر کوئی ان کے رتھ کا پہیہ اکھاڑ سکتا ہے تو وہ عام مسلمان ہی ہیں جن کو نہ ڈرا یا جاسکتا ہے اور نہ خریدنا ممکن ہے۔ اس طرح گویا فرقہ پرستی کا زہر خود بی جے پی کو چاٹ گیا۔
ممتا بنرجی کے خلاف بی جے پی نے الیکشن کمیشن سے لے کر ای ڈی اور سی بی آئی جیسی قومی ایجنسیوں کا بھر پور استعمال کیا۔ ان چھاپوں سے ڈرنے والوں کو اپنی پناہ میں لے کر ٹکٹ سے نوازا۔ ٹی ایم سی نے اپنی ناکامی کی پردہ داری کی خاطر 27 ناکارہ ارکان اسمبلی کا ٹکٹ کاٹ دیا جن میں وزیر مالیات اور وزیر تعلیم بھی شامل تھے۔ اس طرح عوام کو پیغام دیا گیا کہ کام نہ کرنے والوں کو سزا دی گئی۔ احمق بی جے پی نے ان باغیوں کو ٹکٹ دے کر ٹی ایم سی ووٹ بنک میں سیندھ مارنے کی کوشش کی لیکن بیشتر باغی ہار گئے۔ بی جے پی کو جب امیدواروں کی کمی پڑی تو اس نے اپنے پانچ ارکان پارلیمان کو میدان میں اتارا۔ ان میں سے بھی تین شکست فاش سے دو چار ہو گئے۔ ایک 57 ووٹ سے جیتا اور ایک کو 15 ہزار ووٹ کے فرق سے کامیابی ملی۔ بی جے پی والے نندی گرام میں ممتا کی شکست پر بغلیں بجاتے ہوئے بھول گئے کہ وزیر اعظم کا چہیتا وزیر بابل سپریو بھی ٹالی گنج میں 50 ہزار ووٹوں سے ہار گیا۔
بابل 2014ء میں رکن پارلیمان منتخب ہوا تھا۔ اس وقت سے وہ لگاتار وزیر بنا ہوا ہے۔ پچھلا پارلیمانی انتخاب اس نے ایک لاکھ 97 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتا تھا۔ یہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کا غیر اعلانیہ امیدوار تھا، اس لیے اپنی کراری ہار سے تڑپ اٹھا۔ ایک ایسے موقع پر جب وزیر اعظم، وزیر دفاع اور وزیر خزانہ نے ممتا بنرجی کو مبارکباد دے کر اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے تو اس تنگ دل مرکزی وزیر نے اپنے فیس بک پر لکھا: ’’نہ تو میں ممتا بنرجی کو مبارکباد دوں گا اور نہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں عوام کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں۔ سنجیدگی سے سوچتا ہوں کہ بنگال کی عوام نے بی جے پی کو موقع نہیں دے کر اور ایک بدعنوان، نااہل، بے ایمان حکومت اور ظالم عورت کو دوبارہ اقتدار میں لا کر تاریخی غلطی کی ہے۔ جی ہاں قانون کی تابعداری کرنے والے شہری کی حیثیت میں جمہوریت میں عوام کے فیصلے کو (با دلِ ناخواستہ) مانتا ہوں۔ بس یہی، نہ کم نہ زیادہ‘‘ یہ دراصل وزارت اعلیٰ کی کرسی کے نہ ملنے کا درد ہے جو چھلک گیا۔ ویسے ممتا کی نندی گرام میں شکست اور بنگال پر فتح کو دیکھ کراستاد شاعر شور نیازی کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
یہ حادثات بھی کتنے عجیب آئے ہیں
سفینے ڈوبے تو ساحل قریب آئے ہیں
کورونا کی سونامی کے دوران وطن عزیز میں چار صوبوں اور ایک یونین ٹیریٹری میں منعقد ہونے والے الیکشن میں بی جے پی نے اپنی ساری توجہات کا مرکز مغربی بنگال کو کیوں بنایا اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مغربی بنگال کے علاوہ جہاں انتخاب ہوئے ان میں سے ایک آسام ہے۔ وہاں پر بی جے پی پہلے سے برسرِ اقتدار تھی اس لیے دوبارہ جیت کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ ویسے وہاں بھی بی جے پی ترنمول، ڈی ایم کے یا کیرالا کے دائیں محاذ کی مانند غیر معمولی کامیابی درج نہیں کراسکی۔ اس کی ایک سیٹ کم ہوئی۔ اس کے برعکس کانگریس نے چار اور یو ڈی ایف نے تین سیٹوں کا اضافہ کیا ہے۔ آسام میں کانگریس اور یو ڈی ایف کے ساتھ آ جانے سے این ڈی اے کی شکست کا امکان بھی تھا اس لیے مودی اور شاہ نے بہت زیادہ دلچسپی نہیں لی۔
تمل ناڈو میں بی جے پی فی الحال انا ڈی ایم کے کے کندھوں پر زبردستی سوار ہے۔ یہ سواری اس نے وزیر اعلیٰ پلنی سوامی کو مرکزی حکومت کا گاجر اور ہنٹر دکھا کر حاصل کی تھی۔ بی جے پی کے بوجھ سے اے آئی ڈیم کے کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ اب چونکہ سواری ہی ڈوب چکی ہے تو سوار ازخود غرق ہو گیا ہے۔ بی جے پی کو اس انجام کا اندازہ ہو چکا تھا اس لیے تمل ناڈو کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ تمل ناڈو کے بغل میں ایک ننھا سا یونین ٹیریٹری پڈو چیری ہے۔ بی جے پی نے وہاں کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ رنگا سوامی کو این ڈی اے میں شامل کیا اور اس کی مدد سے 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے جونیر پارٹنر بن گئی ۔ ویسے 22 لاکھ کی آبادی والے یونین ٹیرٹری میں انتخاب جیتنا یا ہارنا کسی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ اس لیے اس پر بھی دھیان نہیں دیا گیا۔
کیرالا میں اس بار بی جے پی عجب خمار میں مبتلا تھی۔ پچھلی بار ایک نشست پر کامیاب ہونے والی بی جے پی مونگیری لال کا حسین سپنا آنکھوں میں سجا بیٹھی تھی۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی خاطر میٹرو مین کو پارٹی میں شامل کرنے کے اگلے دن وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنایا اور ایک دن بعد اپنی غلطی کا احساس کر کے پہلے اسٹیشن سے قبل میٹرو ریل کو پٹری سے اتار دیا۔ بی جے پی کے نائب صدر نے اقتدار کے سفر سپنا کو اس طرح بیان کیا کہ 10 نشستوں پر کنول کھلنے کے سبب معلق اسمبلی بنے گی۔ مرکزی حکومت اسے تحلیل کر کے دوبارہ انتخاب کروائے گی اور پھر صوبےکے رائے دہندگان بی جے پی کامل اکثریت سے نواز دیں گے۔ ایسا حسین سپنا تو مونگیری لال نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ انتخابی نتائج کے بعد پتہ چلا کہ کنول ایک سے دس پر جانے کے بجائے پھر سے صفر پر آ گیا۔ ویسے دس کے ہندسے میں ایک کے ساتھ صفر ہوتا ہے اس لیے مودی اور شاہ نے کیرالا پر داو لگانے کا خطرہ مول نہیں لیا۔
بی جے پی کے پاس اب لے دے کر مغربی بنگال بچ گیا تھا جہاں اس نے اپنے سارے پینترے استعمال کر لیے اور پوری طاقت جھونک دی لیکن ڈھاک کے تینوں پات مودی، شاہ اور یوگی چاروں خانے چت ہوگئے۔ مودی جی کی پہلی مدت کار میں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کا بی جے پی کے ہاتھ سے نکل جانا خطرے کی گھنٹی تھا۔ اسی طرح گجرات کے اندر بھی پچھلے الیکشن میں بی جے پی کے نشستوں میں کمی واقع ہوئی تھی۔ کرناٹک بھی نتائج کے فوراً بعد ہاتھ سے نکل گیا تھا لیکن اسی کے ساتھ مہاراشٹر، ہریانہ اور جھارکھنڈ کے علاوہ آسام کا ہاتھ لگ جانا ایک لاٹری سے کم نہیں تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہاں کے دونوں بڑے رہنما سربانند اور بسوا سرما سنگھ کی شاکھا کے بجائے بالترتیب اے جے پی و کانگریس سے ٹوٹ کر آئے تھے۔ 2019ء میں جب بی جے پی کو مغربی بنگال میں 40 فیصد ووٹ اور 18 نشستوں پر کامیابی مل گئی تو اس نے محسوس کیا کہ مغرب کے نقصان کی بھرپائی مشرق سے ہو سکتی ہے۔ اس طرح مغربی بنگال بی جے پی کی توجہات کا مرکز بن گیا ۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر کورونا کی زبردست وبا کے دوران ہر محاذ پر ناکام ہونے والی مرکزی حکومت نے انتخاب کیوں کروایا جبکہ لوگ آکسیجن کے لیے گھٹ گھٹ کر مر رہے تھے؟ شمشان گھاٹ سے باہر لاشوں کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں۔ آخر یہ خطرہ مول لینے کی ضرورت کیا تھی؟ ان کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں انتخابی عمل نہ صرف اقتدار تک پہنچنے کا وسیلہ بنتا ہے بلکہ اس سے اہل اقتدار کے سارے پاپ دھل جاتے ہیں بلکہ پنیہ میں بدل جاتے ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد یہ ہو چکا ہے۔ اس حماقت کی ناکامی کا یہ عالم تھا کہ وزیر اعظم نے خود ہاتھ پھیلا کر وقت مانگا تھا کہ میری نیت درست ہے اگر میں ناکام ہو گیا تو 90 دن بعد مجھے جس چوراہے پر چاہو پھانسی لگا دینا یا میں جھولا اٹھا کر چلا جاوں گا۔
اس کے بعد اتر پردیش کے ریاستی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس کو دیگر جذباتی مسائل اچھال کر جیتنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا کہ ملک کے عوام وزیر اعظم اور ان کی نوٹ بندی سے خوش ہیں۔ مغربی بنگال میں اگر بی جے پی جیت جاتی اور امیت شاہ کے مطابق دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوجاتی تو یہی دعویٰ دوہرایا جاتا کہ عوام مرکزی حکومت کے کورونا سے متعلق کیے جانے والے اقدامات سے خوش ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دیدی نے کورونا کے محاذ پر اپنے دیور کی ناکامی کو طشت ازبام کر کے یہ پیغام دیا کہ اپنے تمام تر وسائل اور پینترے بازی کے باوجود دھرم ویر کی یہ جوڑی ناقابلِ تسخیر نہیں ہے۔ اس کو نہ صرف ناک آوٹ کیا جا سکتا ہے بلکہ دنگل سے اٹھا کر باہر بھی پھینکا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے گزشتہ سال درگا پوجا کے تہوار سے ہی بنگالی طرز کی دھوتی باندھ کر انتخابی بگل بجا دیا تھا مگر ممتا بنرجی نے درگا کا روپ دھار کر اپنے دشمن کو پھاڑ کھایا اور اب کنول والے اپنے زخموں
کو سہلا رہے ہیں۔
***

کانگریس اور دائیں بازو کے سارے امیدوار ہار گئے مگر اس الحاق میں شامل نوزائیدہ عباس صدیقی کی آئی ایس ایف نے اپنا کھاتہ کھول لیا۔ اس طرح مسلمانوں کو بے وزن کرنے والے خود روئی کے گالوں کی مانند ہوا میں اڑ گئے۔ بی جے پی کو پھر ایک بار احساس ہو گیا کہ اگر کوئی ان کے رتھ کا پہیہ اکھاڑ سکتا ہے تو وہ عام مسلمان ہی ہیں جن کو نہ ڈرا یا جاسکتا ہے اور نہ خریدنا ممکن ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021